پاکستان ایک نظر میں ایک گزارش
کہیں ایسا نہ ہو وہ قوتیں جو اس ملک کو ختم کرنے کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں وہ کامیاب ہوجائیں۔
اگر حضور برا نہ منائیں تو ذرا غور فرمائیے،
جب لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو پاکستان بین الااقوامی کھیل کے دروازے بند ہوگئے جس کے بعد کوئی ملک بھی اپنی ٹیم کو یہاں بھیجنے پر تیار نہیں ہے نتیجتاً ہمارے کھیل کے میدان ویران ہو گئے ۔ پھر باہر سے آنے والوں سیاہوں پر حملہ ہوا جس کے بعدکوئی غیر ملکی یہاں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ تباہ ہو تا جارہا ہے ۔پھر بے چارے پولیو کے قطرے پلانے والوں اور ان کے محافظوں کو قتل کردیا گیا جس کی وجہ سے کئی بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہ گئے ۔نتیجتاً پاکستان سے بیرون ملک پولیو وائرس کی منتقلی روکنے کے لئے عالمی ادارہ صحت نے بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کے لئے پولیو سرٹیفکیٹ لازمی قرار دے دیا ۔اور اب ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایئرپورٹ پر اچانک حملہ ہوجاتا ہے آپ نے سوچا اس کا کیا اثر ہوگا؟ کیا ہم مزید عالمی تنہائی میں چلیں جائیں گے؟ کہیں اب ہمارے ملک آنے والی بیرونی پروازیں نہ رک جائیں اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس ملک کے لئے یہ بدترین دن ہوگا۔
یہ ساری صورت حال دیکھ کر سمجھ نہیں آتا ہنسوں یا رئووں،خاموش رہوں یا شور مچائوں۔ موجودہ حالات کی ذمہ داری ڈالوں تو کس پر ڈالوں؟ ملک کی سا لمیت کا سوال کروں تو کس سے کروں؟ اس ملک کا خیر خواہ سمجھوں تو کس کو سمجھوں؟ فوج کی طرف دیکھوں یاسیاستدانوں کی طرف؟
ایک لمحے کے لئے سوچا چلو اپنی فوج سے ا لتجاء اور فریاد کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کو مزید تباہی سے بچالیں آخر کار ہماری فوج دنیا کی چند بڑی اور با صلاحیت افواج میں سے ایک ہے ۔فوج کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ہمارے ملک کے بجٹ کا ایک کثیر حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے اور انہیں ماضی میں جنگیں لڑنے کا تجربہ بھی حاصل ہے ۔ لیکن خود ان کا جی ایچ کیو محفوظ نہیں اس پر بھی حملہ ہو جاتا ہے۔پھر کچھ عرصے بعد مہران ائیر بیس پر انتہائی قیمتی جہاز تباہ ہو جاتے ہیں ۔ میں کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہماری فوج میں صلاحیت موجود نہیں یہ ہماری افواج ہی تو ہے جو خود سرحدوں پر دن رات پہراہ دیتی ہیں تاکہ ہم سکوں سے سو سکیں۔ لیکن بہرحال کالی بھیڑوں کی یہاں بھی کمی نہیں۔
اب تو سیاستدان ہی امید کی کرن نظر آتے ہیں کیونکہ جیسے جلسے جلوسوں اور ٹیلی ویژن کی ا سکرینوں پر وہ اپنی عقلمندی اور حب الوطنی کے بے باک دعوے کرتے ہیں شاید حقیقیت میں بھی وہ اتنی ہمت او جرات رکھتے ہوں۔ میں نے سوچا چلو جناب آصف زرداری صاحب سے سوال کرتے ہیں کیونکہ وہ اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اچانک ہی خیال آیا کہ انہوں نے تو اپنے پانچ سال ا سیکنڈلوں اور عدالتی کیسوں میں گزار دئیے ہیں اور اس دہشتگردی کے خاتمے کے لئے کوئی اقدام نہ اٹھایا۔ تو پھر مایوس ہو کر اچانک میاں برادرز کا خیال آیا۔
تو پھرجی میں آیا کہ میاں صاحبان سے کیوں نہ اس ملک کی بقا کاسوال کیا جائے کیونکہ انہوں نے انتخابات کے دوران ان حالات کو بہتر کرنے کے وعدے تو اس طرح کے تھے جیسے ان کے پاس اعلیٰ دین کاچراغ ہے اور وہ راتوں رات سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود میاں جی کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانے میں ناکام رہے ہیں ۔ مذاکرات کا ڈرامہ رچا کر صرف وقت کا ضیاع کیا گیا اور اپنے آپ کو ایسے فضول مسئلوں میں الجھایا گیا جن کا ملک کی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں۔ لگتا ہے انہوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں کچھ نہیں سیکھا۔
اب ہاتھ باند کر اور سر جھکا کر میری افوج پاکستان اور سیاستدانوں سے یہی گزارش ہے کہ خدا کے لئے سب ایک جگہ اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں اور اس دہشتگردی کا حل تلاش کریں۔ اگر آپریشن مسئلے کا حل ہے تو فوری طور پر کیا جائے۔ اگر مذاکرات سے یہ بیماری ختم ہوسکتی ہے تو فوری طور پر اس کی دوا کی جائے۔ غرض یہ ہے جو بھی فیصلہ کرنا ہے سالوں اور مہینوں کے بجائے دنوں میں کیا جائے۔کیونکہ اب پانی سر پر سے گزر گیا ہے۔ یہ سوچنے کا نہیں بلکہ عمل کرنے کا وقت ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو وہ قوتیں جو اس ملک کو ختم کرنے کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں وہ کامیاب ہوجائیں۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے جھنڈے آپکی پارلیمنٹ اور جی ایچ کیو پر نہ لہرانے لگیں۔