فلسطین مستقل جنگ بندی ضروری
غزہ میں قتلِ عام سے ثابت ہوچکا کہ مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت ترک نہیں کریں گے
غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے ایک سو پچاس دن مکمل ہوگئے، امداد کے منتظر فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج نے ایک ہفتے میں تیسرا حملہ کردیا۔اس حملے میں پچیس فلسطینی شہید اور متعدد شدید زخمی ہوگئے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں رمضان سے پہلے جنگ بندی نہ ہوئی تو اسرائیل کے لیے صورتحال بہت خطرناک ہوجائے گی۔ اس بات کا انحصار اب حماس پر ہے کہ وہ چھ ہفتوں کے لیے جنگ بندی کی تجاویز کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔ جب کہ اقوام متحدہ کے ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ادارے کے امدادی قافلے کو شمالی غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
دنیا بھر میں انسانیت کا درد رکھنے والے لوگوں کے بھرپور احتجاج کے باوجود اسرائیلی درندگی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، غزہ سے سامنے آنے والے پُر تشدد مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔
بالخصوص کفن میں لپٹی ننھی لاشوں اور بچوں کی تصاویر نے دنیا کو ہلا دیا ہے لیکن اگر کسی کا دل نہیں دہلا تو وہ مغربی ممالک میں صاحبِ اقتدار اسرائیل کی حامی حکومتیں ہیں۔ خوراک کے حصول کے لیے کھڑے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے تازہ ترین حملے نے اسرائیلی ریاست کی جانب سے نہتی اور کمزور آبادی کے خلاف ظلم کو بھی بے نقاب کیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو دنیا بھر کے دباؤ کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہے اور وہ پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک مستقل جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا ایک بار پھرفلسطینیوں کے خون کی ہولی جاری ہے۔ دراصل غزہ کی صورتحال ناقابل بیان ہے اور یہ عالمی برادری کی اخلاقی ناکامی ہے۔
غزہ میں شدید زخمی بچے ہیں، جن کے والدین مر چکے ہیں، زخمی بچوں کی مرہم پٹی اور دلاسہ دینے والا کوئی نہیں، غزہ کے زخموں کا مداوا چند ٹرک بھیجنے سے نہیں ہو گا۔ غزہ میں خواتین، بوڑھے اور بچے بار بار اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں، غزہ میں لوگوں کو چند دنوں میں کئی بار اپنا ٹھکانہ چھوڑنا پڑتا ہے، لوگوں کی اکثریت اپنے اعضاء کھو چکی اور علاج کی سہولتیں بھی میسر نہیں۔
جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم 20 ہزار ٹن بارود کے برابر جب کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی پر گزشتہ 150 دنوں سے جنگ کے دوران اس سے کئی گنا زیادہ بارود گرا چکی ہے، مگر عالمی ضمیر سمیت دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ طاقتور کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔
اسرائیل کی شدید بمباری کے باعث غزہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے اور تباہ شدہ سڑکیں امداد کی ترسیل کو پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی ممکن ہے، تاہم اثرورسوخ رکھنے والے ممالک اس پر عمل درآمد کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ فضائی بمباری سے غزہ کی بیشتر رہائشی عمارتوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔
سول سہولتوں کا ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے حتیٰ کہ اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ کے پچیس لاکھ لوگوں میں سے دو تہائی بے گھر ہوچکے ہیں۔ اب ان لوگوں کی آباد کاری اور بحالی کے کام میں برسوں کی مدت اور اربوں ڈالرکا سرمایہ درکار ہوگا۔
