ادارہ شماریات نے گیس کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ 480فیصد قرار دے دیا
اس سے قبل نومبر میں 1100فیصد اضافے کا کہا گیا تھا لیکن اضافہ محض 150فیصد تھا، وزارت توانائی
وفاقی ادارہ برائے شماریات نے گیس کی قیمتوں کے حوالے سے اپنے اعداد و شمار پر نظر ثانی کرتے ہوئے حالیہ ہونے والے اضافے کو 480 فیصد قرار دیا ہے جبکہ اس سے قبل ادارے نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے ماہ نومبر میں گیس کی قیمتوں میں 1100 فیصد اضافہ کیا۔
وزارت توانائی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اضافہ محض 150 فیصد تھا اور دوسری وجہ فروری کے دوران افراط زر کی شرح میں کمی کا واقع ہونا ہے جس کی وجہ سے بھی گیس قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے اعداد و شمار میں 57 فیصد کی کٹوتی یعنی نچلے طبقے کے لیے 1108 فیصد سے کم ہو کر 480 فیصد رہ گئی ہے۔
عہدہ چھوڑنے سے قبل سابق وزیر توانائی محمد علی نے وزیر منصوبہ بندی سمیع سعید کو خط لکھا تھا۔ محمد علی نے حالیہ اجلاسوں کے دوران پٹرولیم ڈویژن کے مشاہدات کی روشنی میں افراط زر کے اعداد و شمار کو ایڈجسٹ کرنے ی ہدایت کی تھی۔
پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے قیمتوں میں 1109 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ماہانہ 17 ہزار 732 روپے تک کماتے ہیں لیکن پی بی ایس نے کبھی بھی گراوٹ کے بارے میں اعلان نہیں کیا اور خاموشی سے نئے اعداد و شمار کی بنیاد پر فروری کے تیسرے ہفتے کے لیے حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) کی رپورٹ جاری کی۔
چیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے دعویٰ کیا کہ پی بی ایس نے گیس کی قیمتوں میں کوئی ایڈجسٹمنٹ نہیں کی، گیس کی قیمتوں میں اس کمی نے فروری میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں بھی کمی میں کردار ادا کیا جو تقریبا ڈیڑھ سال کی کم ترین سطح 23.1 فیصد پر آ گیا۔ افراط زر کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار پاکستان کے قرضوں کی پائیداری پر سنگین اثرات مرتب کرتے ہیں کیونکہ مرکزی بینک مجموعی افراط زر کی شرح کی روشنی میں شرح سود کا تعین کرتا ہے۔ ایک فیصد زیادہ شرح سود سے موجودہ قرضوں پر سالانہ 260 ارب سے 280 ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔
نگراں حکومت نے فی صارف 465 روپے سے 2000 روپے کے درمیان فکسڈ ماہانہ چارجز عائد کیے تھے اور ان کا خیال ہے کہ فکسڈ چارجز قیمتوں میں اضافے کے حساب کا حصہ نہیں ہونا چاہیے لیکن پی بی ایس نے اپنے حساب میں فکسڈ چارجز کو شامل کیا۔
وسری بات یہ ہے کہ وزارت توانائی کا دعویٰ ہے کہ صارفین کی اکثریت قیمتوں میں اضافے سے مستثنیٰ ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے ہوئے ٹیکنیکل کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس مرحلے پر طریقہ کار میں کوئی نظر ثانی نہیں کی جائے گی۔
پٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ ہیکومیٹر میں کھپت انرجی یونٹس میں تبدیل نہیں ہوتی جو ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ ان تمام عوامل جن پر غور نہیں کیا گیا کے نتیجے میں بلوں کی رقم کا غلط حساب لگایا گیا ہے۔
پٹرولیم ڈویژن کے مطابق کم سے کم گیس استعمال کرنے والے ایسے تمام صارفین کے لیے ٹیرف میں اضافہ 30 سے 100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے درمیان ہے اور ان صارفین پر فکسڈ چارج کا اطلاق بھی دیگر صارفین کے مقابلے میں آدھا یا اس سے بھی کم ہے۔
وزارت توانائی نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اضافہ محض 150 فیصد تھا اور دوسری وجہ فروری کے دوران افراط زر کی شرح میں کمی کا واقع ہونا ہے جس کی وجہ سے بھی گیس قیمتوں میں کمی ہوئی ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے اعداد و شمار میں 57 فیصد کی کٹوتی یعنی نچلے طبقے کے لیے 1108 فیصد سے کم ہو کر 480 فیصد رہ گئی ہے۔
عہدہ چھوڑنے سے قبل سابق وزیر توانائی محمد علی نے وزیر منصوبہ بندی سمیع سعید کو خط لکھا تھا۔ محمد علی نے حالیہ اجلاسوں کے دوران پٹرولیم ڈویژن کے مشاہدات کی روشنی میں افراط زر کے اعداد و شمار کو ایڈجسٹ کرنے ی ہدایت کی تھی۔
پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے قیمتوں میں 1109 فیصد اضافہ ہوا ہے جو ماہانہ 17 ہزار 732 روپے تک کماتے ہیں لیکن پی بی ایس نے کبھی بھی گراوٹ کے بارے میں اعلان نہیں کیا اور خاموشی سے نئے اعداد و شمار کی بنیاد پر فروری کے تیسرے ہفتے کے لیے حساس قیمت انڈیکس (ایس پی آئی) کی رپورٹ جاری کی۔
چیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے دعویٰ کیا کہ پی بی ایس نے گیس کی قیمتوں میں کوئی ایڈجسٹمنٹ نہیں کی، گیس کی قیمتوں میں اس کمی نے فروری میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں بھی کمی میں کردار ادا کیا جو تقریبا ڈیڑھ سال کی کم ترین سطح 23.1 فیصد پر آ گیا۔ افراط زر کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار پاکستان کے قرضوں کی پائیداری پر سنگین اثرات مرتب کرتے ہیں کیونکہ مرکزی بینک مجموعی افراط زر کی شرح کی روشنی میں شرح سود کا تعین کرتا ہے۔ ایک فیصد زیادہ شرح سود سے موجودہ قرضوں پر سالانہ 260 ارب سے 280 ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔
نگراں حکومت نے فی صارف 465 روپے سے 2000 روپے کے درمیان فکسڈ ماہانہ چارجز عائد کیے تھے اور ان کا خیال ہے کہ فکسڈ چارجز قیمتوں میں اضافے کے حساب کا حصہ نہیں ہونا چاہیے لیکن پی بی ایس نے اپنے حساب میں فکسڈ چارجز کو شامل کیا۔
وسری بات یہ ہے کہ وزارت توانائی کا دعویٰ ہے کہ صارفین کی اکثریت قیمتوں میں اضافے سے مستثنیٰ ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے ہوئے ٹیکنیکل کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس مرحلے پر طریقہ کار میں کوئی نظر ثانی نہیں کی جائے گی۔
پٹرولیم ڈویژن نے کہا کہ ہیکومیٹر میں کھپت انرجی یونٹس میں تبدیل نہیں ہوتی جو ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ ان تمام عوامل جن پر غور نہیں کیا گیا کے نتیجے میں بلوں کی رقم کا غلط حساب لگایا گیا ہے۔
پٹرولیم ڈویژن کے مطابق کم سے کم گیس استعمال کرنے والے ایسے تمام صارفین کے لیے ٹیرف میں اضافہ 30 سے 100 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے درمیان ہے اور ان صارفین پر فکسڈ چارج کا اطلاق بھی دیگر صارفین کے مقابلے میں آدھا یا اس سے بھی کم ہے۔