تحریک انصاف کا مخمصہ
ان یوٹیوبرز سے اگر تب ہی اعلان تعلقی کر دیا جاتا جب ان کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا تو شاید تاثر بہتر ہو جاتا
تحریک انصاف کی قیادت کے ایک حصہ کی جانب سے جن میں اسد قیصر اور شیر افضل مروت شامل ہیں نے بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان مخالف پراپیگنڈا کرنے والے دو یوٹیوبرز سے اعلان لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
یہ اعلان لا تعلقی کا اظہار ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے کیا گیا ہے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے چند اور نو منتخب اراکین پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس بارے میں ابہام موجود ہے کہ کیا یہ تحریک انصاف کا پارٹی موقف بھی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ کبھی خبر آتی ہے کہ اسد قیصر سے تمام سیاسی ملاقاتوں اور سیاسی پیش رفت کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ اور پھر کبھی شیر افضل مروت کو بھی سائیڈ لائن کیے جانے کی خبریں آتی ہیں۔
دونوں کی تحریک انصاف میں پوزیشن کے حوالے سے ایک ابہام ضرور موجود ہے۔ تاہم دونوں نے اپنی تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنی ایک پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کو سائیڈ لائن کرنے کی تمام تر کوششیں ابھی مکمل کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن یہ کوششیں ختم بھی نہیں ہوئی ہے۔
میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اسد قیصر اور شیر افضل مروت نے دو یوٹیوبرز سے جو اعلان تعلقی کیا ہے۔ اس کی توثیق تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کی جانب سے ابھی تک نہیں کی گئی۔
اس لیے پتہ نہیں کب یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ان دونوں رہنماؤں کی ذاتی رائے تھی۔ لیکن پھر بھی دوستوں کی رائے ہے کہ تحریک انصاف کے اندر مقتدر حلقوں کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے۔ اور ان دو یوٹیوبرز سے اعلان تعلقی اسی پالیسی کی طرف بڑا قدم ہے ۔
یہ درست ہے کہ یہ دونوں یوٹیوبرز جو بیر ون ملک مقیم ہے ان کی پہچان یہی ہے کہ یہ پاکستان کے اداروں کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں، اداروں کی تضحیک کرتے ہیں۔ ان دونوں کا کورٹ مارشل بھی ہو چکا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں ان دونوں یوٹیوبرزکی پہچان پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف پراپیگنڈا ہے وہاں ان دونوں کا تحریک انصاف اور اس کے بانی کے لیے نرم گوشہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی ان کی حمایت کی جاتی رہی ہے۔
اسی لیے دوستوں کی رائے ہے کہ اب تحریک انصاف اپنی اسٹیبلشمنٹ مخالف حکمت عملی سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے۔ یہ دونوں یوٹیوبرز ویسے تو اس سے پہلے جو لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ کر گئے ہیں' انھیں غدار اوراسٹیبلشمنٹ کا ٹاؤٹ کہتے رہے ہیں۔ جن کو تحریک انصاف کی جانب سے بہت پذیرائی بھی دی جاتی رہی ہے۔ لیکن اب یہ بالخصوص شیر افضل مروت کواسٹیبلشمنٹ کا ٹاؤٹ اور ایجنٹ کہہ رہے ہیں۔
اسی طرح جب اسد قیصر نے اداروں کے ساتھ مفاہمت شروع کی تھی تب بھی ان دونوں نے اسد قیصر کے خلاف بھی اسی قسم کی مہم شروع کی تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسد قیصر کو اپنی مفاہمتی کوششوں میں کافی کامیابی بھی مل رہی تھی۔ لیکن انھوں نے اس ساری کوشش کو اپنی پراپیگنڈے کی طاقت سے ناکام بنا دیا۔
میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کی مزاحمتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں اب تحریک انصاف کے اندر لوگوں کو بھی پڑ گئے ہیں۔
