معتوب کتابیں
ان افسانوں کے مصنفین کو یہ اندازہ تھا کہ ان افسانوں کا ادبی حلقوں میں شدید ردعمل ہوگا
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری بنیادی طور پر سائنس کے طالب علم تھے، انھوں نے آرکیٹیکچر کے مضمون میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ پہلے کوئز کے مقابلوں میں اپنی ذہانت کے جوہر دکھائے۔ تاریخ کے پوشیدہ اوراق کو جمع کرنے میں لگ گئے۔ تاریخ اور حالات حاضرہ پر کتابیں تحریر کرنا شروع کر دیا۔
ابلاغ عامہ میں پوسٹ گریجویشن کیا اور چند سال قبل پاکستان کی اردو فلمی صنعت کی تاریخ پر پرمغز مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ عقیل عباس شاعر بھی ہیں اور صاحب دیوان بھی ہیں۔
عقیل عباس جعفری نے انگریزی میں شایع ہونے والی کتاب '' معتوب کتابیں'' کا ترجمہ کیا ہے اور ہندوستان و پاکستان کے تناظر میں جن کتابوں پر پابندی لگی انھیں بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ کتابوں کے انگریزی مصنفین نکولس جے کارولائیڈس، مارگریٹ بالڈ اور ڈان پی سودا ہیں۔ اس کتاب میں دنیا بھر کی 140 کتابوں کی روداد ہے جو مختلف زبانوں اور مختلف علاقوں میں پابندیوں کا نشانہ بنیں۔
اس کتاب کا ڈاکٹر نکولس کے مضمون سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نکولس کے اس مضمون کا عنوان ''سیاسی بنیادوں پر معتوب ادب '' ہے۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے گزشتہ صدی کی ان کتابوں کا جامع ذکر کیا ہے جن پر پابندی عائد کی گئی ان میں امریکا، یورپی ممالک کے علاوہ برصغیر ہندوستان اور پھر پاکستان میں شایع ہونے والی کتابیں بھی شامل ہیں۔ اس دستاویز میں اہم ترین کتاب کمیونسٹ پارٹی کا منشور ہے۔
عظیم دانشور کارل مارکس اور اینگلز نے یہ کتاب 1842میں برطانیہ سے اور پھر 1872سے امریکا سے شایع ہوئی تھی۔ اینگلز نے اس کتاب کے انگریزی ایڈیشن میں لکھا تھا کہ اس منشور کی تاریخ بڑی حد تک نئے دور کے مزدور طبقے کی تحریک کی آئینہ دار ہے جسے اشتراکی نظریے کی تمام تحریکوں کا نقشِ اول سمجھا جاتا ہے۔ کارل مارکس کی اس کتاب پر پہلے 1843میں پابندی لگی پھر مارکس کو پیرس اور بریسلز سے نکال دیا گیا۔ جرمنی میں اس منشور پر پابندی 1872 میں لگی، پھر کئی یورپی ممالک نے اس کتاب پر پابندی لگا دی۔
اس کتاب کی فہرست میں 127ویں نمبر پر مثنوی زہرِ عشق کا ذکر ہے جو مرزا شوق لکھنوی کی تخلیق تھی۔ یہ کتاب 1860 میں پہلی دفعہ لکھنؤ سے شایع ہوئی تھی۔ حکومت ہند نے اس کو اسٹیج پر پیش کرنے اور مثنوی کو عریاں قرار دے کر اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی تھی۔
ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور کے رہنما منشی پریم چند کا افسانہ سوز وطن 1908میں شایع ہوا تھا۔ سوز وطن کی کہانیوں میں غلامی کے خلاف مزاحمت اور وطن پرستی کے جذبات اور حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے احساسات شدت کے ساتھ موجود تھے جس کی وجہ سے یہ مجموعہ حکومت وقت کی نظر میں آگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ کتاب کی اشاعت کے وقت منشی پریم چند ڈپٹی انسپکٹر مدرس تھے، ضلع میرپور میں تعینات تھے۔ دسمبر 1909 میں منشی صاحب کو میرپور کے کلکٹر نے طلب کیا۔ اس کی میز پر سوزِ وطن کا نسخہ تھا۔
اس نے پریم چند سے پوچھا کہ کتاب تم نے لکھی ہے؟ کتاب میں سے بغاوت کی بو آرہی ہے۔ تم نے اپنی کہانیوں میں انگریز حکومت کی توہین کی ہے۔ پریم چند کے مطابق ان کی کتاب کے نسخوں کو جلا دیا گیا۔ ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سید سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمود مظہر کے نو افسانوں اور ایک ڈرامہ پر مشتمل 134 صفحات کا ایک مجموعہ شایع ہوا جس نے اردو ادب میں انقلاب برپا کر دیا، اس مجموعہ کا نام انگارے تھا۔