اسرائیل اپنی توسیع پسندی اور فلسطین دشمنی کے جوش میں اس حقیقت کو فراموش کر کے غزہ کو تو نیست و نابود کرچکا ہے لیکن اس جنگ سے ابھی تک اسرائیل کی مستقل سیکیورٹی کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا، کیونکہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام اور مقبوضہ علاقوں پر یہودی بستیاں آباد کرنے کی حکمت عملی ترک کرنے پر آمادہ نہیں اور ہر ممکن طور پر وہاں اپنا تسلط چاہتا ہے۔
اس سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ اسرائیل اپنی بے پناہ عسکری طاقت اور امریکا کی غیر مشروط حمایت کے باوجود حماس کے گڑھ میں داخل ہوکر اپنے اغوا کیے گئے شہریوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بھی اسرائیلی حکومت کی ناکامی ہی سمجھنی چاہیے کہ جنگ شروع کرتے ہوئے اہداف کا تعین توکیا گیا لیکن یہ منصوبہ نہیں بنایا جاسکا کہ ان اہداف کو کیسے حاصل کیا جائے گا یعنی حماس کو کیسے مکمل طور سے تباہ کیا جا سکے گا اور یرغمالی شہریوں کوکیسے بازیاب کروایا جائے گا۔
خود پر انتقام طاری کرنے اور فلسطین دشمنی میں تباہ کاری کو ہتھکنڈا بنانے کی بجائے نیتن یاہو اگر سیاسی بصیرت اور سفارتی چابکدستی سے کام لیتے تو شاید اسرائیل کو پوری دنیا کی مذمت کے علاوہ اس سیاسی و سفارتی ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا کہ ایک طرف حماس کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اسی گروہ سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کو کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کو معلوم ہوچکا ہے کہ غزہ میں پھیلائی گئی تباہ کاری کے باوجود اس کے پاس حماس کو ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ کے شہریوں کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ حماس ان کی دشمن ہے اور اس کی سرکردگی میں نہ تو انھیں امن حاصل ہوگا اور نہ ہی آزادی نصیب ہو سکے گی۔ دنیا کے دیگر خطوں میں رہنے والے لوگ باہر سے اس منظر کو دیکھتے ہوئے شاید یہی کہیں گے کہ اسرائیل کے عتاب سے بچنے کا واحد طریقہ حماس سے نجات حاصل کرنا ہے لیکن غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی جبر کا نشانہ بننے والے لوگ صورتحال کو اس زاویے سے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ حماس نے کم از کم اسرائیل کو چیلنج کیا ہے اور ایک بار پھر فلسطینی مسئلہ کو پوری دنیا کے ایجنڈے پر لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
آسمان سے برسنے والے بارود اور زمین پر فوجی ٹینکوں سے روندے جانے والے انسان کیوں کر ایک ایسے دشمن میں دوست یا انسانی ہمدردی کا کوئی شائبہ دیکھ سکتے ہیں جو ان کی نسل کشی کے لیے کسی بھی انتہا تک جانے پر تیار ہے۔ یہی حماس کی کامیابی اور اسرائیل کی ناکامی ہے۔ اسرائیل کی جنگی کارروائی میں فضائی حملے واحد ' کامیاب ' ہتھکنڈا رہے ہیں۔
غزہ شہر کو خالی کروا کے وہاں فوجی کارروائی کی گئی لیکن اس زمینی آپریشن میں نہ تو اسرائیلی فوج یرغمالیوں تک پہنچ سکی اور نہ ہی سرنگوں کے اس سلسلے کا سراغ لگایا جا سکا جو اسرائیل کے بقول حماس کے جنگجوؤں کی پناہ گاہیں اور عسکری کارروائیوں کے مراکز ہیں۔
درحقیقت اس کارروائی کے دوران اسرائیلی فوجی کثیر تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں دہشت گردوں کا انفرا اسٹرکچر ختم کررہی ہے۔ بربریت کا یہ عالم ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں اسپتالوں کو مظلوم فلسطینیوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔ عالمی تنظیمیں غزہ کو دنیا میں بچوں کے لیے خطرناک ترین جگہ کہہ رہی ہیں۔
