انتھنی نوید پاکستانی سیاست میں نئی اُمید
ایک سیاسی کارکن کی نچلی سطح سے ڈپٹی اسپیکر بننے تک کی کہانی
علم اور قلم کے رشتے نے میری تلاش کی جستجو کو کئی رنگ دیے ہیں، جہاں میں اپنے قارئین کے لیے حقیقی اور متاثر کن کہانیوں کو ڈھونڈ کرلاتا ہوں، وہاں مجھے خود سیاست اور صحافت کے رشتے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اپنے کھوجنے اور چیزوں کو نئی نظر سے دیکھنے کے ذوق کو بھی ازسرنو جاننے کا موقع ملتا ہے۔
میں اپنا پہلا ماسٹرز صحافت میں کرنا چاہتا تھا، لیکن سیاسیات میں ایم اے کیا، نہ عملی صحافت کی اور نہ عملی سیاست میں قدم رکھا، لیکن مجھے سیاست اور صحافت کے لوگ ہمیشہ متاثر کرتے رہے ہیں۔ خیر آج کے اس مضمون میں ایک ایسی سیاسی شخصیت کے زندگی کے سفر بالخصوص سیاسی جدوجہد اور کیریر بھی نظر ڈالیں گے، جس نے اپنی عملی سیاست کا آغاز یونین کونسل کے نائب ناظم کی حیثیت سے کیا اور آج پاکستان کی تاریخ میں مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے پہلے ڈپٹی اسپیکر ہیں۔
حالیہ الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے سابق ممبر صوبائی اسمبلی انتھنی نوید نے گذشتہ اتوار کو سند ھ اسمبلی میں بطور ڈپٹی اسپیکر حلف اُٹھایا تو ملکی سیاست بالخصوص مذہبی اقلیتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ خبر پاکستان میں ایسے وقت پر آئی جب ہر طرف سیاسی افراتفری اور مذہبی اقلیتوں میں بے چینی کی کیفیت ہے۔ انتھنی نوید کا یہ سیاسی سفر آسان نہیں تھا۔ اُنہیں اس مقام تک پہنچے کے لیے بے شمار مسائل، سماجی رویوں اور کٹھن حالات کاسامنا کرنا پڑا لیکن اُنہوں نے حالات کا جواں ہمتی سے مقابلہ کیا اور آج اس مقام تک پہنچے ہیں۔
5اکتوبر1971 کو کراچی کے علاقے اختر کالونی میں رحمت مسیح اور شیدا بی بی کے ہاں ایک کاتھولک مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والے انتھنی نوید سیلف میڈ انسان ہیں۔ اُن کے والد ایک نفیس انسان ہیں جنہوں نے ساری زندگی بڑی ایمان داری سے محنت مزدوری کی ہے۔ اُنہوں نے انتھنی نوید، ان کی دو بہنوں اور ایک بھائی کو گھر سے ہی لوگوں سے برتاؤ اور میل جول کی تربیت دی تھی۔
انتھنی نوید نے میٹرک، سینٹ پیٹرک اسکول ، سے کرنے کے بعد، سوئیڈش کالج سے گارمنٹس ٹیکنالوجی انجینئرنگ میں ڈپلوما کیا۔ وہ چرچ کی سماجی سرگرمیوں میں شروع سے ہی مشغول رہے اور کمیونٹی کی سطح پر کافی سرگرم رہے ہیں۔
وہ کراچی کرسچن اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ 2002 میں ٹورنٹو، کینیڈا میں منعقد، ورلڈ یوتھ ڈے میں کیتھولک یوتھ کمیشن آف پاکستان، کراچی کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔ وہ اپنی کمیونٹی کے نوجوانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر تعلیم وتربیت کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں۔ وہ مڈل کلاس نوجوانوں کی طرح تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ 28دسمبر1997 کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ خُدا نے اُنہیں دو بیٹے اور بیٹاں عطا کی ہیں۔
انتھنی نوید کے سیاسی کیریئر کا آغاز 2005 میں بلدیاتی انتخابات سے ہوا، جہاں پاکستان پیپلزپارٹی نے اختر کالونی کی یونین کونسل پر نائب ناظم کے لیے اُنہیں ٹکٹ دیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے راہ نما سعید غنی کے مطابق کہ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی کا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد ہوا تھا۔ اس اتحاد کے تحت، اختر کالونی میں ناظم جماعت اسلامی جب کہ نائب ناظم پیپلزپارٹی کا ہونا تھا۔ مسیحی کیمونٹی سے اُمیدوار لانے پر جماعت اسلامی نے خوش دلی کا اظہار نہیں کیا لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ پارٹی کا فیصلہ ہے۔ اس الیکشن میں انتھنی نوید کام یابی سے ہم کنار ہوئے۔