پھر اس وقت سوائے پچھتاوے کے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جب لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ ہوا تو پاکستان بین الااقوامی کھیل کے دروازے بند ہوگئے جس کے بعد کوئی ملک بھی اپنی ٹیم کو یہاں بھیجنے پر تیار نہیں ہے نتیجتاً ہمارے کھیل کے میدان ویران ہو گئے ۔ پھر باہر سے آنے والوں سیاہوں پر حملہ ہوا جس کے بعدکوئی غیر ملکی یہاں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ تباہ ہو تا جارہا ہے ۔پھر بے چارے پولیو کے قطرے پلانے والوں اور ان کے محافظوں کو قتل کردیا گیا جس کی وجہ سے کئی بچے پولیو کے قطروں سے محروم رہ گئے ۔نتیجتاً پاکستان سے بیرون ملک پولیو وائرس کی منتقلی روکنے کے لئے عالمی ادارہ صحت نے بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کے لئے پولیو سرٹیفکیٹ لازمی قرار دے دیا ۔اور اب ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے ایئرپورٹ پر اچانک حملہ ہوجاتا ہے آپ نے سوچا اس کا کیا اثر ہوگا؟ کیا ہم مزید عالمی تنہائی میں چلیں جائیں گے؟ کہیں اب ہمارے ملک آنے والی بیرونی پروازیں نہ رک جائیں اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اس ملک کے لئے یہ بدترین دن ہوگا۔
یہ ساری صورت حال دیکھ کر سمجھ نہیں آتا ہنسوں یا رئووں،خاموش رہوں یا شور مچائوں۔ موجودہ حالات کی ذمہ داری ڈالوں تو کس پر ڈالوں؟ ملک کی سا لمیت کا سوال کروں تو کس سے کروں؟ اس ملک کا خیر خواہ سمجھوں تو کس کو سمجھوں؟ فوج کی طرف دیکھوں یاسیاستدانوں کی طرف؟
ایک لمحے کے لئے سوچا چلو اپنی فوج سے ا لتجاء اور فریاد کرتا ہوں کہ وہ اس ملک کو مزید تباہی سے بچالیں آخر کار ہماری فوج دنیا کی چند بڑی اور با صلاحیت افواج میں سے ایک ہے ۔فوج کے پاس دنیا کا جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ہمارے ملک کے بجٹ کا ایک کثیر حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے اور انہیں ماضی میں جنگیں لڑنے کا تجربہ بھی حاصل ہے ۔ لیکن خود ان کا جی ایچ کیو محفوظ نہیں اس پر بھی حملہ ہو جاتا ہے۔پھر کچھ عرصے بعد مہران ائیر بیس پر انتہائی قیمتی جہاز تباہ ہو جاتے ہیں ۔ میں کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہماری فوج میں صلاحیت موجود نہیں یہ ہماری افواج ہی تو ہے جو خود سرحدوں پر دن رات پہراہ دیتی ہیں تاکہ ہم سکوں سے سو سکیں۔ لیکن بہرحال کالی بھیڑوں کی یہاں بھی کمی نہیں۔
اب تو سیاستدان ہی امید کی کرن نظر آتے ہیں کیونکہ جیسے جلسے جلوسوں اور ٹیلی ویژن کی ا سکرینوں پر وہ اپنی عقلمندی اور حب الوطنی کے بے باک دعوے کرتے ہیں شاید حقیقیت میں بھی وہ اتنی ہمت او جرات رکھتے ہوں۔ میں نے سوچا چلو جناب آصف زرداری صاحب سے سوال کرتے ہیں کیونکہ وہ اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اچانک ہی خیال آیا کہ انہوں نے تو اپنے پانچ سال ا سیکنڈلوں اور عدالتی کیسوں میں گزار دئیے ہیں اور اس دہشتگردی کے خاتمے کے لئے کوئی اقدام نہ اٹھایا۔ تو پھر مایوس ہو کر اچانک میاں برادرز کا خیال آیا۔
تو پھرجی میں آیا کہ میاں صاحبان سے کیوں نہ اس ملک کی بقا کاسوال کیا جائے کیونکہ انہوں نے انتخابات کے دوران ان حالات کو بہتر کرنے کے وعدے تو اس طرح کے تھے جیسے ان کے پاس اعلیٰ دین کاچراغ ہے اور وہ راتوں رات سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود میاں جی کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانے میں ناکام رہے ہیں ۔ مذاکرات کا ڈرامہ رچا کر صرف وقت کا ضیاع کیا گیا اور اپنے آپ کو ایسے فضول مسئلوں میں الجھایا گیا جن کا ملک کی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں۔ لگتا ہے انہوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں کچھ نہیں سیکھا۔
اب ہاتھ باند کر اور سر جھکا کر میری افوج پاکستان اور سیاستدانوں سے یہی گزارش ہے کہ خدا کے لئے سب ایک جگہ اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں اور اس دہشتگردی کا حل تلاش کریں۔ اگر آپریشن مسئلے کا حل ہے تو فوری طور پر کیا جائے۔ اگر مذاکرات سے یہ بیماری ختم ہوسکتی ہے تو فوری طور پر اس کی دوا کی جائے۔ غرض یہ ہے جو بھی فیصلہ کرنا ہے سالوں اور مہینوں کے بجائے دنوں میں کیا جائے۔کیونکہ اب پانی سر پر سے گزر گیا ہے۔ یہ سوچنے کا نہیں بلکہ عمل کرنے کا وقت ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو وہ قوتیں جو اس ملک کو ختم کرنے کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں وہ کامیاب ہوجائیں۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے جھنڈے آپکی پارلیمنٹ اور جی ایچ کیو پر نہ لہرانے لگیں۔پھر اس وقت سوائے پچھتاوے کے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