ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں
اس دوران اگر کوئی گاہک آ جاتا تھا تو ہم اخبار یا میگزین بیچ کر رقم کاؤنٹر پر رکھ دیتے تھے
www.facebook.com/javed.chaudhry
''میں صحافی کیسے بن گیا؟'' میں جب بھی اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہوں تو میری زندگی تیزی سے تین واقعات کی طرف ری وائینڈ ہو جاتی ہے' پہلا واقعہ سلیم تھا' سلیم میرا تیسری جماعت کا دوست تھا' اس کے والد ٹی اینڈ ٹی میں ملازم تھے اور وہ سیالکوٹ سے ٹرانسفر ہو کر لالہ موسیٰ آئے تھے' ہمارے بچپن میں ٹیلی فون اینڈ ٹیلی گرام (ٹی اینڈ ٹی) کا محکمہ بڑا سرکاری ادارہ ہوتا تھا' تمام شہروں میں ان کے دفتر ہوتے تھے اور ٹیلی گرام اطلاعات کا سب سے تیز ذریعہ ہوتا تھا' عام زبان میں لوگ اسے تار کہتے تھے اور یہ عموماً کسی کے انتقال کے لیے دی جاتی تھی لہٰذا جوں ہی کسی کے گھر تار بابو پہنچتا تو پورا گھر دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتا تھا۔
تار بابو ٹیلی گرام پہنچانے والے اہلکار ہوتے تھے' یہ ڈاکیے کی طرح خاکی وردی پہنتے تھے' سائیکل پر سفر کرتے تھے اور خاص قسم کی گھنٹی بجاتے تھے' لوگ ان کے سائیکل کی گھنٹی کی آواز سن کر ایمبولینس کی طرح انھیں راستہ دے دیتے تھے اور بعض اوقات ان کے پیچھے بھی چل پڑتے تھے' تار بابو ایڈریس پر پہنچ کر اونچی آواز میں کہتے تھے ''بی بی تمہاری تار آئی ہے'' اور اندر سے بیبیاں سینے پر ہاتھ مار کر رونا پیٹنا شروع کر دیتی تھیں۔
اس کے بعد تار بابو ٹیلی گرام کھول کر نیوز پرنٹ پر چھپے ٹیڑھے میڑھے لفظ پڑھ دیتا تھا' سلیم کے والد اس ڈیپارٹمنٹ میں ملازم تھے اور وہ ٹرانسفر ہو کر لالہ موسیٰ آئے تھے' وہ ایک پڑھی لکھی فیملی تھی' اخبار اور کتابیں پڑھا کرتے تھے' سلیم کو بھی اخبار اور رسالے پڑھنے کی عادت تھی' وہ ہمارے اسکول میں داخل ہو گیا' وہ باؤ ٹائپ تھا جب کہ ہمارا اسکول ''کھوتی اسکول'' تھا' ہم سارے کھوتے ایک جگہ جمع تھے' ہمارے استاد بھی ہمیں اجتماعی طور پر کھوتا ہی کہتے تھے۔
کلاس کے کھوتوں نے سلیم کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور وہ بے چارہ سمٹ سمٹا کر میرے ساتھ بیٹھنے لگااور یوں ہماری دوستی ہو گئی' سلیم نے مجھے اخبار اور رسالوں سے متعارف کرایا اورجب مجھے دونوں کا چسکا لگ گیا تو اس کے والد خاندان سمیت سیالکوٹ واپس چلے گئے' میں آج سوچتا ہوں اگر سلیم میری زندگی میں نہ آتا تو شاید میں اخبارات اور میگزینز سے متعارف نہ ہوتا اور شاید میں آج صحافی بھی نہ ہوتا۔
دوسرا واقعہ قریشی نیوز ایجنسی تھا' ہماری گلی کے آخر میں جی ٹی روڈ پر قریشی نیوز ایجنسی ہوتی تھی' وہ دو بھائی تھے اور پورے شہر میں اخبار تقسیم کرتے تھے' ان کا نیوز اسٹال تھا جس پر تمام اخبارات بھی آتے تھے اور میگزینز بھی' قریشی برادرز صبح جلدی اٹھتے تھے لہٰذا انھیں دوپہر کے وقت بریک چاہیے ہوتی تھی' وہ ملازم افورڈ نہیں کر سکتے تھے چناں چہ سلیم اور میں ان کے مفت ملازم بن گئے' ہم اسکول کے بعد ان کی دکان پر چلے جاتے اور وہ دکان ہمارے حوالے کر کے گھر چلے جاتے تھے اور ہم ان کے اسٹال پر بیٹھ کر سارے اخبار اور رسالے پڑھ جاتے تھے۔