ان بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کراچی کے میئر منتخب ہوئے تھے جب کہ شہری حکومت میں سعید غنی اپوزیشن لیڈر تھے۔ انتھنی نوید 2016 میں وزیراعلیٰ سندھ کے اسپیشل اسسٹنٹ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے سینیٹرشپ کے لیے جدوجہد جاری رکھی، جس کے لیے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے انھیں سندھ میں سرگرم رہنے کی ہدایت کی اور 2018 میں انہیں سندھ اسمبلی کا رکن نام زد کر دیا گیا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ انتھنی نوید کی بطور ڈپٹی سپیکر نام زدگی پر کسی بھی پارٹی کی جانب سے مخالفت نہیں کی گئی بلکہ بقول ان کے تمام جماعتوں کے ارکان نے انہیں بڑی خوش دلی کے ساتھ مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس مضمون کی تیاری کے لیے میں سندھ اسمبلی میں ان کے چیمبر میں گیا جہاں نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے دیگر شہروں سے بے شمار لوگ انہیں مبارک باد دینے، اور اپنی خوشی کا اظہار کرنے آئے تھے۔
انتھنی نوید کی کام یابی نہ صرف ان کی اپنی کام یابی ہے، بلکہ یہ پیپلزپارٹی کی کام یابی ہے، یہ ملک میں باہمی رواداری، معاشرتی ہم آہنگی اور سیاست میں وسعت اور قبولیت کو فروغ دینے کی بہترین مثال ہے۔ اُمید کی جارہی ہے کہ اُن کی اس آئینی عہدے پر موجودگی سے اقلیتوں میں پایا جانے والا غیریقینی کا احساس کسی حد تک کم ہوگا۔ دوسری طرف یہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے بھی ایک خوش آئند امر ہے کہ اگر وہ عملی سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو ان کے لیے آگے بڑھنے اور اور مین اسٹریم کی سیاست میں کام یابی کے دروازے کھلے ہیں۔
انتھنی نوید نے اپنی کامیابی پر جہاں خُدا کا شکر ادا کیا وہیں انہوں نے چیئرمین بلاول بھٹو اور صدرآصف علی زرداری کا بھی شکریہ ادا کیا جن کے اعتماد اور اور حوصلہ افزائی نے انہیں تقویت دی۔ انتھنی نوید نے کہا کہ اُن کی کام یابی پوری قوم کی کام یابی ہے، اس کام یابی کے لیے انہوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور بھرپور محنت کی ہے۔
وہ اپنے والدین کی دُعاؤں محنت، شریک حیات کے تعاون، مستقل مزاجی اور سیاسی تعلیم و تربیت کو کام یابی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم اور عملی زندگی کا تجربہ انسان کو ہمیشہ کام یابی کی منزل سے ہم کنار کرتا ہے۔ انتھنی نوید پرُعزم ہیں کہ وہ اپنی اس آئینی عہدے کو اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے احسن طریقے سے سرانجام دے پائیں گے۔ اور ملک کی سیاست اور تاریخ میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ معاشرے میں مفاہمت، مکالمے اور مثبت سوچ کے رجحان کو پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان، نوجوانوں کا ملک ہے اور بطور قوم اس وقت ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اس لیے ہم سب کو سیاسی اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر بحیثیت قوم، ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے سوچنا اور مل کر کام کرنا پڑے گا۔ اُنہوں نے کہ وہ اپنی زندگی میں یسوع مسیحؑ کی سماجی انصاف پر مبنی تعلیم کو اپنی عملی زندگی میں اولین ترجیح دیتے ہیں اور نوجوانوں کو بھی تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنے کردار سے معاشرے میں نور بن کر روشنی کو عام کریں۔