انگارے میں شامل ان افسانوں اور ڈراموں میں تنگ نظری اور موقع پرستی کے ساتھ ساتھ بالائی طبقہ کے تضادات ، حفظ اخلاق اور سیاسی رویوں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا۔
ان افسانوں کے مصنفین کو یہ اندازہ تھا کہ ان افسانوں کا ادبی حلقوں میں شدید ردعمل ہوگا مگر مذہبی حلقوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ یوپی کے تمام اخبارات میں اس افسانوی مجموعے کے خلاف مضامین اور ضبطگی کے مطالبات شامل ہوئے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ اس کتاب کے مصنفین کسی معذرت کے خواہاں نہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 1936 میں قائم ہونے والی انجمن ترقی ہند مصنفین کی بنیاد 1932 میں انگارے کی اشاعت کے ساتھ رکھ دی گئی۔
مصنف نے سابقہ صوبہ سرحد کے پریمیئر خان عبدالقیوم خان کی کتاب '' گولڈ اینڈ گنز ان پٹھان فرنٹیئرز ''کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب 1946 میں شایع ہوئی۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ خان عبدالقیوم خان نے خود اس کتاب پر پابندی لگا دی تھی۔ خان عبدالقیوم خان 1937 میں کانگریس کے ٹکٹ پر مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جب کانگریس کے سرکردہ رہنما جیلوں میں تھے خان عبدالقیوم خان کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر بن گئے۔ قیوم خان نے اس کتاب کو کانگریس کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کے نام منسوب کیا تھا۔
اس کتاب میں انھوں نے خان عبدالغفار خان کی بے پناہ تعریف و توصیف کی تھی، وہ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کے بھی مخالف تھے۔ خان عبدالقیوم خان نے بہت بڑی قلابازی کھائی اور مسلم لیگ کے حامی بن گئے۔ 1947 میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو برطرف کیا گیا ۔ خان قیوم صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور خدائی خدمت گار تحریک کے خلاف بیہمانہ آپریشن کیا۔
عظیم افسانہ نگار منٹو کے افسانے پہلے 1942 میں اور پھر 1952میں شایع ہوئے۔ قیام پاکستان سے پہلے منٹو کے تین افسانوں اور پھر قیام پاکستان کے بعد دو افسانوں ٹھنڈا گوشت اور اوپر نیچے درمیان پر فحاشی کے الزام میں مقدمات چلے۔ کھول دو کی اشاعت پر نقوش کو چھ ماہ کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ قیام پاکستان کے بعد منٹو کا پہلا افسانہ ٹھنڈ ا گوشت تھا جو ادبی ماہنامہ جاوید کی مارچ 1949 کی اشاعت میں شایع ہوا۔
7مئی 1949 کو حکومت پنجاب نے منٹو کے علاوہ ماہنامہ جاوید کے مدیر عارف عبدالمتین اور ناشر بصیر انوار کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ پنجاب حکومت نے یہ معاملہ پریس ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش کیا۔ اس بورڈ کے کنوینر پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر عظیم شاعر فیض احمد فیض تھے۔ اس بورڈ میں سول ملٹری گزٹ کے ایف ڈبلیو سیشن زمیندار کے مولانا اختر علی، نوائے وقت کے حمید نظامی، سفینہ کے وقار امبالوی اور جدید نظام کے امین الدین شامل تھے۔ بورڈ کے اراکین نے الزامات کو مسترد کیا۔ فیض نے ٹھنڈا گوشت لفظ کو غیر فحش قرار دیا تھا۔ اس مقدمے کے صفائی کے گواہوں میں سید عابد علی عابد، احمد سعید، ڈاکٹر حلیمہ، عبدالحکیم، ڈاکٹر سعید اﷲ، فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفی تسنیم، ڈاکٹر لطیف شامل تھے۔