اس دوران اگر کوئی گاہک آ جاتا تھا تو ہم اخبار یا میگزین بیچ کر رقم کاؤنٹر پر رکھ دیتے تھے' قریشی بھائیوں میں سے کوئی ایک شام کے وقت واپس آ جاتا تھا اور ہم اسے حساب دے کر واپس آ جاتے تھے' میرے بزرگ خالص دیہاتی تھے' انھیں کسی کے گھر یا دکان پر بیٹھنا پسند نہیں تھا چناں چہ مجھے قریشی نیوز ایجنسی کی انٹرن شپ پر کئی بار ٹھیک ٹھاک پھینٹا پڑا مگر میں اس کے باوجود ڈٹا رہا تاہم سلیم کے والد کا رویہ مختلف تھا' انھیں ہمارا نیوز ایجنسی پر بیٹھنا اور پڑھنا اچھا لگتا تھا' میں آج سوچتا ہوں اگر قریشی برادرز نہ ہوتے اور سلیم مجھے اس پر نہ لے کر جاتا تو شاید میں شکیل عادل زادہ' محی الدین نواب' ابن صفی' مظہر کلیم' اظہر کلیم' الیاس سیتا پوری' الطاف حسن قریشی' مجیب الرحمن شامی اور جاسوسی ڈائجسٹ' سب رنگ' آداب عرض' جواب عرض اور خواتین ڈائجسٹ سے متعارف نہ ہوتا' مجھے پڑھنے کی عادت بھی نہ پڑتی اور میں آگے چل کر لالہ موسیٰ کی ساری لائبریریاں بھی نہ کھنگالتا اور دنیا جہاں کے لٹریچر اور شاعروں سے بھی میرا لگاؤ پیدا نہ ہوتا اور میں آج بیوپاری ہوتا یا واپس گاؤں میں جا کر کھیتی باڑی کر رہا ہوتا اور تیسرا واقعہ اس زمانے کے کالم نگار تھے۔
میں قریشی نیوز ایجنسی پر عطاء الحق قاسمی' نذیر ناجی' عبدالقادر حسن' مجیب الرحمن شامی' ارشاد احمد حقانی' وارث میر' زیڈ اے سلہری' ریاض بٹالوی' جاوید جمال ڈسکوی اور منو بھائی سے متعارف ہوا' میں نے بچپن میں ان لوگوں کو پڑھنا شروع کیا اور میرے استادوں نے مجھے طنزاً ماسٹر جی' ریڈیو پاکستان' نوائے وقت اور پروفیسر کہنا شروع کر دیا' وہ میرا مذاق اڑایا کرتے تھے' میری طبیعت میں بچپن سے ضد اور مستقل مزاجی تھی' مجھے جس چیز سے روکا جاتا تھا یا جہاں میری مخالفت ہوتی تھی میں وہ کام زیادہ دل جمعی سے کرتا تھا' مطالعہ اس زمانے میں فضول کام سمجھا جاتا تھا' الحمد للہ ہمارا معاشرہ آج بھی اس روایت پر قائم و دائم ہے' ہم بلکہ پہلے سے زیادہ کتاب اور عقل دشمن ہو چکے ہیں۔
میں مختلف یونیورسٹیوں میں جاتا ہوں اور جب پروفیسروں سے پوچھتا ہوں آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں تو یہ جان کر بڑی تسلی ہوتی ہے ماشاء اللہ انھوں نے آخری کتاب دس پندرہ سال پہلے پڑھی تھی اور وہ بھی شہاب نامہ یاموت کا منظرتھی' یہ شاید علم اور کتاب سے اس دوری کا نتیجہ ہے پوری قوم مست ہاتھی بن کر ہر چیز' ہر روایت کو روند رہی ہے اور کسی کو ملال تک نہیں ہوتا' بہرحال اگر میں اس زمانے کے کالم نگاروں سے نہ جڑتا تو بھی شاید میں آج صحافی نہ ہوتا' یہ لوگ تھے جن کی محبت مجھے اس پیشے میں لے آئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے عزت بھی دی' شہرت بھی' رزق بھی اور اپنی ٹرمز اینڈ کنڈیشنز پر زندگی گزارنے کا موقع بھی۔