غزہ میں قتلِ عام سے ثابت ہوچکا کہ مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت ترک نہیں کریں گے۔ تاریخ کے اوراق دیکھیں تو 1968 میں کیا گیا برطانوی مورخ آرنلڈ جے ٹوئنبی کا قضیہ فلسطین کا تجزیہ اس کے ممکنہ حل کی جانب اشارا کرتا ہے'' اگر فلسطین سلطنت عثمانیہ کے ماتحت رہتا یا وہ 1918میں ایک آزاد ملک ہوتا تو یہودی مہاجرین اتنی بڑی تعداد میں فلسطین کبھی نہ آتے کہ اس سر زمین پر یہودیوں کی تعداد یہاں مقیم عرب فلسطینیوں سے زیادہ ہوجاتی۔'' اگرچہ تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا لیکن اگر ہم چاہیں تو اس سے سیکھ ضرور سکتے ہیں۔
غیر منصفانہ طریقے سے حالات کو معمول پر لانے سے فلسطینیوں کے مصائب ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی عرب مردوں، خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے نشانہ بنا کر ان میں آزادی اور باوقار زندگی گزارنے کی امنگ کوکم کیا جا سکتا ہے۔ فلسطین کی مقامی آبادی کو استعماری سازشوں اور صیہونی درندگی کی وجہ سے ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور یہ کہ یورپ کے یہودیوں نے فلسطین میں ایک ایسی سرزمین پر اپنی ریاست قائم کی جو ان کی نہیں تھی۔
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عارضی معاہدہ مستقل اور طویل المدت امن معاہدے کی راہ ہموار کرے گا۔ اسرائیل کے لیے اس تنازعہ سے نکلنے کا شاید یہی واحد باعزت راستہ ہو گا، البتہ اگر اس نے بمباری جاری رکھنے اور غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کا ارادہ کیا تو یہ جنگ مزید پیچیدہ اور گھناؤنی ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کو مزید جنگ جوئی کی دھمکیاں دینے کی بجائے امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ یہ راستہ فوری جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور حالات معمول پر آنے کے بعد دو ریاستی حل کے لیے عملی اقدامات سے ہی ہموار ہو سکتا ہے۔ یہی اسرائیلی لیڈروں کی بصیرت اور امریکی صدر کی سفارت کاری کا امتحان ہو گا۔ فلسطینیوں کو انصاف فراہم کر کے ہی اس سر زمین پر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں رمضان سے پہلے جنگ بندی نہ ہوئی تو اسرائیل کے لیے صورتحال بہت خطرناک ہوجائے گی۔ اس بات کا انحصار اب حماس پر ہے کہ وہ چھ ہفتوں کے لیے جنگ بندی کی تجاویز کو قبول کرتی ہے یا نہیں۔ جب کہ اقوام متحدہ کے ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ادارے کے امدادی قافلے کو شمالی غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔
دنیا بھر میں انسانیت کا درد رکھنے والے لوگوں کے بھرپور احتجاج کے باوجود اسرائیلی درندگی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، غزہ سے سامنے آنے والے پُر تشدد مناظر دل دہلا دینے والے ہیں۔
بالخصوص کفن میں لپٹی ننھی لاشوں اور بچوں کی تصاویر نے دنیا کو ہلا دیا ہے لیکن اگر کسی کا دل نہیں دہلا تو وہ مغربی ممالک میں صاحبِ اقتدار اسرائیل کی حامی حکومتیں ہیں۔ خوراک کے حصول کے لیے کھڑے نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے تازہ ترین حملے نے اسرائیلی ریاست کی جانب سے نہتی اور کمزور آبادی کے خلاف ظلم کو بھی بے نقاب کیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو دنیا بھر کے دباؤ کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہے اور وہ پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک مستقل جنگ بندی کا کوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا ایک بار پھرفلسطینیوں کے خون کی ہولی جاری ہے۔ دراصل غزہ کی صورتحال ناقابل بیان ہے اور یہ عالمی برادری کی اخلاقی ناکامی ہے۔