عدالت نے منٹو کو 3 ماہ قید، نصیر انور اور عارف عبدالمتین کو 21,21 دن کی سزا سنائی۔ نواب ہوش بار خٹک ( ہوش بلگرامی ) کی کتاب مشاہدات 1955میں بھارت کی ریاست حیدرآباد سے شایع ہوئی تھی۔ یہ کتاب ہوش بلگرامی کی خود نوشت سے زیادہ ان واقعات اور حالات کی عکاسی ہے جس کے وہ خود شاہد تھے۔ یہ وہ دور تھا جب انگریز برصغیر میں خلفشار پھیلا کر جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ حیدرآباد دکن میں آصف جا خاندان کی حکومت بھی ختم ہورہی تھی اور ریاست کا وجود بھی۔ اس کتاب کی اشاعت سے ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
معروف ادیبہ کشور ناہید نے سمول ڈی لورا کی کتاب عورت '' ایک نفسیاتی مطالعہ '' کا ترجمہ کیا۔ انھوں نے عورتوں کو بتایا کہ کس طرح عورتوں کو مردوں کے لیے اپنی خواہشوں اور خوابوں کی قربانیاں دینے کے لیے تیارکیا جاتا ہے۔ عورت اپنی صلاحیتیں اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کردیتی ہے۔ کشور ناہید نے لکھا ہے کہ انھیں گرفتار کرکے حوالات میں لے جایا گیا اور پھر میرا ایس پی دوست پیشگی ضمانت کرا کے واپس لایا۔ مصنف نے ملالہ یوسف زئی کی کتاب '' میں ہوں ملالہ'' کا ذکر کیا ہے۔ ملالہ پر قاتلانہ حملے کے ایک سال بعد 9اکتوبر 2013کو یہ کتاب شایع ہوئی۔
ملالہ نے معروف برطانوی مصنفہ کرسٹینا لیمب کے ساتھ مل کر یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب پر سرکاری طور پر پابندی نہیں لگی مگر پرائیوٹ اسکولوں میں اس کتاب پر پابندی عائد کی تھی۔
اس کے مصنف پنجابی زبان کے ادیب فخر زمان کی کتاب ست گورجے لوگ ، اکرام اﷲ کی کتاب گرگ شب، اسٹینلے والپرٹ کی کتاب پاکستان کا جناح، جسونت سنگھ کی کتاب جناح اتحاد سے تقسیم تک، شوکت حسن رضوی اور احمد منیر کی مشترکہ کتاب نور جہاں اور اس کے علاوہ انگریزی میں شایع ہونے والی کتابوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ شدہ کتاب ہے۔
ابلاغ عامہ میں پوسٹ گریجویشن کیا اور چند سال قبل پاکستان کی اردو فلمی صنعت کی تاریخ پر پرمغز مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ عقیل عباس شاعر بھی ہیں اور صاحب دیوان بھی ہیں۔
عقیل عباس جعفری نے انگریزی میں شایع ہونے والی کتاب '' معتوب کتابیں'' کا ترجمہ کیا ہے اور ہندوستان و پاکستان کے تناظر میں جن کتابوں پر پابندی لگی انھیں بھی اس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ کتابوں کے انگریزی مصنفین نکولس جے کارولائیڈس، مارگریٹ بالڈ اور ڈان پی سودا ہیں۔ اس کتاب میں دنیا بھر کی 140 کتابوں کی روداد ہے جو مختلف زبانوں اور مختلف علاقوں میں پابندیوں کا نشانہ بنیں۔
اس کتاب کا ڈاکٹر نکولس کے مضمون سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نکولس کے اس مضمون کا عنوان ''سیاسی بنیادوں پر معتوب ادب '' ہے۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے گزشتہ صدی کی ان کتابوں کا جامع ذکر کیا ہے جن پر پابندی عائد کی گئی ان میں امریکا، یورپی ممالک کے علاوہ برصغیر ہندوستان اور پھر پاکستان میں شایع ہونے والی کتابیں بھی شامل ہیں۔ اس دستاویز میں اہم ترین کتاب کمیونسٹ پارٹی کا منشور ہے۔