مجھے خوشی ہے کہ میں نے انتھنی نوید کی کام یابی کے سفر کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ انہوں نے اپنی جدوجہد اور مسلسل سیاسی عملی سرگرمیوں سے اپنی کیمونٹی اور جماعت میں مقام بنایا ہے۔ وہ پاکستانی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسیحی کمیونٹی کے نوجوانوں کے لیے ایک روشن مثال ہیں جو معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی، اپنے خاندان، کمیونٹی اور ملک کی ترقی میں اپنے آباؤ اجداد کی طرح اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔ شاید بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ انتھنی نوید اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں کئی مرتبہ ملک سے باہر جا چکے ہیں۔
ایک دفعہ وہ یورپ کے ایک ملک میں تھے۔ جہاں ان کے عزیز و اقارب اور ساتھیوں نے بھر پور کوشش کی کہ وہ یہاں یورپ میں سیٹل ہوجائیں اور پاکستان کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیں، کیوںکہ ان کے لیے پاکستان میں عملی سیاست میں کوئی خاص مستقبل نہیں ہے، لیکن نوید نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد اس بات کا مصمم ارادہ کیا کہ وہ پاکستان میں اپنے لوگوں کے درمیان رہیں گے، اور اپنی کمیونٹی اور پارٹی کی بہتری کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انتھونی نوید کی یہ ذمے داری، اگرچہ تبدیلی کی بہت بڑی نوید نہ ہو لیکن، مذہبی اقلیتوں کے لیے ملکی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ثابت ہوا ہے۔یہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلال بھٹو کی اُس سوچ کا نقطہ آغاز ہے جس کا اظہار اُنہوں نے 2012 میں کیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کا وزیراعظم کوئی مسیحی ہو۔
میں بدھ کے روز اُن سے ملاقات کرکے سندھ اسمبلی کے فلور کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تو انتھنی نوید کی کام یابی مجھے اپنی کام یابی محسوس ہورہی تھی۔ یہ شاید اُس مڈل کلاس طبقے کی کام یابی ہے جو بہتر مستقبل اور روشن کل کے لیے زندگی بھر محنت کرتا ہے۔ انتھنی نوید کی کام یابی اُن تمام لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کے دروازے پر دستک دیتے رہیں، ایک دن کام یابی کو آپ کے لیے خود دروازے کھولنے پڑیں گے!
میں اپنا پہلا ماسٹرز صحافت میں کرنا چاہتا تھا، لیکن سیاسیات میں ایم اے کیا، نہ عملی صحافت کی اور نہ عملی سیاست میں قدم رکھا، لیکن مجھے سیاست اور صحافت کے لوگ ہمیشہ متاثر کرتے رہے ہیں۔ خیر آج کے اس مضمون میں ایک ایسی سیاسی شخصیت کے زندگی کے سفر بالخصوص سیاسی جدوجہد اور کیریر بھی نظر ڈالیں گے، جس نے اپنی عملی سیاست کا آغاز یونین کونسل کے نائب ناظم کی حیثیت سے کیا اور آج پاکستان کی تاریخ میں مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے پہلے ڈپٹی اسپیکر ہیں۔
حالیہ الیکشن میں پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے سابق ممبر صوبائی اسمبلی انتھنی نوید نے گذشتہ اتوار کو سند ھ اسمبلی میں بطور ڈپٹی اسپیکر حلف اُٹھایا تو ملکی سیاست بالخصوص مذہبی اقلیتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ خبر پاکستان میں ایسے وقت پر آئی جب ہر طرف سیاسی افراتفری اور مذہبی اقلیتوں میں بے چینی کی کیفیت ہے۔ انتھنی نوید کا یہ سیاسی سفر آسان نہیں تھا۔ اُنہیں اس مقام تک پہنچے کے لیے بے شمار مسائل، سماجی رویوں اور کٹھن حالات کاسامنا کرنا پڑا لیکن اُنہوں نے حالات کا جواں ہمتی سے مقابلہ کیا اور آج اس مقام تک پہنچے ہیں۔
5اکتوبر1971 کو کراچی کے علاقے اختر کالونی میں رحمت مسیح اور شیدا بی بی کے ہاں ایک کاتھولک مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والے انتھنی نوید سیلف میڈ انسان ہیں۔ اُن کے والد ایک نفیس انسان ہیں جنہوں نے ساری زندگی بڑی ایمان داری سے محنت مزدوری کی ہے۔ اُنہوں نے انتھنی نوید، ان کی دو بہنوں اور ایک بھائی کو گھر سے ہی لوگوں سے برتاؤ اور میل جول کی تربیت دی تھی۔
