رومی کون

محمد نام جلال الدین لقب اور رومی عرفیت تھی۔ عرف عام میں مولانا روم کہا جاتا ہے


Raees Fatima March 08, 2024
[email protected]

محمد جلال الدین رومی حنفی صدیقی قلندرکون تھے؟ اس موضوع پر عبداللہ جاوید نے ایک نہایت وقیع کتاب لکھی ہے، جس کا عنوان ہے '' رومی کون؟ '' جسے اکادمی بازیافت نے نہایت سلیقے سے شایع کیا ہے۔

محمد نام جلال الدین لقب اور رومی عرفیت تھی۔ عرف عام میں مولانا روم کہا جاتا ہے۔ آپ افغانستان کے قدیم شہر '' بلخ'' میں سن 1207 عیسوی میں پیدا ہوئے جو افغانستان کا نہایت پرانا شہر ہے جس کا ذکر مارکو پولو نے بھی کیا ہے اور اسے Noble and Grand City کہا ہے۔ ان کے والد کا نام حضرت بہاالدین ولاد تھا۔

ان کے والد ایک نامور عالم تھے۔ مولانا روم کے وطن کے بارے میں خاص اختلاف ہے۔ تین ملک ان کی پیدائش کا دعویٰ کرتے ہیں افغانستان، ترکستان، ایران۔ لیکن عبداللہ جاوید کی تحقیق کے مطابق مولانا روم کا مقام ولاد آج کے تاجکستان کا ایک گاؤں ''وخش'' ہے۔

مولانا رومی کو مسلم دنیا اتنی تفصیل سے نہیں جانتی جتنا مغربی دنیا جانتی ہے۔ ان پر انگریزی میں ہزاروں کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ ان کی مشہور مثنوی مغرب میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ یہ مثنوی فارسی زبان میں ہے، مشہور فارسی شاعر ''جامی'' کا یہ شعر:

مثنوی مولوی معنوی

ہست قراں در زبانِ پہلوی

عبداللہ جاوید کی کتاب سے کچھ اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ ابواب کی فہرست بہت لمبی ہے۔ اسی لیے مختلف ابواب سے صرف اقتباسات ہی پیش کیے جاسکتے ہیں۔ کتاب بہت معلوماتی ہے اور رومی شناسی میں مدد دیتی ہے۔

(1)۔ رومی کی شہرت اور مقبولیت کا راز صرف اور صرف ان کی رواداری میں چھپا ہے۔ وہ کھلے دل اور روشن ذہن کے بامروت اور نرم مزاج آدمی تھے، اگر ان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ان کا رویہ '' یا مسلمان اللہ اللہ '' ... ''یا برہمن رام رام'' تھا تو بھی بات پوری نہیں ہوگی، کیونکہ آدمیوں میں وہ فرق نہیں کرتے تھے، نیک و بد میں بھی نہیں کیونکہ وہ اچھے برے دونوں طرح کے آدمیوں سے محبت کرتے تھے۔''

(ii)۔ یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ رومی کے شاگردوں کا حلقہ بے حد وسیع تھا اور اس میں نچلے اور اونچے طبقے سے تعلق رکھنے والے شامل تھے۔ مفلس اور نادار طلبا سے جان چھڑانے کی کوشش کرنے کے بجائے رومی ان کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر اپنی جانب سے ان کی خفیہ مالی امداد کرتے تھے۔

نچلے طبقے کے طلبا کو درس دینے یا نچلے طبقے کے افراد سے میل جول کو رومی اپنی شان کے خلاف نہیں خیال کرتے تھے اور نہ ہی اونچے اور مقتدر طبقے کے افراد سے تعلقات پر نازاں ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے لوگوں اورگنہگاروں کو وہ اتنا ہی عزیز رکھتے تھے، جتنا بڑے لوگوں اور نیک ناموں کو۔ ان کو پرواہ نہیں تھی کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچیں گے اور کبھی یہ کوشش نہیں کرتے تھے کہ لوگ انھیں '' پارسا '' سمجھیں۔ص62، ص63۔

(iii)۔ مولانا جلال الدین رومی کی خانگی زندگی کے بارے میں جو معلومات ملتی ہیں، ان کے مطابق ان کی پہلی بیگم گوہر خانم تھیں جو 1242 میں فوت ہوگئیں۔ ان کے بطن سے علاؤ الدین اور سلطان ولاد پیدا ہوئے۔ گوہر خانم کے بعد رومی نے قراخانم سے شادی کی جن کے بطن سے ایک لڑکا مظفر اور لڑکی ملکہ پیدا ہوئے۔'' ص94

رومی کی زندگی میں اگر حضرت شمس تبریزی نہ آتے تو رومی کبھی اپنی شہرۂ آفاق مثنوی نہ لکھ پاتے۔ حضرت شمس تبریزی ان کے پیرو مرشد تھے جنھوں نے رومی کو ظاہری کے بجائے باطنی علوم کی طرف راغب کیا۔ حضرت شمس تبریزی اور مولانا رومی کی صحبت عشق الٰہی، محبت الٰہی، معرفت الٰہی اور تصوف کے سمندر میں چھپے ہوئے موتیوں کو سامنے لاتی ہے، رومی دنیا سے بیگانہ ہو کر صرف اپنے مرشد کے ہو کر رہ گئے تھے۔

ایک دن بدخواہوں کی باتوں سے تنگ آ کر حضرت شمس تبریز چپکے سے قونیہ سے چلے گئے، ان کی جدائی کے صدمے سے رومی دوچار ہوئے تو '' مثنوی'' جیسی شاہکار نظم سامنے آئی جس نے مغربی مفکرین کو حیران کر دیا، وہ ان کے دیوانے ہوگئے۔ ان کا یہ شعر شمس تبریز کی اہمیت کا احاطہ کرتا ہے۔