غزہ میں شدید زخمی بچے ہیں، جن کے والدین مر چکے ہیں، زخمی بچوں کی مرہم پٹی اور دلاسہ دینے والا کوئی نہیں، غزہ کے زخموں کا مداوا چند ٹرک بھیجنے سے نہیں ہو گا۔ غزہ میں خواتین، بوڑھے اور بچے بار بار اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہیں، غزہ میں لوگوں کو چند دنوں میں کئی بار اپنا ٹھکانہ چھوڑنا پڑتا ہے، لوگوں کی اکثریت اپنے اعضاء کھو چکی اور علاج کی سہولتیں بھی میسر نہیں۔
جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم 20 ہزار ٹن بارود کے برابر جب کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی پر گزشتہ 150 دنوں سے جنگ کے دوران اس سے کئی گنا زیادہ بارود گرا چکی ہے، مگر عالمی ضمیر سمیت دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس لیے کہ طاقتور کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔
اسرائیل کی شدید بمباری کے باعث غزہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے اور تباہ شدہ سڑکیں امداد کی ترسیل کو پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی ممکن ہے، تاہم اثرورسوخ رکھنے والے ممالک اس پر عمل درآمد کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ فضائی بمباری سے غزہ کی بیشتر رہائشی عمارتوں کو تباہ کردیا گیا ہے۔
سول سہولتوں کا ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے حتیٰ کہ اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق غزہ کے پچیس لاکھ لوگوں میں سے دو تہائی بے گھر ہوچکے ہیں۔ اب ان لوگوں کی آباد کاری اور بحالی کے کام میں برسوں کی مدت اور اربوں ڈالرکا سرمایہ درکار ہوگا۔
اسرائیل اپنی توسیع پسندی اور فلسطین دشمنی کے جوش میں اس حقیقت کو فراموش کر کے غزہ کو تو نیست و نابود کرچکا ہے لیکن اس جنگ سے ابھی تک اسرائیل کی مستقل سیکیورٹی کا مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا، کیونکہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام اور مقبوضہ علاقوں پر یہودی بستیاں آباد کرنے کی حکمت عملی ترک کرنے پر آمادہ نہیں اور ہر ممکن طور پر وہاں اپنا تسلط چاہتا ہے۔
اس سے ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ اسرائیل اپنی بے پناہ عسکری طاقت اور امریکا کی غیر مشروط حمایت کے باوجود حماس کے گڑھ میں داخل ہوکر اپنے اغوا کیے گئے شہریوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ یہ بھی اسرائیلی حکومت کی ناکامی ہی سمجھنی چاہیے کہ جنگ شروع کرتے ہوئے اہداف کا تعین توکیا گیا لیکن یہ منصوبہ نہیں بنایا جاسکا کہ ان اہداف کو کیسے حاصل کیا جائے گا یعنی حماس کو کیسے مکمل طور سے تباہ کیا جا سکے گا اور یرغمالی شہریوں کوکیسے بازیاب کروایا جائے گا۔
خود پر انتقام طاری کرنے اور فلسطین دشمنی میں تباہ کاری کو ہتھکنڈا بنانے کی بجائے نیتن یاہو اگر سیاسی بصیرت اور سفارتی چابکدستی سے کام لیتے تو شاید اسرائیل کو پوری دنیا کی مذمت کے علاوہ اس سیاسی و سفارتی ہزیمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا کہ ایک طرف حماس کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف اسی گروہ سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کو کامیابی سمجھا جا رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت کو معلوم ہوچکا ہے کہ غزہ میں پھیلائی گئی تباہ کاری کے باوجود اس کے پاس حماس کو ختم کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