انتھنی نوید نے میٹرک، سینٹ پیٹرک اسکول ، سے کرنے کے بعد، سوئیڈش کالج سے گارمنٹس ٹیکنالوجی انجینئرنگ میں ڈپلوما کیا۔ وہ چرچ کی سماجی سرگرمیوں میں شروع سے ہی مشغول رہے اور کمیونٹی کی سطح پر کافی سرگرم رہے ہیں۔
وہ کراچی کرسچن اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ 2002 میں ٹورنٹو، کینیڈا میں منعقد، ورلڈ یوتھ ڈے میں کیتھولک یوتھ کمیشن آف پاکستان، کراچی کی نمائندگی بھی کر چکے ہیں۔ وہ اپنی کمیونٹی کے نوجوانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام مختلف تنظیموں کے ساتھ مل کر تعلیم وتربیت کے لیے بھی کوشاں رہے ہیں۔ وہ مڈل کلاس نوجوانوں کی طرح تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کرتے رہے ہیں۔ وہ 28دسمبر1997 کو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ خُدا نے اُنہیں دو بیٹے اور بیٹاں عطا کی ہیں۔
انتھنی نوید کے سیاسی کیریئر کا آغاز 2005 میں بلدیاتی انتخابات سے ہوا، جہاں پاکستان پیپلزپارٹی نے اختر کالونی کی یونین کونسل پر نائب ناظم کے لیے اُنہیں ٹکٹ دیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے راہ نما سعید غنی کے مطابق کہ ان انتخابات میں پیپلزپارٹی کا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد ہوا تھا۔ اس اتحاد کے تحت، اختر کالونی میں ناظم جماعت اسلامی جب کہ نائب ناظم پیپلزپارٹی کا ہونا تھا۔ مسیحی کیمونٹی سے اُمیدوار لانے پر جماعت اسلامی نے خوش دلی کا اظہار نہیں کیا لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ پارٹی کا فیصلہ ہے۔ اس الیکشن میں انتھنی نوید کام یابی سے ہم کنار ہوئے۔
ان بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کراچی کے میئر منتخب ہوئے تھے جب کہ شہری حکومت میں سعید غنی اپوزیشن لیڈر تھے۔ انتھنی نوید 2016 میں وزیراعلیٰ سندھ کے اسپیشل اسسٹنٹ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے سینیٹرشپ کے لیے جدوجہد جاری رکھی، جس کے لیے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے انھیں سندھ میں سرگرم رہنے کی ہدایت کی اور 2018 میں انہیں سندھ اسمبلی کا رکن نام زد کر دیا گیا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ انتھنی نوید کی بطور ڈپٹی سپیکر نام زدگی پر کسی بھی پارٹی کی جانب سے مخالفت نہیں کی گئی بلکہ بقول ان کے تمام جماعتوں کے ارکان نے انہیں بڑی خوش دلی کے ساتھ مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس مضمون کی تیاری کے لیے میں سندھ اسمبلی میں ان کے چیمبر میں گیا جہاں نہ صرف کراچی بلکہ ملک کے دیگر شہروں سے بے شمار لوگ انہیں مبارک باد دینے، اور اپنی خوشی کا اظہار کرنے آئے تھے۔
انتھنی نوید کی کام یابی نہ صرف ان کی اپنی کام یابی ہے، بلکہ یہ پیپلزپارٹی کی کام یابی ہے، یہ ملک میں باہمی رواداری، معاشرتی ہم آہنگی اور سیاست میں وسعت اور قبولیت کو فروغ دینے کی بہترین مثال ہے۔ اُمید کی جارہی ہے کہ اُن کی اس آئینی عہدے پر موجودگی سے اقلیتوں میں پایا جانے والا غیریقینی کا احساس کسی حد تک کم ہوگا۔ دوسری طرف یہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے بھی ایک خوش آئند امر ہے کہ اگر وہ عملی سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو ان کے لیے آگے بڑھنے اور اور مین اسٹریم کی سیاست میں کام یابی کے دروازے کھلے ہیں۔
انتھنی نوید نے اپنی کامیابی پر جہاں خُدا کا شکر ادا کیا وہیں انہوں نے چیئرمین بلاول بھٹو اور صدرآصف علی زرداری کا بھی شکریہ ادا کیا جن کے اعتماد اور اور حوصلہ افزائی نے انہیں تقویت دی۔ انتھنی نوید نے کہا کہ اُن کی کام یابی پوری قوم کی کام یابی ہے، اس کام یابی کے لیے انہوں نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور بھرپور محنت کی ہے۔