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم

تا غلام شمس تبریزی نہ شد

یعنی رومی ہرگز مولانا روم نہ بنتا اگر شمس تبریز کی غلامی نہ کرتا۔

(iv) رومی کی زندگی میں انقلابی تبدیلی کا مرحلہ 1244 عیسوی میں اس وقت پیش آیا جب اس کی ملاقات ایک جہاں گرد صاحب اسرار سے ہوئی جو شمس تبریزی کہلاتا تھا۔ رومی اس وقت پینتیس برس کا واعظ اور عالم تھا جیساکہ اس کے باپ دادا تھے، دونوں باہم برقیاتی دوستی میں تین برس رہے۔ محب، محبوب یا پیر و مرید، کبھی واضح نہ ہو سکا، رومی صاحب اسرار ہوگئے۔ تین برس بعد شمس تبریزی غائب ہوگئے یا ممکن ہے رومی کے کسی حاسد بیٹے کے ہاتھوں مارے گئے ہوں۔'' ص68، ص69۔

عبداللہ جاوید نے ایک پوراباب '' ذکر شمس تبریزی'' کے عنوان سے لکھا ہے چند اشعار پیش خدمت ہیں:

ہمہ عالم ہسان شمس تبریز

پذیر سایۂ چتراست مارا

ترجمہ: سارا عالم شمس تبریز کی طرح ہمارے آسمان کی چھت کے نیچے ہے۔

ای فخردین شمس تبریز

جان و دلِ من ترا غلام است

ترجمہ: اے دین کے فخر شمس تبریز ، میری روح و دل تیرے غلام ہیں۔

مردہ بدم زندہ شدم گریہ بدم خندہ شدم

دولت عشق آمد ومن دولت پائندہ شدم

ترجمہ: مردہ تھا، زندہ ہوا، گریاں تھا خندہ ہوا، عشق کی دولت ملی، میں ہمیشہ کے لیے دولت مند ہو گیا۔ص119۔

(v)۔ '' پہلی ہی ملاقات میں عالم اور درویش اس طرح طے کرکے ایک ہوگئے۔ زبانی روایات کے مطابق رومی کی شمس تبریز کے بارے میں سوچ اس انداز کی تھی '' میں خدا کے بارے میں سوچا کرتا تھا آج وہ انسان کے روپ میں مل گیا۔'' ص131

(vi)۔ '' اس وقت جلال الدین رومی کی عمر پینتیس برس اور شمس تبریزکی ساٹھ کے قریب تھی، بڑی عمر والے نے محسوس کیا کہ لوگوں خاص طور پر مولانا روم کے شاگردوں کو یہ صورت حال ناگوار گزر رہی تھی چنانچہ وہ جس طرح اچانک آئے تھے اسی طرح اچانک چلے گئے۔ این میری شمل کا اصرار ہے کہ شمس کے یوں غائب ہو جانے سے مولانا روم کو '' جدائی'' کے کرب سے آشنا کیا، وہ شاعر ہوگئے۔ شاعری کے علاوہ جذب، حال، بے خودی، وجد اور استغراق کے روحانی اور باطنی تجربوں سے بھی دوچار ہوئے، کہا جاتا ہے کہ عالم وجد میں وہ اشعار پڑھتے اور حالت اضطراب میں چکر لگاتے، ترکی میں اس کو '' درویشوں کا رقص'' کہا جاتا ہے۔''ص132

رومی کی تین تصانیف ہیں:

(۱)۔ فیہ مافیہ، فارسی میں ہے۔ (۲)۔ دیوان شمس تبریز۔ (۳)۔ مثنوی مولانا روم جس کا شمار دنیا کی 100 بہترین کتابوں میں ہوتا ہے جسے شہرت عام اور بقائے دوام نصیب ہوئی۔

(vi)۔ ''اصل معاملہ یہ تھا کہ حضرت شمس حضرت رومی کو عام مولاناؤں کے رستے سے ہٹا کر ایک ایسے رستے پر لے گئے جو الگ ہی راستہ تھا، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حضرت شمس نے جو کہا اور کر رہے تھے وہ بھی سر مخفی نہ رہا اور آج تک ہے۔'' لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت شمس تبریزکو ان کے پیر بابا کمال الدین جندی نے یہ کہہ کر مولانا کے پاس بھیجا تھا کہ '' روم جاؤ وہاں ایک سوختہ دل ہے، اس کو گرما آؤ۔'' ص106

مولانا رومی کی وفات 1273 عیسوی مطابق 672 ہجری میں قونیہ میں ہوئی، آج کے عہد میں بھی ہر سال رومی کے یوم وفات پر رومی کا مزار اس کے عقیدت مندوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے، جو ''رقص درویشاں'' کی سالانہ رسم میں شرکت کرتے ہیں۔''

(vii)۔ ان کے جنازے کے جلوس میں مسلمان، عیسائی اور یہودی تھے دیگر دھرموں کے ماننے والے بھی ضرور ہوں گے جیسے پارسی وغیرہ۔ اس علاقے کا بادشاہ بھی تھا، سارے شہر نے چالیس دن تک سوگ منایا۔ ان کا یہ شعر دیکھیے جو ان کی شخصیت کی نمایندگی کرتا ہے۔

نہیں میں جانتا خود کو؟ مسلمانو! مجھ کو بتاؤ

یہودی ہوں نہ عیسائی نہ کافر نہ مسلماں ہوں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں