خاموشی اور زبان کی حفاظت
حضوراکرمﷺ نے ارشادفرمایا کہ جوشخص اﷲ تعالیٰ پر اورآخرت کے دن پرایمان رکھتا ہوتو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رہے
عربی زبان کا مشہور محاورہ ہے: ''جو خاموش رہا اس نے سلامتی پائی اور جو سلامت رہا اس نے نجات پائی۔'' اسی سے ملتا جلتا مفہوم بہ طورِ محاورہ کے اردو زبان میں اس طرح ادا کیا جاتا ہے: ''ایک چپ سو سُکھ!'' اور حقیقت بھی یہی ہے اگر انسان خاموش رہنا اور اپنی زبان کی حفاظت کرنا سیکھ لے تو وہ کئی طرح کی آفات و بلیات سے نہ صرف یہ کہ خود مامون رہ سکتا ہے بل کہ اس سے انسانی معاشرے میں زبان کے سبب جنم لینے والے جرائم و نقصانات سے بھی کافی حد تک حفاظت کا سامان کیا جاسکتا ہے۔
ویسے کہنے کو تو زبان ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جس میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن اس کا ناجائز اور غلط استعمال ہڈیاں تڑوا دیتا ہے۔ دنیا میں جس قدر بھی جرائم جنم لیتے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق زبان کی تیزی، فحش کلامی، سخت الفاظ، گالم گلوچ اور طعنہ زنی وغیرہ جیسی معیوب چیزیں ہی ہوتی ہیں اور ان سب چیزوں کا بہ راہِ راست تعلق زبان سے ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کا مشہور شعر ہے جس کا مفہوم ہے:
''نیزوں کے زخم تو مندمل ہوسکتے ہیں لیکن زبان کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔''
اردو کے ایک شاعر نے اس کو نظم کا جامہ یوں پہنایا ہے:
''لگا جو زخم زباں کا رہا ہر دم ہرا۔''
اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اوّل تو وہ وہ خاموش رہا کرے اور زبان سے کوئی فضول بات، کوئی فحش کلام اور کوئی ایسی غلط بات ہرگز نہ نکالے کہ جس سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف ہو اور اُس کا اثر انسان کی اپنی انفرادی زندگی پر یا دوسرے انسانوں کی معاشرتی و اجتماعی زندگی پر بالواسطہ یا بلا واسطہ پڑتا ہو، دوسرے اگر کبھی بولنا پڑ بھی جائے تو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ خیر اور بھلائی ہی کی بات زبان سے نکلنے کوئی دوسری لغو اور فضول قسم کی بات زبان سے نہ نکلنے پائے کہ اسی میں آدمی کے دین و دنیا کی بھلائی اور ایمان کی سلامتی مضمر ہے۔
حضورِ اقدس ﷺ کے بارے میں حضرت ابومالک اشجعیؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضور ﷺ کی مجلس میں حاضر ہُوا کرتے تھے اور اس وقت ہم لوگ نوجوان لڑکے تھے، میں نے حضور ﷺ سے زیادہ خاموش رہنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ جب آپؐ کے صحابہؓ آپس میں گفت گو کرتے اور بہت زیادہ باتیں کرتے تو آپ ﷺ سن کر مسکرا دیتے۔ (معجم طبرانی)
حضرت سماکؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہؓ سے پوچھا کہ آپ حضور ﷺ کی مجلس میں حاضری دیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! اور حضور ﷺ اکثر اوقات خاموش رہا کرتے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت خالد بن نمیرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسرؓ بہت زیادہ خاموش، غمگین اور بے چین رہتے اور عام طور پر فرمایا کرتے کہ میں اﷲ تعالیٰ کی آزمائش سے اسی کی پناہ چاہتا ہوں۔ (حلیۃ الاولیائ)
حضرت ابو ادریس خولانیؒ کہتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک بزرگ دیکھے جن کے سامنے کے دانت بہت چمک رہے تھے اور وہ بہت زیادہ خاموش رہنے والے تھے اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے ان کی کیفیت یہ تھی کہ ان کا آپس میں کسی معاملہ میں اختلاف ہوجاتا تو وہ اسے ان کے سامنے پیش کرتے اور پھر یہ اس معاملہ میں جو فیصلہ کرتے سب اس سے مطمئن ہوجاتے، میں نے پوچھا یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت معاذ بن جبلؓ ہیں۔ (مستدرک حاکم)
حضرت اسلمؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی طرف جھانک دیکھا تو وہ اپنی زبان کھینچ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: اے رسول اﷲ ﷺ کے خلیفہ! آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔ ؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اسی نے تو مجھے ہلاکت کی جگہوں پر لا کھڑا کیا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا ہے جسم کا ہر عضو زبان کی تیزی کی شکایت کرتا ہے۔ (مسند ابی یعلی)
