موسمیاتی تبدیلیاں اور اس کے اثرات

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات چہار سو پھیلتے اور کئی شعبوں کو متاثر کرتے ہیں

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات چہار سو پھیلتے اور کئی شعبوں کو متاثر کرتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ملک کے بیشتر علاقوں میں شدید بارشیں اور پہاڑوں پر برفباری کا سلسلہ جاری ہے، خیبرپختون خوا میں بارشوں اور برف باری سے صوبے کے مختلف علاقوں میں 14 بچوں سمیت 23 افراد جاں بحق اور 34 زخمی ہوئے، جب کہ محکمہ موسمیات نے خیبر پختون خوا، کشمیر، مری، گلیات ، اسلام آباد اور راولپنڈی کے برساتی مقامی ندی نالوں میں طغیانی کا خدشہ ظاہرکیا ہے،این ڈی ایم نے تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ جاری کردیا ہے۔

ملک میں ہر سال بارشیں نقصان کا باعث بنتی ہیں لیکن انفرا اسٹرکچر تبدیل کرنے کے دعوؤں کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ رواں برس بھی غیر معمولی بارشوں کا سامنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آنے والی دہائی میں اس سے ملتی جلتی آفات کا خطرہ دگنا سے زیادہ ہو سکتا ہے جب کہ اس کے نتیجے میں معاشرتی و معاشی نقصانات ناقابل تصور حد تک بڑھ سکتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات چہار سو پھیلتے اور کئی شعبوں کو متاثر کرتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرتی و معاشی نقصانات ریاستی وسائل و سلامتی پر اضافی بوجھ ڈالنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اب محض جغرافیائی سیاسی دشمنیاں ہی ریاست کو درپیش خطرہ نہیں رہی ہیں بلکہ یہ ریاست کو درپیش خطرات کے سلسلے کی محض ایک کڑی رہ گئی ہے۔

درحقیقت موسمیاتی تبدیلیوں نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کے اثرات اب نظر آرہے ہیں۔ پاکستان میں شدید بارشوں اور برفباری کا سلسلہ جاری ہے، یہ بارشیں معمول سے ہٹ کر ہیں ایک بار پھر بارشوں نے انفرا اسٹرکچر اور معیشت کو نقصان پہنچایا ہے۔

کسی بھی شدید نوعیت کی موسمیاتی آفات سے ہونے والے نقصانات زندہ بچ جانے والوں کی نفسیات پر گہرے اثرات ڈالتے ہیں۔ گھروں کی تباہی، اپنے ملک کے اندر ہی ہجرت اور خیموں کے عارضی و ناقص ٹھکانے لوگوں میں بے بسی،مایوسی اور بیچارگی کے احساسات پیدا کرتے ہیں۔

ایسے اثرات واحساسات معاشرتی و سیاسی شعبوں کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں اور قومی یکجہتی کے احساس کو بے وقعت کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے سبب غربت اور بیروزگاری کی شرح بھی بلند ہوتی ہے کیونکہ زیادہ بڑے پیمانے پر لوگ اپنی کفالت کرنے والے افراد سے محروم ہو جاتے ہیں یا موسمی حالات کی وجہ سے پناہ گزین بن جاتے ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ اور انسانی اسمگلنگ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں زرعی ترقی کا عمل متاثر ہورہا ہے کیونکہ کاشتکار طبقہ قدرتی آفات سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ فصلوں کی کاشت و برداشت دونوں کا موسم کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، بے موسمی بارشوں اور سیلاب زرعی طبقات کو بری طرح متاثر رہے ہیں۔ فصلوں کی پیداوار میں ہر سال کمی ہورہی ہے۔ اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ زمین سیم و تھورکا شکار ہو رہی ہے اور زمین کا کٹاؤ بڑھ رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کاشت کے اوقات اور نشوونما کے مراحل کے حساب سے مختلف فصلوں پر مختلف ہوتے ہیں۔ درجہ حرارت تھوڑے عرصے کے لیے بڑھتا ہے تو اس سے گندم کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

مثلاً اگر زیادہ لمبے عرصے کے لیے درجہ حرارت بڑھ جائے تو اس کے اثرات گندم کی پیداوار پر مثبت ہوتے ہیں لیکن بارشوں میں تھوڑے یا لمبے عرصے کے لیے اضافہ دونوں صورتوں میں ہی گندم کی فصل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

آنے والے سالوں میں آبادی کی ضرورت کے مطابق غذائی اجناس کی پیداوار میں اضافہ ایک بڑا چیلنج ہے،کیونکہ مختلف فصلوں کے وقت اور طریقہ کاشت کے علاوہ آبپاشی کے متعلق سفارشات بدل چکی ہیں۔

یہ بات مصدقہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی کے دورانیے میں اضافہ ہو رہا ہے، آبی ذخائرکی کمی واقع ہو رہی ہے، بارشی نظام تبدیل ہو رہا ہے، میتھین گیس میں اضافہ ہو رہا ہے، ضرررساں کیڑوں اور بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے، بڑی فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے۔ ٹریفک اور صنعتی آلودگی کی وجہ سے اوزون تہہ پتلی ہو رہی ہے۔ سورج کی انفراریڈ (گرم) شعاعیں زیادہ زمین پر آنے لگی ہیں اس لیے شدید گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں شدید سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1975 سے لے کر سال 2000 تک کسی بھی ایک ہفتے کا اوسط درجہ حرارت 45 سینٹی گریڈ سے نہیں بڑھا لیکن سال 2016 کے دوران مئی اور جون میں درجہ حرارت 47 سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ گیا ہے۔