میرے سینئرز میرے اصل استاد تھے' یہ میری انسپریشن بھی تھے اور میرے منٹور بھی' ان میں سے ہر شخص پوری یونیورسٹی تھا' میرے جیسے ہزاروں لوگوں نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور یہ آج بھی ان سے سیکھ رہے ہیں' ہمارے ملک میں بدقسمتی سے تعلیمی ادارے طالب علموں کو ڈگریوں کے سوا کچھ نہیں دیتے لہٰذا ہم جو کچھ سیکھتے ہیں تعلیم مکمل کرنے کے بعد معاشرے سے سیکھتے ہیں اور وہ بھی اگر ہمیں عملی زندگی میں اچھے لوگ مل جائیں تو۔ میں خوش قسمت ہوں لہٰذا مجھے زندگی کے ہر حصے میں سلیم جیسے اچھے انسان ملے اور قدرت نے بھی مجھے دائیں بائیں نہیں ہونے دیا' میرے ساتھ بے شمار لوگ اس کیریئر میں آئے لیکن وہ صلاحیتوں اور مجھ سے زیادہ محنتی ہونے کے باوجود راستے ہی میں رہ گئے۔
میں آج جب اس کی وجہ تلاش کرتا ہوں تو اﷲ کے خاص کرم اور سینئرز کی رہنمائی کے سوا کوئی تیسری وجہ نظر نہیں آتی' اﷲ اگر مجھ پر رحم نہ کرتا' یہ اگر پتھروں میں بیج کو اگنے کی اجازت نہ دیتا اور یہ اگر میرے سینئرز کے دِلوں میں میرے لیے محبت اور ترس پیدا نہ کرتا تو میں بھی راستے کا رزق بن کر اب تک گم نامی کی قبر کی مٹی بن چکا ہوتا' یہ اس کا خاص رحم اور خاص کرم تھا اس نے مجھے ایسے لوگ دیے جنھوں نے بتاتے اور سکھاتے ہوئے کنجوسی نہیں کی اوریوں میں زندگی کے سفر میں آگے سے آگے بڑھتا چلا گیا مگراس سب کے باوجود میں زندگی کے اس حصے میں ایک عجیب مغالطے کا شکار ہو گیا ہوں' میرے سینئرز ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں' منو بھائی چلے گئے' عباس اطہر چلے گئے' عبدالقادر حسن' امجد اسلام امجد اور اب نذیر ناجی بھی رخصت ہو گئے۔
ان سب کے جانے کے بعد مجھے محسوس ہوتا ہے ہم لوگ کسی کو یاد کرنے' اس کی تعریف کرنے اور اس کے فن اور شخصیت کے مطالعے کے لیے اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں لیکن ہماری اس فراخ دلی کا مرحوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا' ہم اگر آج نذیر ناجی پر پی ایچ ڈی بھی کرا دیں اور سارے لکھاری مل کر بھی ان کی تعریف کر دیں تو بھی انھیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا'سوال یہ ہے ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہم شاید لوگوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں' ہم یہ سوچتے ہیں یہ اگر میری کسی بات سے ناراض ہو گیا تو کیا ہو گا یا ہم نے اگر کسی کی تعریف کر دی تو لوگ مجھے خوشامدی سمجھیں گے وغیرہ وغیرہ اور اس سب سے ہٹ کر شاید ہمارے دل بھی تنگ ہیں' ہم کسی کی تعریف کر کے اسے خوشی نہیں دینا چاہتے لہٰذا ہم اپنے محسنوں اور اپنے استادوں کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں اور یہ لوگ جب دس من مٹی کے نیچے سو جاتے ہیں تو پھر ہم اس خلاء کا رونا شروع کر دیتے ہیں جو ہمارے بقول وہ شخص چھوڑ گیا۔
میں نے نذیر ناجی صاحب پر لکھتے وقت اپنے آپ سے سوال کیا میں نے یہ سطریں ان کی زندگی میں کیوں نہیں لکھیں؟ میرے پاس صرف ایک ہی جواب تھا ''تنگ دلی''۔ میرا دل بھی تنگ تھا لہٰذا میں ناجی صاحب کی تعریف کے لیے ان کے انتقال کا انتظار کرتا رہا' اگلا سوال تھا کیا میں اپنے باقی محسنوں کے ساتھ بھی یہی کروں گا؟ اس کا جواب ہے' نہیں لہٰذا میں عن قریب اپنے محسنوں پر ان کی زندگی میں لکھنا شروع کرنے لگا ہوں اور میرے محسنوں کی اس فہرست میں عطاء الحق قاسمی پہلے نمبر پر آتے ہیں اور میری خواہش ہے میں ان کا قرض ان کی زندگی میں اتار دوں تاکہ یہ کم از کم مجھ سے خوش ہو کر اور راضی ہو کر جائیں۔