حضرت عیسیٰ بن عقبہؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! روئے زمین پر کوئی چیز ایسی نہیں جسے زبان سے زیادہ عمر قید کی ضرورت ہو۔ (حلیۃ الاولیائ) نیز آپؓ نے فرمایا کہ میں تمہیں بے کار باتیں کرنے سے ڈراتا ہوں اور بہ قدرِ ضرورت بات کرنا ہی تمہارے لیے کافی ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ خطائیں ان لوگوں کی ہوں گی جو دنیا میں فضول بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ (معجم طبرانی)
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ زبان سارے بدن کی اصلاح کی بنیاد ہے، جب زبان ٹھیک ہوجائے تو سارے اعضاء ٹھیک ہوجاتے ہیں اور جب زبان بے قابو ہوجائے تو تمام اعضاء بے قابو ہوجاتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اپنی شخصیت کو چُھپا پھر تیرا ذکر نہیں ہُوا کرے گا (اور تُو بگڑنے سے بچ جائے گا) اور خاموشی اختیار کر تو سلامتی میں رہے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ خاموشی جنّت کی طرف بلانے والی ہے۔ (اخرجہ ابن ابی الدنیا)
حضرت ابودردائؓ فرماتے ہیں کہ جیسے تم لوگ بات کرنا سیکھتے ہو ایسے ہی خاموش رہنا بھی سیکھو! کیوں کہ خاموش رہنا بہت بڑی برد باری ہے! اور تمہیں بولنے سے زیادہ سننے کا شوق ہونا چاہیے اور کبھی لایعنی کا بول نہ بولو! ہنسی کی بات کے بغیر خواہ مخواہ مت ہنسو! اور بلاضرورت کسی جگہ مت جاؤ!۔ (تاریخ ابن عساکر، کنز العمال)
آپؓ مزید فرماتے ہیں کہ مؤمن کے جسم میں کوئی عضو اﷲ تعالیٰ کو اس کی زبان سے زیادہ محبوب نہیں، اسی کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ اور کافر کے جسم میں کوئی عضو اﷲ تعالیٰ کو اس کی زبان سے زیادہ مبغوض نہیں ، اسی کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ (حلیۃ الاولیائ)
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ بندے کو سب سے زیادہ جس عضو کو پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ اس کی زبان ہے۔ (حلیۃ الاولیائ)
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ کوئی بندہ اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی زبان کی حفاظت نہ کرے۔ (طبقات ابن سعد)
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا کہ (تمام) مسلمانوں میں (سب سے) اچھا مسلمان کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا رسانی) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (صحیح بخاری)
ایک حدیث میں آیا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(بخاری و مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور اپنی دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرم گاہ) کی (حفاظت کی) ضمانت دیدے ( کہ وہ انہیں بے جا اور غلط استعمال نہیں کرے گا) تو میں اسے جنّت ( میں داخل ہونے ) کی ضمانت دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
ویسے کہنے کو تو زبان ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جس میں ہڈی نہیں ہوتی لیکن اس کا ناجائز اور غلط استعمال ہڈیاں تڑوا دیتا ہے۔ دنیا میں جس قدر بھی جرائم جنم لیتے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق زبان کی تیزی، فحش کلامی، سخت الفاظ، گالم گلوچ اور طعنہ زنی وغیرہ جیسی معیوب چیزیں ہی ہوتی ہیں اور ان سب چیزوں کا بہ راہِ راست تعلق زبان سے ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ کا مشہور شعر ہے جس کا مفہوم ہے:
''نیزوں کے زخم تو مندمل ہوسکتے ہیں لیکن زبان کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوسکتا۔''
اردو کے ایک شاعر نے اس کو نظم کا جامہ یوں پہنایا ہے:
''لگا جو زخم زباں کا رہا ہر دم ہرا۔''
اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اوّل تو وہ وہ خاموش رہا کرے اور زبان سے کوئی فضول بات، کوئی فحش کلام اور کوئی ایسی غلط بات ہرگز نہ نکالے کہ جس سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف ہو اور اُس کا اثر انسان کی اپنی انفرادی زندگی پر یا دوسرے انسانوں کی معاشرتی و اجتماعی زندگی پر بالواسطہ یا بلا واسطہ پڑتا ہو، دوسرے اگر کبھی بولنا پڑ بھی جائے تو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ خیر اور بھلائی ہی کی بات زبان سے نکلنے کوئی دوسری لغو اور فضول قسم کی بات زبان سے نہ نکلنے پائے کہ اسی میں آدمی کے دین و دنیا کی بھلائی اور ایمان کی سلامتی مضمر ہے۔