تحریک انصاف چاہتی ہے کہ یہ دونوں یوٹیوبرز اداروں کو تو برا بھلا کہتے رہیں لیکن انھیں کچھ نہ کہیںبلکہ انھیں چھوڑ کر جانے والوں کو برا بھلا کہیں۔ انھیں ایجنٹ کہیں، انھیں غدار کہیں لیکن جو لو گ ابھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں انھیں کچھ نہ کہیں۔
میں اپنی اس دلیل کو اس طرح بھی بیان کر سکتا ہوں کہ صرف یہ دونوں ہی باہر بیٹھ کر پاکستان مخالف پراپیگنڈا نہیں کر رہے۔ اور بھی لوگ ہیں میں یہاں نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ بھی سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بول رہے ہیں۔ لیکن ان سے اعلان تعلقی نہیں کیا گیا۔
تحریک انصاف نے با ضابطہ طور پر یہ اعلان بھی نہیں کیا کہ جو بھی اداروں کے خلاف زبان استعمال کرے گا ہم اس سے اعلان تعلقی کرتے ہیں۔ ان دونوں سے صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ اب انھیں بھی گالی نکال رہے ہیں۔ جب تک اداروں کو نکال رہے تھے ٹھیک تھا۔ اب ان کو خود کو نکال رہے ہیں تو تکلیف ہو رہی ہے۔ اس تکلیف کی وجہ سے اعلان لا تعلقی کیا گیاہے۔ ورنہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ باقی سب کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر ہمیں کچھ کہا تو اعلان تعلقی ہوجائے گا۔
یہ سوال اہم ہے کہ کیا تحریک انصاف واقعی مفاہمت چاہتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تاثر ایسا ضرور دینے کی وقتاً فوقتاً کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ پالیسی کو جاری رکھنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی دوہری حکمت عملی مفاہمت کی راہ میں واقعی بڑی رکاوٹ بھی ہے۔
اب ان یوٹیوبرز سے اگر تب ہی اعلان تعلقی کر دیا جاتا جب ان کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا تو شاید تاثر بہتر ہو جاتا۔لیکن تب تو ان کی حمایت کی گئی۔ اب جب یہ آپ کو ہی گالیاں نکال رہے ہیں تو آپ نے اعلان تعلقی کر دیا ہے۔ یہ آپ اپنا ذاتی دفاع کررہے ہیں اس کا اداروں سے محبت اور احترام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے اداروں کو بھی اس بات کی سمجھ ہے اور شاید سب کو اندازہ ہے۔
یہ اعلان لا تعلقی کا اظہار ایک پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے کیا گیا ہے۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے چند اور نو منتخب اراکین پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس بارے میں ابہام موجود ہے کہ کیا یہ تحریک انصاف کا پارٹی موقف بھی ہے کہ نہیں۔ کیونکہ کبھی خبر آتی ہے کہ اسد قیصر سے تمام سیاسی ملاقاتوں اور سیاسی پیش رفت کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ اور پھر کبھی شیر افضل مروت کو بھی سائیڈ لائن کیے جانے کی خبریں آتی ہیں۔
دونوں کی تحریک انصاف میں پوزیشن کے حوالے سے ایک ابہام ضرور موجود ہے۔ تاہم دونوں نے اپنی تمام تر مخالفتوں کے باوجود اپنی ایک پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں کو سائیڈ لائن کرنے کی تمام تر کوششیں ابھی مکمل کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن یہ کوششیں ختم بھی نہیں ہوئی ہے۔
میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اسد قیصر اور شیر افضل مروت نے دو یوٹیوبرز سے جو اعلان تعلقی کیا ہے۔ اس کی توثیق تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کی جانب سے ابھی تک نہیں کی گئی۔
اس لیے پتہ نہیں کب یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ان دونوں رہنماؤں کی ذاتی رائے تھی۔ لیکن پھر بھی دوستوں کی رائے ہے کہ تحریک انصاف کے اندر مقتدر حلقوں کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی آرہی ہے۔ اور ان دو یوٹیوبرز سے اعلان تعلقی اسی پالیسی کی طرف بڑا قدم ہے ۔
