نئے وزیراعظم فرما رہے تھے کہ قوم 80 ہزار ارب روپے کی مقروض ہے اور ایوان کی کارروائی بھی قرض کی رقم سے چلائی جارہی ہے۔ جب وہ یہ تقریر فرما رہے تھے تب ایوان میں ہر ممبر نے خوبصورت اور مہنگا لباس زیب تن کیا ہوا تھا، اسمبلی سے باہر ان کی مہنگی ترین گاڑیاں پارک تھیں۔ 80 ہزار ارب کی مقروض قوم کے نمائندوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے سبھی لوگ دوسرے کی جیت کو دھاندلی کے ذریعے حاصل کی گئی جیت کا نام دے رہے تھے، دونوں ہی ایک دوسرے کو چور کہہ رہے تھے۔
آپ نے یہ سب کچھ دیکھ لیا، سن لیا، مگر آپ نہیں جانتے کہ اس کارروائی کے دن گلبرگ 3 کے چوراہے پر نہ جانے کتنے ہی مزدور تھے جنہیں روزگار نہیں ملا تھا۔ وہ اس دن کی دیہاڑی کے بغیر گھر جانے والے تھے۔ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ کراچی میں جلنے والی دکانوں کے دکاندار بہت دنوں سے ایک روپیہ گھر لے کر نہیں گئے۔ کاش اسمبلی میں اس قدر شور کرنے والوں کو ان بچوں کے شور کی آواز بھی سنائی دیتی جنہیں ان کے باپ نے بھوک اور بے روزگاری سے تنگ آکر قتل کرنے کے بعد خودکشی کرلی۔
اسمبلی میں کراچی کے نمائندے بھی موجود تھے۔ وہ کراچی جہاں روڈ پر ٹریفک کی اس قدر خلاف ورزی ہوتی ہے کہ لگتا ہے یہاں قانون ہے ہی نہیں۔ اگر قانون ہوتا تو پھر اس قدر تجاوزات نہیں ہوتیں، زمین پر فٹ ہاتھ ہوتی جس پر لوگ وحشی ڈرائیوروں سے بچ کر چلتے۔ اسمبلی میں بلوچستان کے نمائندے بھی تھے۔ بلوچستان جس کی ایک بیٹی سخت سردی میں کئی ہفتے دھرنے کے بعد کچھ وعدے لے کر واپس لوٹ گئی۔
اسمبلی میں شور جاری ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ سب اس لیے شور مچا رہے ہیں تاکہ ان تک اسمبلی سے باہر بجلی، گیس اور راشن کی بڑھتی قیمتوں سے پریشان لوگوں کا شور نہ پہنچے۔ سب ہی شور مچا رہے ہیں۔ 'یہ' بولتے ہیں تو 'وہ' شور مچاتے ہیں۔ 'وہ' بولتے ہیں تو 'یہ' شور مچا رہے ہیں۔ اس شور میں غریب کی سسکیاں کون سنے گا؟ بے روزگار کی فریاد کون سنے گا؟ جنہیں مداوا کرنا ہے وہ خود دہائی دے رہے ہیں۔
ن لیگ کا سب سے بڑا مسئلہ میاں نواز شریف کے کیس حل کرانا ہے۔ پیپلز پارٹی کو زرداری کی صدارت چاہیے۔ تحریک انصاف کو عمران کی رہائی چاہیے۔ باقی جماعتوں کو پرکشش وزارتوں کی ضرورت ہے۔ سب اپنے اپنے مفاد کا شور مچا رہے ہیں۔ برسوں سے یہ شور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ 128 دن کے دھرنے کا شور، قادری صاحب کے دھرنے کا شور، جی ٹی روڈ پر 'مجھے کیوں نکالا' کا شور، 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کا شور۔ یہ سب شور مچانے والے اب مل کر اسمبلی میں شور مچارہے ہیں۔
میں انتظار کر رہا ہوں کہ یہ شور تھمے تو ان تک سستے راشن کی خریداری کےلیے بنی لائن میں کھڑے سفید پوش لوگوں کا دکھ پہنچاؤں، جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کےلیے اپنی تکلیفوں پر شور بھی نہیں مچا سکتے۔ خدا کے واسطے تھوڑی دیر کےلیے یہ شور بند کریں تاکہ آپ تک اس شخص کی آواز پہنچے جو اپنے مکان کا کرایہ ادا نہیں کر پارہا ہے۔ اس ماں کی آواز پہنچے جو اپنے بچوں کی فیس نہیں دے پارہی۔ ان سب بیماروں کی آواز آپ تک پہنچ سکے جو ڈاکٹر کے بجائے میڈیکل اسٹور والے کو بیماری بتا کر اسی کی تجویز کردہ سستی دوا لے لیتے ہیں، کیونکہ وہ ڈاکٹر کی فیس نہیں دے سکتے۔
برائے مہربانی تھوڑی دیر کےلیے ایوان میں خاموشی اختیار کریں تاکہ میں آپ تک یہ بات پہنچا دوں کہ کچھ لوگ دن میں بمشکل صرف ایک وقت ہی روٹی کھاتے ہیں۔ خاموش ہوجایئے تاکہ میں ان ماں باپ کا دکھ بیان کرسکوں جو اپنے بچوں کی شادیاں نہیں کر پا رہے۔ مگر مجھے معلوم ہے آپ خاموش نہیں ہوں گے۔ آپ خاموش ہو بھی نہیں سکتے کیونکہ آپ کی انا پاکستان کے کروڑوں غریبوں سے زیادہ قیمتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