حماس کو ختم کرنے کے لیے غزہ کے شہریوں کو یہ یقین دلانا ضروری ہے کہ حماس ان کی دشمن ہے اور اس کی سرکردگی میں نہ تو انھیں امن حاصل ہوگا اور نہ ہی آزادی نصیب ہو سکے گی۔ دنیا کے دیگر خطوں میں رہنے والے لوگ باہر سے اس منظر کو دیکھتے ہوئے شاید یہی کہیں گے کہ اسرائیل کے عتاب سے بچنے کا واحد طریقہ حماس سے نجات حاصل کرنا ہے لیکن غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی جبر کا نشانہ بننے والے لوگ صورتحال کو اس زاویے سے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ تو یہی سمجھیں گے کہ حماس نے کم از کم اسرائیل کو چیلنج کیا ہے اور ایک بار پھر فلسطینی مسئلہ کو پوری دنیا کے ایجنڈے پر لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
آسمان سے برسنے والے بارود اور زمین پر فوجی ٹینکوں سے روندے جانے والے انسان کیوں کر ایک ایسے دشمن میں دوست یا انسانی ہمدردی کا کوئی شائبہ دیکھ سکتے ہیں جو ان کی نسل کشی کے لیے کسی بھی انتہا تک جانے پر تیار ہے۔ یہی حماس کی کامیابی اور اسرائیل کی ناکامی ہے۔ اسرائیل کی جنگی کارروائی میں فضائی حملے واحد ' کامیاب ' ہتھکنڈا رہے ہیں۔
غزہ شہر کو خالی کروا کے وہاں فوجی کارروائی کی گئی لیکن اس زمینی آپریشن میں نہ تو اسرائیلی فوج یرغمالیوں تک پہنچ سکی اور نہ ہی سرنگوں کے اس سلسلے کا سراغ لگایا جا سکا جو اسرائیل کے بقول حماس کے جنگجوؤں کی پناہ گاہیں اور عسکری کارروائیوں کے مراکز ہیں۔
درحقیقت اس کارروائی کے دوران اسرائیلی فوجی کثیر تعداد میں ہلاک ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ غزہ میں دہشت گردوں کا انفرا اسٹرکچر ختم کررہی ہے۔ بربریت کا یہ عالم ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں اسپتالوں کو مظلوم فلسطینیوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔ عالمی تنظیمیں غزہ کو دنیا میں بچوں کے لیے خطرناک ترین جگہ کہہ رہی ہیں۔
غزہ میں قتلِ عام سے ثابت ہوچکا کہ مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت ترک نہیں کریں گے۔ تاریخ کے اوراق دیکھیں تو 1968 میں کیا گیا برطانوی مورخ آرنلڈ جے ٹوئنبی کا قضیہ فلسطین کا تجزیہ اس کے ممکنہ حل کی جانب اشارا کرتا ہے'' اگر فلسطین سلطنت عثمانیہ کے ماتحت رہتا یا وہ 1918میں ایک آزاد ملک ہوتا تو یہودی مہاجرین اتنی بڑی تعداد میں فلسطین کبھی نہ آتے کہ اس سر زمین پر یہودیوں کی تعداد یہاں مقیم عرب فلسطینیوں سے زیادہ ہوجاتی۔'' اگرچہ تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا لیکن اگر ہم چاہیں تو اس سے سیکھ ضرور سکتے ہیں۔
غیر منصفانہ طریقے سے حالات کو معمول پر لانے سے فلسطینیوں کے مصائب ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی عرب مردوں، خواتین اور بچوں کو بے رحمی سے نشانہ بنا کر ان میں آزادی اور باوقار زندگی گزارنے کی امنگ کوکم کیا جا سکتا ہے۔ فلسطین کی مقامی آبادی کو استعماری سازشوں اور صیہونی درندگی کی وجہ سے ان کی سرزمین سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور یہ کہ یورپ کے یہودیوں نے فلسطین میں ایک ایسی سرزمین پر اپنی ریاست قائم کی جو ان کی نہیں تھی۔
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں عارضی معاہدہ مستقل اور طویل المدت امن معاہدے کی راہ ہموار کرے گا۔ اسرائیل کے لیے اس تنازعہ سے نکلنے کا شاید یہی واحد باعزت راستہ ہو گا، البتہ اگر اس نے بمباری جاری رکھنے اور غزہ پر دوبارہ قبضہ کرنے کا ارادہ کیا تو یہ جنگ مزید پیچیدہ اور گھناؤنی ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کو مزید جنگ جوئی کی دھمکیاں دینے کی بجائے امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ یہ راستہ فوری جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور حالات معمول پر آنے کے بعد دو ریاستی حل کے لیے عملی اقدامات سے ہی ہموار ہو سکتا ہے۔ یہی اسرائیلی لیڈروں کی بصیرت اور امریکی صدر کی سفارت کاری کا امتحان ہو گا۔ فلسطینیوں کو انصاف فراہم کر کے ہی اس سر زمین پر امن قائم کیا جاسکتا ہے۔