یہ درست ہے کہ یہ دونوں یوٹیوبرز جو بیر ون ملک مقیم ہے ان کی پہچان یہی ہے کہ یہ پاکستان کے اداروں کے خلاف پراپیگنڈا کرتے ہیں، اداروں کی تضحیک کرتے ہیں۔ ان دونوں کا کورٹ مارشل بھی ہو چکا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں ان دونوں یوٹیوبرزکی پہچان پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف پراپیگنڈا ہے وہاں ان دونوں کا تحریک انصاف اور اس کے بانی کے لیے نرم گوشہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی ان کی حمایت کی جاتی رہی ہے۔
اسی لیے دوستوں کی رائے ہے کہ اب تحریک انصاف اپنی اسٹیبلشمنٹ مخالف حکمت عملی سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے۔ یہ دونوں یوٹیوبرز ویسے تو اس سے پہلے جو لوگ تحریک انصاف کو چھوڑ کر گئے ہیں' انھیں غدار اوراسٹیبلشمنٹ کا ٹاؤٹ کہتے رہے ہیں۔ جن کو تحریک انصاف کی جانب سے بہت پذیرائی بھی دی جاتی رہی ہے۔ لیکن اب یہ بالخصوص شیر افضل مروت کواسٹیبلشمنٹ کا ٹاؤٹ اور ایجنٹ کہہ رہے ہیں۔
اسی طرح جب اسد قیصر نے اداروں کے ساتھ مفاہمت شروع کی تھی تب بھی ان دونوں نے اسد قیصر کے خلاف بھی اسی قسم کی مہم شروع کی تھی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسد قیصر کو اپنی مفاہمتی کوششوں میں کافی کامیابی بھی مل رہی تھی۔ لیکن انھوں نے اس ساری کوشش کو اپنی پراپیگنڈے کی طاقت سے ناکام بنا دیا۔
میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کی مزاحمتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں اب تحریک انصاف کے اندر لوگوں کو بھی پڑ گئے ہیں۔
تحریک انصاف چاہتی ہے کہ یہ دونوں یوٹیوبرز اداروں کو تو برا بھلا کہتے رہیں لیکن انھیں کچھ نہ کہیںبلکہ انھیں چھوڑ کر جانے والوں کو برا بھلا کہیں۔ انھیں ایجنٹ کہیں، انھیں غدار کہیں لیکن جو لو گ ابھی پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں انھیں کچھ نہ کہیں۔
میں اپنی اس دلیل کو اس طرح بھی بیان کر سکتا ہوں کہ صرف یہ دونوں ہی باہر بیٹھ کر پاکستان مخالف پراپیگنڈا نہیں کر رہے۔ اور بھی لوگ ہیں میں یہاں نام نہیں لینا چاہتا۔ وہ بھی سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بول رہے ہیں۔ لیکن ان سے اعلان تعلقی نہیں کیا گیا۔
تحریک انصاف نے با ضابطہ طور پر یہ اعلان بھی نہیں کیا کہ جو بھی اداروں کے خلاف زبان استعمال کرے گا ہم اس سے اعلان تعلقی کرتے ہیں۔ ان دونوں سے صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ یہ اب انھیں بھی گالی نکال رہے ہیں۔ جب تک اداروں کو نکال رہے تھے ٹھیک تھا۔ اب ان کو خود کو نکال رہے ہیں تو تکلیف ہو رہی ہے۔ اس تکلیف کی وجہ سے اعلان لا تعلقی کیا گیاہے۔ ورنہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ باقی سب کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر ہمیں کچھ کہا تو اعلان تعلقی ہوجائے گا۔
یہ سوال اہم ہے کہ کیا تحریک انصاف واقعی مفاہمت چاہتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ تاثر ایسا ضرور دینے کی وقتاً فوقتاً کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ پالیسی کو جاری رکھنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی دوہری حکمت عملی مفاہمت کی راہ میں واقعی بڑی رکاوٹ بھی ہے۔
اب ان یوٹیوبرز سے اگر تب ہی اعلان تعلقی کر دیا جاتا جب ان کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا تو شاید تاثر بہتر ہو جاتا۔لیکن تب تو ان کی حمایت کی گئی۔ اب جب یہ آپ کو ہی گالیاں نکال رہے ہیں تو آپ نے اعلان تعلقی کر دیا ہے۔ یہ آپ اپنا ذاتی دفاع کررہے ہیں اس کا اداروں سے محبت اور احترام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے اداروں کو بھی اس بات کی سمجھ ہے اور شاید سب کو اندازہ ہے۔