پی ٹی آئی امریکا اور چین

مغرب اور خاص طور پر برطانیہ کے طاقت ور حلقوں سے بھی اس جماعت کو حمایت میسر ہے


[email protected]

جمہوریت کیا ہے؟ اس کا ایک عام فہم مفہوم یہ ہے کہ عوام کی رائے اور ان کا فیصلہ۔ محمود خان اچکزئی کے ذہن میں بھی شاید یہی بات رہی ہوگی جس کی وجہ سے انھوں نے کہا کہ عوام نے فیصلہ کر دیا۔ اب اس کے سامنے سر جھکا دیا جائے۔ قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے اور ملک میں ایک نئے دور کا آغاز کر دیا جائے۔

معمول کے حالات میں تو یہی ہونا چاہئے۔ اس سے بہتر کوئی اور بات نہیں ہے لیکن بعض اوقات جمہوری فیصلوں کا رخ کچھ اور بھی ہوتا ہے۔ یہ رخ کیا ہوتا ہے اور ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے، اس سوال پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سطور میں یہی سوال پیش نظر رہے گا لیکن اس سے پہلے پی ٹی آئی کی داخلی صورت حال کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ مکمل باخبری کے ساتھ ہم ایک صورت حال کا تجزیہ کر سکیں۔

آج ( پیر، 4 مارچ 2024 )سے کس قسم کے دور کا آغاز ہونے جا رہا ہے؟ اس کا ایک اندازہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے تقرر، ان کی شخصیت اور ان کی افتاد طبع کو جان کر ہوتا ہے۔ دوسرا اندازہ پی ٹی آئی کے نامزد چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کے ایک بیان سے ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت عوام بہتری اور خوش حالی کے لیے وفاقی حکومت کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کرے گی بلکہ جہاں ضرورت ہو گی تعاون بھی کیا جائے گا۔ یہ ایک خوش آئند بیان ہے اور اگر یہ واقعتا پی ٹی آئی کی پالیسی بن جائے تو اس سے زیادہ خوش گوار بات کوئی اور نہیں ہو سکتی ہے۔

سیاسی جماعتوں اور ان کے وابستگان میں پائی جانے والی حالیہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے یہ پالیسی مناسب ہو سکتی ہے۔ پی ٹی آئی اگر اس پالیسی پر کار بند رہتی ہے تو پھر حکومت اور اس کے مخالفین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی حریف جماعت کی اس پالیسی کی حمایت کریں تاکہ مفاہمت کے حامی مضبوط ہو سکی اور تصادم پر تلے ہوئے عناصر بے اثر ہو جائیں۔

بیرسٹر گوہر معتدل مزاج رکھنے والے ایک سمجھ دار سیاسی کارکن ہیں۔ ان کے ہاتھ کھلے ہوں تو توقع کی جا سکتی ہے کہ فریق مخالف کے تعاون کی صورت میں سیاسی درجہ حرارت نیچے آ سکتا ہے لیکن دوسری صورت میں معاملات مزید پیچیدہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔

اس پیچیدگی کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اس کا اندازہ بیرسٹر گوہر کے اس بیان میں پوشیدہ ایک صورت حال سے کیا جا سکتا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم اس صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی افتاد طبع کیا ہے، عمومی اخلاقی روّیوں، قانون کے احترام، انسانی حقوق کے احترام اور سیاسی دانش کے تعلق سے وہ کہاں کھڑے ہیں، یہ کوئی راز نہیں۔ وہ حکومت سنبھال چکے ہیں۔ صوبے کے حکمران کی حیثیت سے انھوں نے کس قسم کا طرز عمل اختیار کرنا ہے، وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے اپنی پہلی تقریر میں وہ اس کا اظہار کر چکے ہیں۔

ایک عمومی رائے یہ ہے کہ ان کی تقریر کا غالب حصہ محاذ آرائی کی طرف لے جاتا ہے۔ اپنی تقریر کے آخر میں صوبے کے مسائل کا تذکرہ انھوں نے محض برائے بیت کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیرسٹر گوہر جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ ایک اچھی خواہش ہے۔ عملًا یہ تب واضح ہوگا جب خود خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے بھی ایسی بات کھلے عام کہی جائے یا ان کی طرف سے عملی طور پر اس کا مظاہرہ ہو جائے۔

اب آئیے اس سوال کی طرف جس کے ذریعے ہم جمہوریت کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ یہ درست ہے کہ جمہوریت کا مطلب یہی ہے کہ عوام کی خواہش کے سامنے سر جھکا دیا جائے لیکن اس کی کچھ شرائط بھی ہیں۔ ان شرائط کا تعلق بہ یک وقت جمہوریت اور قومی مقاصد کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ چوں کہ پاکستان کا ہے ، اس لیے سمجھنا بھی پاکستان کی مثال سے ہی چاہئے۔

پاکستان کے آئین کی بنیاد چند چیزوں سے اٹھتی ہے یعنی اس کا نام کہ یہ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلائے گی۔ اس کا ایک متعین جغرافیہ ہو گا یعنی یہ چار صوبوں اور کشمیر پر مشتمل ایک وفاق ہو گا۔ اگلی چیز کا تعلق اس کے نظرئیے کے ساتھ ہے یعنی یہ ملک اللہ کی حاکمیت پر یقین رکھتا ہے اور عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے لوگ صرف قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کے ذریعے اس ملک کا نظام چلائیں گے۔ آئین کی چوتھی بنیاد اس کا پارلیمانی نظام ہے۔

