میثاق معیشت اور مفاہمت

معاشی و مالیاتی پالیسیوں کو متعارف کرانے اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے آج صورتحال بد سے بدتر ہوچُکی ہے

معاشی و مالیاتی پالیسیوں کو متعارف کرانے اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے آج صورتحال بد سے بدتر ہوچُکی ہے۔ فوٹو: فائل

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے اپوزیشن کو میثاق معیشت اور مفاہمت کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ غربت میں کمی، روزگار کی فراہمی، سستا اور فوری انصاف ہمارا نصب العین ہے، ہم مل کر ضرور ملک کو ان مشکلات سے نکالیں گے، بجلی و گیس چوری کا سارا بوجھ غریب عوام اٹھاتے ہیں، ہم نے بجلی و ٹیکس چوری روکنی ہے، اس کی ذمے داری خود سنبھالوں گا۔

دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے اراکین قومی اسمبلی سے خطاب میں جن خیالات و عزائم کا اظہار کیا، وہ صائب ہیں۔ نومنتخب وزیراعظم محمد شہباز شریف کو نہ صرف معاشی مسائل کا احساس و ادراک ہے بلکہ وہ سب کے ساتھ مل کر ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔

اس وقت ہماری معیشت جس حالت میں ہے وہ اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی کہ مختلف سیاسی جماعتیں آپس میں الجھی رہیں اور معاشی مسائل کو مزید بگڑنے دیا جائے کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، عالمی بینک اور دیگر ایسے ہی ادارے اور دوست ممالک ایک حد تک تو ہماری مدد کرسکتے ہیں لیکن اس سے آگے ہمیں اپنی مدد آپ کرنا ہوگی۔

ٹیکس نیٹ بڑھانا بھی نئی حکومت کے لیے ایک چیلنج ہوگا کیونکہ پوری دنیا کے ٹیکس سٹسم شہریوں کو دو کیٹگری میں تقسیم کرتا ہے، ایک ٹیکس دینے والا اور دوسرا ٹیکس چور ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں فائلرز اور نان فائلرز کی بات ہوتی ہے۔ سرکاری ادارے خود ایسے مواقعے فراہم کرتے ہیں کہ ٹیکس چوری کیا جائے تو نئی حکومت کے لیے چیلنج ہوگا کہ کس طرح وہ ٹیکس سٹسم میں اصلاحات کرتی ہے اور ٹیکس نیٹ بڑھاتی ہے۔

جمہوری نظام میں پارلیمنٹ انتہائی معتبر اور اہمیت کا حامل ادارہ ہے، سیاسی جماعتیں مسائل اور تحفظات کے حوالے سے پارلیمنٹ میں مکالمہ کریں، اگر سیاسی جماعتیں گروہی مفادات کے حصار میں رہیں گی تو اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے۔ ایک سیاسی جماعت کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھنا یا لکھنے کا بیان دینا،کسی طرح بھی درست اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، ریاست اور عوام کے اجتماعی مفادات کے برعکس سیاست کرنا، غلط روش ہے۔

پارلیمنٹ ہی وہ واحد فورم ہے، جہاں ملک کے اہم ترین ایشوز پر بحث بھی ہوسکتی ہے اور قانون سازی بھی ، لہٰذا سیاست دانوں کو اپنے معاملات اسی فورم میں طے کرنے چاہئیں۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں بے مقصدگفتگو کرنا، الزام تراشی کرنا، تضحیک آمیز طنز کرنا اور ماورائے قانون مطالبات پیش کرنا،پارلیمنٹ کے تقدس اور پارلیمانی امور کے خلاف بات ہے، اس سے پارلیمنٹیرنیزکے امیج کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔

پاکستان کو معاشی لحاظ سے بڑے مسائل کا سامنا ہے، جو توانائی، تعلیم، صحت اور روزگار تک پھیلے ہوئے ہیں، مُلکی آبادی کا 60 فی صد سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں۔

خاص طور پر جب وہ اپنے اطراف کے ملکوں کو ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتے دیکھتے ہیں، تو اُن کے دِلوں میں ایک ہُوک سی اٹھتی ہے، کیوں کہ وہ اپنے ملک کو بھی ہر صورت ترقی کی اِس دوڑ میں شامل دیکھنا چاہتے ہیں، بلکہ اُن کی خواہش ہے کہ اُن کا ملک ، اِس دوڑ میں بہت آگے ہو، اگر یہ نوجوان مایوس ہوگئے، تو یقین جانیے، قوم بڑی آزمائش سے دوچار ہوجائے گی۔

معاشی و مالیاتی پالیسیوں کو متعارف کرانے اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے آج صورتحال بد سے بدتر ہوچُکی ہے ۔ پاکستان زرعی ملک کہلاتا ہے ، گندم اور گنے کی بمپر فضل ہونے کے باوجود گندم اور چینی درآمد کرنی پڑ جاتی ہے ، خوردنی تیل درآمد کیا جاتا ہے حالانکہ پاکستان میں سرسوں، توریا، بنولہ اور سورج مکھی تیل دار فضل ہے، یہ کھانے کے لیے بہترین تیل ہیں، لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں ہے۔


