تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کردیا گیا، اکبر ایس بابر سمیت دو اور پی ٹی آئی کارکنان نے بھی درخواستیں دائر کردیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اس حوالے سے دو الگ الگ درخواستیں الیکشن کمیشن میں دائر کی گئی ہیں، محمود خان اور محمد مزمل نے درخواستیں دائرکی ہیں جن میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشنز کالعدم قرار دئیے جائیں۔
دریں اثنا پی ٹی آئی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر بھی الیکشن کمیشن پہنچ گئے اور انہوں نے بھی انٹرا پارٹی انتخابات چیلنج کردیے
میڈیا سے گفتگو میں اکبر ایس بابر نے کہا کہ آج ہم پھر الیکشن کمیشن میں حاضر ہوئے ہیں، مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے جو تازہ فراڈ کیا ہے اس کے خلاف درخواست دینے آئے ہیں، ہمیں امید تھی کہ یہ پارٹی اپنے ورکروں کو ان کا حق دے گی، جو پارٹی الیکشن میں دھاندلی کا رونا روتی ہے وہ اپنے ورکرز کو بھی حق دیتی تو ان کا مینڈیٹ تسلیم کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے کہا جاتا ہے پارٹی الیکشن میں آپ نے کیوں حصہ نہیں لیا؟ میں نے پریس کانفرنس کر کے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اپنا ایک وکیل مقر کریں ایک ہم کریں گے، ہم نے 25جنوری کو ایک سیمینار کا انعقاد کرویا تھا اس میں پیشکش بھی کی تھی مگر مجھے اس انٹرا پارٹی الیکشن سے دور رکھا گیا۔
انہوں ںے کہا کہ دو فروری کو پی ٹی آئی کی جانب سے میرے بارے میں ایک پریس ریلیز جاری کی گئی ہے کہ اکبر ایس بابر پارٹی چھوڑ چکا ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا اس میں مجھے پارٹی کا ممبر ڈکلیئر کیا گیا ہے آج میں نے درخواست دی ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے کیوں کہ یہ نہیں چاہتے پارٹی کی قیادت ورکروں تک جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جواب کی لیڈر شپ ہے یہ صبح کسی کے ساتھ دوپہر کسی اور رات کو کسی جماعت کے ساتھ ہوتی ہے، جب سپریم کورٹ نے 13 جنوری کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے تائید کی تو اس سے واضح ہوا کہ یہ خود ساختہ قیادت ہے اس قیادت کا یہ اختیار ہی نہیں ہے کہ یہ کسی اور جماعت کے ساتھ معاہدہ کرے یہ معاہدہ بھی ختم ہوگا آج ہم نے یہ بات بھی درخواست میں لکھی ہے۔
اکبر ایس بابر نے مزید کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے جو پارٹی الیکشن کا جو ڈھونگ رچایا ہے یہ معاملہ سب جوڈیشل ہے کیا وجہ ہے کہ یہ قیادت بار بار بلا مقابلہ منتخب ہو جاتی ہے، سپریم کورٹ میں انہوں نے لکھ کر دیا کہ ہمارے پارٹی کے ساڑھے 8لاکھ ووٹ ہیں مگر الیکشن میں 940 ممبران نے ووٹ ڈالا۔