وہ اپنے والدین کی دُعاؤں محنت، شریک حیات کے تعاون، مستقل مزاجی اور سیاسی تعلیم و تربیت کو کام یابی کا ضامن سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم اور عملی زندگی کا تجربہ انسان کو ہمیشہ کام یابی کی منزل سے ہم کنار کرتا ہے۔ انتھنی نوید پرُعزم ہیں کہ وہ اپنی اس آئینی عہدے کو اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے احسن طریقے سے سرانجام دے پائیں گے۔ اور ملک کی سیاست اور تاریخ میں ایک سنہرے باب کا اضافہ کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ معاشرے میں مفاہمت، مکالمے اور مثبت سوچ کے رجحان کو پروان چڑھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان، نوجوانوں کا ملک ہے اور بطور قوم اس وقت ہم مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ اس لیے ہم سب کو سیاسی اور ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر بحیثیت قوم، ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے سوچنا اور مل کر کام کرنا پڑے گا۔ اُنہوں نے کہ وہ اپنی زندگی میں یسوع مسیحؑ کی سماجی انصاف پر مبنی تعلیم کو اپنی عملی زندگی میں اولین ترجیح دیتے ہیں اور نوجوانوں کو بھی تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنے کردار سے معاشرے میں نور بن کر روشنی کو عام کریں۔
مجھے خوشی ہے کہ میں نے انتھنی نوید کی کام یابی کے سفر کو بڑے قریب سے دیکھا ہے۔ انہوں نے اپنی جدوجہد اور مسلسل سیاسی عملی سرگرمیوں سے اپنی کیمونٹی اور جماعت میں مقام بنایا ہے۔ وہ پاکستانی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسیحی کمیونٹی کے نوجوانوں کے لیے ایک روشن مثال ہیں جو معاشرے میں رہتے ہوئے اپنی، اپنے خاندان، کمیونٹی اور ملک کی ترقی میں اپنے آباؤ اجداد کی طرح اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔ شاید بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ انتھنی نوید اپنی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے سلسلے میں کئی مرتبہ ملک سے باہر جا چکے ہیں۔
ایک دفعہ وہ یورپ کے ایک ملک میں تھے۔ جہاں ان کے عزیز و اقارب اور ساتھیوں نے بھر پور کوشش کی کہ وہ یہاں یورپ میں سیٹل ہوجائیں اور پاکستان کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیں، کیوںکہ ان کے لیے پاکستان میں عملی سیاست میں کوئی خاص مستقبل نہیں ہے، لیکن نوید نے اپنی والدہ کے انتقال کے بعد اس بات کا مصمم ارادہ کیا کہ وہ پاکستان میں اپنے لوگوں کے درمیان رہیں گے، اور اپنی کمیونٹی اور پارٹی کی بہتری کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انتھونی نوید کی یہ ذمے داری، اگرچہ تبدیلی کی بہت بڑی نوید نہ ہو لیکن، مذہبی اقلیتوں کے لیے ملکی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ثابت ہوا ہے۔یہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلال بھٹو کی اُس سوچ کا نقطہ آغاز ہے جس کا اظہار اُنہوں نے 2012 میں کیا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کا وزیراعظم کوئی مسیحی ہو۔
میں بدھ کے روز اُن سے ملاقات کرکے سندھ اسمبلی کے فلور کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تو انتھنی نوید کی کام یابی مجھے اپنی کام یابی محسوس ہورہی تھی۔ یہ شاید اُس مڈل کلاس طبقے کی کام یابی ہے جو بہتر مستقبل اور روشن کل کے لیے زندگی بھر محنت کرتا ہے۔ انتھنی نوید کی کام یابی اُن تمام لوگوں کے لیے پیغام ہے کہ محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی منزل کے دروازے پر دستک دیتے رہیں، ایک دن کام یابی کو آپ کے لیے خود دروازے کھولنے پڑیں گے!