آئین کی ان چار بنیادوں کبھی ترمیم نہیں کی جا سکتی یعنی یہ ریاست کے مقاصد ہیں جن کی حیثیت پتھر پر لکیر کی سی ہے۔ ان میں تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نہ کوئی کر سکتا ہے لیکن اگر عوام کی رائے سے منتخب ہونے والا ان بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کرے تو کیااسے اس کام کی اجازت دی جا سکے گی؟ کیا ایسی صورت حال میں جمہوریت کا وہ سادہ اصول کہ عوام کی رائے کے سامنے سر جھکا دیا جائے، مؤثرہے گا؟ انسانی فطرت اور سیاسی دانش یہ کہتی ہے کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

ہم نظام حکومت کو سمجھنے کے لیے بھارت سے مثالیں اکثر پیش کیا کرتے ہیں۔ ڈیڑھ دو دہائی پیشتر یہ واقعہ بھارت میں ہی ہوا تھا کہ سونیا گاندھی کی زیر قیادت کانگریس عام انتخابات جیت چکی تھی اور یہ واضح تھا کہ سونیا گاندھی وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہو جائیں گی۔

ایسا ہو جاتا تو 1947 کے بعد بھارت میں یہ پہلی بار ہوتا کہ کوئی ایسا شخص بھارت کے سیاہ و سفید کا مالک بن جاتا جو خالص بھارتی نہیں بلکہ اطالوی ہے۔ اس میں ہرج کی کوئی بات نہ ہوتی لیکن علامتی طور پر اس کی اہمیت کافی تھی لہٰذا اس وقت ریاست یا یوں کہہ لیجئے کہ ڈیپ اسٹیٹ حرکت میں آئی اور اس نے سونیا گاندھی کو سمجھایا کہ اگر وہ اپنے بچوں کا سیاسی مستقبل محفوظ رکھنا چاہتی ہیں تو براہ کرم پیچھے ہٹ جائیں۔ اس طرح ڈاکٹر من موہن سنگھ کو بھارت کا وزیراعظم بنا دیا گیا یعنی سونیا گاندھی نے قومی مقاصد کے سامنے سر جھکا دیا۔

پاکستان بھی اس وقت کم و بیش اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہے۔ ویسے تو اس امر کے شواہد موجود ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کے پس پشت غیر ملکی ہاتھ موجود ہے لیکن کشیدگی سے بچنے کے لیے اس پر زور نہیں دیتے اور صرف چند مظاہر سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حالیہ صورت حال قومی مقاصد کے کس طرح سے متوازی ہے۔

ان معاملات کو سمجھنے کے ایک ہی لٹمس ٹیسٹ ہے جس کا تعلق امریکا اور چین یعنی اکنامک کاریڈور سے ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنا سیاسی چہرہ اس طرح کا بنایا ہے جیسے یہ ایک امریکا مخالف جماعت ہو لیکن اس نے ہمیشہ جو صورت حال پیدا کی وہ امریکا کے مفاد میں گئی۔ اس جماعت کی ابتدائی سرگرمی ڈرون حملوں کے خلاف تھی جس کے خلاف اس جماعت نے جلوس وغیرہ نکالے اور ایک تاثر قائم کر دیا لیکن جب اکنامک کاریڈور کو عملی شکل دینے کے لیے چین کے صدر پاکستان آنے لگے تو اس جماعت نے ایک صورت حال پیدا کردی جس میں چین کے صدر کا پاکستان آنا ناممکن ہو گیا۔

اسی طرح سے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بانی پی ٹی آئی نے سائفر لہرا کر کہا کہ امریکا ان کی حکومت گرانا چاہتا ہے لیکن جب یہ حکومت گر گئی تو پی ٹی آئی نے امریکا میں لابنگ شروع کر دی تاکہ اسے امریکی حمایت میسر آ سکے۔ یہ لا بنگ کچھ ایسی غیر موثر بھی نہیں رہی۔ امریکی ارکان پارلیمنٹ پی ٹی آئی کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مغرب اور خاص طور پر برطانیہ کے طاقت ور حلقوں سے بھی اس جماعت کو حمایت میسر ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغرب اور خاص طور پر امریکا نے اگر پی ٹی آئی کی حکومت گرائی تھی تو آج وہاں سے اسے حمایت کیوں مل رہی ہے؟ اس کا ایک ہی مطلب ہے یعنی چین اور اکنامک کاریڈور کی مخالفت۔ اکنامک کاریڈور ہمارے لیے اس لیے اہم ہے کہ ہماری معیشت کا استحکام اس سے جڑا ہوا ہے جب کہ پی ٹی آئی کی پالیسی اس کے برعکس ہے۔

پی ٹی آئی کی طرف سے کیا جانے والا پروپیگنڈا آج بھی لوگوں کے ذہن میں تازہ ہے جس میں کہا جاتا تھا کہ چین کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں پاکستان میں جگہ دی جا رہی ہے اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے پھر یہی ہوا۔ ہی ٹی آئی نے اپنی حکومت بناتے ہی اکنامک کاریڈور پر کام روک دیا اور چین کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات اس منصوبے کی مخالف غیر ملکی طاقتوں کے حوالے کر دیں۔



سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں قومی مقاصد اور پروپیگنڈے کے جبر کا شکار عوام کی رائے میں سے کیا اہم ہوتا ہے؟ آنے والے چند دنوں میں یہ واضح ہوتا جائے گا۔



تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں