وزیر اعلیٰ پنجاب… عوام ریلیف کے منتظر

پنجاب کی حکومت کسی بھی حکمران کے لیے کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہی ہے

atharqhasan@gmail.com

محترمہ مریم نواز نے پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے انتظامی امور کو کامیابی سے چلانا، ان کے لیے ایک چیلنج سے کم ہر گز نہیں ہوگا۔

مریم نواز صاحبہ کے ناقدین منتظر ہیں کہ وہ بطور وزیر اعلیٰ پنجاب کسی خاطر خواہ کار کردگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں تا کہ وہ تنقید کر سکیں۔

مریم نواز کی سیاسی تربیت میں میاں نواز شریف کا بھر پور کردار ہے اور انھوں نے بیٹی کو سیاسی وراثت کے لیے کچھ سوچ سمجھ کر ہی منتخب کیا ہے۔

میاں نواز شریف اس وقت ملک کے سب سے سینئر اور مدبر سیاسی رہنماء ہیں اور ان کی جہاندیدہ شخصیت سیاسی میدان میں بہت دور تک نظر رکھتی ہے ، وہ منہ سے کوئی ایک لفظ بھی فالتو نہیں نکالتے ۔ وہ اپنے ارد گرد موجود ساتھیوں کی باتیں اور مشورے بغورسنتے ہیں لیکن ان مشوروں پر عمل اپنی سمجھ بوجھ اور عقل سے کرتے ہیں۔

مریم نواز کا بطور وزیر اعلیٰ انتخاب میاں نوازشریف کی اس سیاسی پالیسی کا نتیجہ ہے جس کو ان کی دوررس نگاہ دیکھ رہی ہے اور ان کو نوازلیگ کا مستقبل مریم نوازکی صورت میں نظر آرہا ہے۔

نواز لیگ کا سب سے مضبوط سیاسی قلعہ صوبہ پنجاب رہا ہے اور گزشتہ تین دہائیوں سے زائد تک انھوں نے اس صوبے پر راج کیا ہے ۔ 1985 میں بطور وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف نے جس سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا اس کے بعد انھوں نے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ نواز لیگ کی صوبہ پنجاب کی ترقی کے حوالے سے کار کردگی کا موازنہ ملک کے کسی صوبے سے نہیں کیا جا سکتا اور بلاشبہ جس کام کی بنیاد میاں نواز شریف نے رکھی اس کو نہایت کامیابی اور اسپیڈ سے ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف نے آگے بڑھایا ہے۔


یہی وجہ ہے کہ تین دہائیوں سے زائد مدت تک پنجاب میں نواز لیگ کا ڈنکا بجتا رہا تا آنکہ نواز لیگ کے مضبوط سیاسی قلعے میں عمران خان نے نقب لگائی اور 2018 کے انتخابات میں پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ عمران خان کی پنجاب میں بزدار سرکارکس حد تک کامیاب رہی، اس پرکئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

اب جب کہ مریم نواز پنجاب میں واضح اکثریت کے ساتھ وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھال چکی ہیں لیکن ان کو اسمبلی میں ایک مضبوط اپوزیشن کا بھی سامنا ہے ۔ انھوں نے سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف کو مل جل کر چلنے کی دعوت بھی دی ہے اور اس عزم کا اظہار بھی کیا ہے کہ وہ اپوزیشن کی بھی وزیر اعلیٰ ہیں ۔

پنجاب کی حکومت کسی بھی حکمران کے لیے کبھی پھولوں کی سیج نہیں رہی ہے اور پنجاب میں کامیابی کا دارومدار تعمیر و ترقی اور کار دگی سے مشروط ہے جس میں ہماری خاتون وزیر اعلیٰ کو اپنی والد اور وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف کی معاونت بھی حاصل رہے گی، ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان کی اپنی جماعت کی ماضی کی حکومت کی کار کردگی ہو گی کیونکہ تعمیر و ترقی کا جو معیار جناب شہباز شریف نے سیٹ کر دیا ہے اس کو برقرار رکھنا ایک مشکل مگر ممکن عمل ہے۔

انھیں ماضی کی کار کردگی کومد نظر رکھتے ہوئے اپنی حکومت کے اہداف سیٹ کرنا ہوں گے اور ان اہداف کے لیے ایک مضبوط اور مخلص ٹیم کا ساتھ اشد ضروری ہے ۔گو انھوں نے اسمبلی میں بطور وزیر اعلیٰ اپنی پہلی تقریر میں اپنے مستقبل کے منصوبوں کے متعلق بہت کچھ کہہ دیا ہے لیکن انھیں ان اہداف کو ترتیب سے شروع کرنے کی ضرورت ہے، ان میں قلیل مدتی، وسطی اورطویل مدتی منصوبوں کو الگ کرکے ان پر عمل درآمد کا آغاز کرنا ہو گا تا کہ قلیل مدتی منصوبوں کے نتائج فوری طورپر نظرآنا شروع ہو جائیں۔

عوام اب صرف اس حکمران کو دیکھنا چاہتے ہیں جو ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کر سکے۔ ان کی کامیابی میں سب سے اہم کردار ان کی منتخب کی گئی ٹیم کا ہو گا، تادم تحریران کی ممکنہ کابینہ میںجو نام سامنے آرہے ہیں ان میں زیادہ تر پرانے چہرے ہیں جن کی وفاداری پارٹی کے ساتھ مسلمہ رہی ہے اور وہ حکومتی امور چلانے میں تجربہ کار بھی ہیں لیکن ان تجربہ کار ساتھیوں کے علاوہ نوجوان چہروں کی کابینہ میں شمولیت بھی از حد ضروری خیال کی جارہی ہے اور یہ تازہ دم فورس پارٹی کے لیے آکسیجن کا کام دے گی ۔

پرانے اور نئے چہروں کا امتزاج اس تاثر کو بھی ختم کر دے گا کہ نواز لیگ پر ایک مخصوص گروہ کی ہی اجارہ داری ہے ۔بہر حال اس کا فیصلہ تو پارٹی قائد نواز شریف ہی کریں گے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاونت کے لیے کون سی ٹیم بہتر اور موثر ثابت ہو گی ۔پنجاب کی موجودہ حکومت نواز لیگ کی سیاسی بقاء کی جنگ ہے، دیکھتے ہیں وہ اس چیلنج سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ہماری وزیر اعلیٰ کو عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنا ہے، یہی ان کی کامیابی کی کنجی ہے۔
Load Next Story