تو ہر دور حکومت میں زراعت کے حوالے سے کبھی کوئی بہتر پالیسی نہیں بنائی گئی ، زرخیز زرعی زمینوں پر شہری آبادیاں بسانے کی اجازت ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زرعی رقبے میں دن بہ دن کمی ہورہی ہے اور ہمارا ملک زرعی ہونے کے باوجود مہنگے داموں زرعی اجناس درآمدکرنے پہ مجبور ہوگیا ہے جس کا نتیجہ اجناس کی مہنگائی کی صورت سبکے سامنے ہے ، اس میں سیاسی جماعتوں کا بھی قصور ہے، سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اپنی جماعتوں میں زرعی معیشت، مویشی پالنا، مرغبانی، باغبانی اور جنگلات پر کبھی کوئی تھنک ٹینک نہیں بنایا، صنعت کاری، تجارات پر بھی سیاسی جماعتوں میں کوئی تحقیقاتی فورم نہیں ہے۔

ہمارا ملک بحری جہاز تیار کر کے دُنیا کو فراہم کرتا رہا ہے مگر اس طرف بھی اب شاید کسی کی نظر نہیں، نہ جانے کراچی شپ یارڈ کو بھی کس کی نظر لگ گئی ہماری حکومتی جماعتیں اگر ہمارے ملک کی ان چند چیزوں پر ہی توجہ دے لیں تب بھی ہمارے ملک کو قرض نہیں لینا پڑے گا،توانائی کی مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ نے ہماری انڈسٹری، کاروبار اور زراعت کو تباہ کر دیا ہے، اُس کا نتیجہ بے روزگاری میں اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔

آئے روز پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں اور بجلی کے یونٹ میں اضافہ اور بدترین لوڈ شیڈنگ سے حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بڑے ڈیم نہیں بنائے گئے، متبادل انرجی پر بھی توجہ نہیں دی گئی، ہر دور میں صرف سیاسی دنگل ہی دیکھنے کو ملتا رہا، اب جو ملک میں معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے وہ اگر استحکام میں بدلنا ہے تو صرف سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔

ہم چین کے ساتھ سی پیک کے ذریعے اُس کے عالمی ترقیاتی ویژن '' بیلٹ اینڈ روڈ'' کا حصہ بن چکے ہیں، تو اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہم قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کر لیں، وگرنہ سی پیک کے صوبائی منصوبوں سے متعلق جس قسم کی آوازیں اٹھتی رہیں، اُس نے کئی مواقعے پر پاک، چین دوستی میں بھی بدمزگی پیدا کی، حالانکہ اس طرح کی صورتِ حال سے باآسانی بچا جاسکتا تھا۔ موجودہ معاشی بحران نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔

معاشی لحاظ سے ایک حکومت کا غلط فیصلہ، ملک کو برسوں پیچھے دھکیل دیتا ہے اور پھر اسے دوبارہ سابقہ مقام تک لانا بعد میں آنے والی حکومتوں کے لیے چیلنج بن جاتا ہے، اگر قیادت میں قوم کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش نہ ہو، تو چند سال تک محض بجٹ وغیرہ کی گاڑی کو دھکا لگانے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ قومی ترقی کی گاڑی چلانی ہے، تو حکومت کو انجن بننا پڑے گا اور پھر سب کو مل جل کر پورا دَم لگانا ہوگا۔

ریاست کا نظام بھی ایسا عنصر ہے جس پر باریک بینی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی کھینچا تانی سے گریز کرتے ہوئے میثاق معیشت کی طرف آنا چاہیے جس کے تحت صنعت کاروں، اسٹیک ہولڈرز، کو مل بیٹھنے اور اہداف طے کرنے کی طرف دعوت جائے جو بدلے نہ جائیں۔ زراعت، صنعت، اور دیگر شعبہ جات میں ٹاسک فورسز بنائی جانی چاہیے۔

ان تمام کاموں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب ملکی مفاد کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتیں مفاہمت سے رہیں مگر جہاں مفاہمت کی بات آتی ہے تو یہ بات کہہ کے ٹال دیا جاتا ہے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر اس وقت عوام کو جمہوریت کے حسن سے ضروری دو وقت کی سکون کی روٹی چاہیے۔

وزیراعظم شہباز شریف کے خیالات و بلند عزائم اور خلوص نیت سے کام کرنے کی لگن مثبت طرز عمل ہے، لیکن یہ سب خواب اس وقت ہی شرمندہ تعبیر ہوسکیں گے جب ان تمام باتوں، وعدوں اور منصوبوں پر عملدرآمد کیا جائے، وگرنہ آنے والا وقت گزرے ہوئے وقت کی نسبت بد سے بدترین ہوتا چلا جائے گا ملک کو درپیش معاشی مسائل کا ایک ہی حل باقی بچا ہے کہ فوری طور پر میثاق معیشت پر عمل کیا جائے۔

ملک کی معیشت اور سیاست ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں، کسی ایک کے استحکام سے ہی دوسرے کے قدم مضبوط ہوتے ہیں۔ اسی طرح کسی ایک کے عدم استحکام سے دوسرے شعبوں پر بھی ویسے ہی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

اس بات میں تو سو فیصد صداقت ہے کہ اچھی سیاسی خبروں سے اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آجاتی ہے مگر سیاسی دھچکوں سے اہم اداروں خصوصاً معاشی صورتحال ہل جاتی ہے اور انویسٹرز میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے، درحقیقت معاشی استحکام، سیاسی استحکام سے مشروط ہے، اس لیے تمام سیاسی جماعتیں ملک کو درپیش گھمبیر چیلنجز کے پیش نظر احتجاجی سیاست سے گریزکریں، گرینڈ ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے۔
Load Next Story