عظیم دانشور کارل مارکس اور اینگلز نے یہ کتاب 1842میں برطانیہ سے اور پھر 1872سے امریکا سے شایع ہوئی تھی۔ اینگلز نے اس کتاب کے انگریزی ایڈیشن میں لکھا تھا کہ اس منشور کی تاریخ بڑی حد تک نئے دور کے مزدور طبقے کی تحریک کی آئینہ دار ہے جسے اشتراکی نظریے کی تمام تحریکوں کا نقشِ اول سمجھا جاتا ہے۔ کارل مارکس کی اس کتاب پر پہلے 1843میں پابندی لگی پھر مارکس کو پیرس اور بریسلز سے نکال دیا گیا۔ جرمنی میں اس منشور پر پابندی 1872 میں لگی، پھر کئی یورپی ممالک نے اس کتاب پر پابندی لگا دی۔
اس کتاب کی فہرست میں 127ویں نمبر پر مثنوی زہرِ عشق کا ذکر ہے جو مرزا شوق لکھنوی کی تخلیق تھی۔ یہ کتاب 1860 میں پہلی دفعہ لکھنؤ سے شایع ہوئی تھی۔ حکومت ہند نے اس کو اسٹیج پر پیش کرنے اور مثنوی کو عریاں قرار دے کر اس کی اشاعت پر پابندی لگا دی تھی۔
ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور کے رہنما منشی پریم چند کا افسانہ سوز وطن 1908میں شایع ہوا تھا۔ سوز وطن کی کہانیوں میں غلامی کے خلاف مزاحمت اور وطن پرستی کے جذبات اور حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے احساسات شدت کے ساتھ موجود تھے جس کی وجہ سے یہ مجموعہ حکومت وقت کی نظر میں آگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ کتاب کی اشاعت کے وقت منشی پریم چند ڈپٹی انسپکٹر مدرس تھے، ضلع میرپور میں تعینات تھے۔ دسمبر 1909 میں منشی صاحب کو میرپور کے کلکٹر نے طلب کیا۔ اس کی میز پر سوزِ وطن کا نسخہ تھا۔
اس نے پریم چند سے پوچھا کہ کتاب تم نے لکھی ہے؟ کتاب میں سے بغاوت کی بو آرہی ہے۔ تم نے اپنی کہانیوں میں انگریز حکومت کی توہین کی ہے۔ پریم چند کے مطابق ان کی کتاب کے نسخوں کو جلا دیا گیا۔ ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سید سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمود مظہر کے نو افسانوں اور ایک ڈرامہ پر مشتمل 134 صفحات کا ایک مجموعہ شایع ہوا جس نے اردو ادب میں انقلاب برپا کر دیا، اس مجموعہ کا نام انگارے تھا۔
انگارے میں شامل ان افسانوں اور ڈراموں میں تنگ نظری اور موقع پرستی کے ساتھ ساتھ بالائی طبقہ کے تضادات ، حفظ اخلاق اور سیاسی رویوں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا تھا۔
ان افسانوں کے مصنفین کو یہ اندازہ تھا کہ ان افسانوں کا ادبی حلقوں میں شدید ردعمل ہوگا مگر مذہبی حلقوں نے آڑے ہاتھوں لیا۔ مصنف کا کہنا ہے کہ یوپی کے تمام اخبارات میں اس افسانوی مجموعے کے خلاف مضامین اور ضبطگی کے مطالبات شامل ہوئے۔ مصنف نے واضح کیا ہے کہ اس کتاب کے مصنفین کسی معذرت کے خواہاں نہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 1936 میں قائم ہونے والی انجمن ترقی ہند مصنفین کی بنیاد 1932 میں انگارے کی اشاعت کے ساتھ رکھ دی گئی۔
مصنف نے سابقہ صوبہ سرحد کے پریمیئر خان عبدالقیوم خان کی کتاب '' گولڈ اینڈ گنز ان پٹھان فرنٹیئرز ''کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب 1946 میں شایع ہوئی۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ خان عبدالقیوم خان نے خود اس کتاب پر پابندی لگا دی تھی۔ خان عبدالقیوم خان 1937 میں کانگریس کے ٹکٹ پر مرکزی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران جب کانگریس کے سرکردہ رہنما جیلوں میں تھے خان عبدالقیوم خان کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر بن گئے۔ قیوم خان نے اس کتاب کو کانگریس کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کے نام منسوب کیا تھا۔
اس کتاب میں انھوں نے خان عبدالغفار خان کی بے پناہ تعریف و توصیف کی تھی، وہ مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کے بھی مخالف تھے۔ خان عبدالقیوم خان نے بہت بڑی قلابازی کھائی اور مسلم لیگ کے حامی بن گئے۔ 1947 میں ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت کو برطرف کیا گیا ۔ خان قیوم صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور خدائی خدمت گار تحریک کے خلاف بیہمانہ آپریشن کیا۔