موسمی تبدیلیوں میں شدت کے باعث نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمی سطح پر مختلف فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی زرعی پیداوار میں کمی ہوئی ہے۔ زرعی اجناس بالخصوص دالوں، سبزیوں اور خشک میوہ جات کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ مستقبل میں زرعی سائنسدانوں کو بدلتے موسمی حالات کو پیش نظر رکھ کر جامع حکمت عملی کے تحت تمام تر تحقیقی سرگرمیوں کو تیز کرنا از حد ضروری ہے۔

موسمی تغیرات کا مقابلہ کرنے کے لیے اجتماعی قومی معاملات کو از سر نو ترتیب دینے اور اجتماعی قومی سوچ میں تبدیلی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ضلع کی سطح پر زرعی سفارشات مرتب کرنے کے لیے اور چھوٹے کاشتکاروں کی دہلیز تک پہنچانے کے لیے قومی جذبے کے ساتھ منظم تحقیقی اور اشاعتی کوششوں کی ضرورت ہے۔

جنگلات کسی بھی علاقے کی آب و ہوا کو خوشگوار بناتے ہیں اور درجہ حرارت کی شدت کو کم کردیتے ہیں۔ جنگلات کافی حد تک بارش برسانے کا باعث بھی بنتے ہیں کیونکہ ہوا میں آبی بخارات میں اضافہ ہوجاتا ہے جو بارش برسانے کا باعث بنتے ہیں۔ درختوں کی جڑیں مٹی کو آپس میں جکڑے رکھتی ہیں جس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ پانی کے بہاؤ سے مٹی کی زرخیز تہ بہہ نہیں سکتی جس سے زمین کی زرخیزی قائم رہتی ہے۔

جنگلات کے نہ ہونے سے دریا اپنے ساتھ ریت اور مٹی کی بڑی مقدار بہا لے جاتے ہیں جس سے ہمارے ڈیم اور مصنوعی جھیلیں بھرجاتی ہیں اور زراعت و صنعت کے لیے کم پانی ذخیرہ ہوتا ہے۔ درخت سیم و تھور زدہ علاقوں میں بہت کارآمد ہیں، کیونکہ یہ فالتو پانی جذب کر لیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا کو سیلاب اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں بارشیں زیادہ ہوں گی،گلیشیئرپگھلنے کی وجہ سے دریاؤں میں سیلاب آئے گا اورخطے خشک سالی کا شکار ہوں گے۔ پاکستان میں بارشیں اور سیلاب جب کہ افریقا اور لا طینی امریکا کے بعض خطے خشک سالی کا شکار ہیں۔

درجہ حرارت میں تیز رفتار تبدیلی بتا رہی ہے کہ اب سے آٹھ برس بعد دنیا کے کئی خطوں میں زندگی ناقابل برداشت ہوجائے گی۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔

یہ جاننے کی ضرورت بھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہے کیا اور ہمارے ماحول پر یہ کیسے اثر انداز ہو رہی ہے؟ انسانی سرگرمیوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے جو درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔ موسم میں شدت اور قطبی برف کا پگھلنا اس کے ممکنہ اثرات میں شامل ہیں۔

جنگلات کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنگلی حیاتیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے ، بہت سے جانوروں کی تعداد میں کمی ہو رہی ہے۔ جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے کیونکہ درخت زمین پرکیل کی مانند ہیں۔ پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے جس کا صرف چار فیصد جنگلات پر مشتمل ہے۔ اوزون لیئر فضائی آلودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے، جوکہ زمین پر انسانی زندگی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

گوادر کو حالیہ طوفانی بارشوں کے بعد تشویشناک صورتحال کے باعث حکومت نے آفت زدہ قرار دیا ہے۔ 15سال کے بعد گوادر میں اتنی شدید بارشیں ہوئی ہیں، پی ڈی ایم کی حکومت میں پلاننگ کمیشن نے بھی اس پر بہت کم توجہ دی جس کے سبب نکاسی آب کا مناسب بندوبست نہیں تھا، اگرچہ قدرتی آفت سے بچنا مشکل ہوتا ہے لیکن اس کے نقصانات کوکم کرنے کے لیے پیشگی اقدامات ضروری ہیں۔

گوادر دنیا کے سب سے بڑے بحری تجارتی راستے پر واقع اور دنیا کی جدید ترین بندرگاہ کے باعث عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔ 60 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی والا شہرِگوادر اکیسویں صدی کی ضرورتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ ہے اور اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔

آنے والے وقت میں گوادر نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسطیٰ ایشیا کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ دارو مدار اسی بندر گاہ پر ہوگا، لہٰذا نومنتخب صوبائی حکومت اور شہری انتظامیہ کو مل کر گودارکو بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے باہر نکالنا ہوگا، اور آیندہ ایسے انفرا اسٹرکچرکی تعمیر کے لیے فنڈز مہیا کرنے ہوں گے، جس سے یہ صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو۔

موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے سب اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،کیونکہ ہمیں آنے والی نسلوں کو موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچانا ہے۔
Load Next Story