یہ سلسلہ یونہی چلے گا
ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا سے مرکز کے خلاف لڑائی لڑی جائے گی
پاکستان کی سولہویں قومی اسمبلی کے 302 نومنتخب اراکین نے شدید ہنگامہ آرائی کی صورت حال میں حلف اٹھا لیا۔ قومی اسمبلی کے اس اجلاس کی انفرادیت یہ تھی کہ اس میں بہت سارے نوجوان پہلی بار رکن منتخب ہوئے ہیں۔ انھوں نے پہلی بار ہی پارلیمنٹ میں شدید ہنگامہ آرائی اور نعرے بازی کا منظر دیکھا کہ جس میں اسپیکر کے لیے ایوان چلانا مشکل ہوگیا۔
ایک منفرد بات یہ بھی تھی کہ ایوان میں ایک سابق صدر اور چار سابق وزیراعظم نے بھی قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھایا اور تین ایسے نو منتخب ارکان قومی اسمبلی بھی حلف اٹھانے والوں میں شامل تھے جو سینیٹر تھے اور انھوں نے سینیٹ سے مستعفی ہوکر قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھایا۔
اجلاس میں پہلی بار خواتین اور مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والوں کی تعداد اس لیے کم تھی کہ الیکشن کمیشن نے بعض ارکان کی رکنیت کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا کہ ان کے مطالبے پر انھیں مخصوص نشستیں ملنا تھیں مگر اس سلسلے میں بروقت فیصلہ نہ ہو سکا اور 336 کے ایوان میں صرف 302 ممبران حلف اٹھاسکے۔
ایوان میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے انتخابی نشان پر منتخب ہونے والا کوئی رکن موجود نہیں تھا کیونکہ دونوں پارٹیوں کے بجائے وہ سب آزادانہ طور پر منتخب ہوکر آئے ہیں اور پہلی بار ایوان میں ایک سیاسی رہنما کا ماسک پہن کر بھی لوگ ایوان میں آئے جیسے کسی سرکس میں اپنے منہ پر مختلف رنگوں کے رنگین ماسک لگاکر آتے اور اپنی حرکتوں سے سامعین کو ہنساتے ہیں۔
نئے منتخب ارکان ایوان میں ہنگاموں کی خبریں پہلے سنا کرتے تھے اور پہلی بار انھوں نے ایوان کو مچھلی منڈی بنتے دیکھا اور یہ ہنگامہ آرائی بھی ان کے اپنے ساتھیوں نے شروع کی جو بانی پی ٹی آئی کے ماسک پہن کر ایوان میں احتجاج کرتے رہے، جنھوں نے مخصوص نشستیں نہ ملنے پر اسپیکر نشست کا گھیراؤ کیا، حالاں کہ اسپیکر راجہ پرویز اشرف نئی قومی اسمبلی کے منتخب اسپیکر نہیں تھے بلکہ وہ گزشتہ قومی اسمبلی کے منتخب اسپیکر تھے اور آئین کے تحت نو منتخب ارکان سے حلف لینے کی ذمے داری ادا کر رہے تھے اور مخصوص نشستیں دینا ان کا کام یا اختیار نہیں تھا مگر پی ٹی آئی ارکان نے خوامخواہ اسپیکر نشست کا غیر ضروری گھیراؤ کیا اور ایوان کو مچھلی منڈی بنائے رکھا حالاں کہ یہ ارکان صرف حلف برداری میں شرکت کے لیے آئے تھے۔
قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان کی حلف برداری میں پی ٹی آئی کے حامیوں کے علاوہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی سمیت دیگر پارٹیوں کے قائدین بھی موجود تھے اور ان کی آمد پر ان کے حامیوں نے ان کے لیے خیر مقدمی نعرے لگائے جو ان کا حق تھا۔ میاں نواز شریف کی آمد پر ان کے حامیوں نے شیر شیر کے نعرے لگائے۔
دوسری جانب نعروں کے جواب میں مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف نے اپنی کلائی سے گھڑی اتارکر ہلانا شروع کی اور ایوان دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف نعروں سے گونجتا رہا۔ پی ٹی آئی کے حامی ایوان میں ایک گھنٹے تک مسلسل نعرے بازی کرتے رہے جب کہ پی پی قائدین کی آمد پر جئے بھٹو کے نعرے بھی لگائے گئے اور ایسی نعرے بازی معمول رہی ہے اور ان کا حق بھی ہے۔
ہر دفعہ جب بھی قومی اسمبلی میں نو منتخب ارکان کی حلف برداری کے لیے پہلا اجلاس ہوا وہاں کبھی بھی ایسی ہنگامہ آرائی نہیں ہوئی جتنی 29 فروری کو قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں ہوئی جہاں تمام نئے و پرانے ارکان کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع ملا۔ ایسے میں ارکان کا یہ خیرسگالی کا موقع ہوتا ہے۔ ایک دوسرے سے متعارف ہوکر مبارک باد دی جاتی ہے اور حلف برداری کا اجلاس ماضی میں ہمیشہ پرسکون اور خوش اسلوبی کے ساتھ منعقد ہوتا رہا ہے۔
جس طرح باورچی پکتی دیگ سے چاول کا ایک دانہ دیکھ کر اندازہ لگالیتے ہیں اس طرح ایک سینئر تجزیہ کار نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ لگتا ہے کہ قومی اسمبلی میں یہی ہوتا رہا جو پہلے روز ہوا تو آیندہ پارلیمنٹ کے باہر ایمبولینسزکھڑی ہوں گی اور ایوان سے زخمی ارکان اسپتال لائے جائیں گے۔تجزیہ کار نئی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کا استقبال دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں اور اس صورت حال کا ذمے دار بانی پی ٹی آئی کو قرار دے رہے ہیں۔ سینئر سیاست دان قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ خان صاحب کا ہمیشہ سے مزاج لڑائی کا رہا ہے۔
ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا سے مرکز کے خلاف لڑائی لڑی جائے گی۔ تقریب حلف برداری میں پی ٹی آئی کے ارکان اپنے بانی کی شکل کے جو ماسک پہن کر آئے وہ ماسک میاں نواز شریف پر اچھالا گیا جو انھیں نہیں لگا اور زمین پر گرنے کے بعد ن لیگی ارکان کے پیروں تلے روندا گیا۔ کیا یہ مناسب تھا، یہ پی ٹی آئی کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے وہ اگر یہی کچھ کرتے رہے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو جمہوریت پر فاتحہ پڑھ لی جائے۔