عظیم افسانہ نگار منٹو کے افسانے پہلے 1942 میں اور پھر 1952میں شایع ہوئے۔ قیام پاکستان سے پہلے منٹو کے تین افسانوں اور پھر قیام پاکستان کے بعد دو افسانوں ٹھنڈا گوشت اور اوپر نیچے درمیان پر فحاشی کے الزام میں مقدمات چلے۔ کھول دو کی اشاعت پر نقوش کو چھ ماہ کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ قیام پاکستان کے بعد منٹو کا پہلا افسانہ ٹھنڈ ا گوشت تھا جو ادبی ماہنامہ جاوید کی مارچ 1949 کی اشاعت میں شایع ہوا۔
7مئی 1949 کو حکومت پنجاب نے منٹو کے علاوہ ماہنامہ جاوید کے مدیر عارف عبدالمتین اور ناشر بصیر انوار کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ پنجاب حکومت نے یہ معاملہ پریس ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش کیا۔ اس بورڈ کے کنوینر پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر عظیم شاعر فیض احمد فیض تھے۔ اس بورڈ میں سول ملٹری گزٹ کے ایف ڈبلیو سیشن زمیندار کے مولانا اختر علی، نوائے وقت کے حمید نظامی، سفینہ کے وقار امبالوی اور جدید نظام کے امین الدین شامل تھے۔ بورڈ کے اراکین نے الزامات کو مسترد کیا۔ فیض نے ٹھنڈا گوشت لفظ کو غیر فحش قرار دیا تھا۔ اس مقدمے کے صفائی کے گواہوں میں سید عابد علی عابد، احمد سعید، ڈاکٹر حلیمہ، عبدالحکیم، ڈاکٹر سعید اﷲ، فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفی تسنیم، ڈاکٹر لطیف شامل تھے۔
عدالت نے منٹو کو 3 ماہ قید، نصیر انور اور عارف عبدالمتین کو 21,21 دن کی سزا سنائی۔ نواب ہوش بار خٹک ( ہوش بلگرامی ) کی کتاب مشاہدات 1955میں بھارت کی ریاست حیدرآباد سے شایع ہوئی تھی۔ یہ کتاب ہوش بلگرامی کی خود نوشت سے زیادہ ان واقعات اور حالات کی عکاسی ہے جس کے وہ خود شاہد تھے۔ یہ وہ دور تھا جب انگریز برصغیر میں خلفشار پھیلا کر جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ حیدرآباد دکن میں آصف جا خاندان کی حکومت بھی ختم ہورہی تھی اور ریاست کا وجود بھی۔ اس کتاب کی اشاعت سے ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
معروف ادیبہ کشور ناہید نے سمول ڈی لورا کی کتاب عورت '' ایک نفسیاتی مطالعہ '' کا ترجمہ کیا۔ انھوں نے عورتوں کو بتایا کہ کس طرح عورتوں کو مردوں کے لیے اپنی خواہشوں اور خوابوں کی قربانیاں دینے کے لیے تیارکیا جاتا ہے۔ عورت اپنی صلاحیتیں اپنے شوہر اور بچوں پر خرچ کردیتی ہے۔ کشور ناہید نے لکھا ہے کہ انھیں گرفتار کرکے حوالات میں لے جایا گیا اور پھر میرا ایس پی دوست پیشگی ضمانت کرا کے واپس لایا۔ مصنف نے ملالہ یوسف زئی کی کتاب '' میں ہوں ملالہ'' کا ذکر کیا ہے۔ ملالہ پر قاتلانہ حملے کے ایک سال بعد 9اکتوبر 2013کو یہ کتاب شایع ہوئی۔
ملالہ نے معروف برطانوی مصنفہ کرسٹینا لیمب کے ساتھ مل کر یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب پر سرکاری طور پر پابندی نہیں لگی مگر پرائیوٹ اسکولوں میں اس کتاب پر پابندی عائد کی تھی۔
اس کے مصنف پنجابی زبان کے ادیب فخر زمان کی کتاب ست گورجے لوگ ، اکرام اﷲ کی کتاب گرگ شب، اسٹینلے والپرٹ کی کتاب پاکستان کا جناح، جسونت سنگھ کی کتاب جناح اتحاد سے تقسیم تک، شوکت حسن رضوی اور احمد منیر کی مشترکہ کتاب نور جہاں اور اس کے علاوہ انگریزی میں شایع ہونے والی کتابوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ شدہ کتاب ہے۔