حضورِ اقدس ﷺ کے بارے میں حضرت ابومالک اشجعیؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضور ﷺ کی مجلس میں حاضر ہُوا کرتے تھے اور اس وقت ہم لوگ نوجوان لڑکے تھے، میں نے حضور ﷺ سے زیادہ خاموش رہنے والا کسی کو نہیں دیکھا۔ جب آپؐ کے صحابہؓ آپس میں گفت گو کرتے اور بہت زیادہ باتیں کرتے تو آپ ﷺ سن کر مسکرا دیتے۔ (معجم طبرانی)
حضرت سماکؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہؓ سے پوچھا کہ آپ حضور ﷺ کی مجلس میں حاضری دیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! اور حضور ﷺ اکثر اوقات خاموش رہا کرتے تھے۔ (مسند احمد)
حضرت خالد بن نمیرؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسرؓ بہت زیادہ خاموش، غمگین اور بے چین رہتے اور عام طور پر فرمایا کرتے کہ میں اﷲ تعالیٰ کی آزمائش سے اسی کی پناہ چاہتا ہوں۔ (حلیۃ الاولیائ)
حضرت ابو ادریس خولانیؒ کہتے ہیں کہ میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا تو میں نے وہاں ایک بزرگ دیکھے جن کے سامنے کے دانت بہت چمک رہے تھے اور وہ بہت زیادہ خاموش رہنے والے تھے اور ان کے ساتھ جو لوگ تھے ان کی کیفیت یہ تھی کہ ان کا آپس میں کسی معاملہ میں اختلاف ہوجاتا تو وہ اسے ان کے سامنے پیش کرتے اور پھر یہ اس معاملہ میں جو فیصلہ کرتے سب اس سے مطمئن ہوجاتے، میں نے پوچھا یہ بزرگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضرت معاذ بن جبلؓ ہیں۔ (مستدرک حاکم)
حضرت اسلمؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی طرف جھانک دیکھا تو وہ اپنی زبان کھینچ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: اے رسول اﷲ ﷺ کے خلیفہ! آپ کیا کر رہے ہیں۔۔۔۔ ؟ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: اسی نے تو مجھے ہلاکت کی جگہوں پر لا کھڑا کیا ہے، حضور ﷺ نے فرمایا ہے جسم کا ہر عضو زبان کی تیزی کی شکایت کرتا ہے۔ (مسند ابی یعلی)
حضرت عیسیٰ بن عقبہؒ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! روئے زمین پر کوئی چیز ایسی نہیں جسے زبان سے زیادہ عمر قید کی ضرورت ہو۔ (حلیۃ الاولیائ) نیز آپؓ نے فرمایا کہ میں تمہیں بے کار باتیں کرنے سے ڈراتا ہوں اور بہ قدرِ ضرورت بات کرنا ہی تمہارے لیے کافی ہے۔ اسی طرح فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ خطائیں ان لوگوں کی ہوں گی جو دنیا میں فضول بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ (معجم طبرانی)
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ زبان سارے بدن کی اصلاح کی بنیاد ہے، جب زبان ٹھیک ہوجائے تو سارے اعضاء ٹھیک ہوجاتے ہیں اور جب زبان بے قابو ہوجائے تو تمام اعضاء بے قابو ہوجاتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اپنی شخصیت کو چُھپا پھر تیرا ذکر نہیں ہُوا کرے گا (اور تُو بگڑنے سے بچ جائے گا) اور خاموشی اختیار کر تو سلامتی میں رہے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ خاموشی جنّت کی طرف بلانے والی ہے۔ (اخرجہ ابن ابی الدنیا)
حضرت ابودردائؓ فرماتے ہیں کہ جیسے تم لوگ بات کرنا سیکھتے ہو ایسے ہی خاموش رہنا بھی سیکھو! کیوں کہ خاموش رہنا بہت بڑی برد باری ہے! اور تمہیں بولنے سے زیادہ سننے کا شوق ہونا چاہیے اور کبھی لایعنی کا بول نہ بولو! ہنسی کی بات کے بغیر خواہ مخواہ مت ہنسو! اور بلاضرورت کسی جگہ مت جاؤ!۔ (تاریخ ابن عساکر، کنز العمال)
آپؓ مزید فرماتے ہیں کہ مؤمن کے جسم میں کوئی عضو اﷲ تعالیٰ کو اس کی زبان سے زیادہ محبوب نہیں، اسی کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے۔ اور کافر کے جسم میں کوئی عضو اﷲ تعالیٰ کو اس کی زبان سے زیادہ مبغوض نہیں ، اسی کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل کریں گے۔ (حلیۃ الاولیائ)
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ بندے کو سب سے زیادہ جس عضو کو پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ اس کی زبان ہے۔ (حلیۃ الاولیائ)
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ کوئی بندہ اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنی زبان کی حفاظت نہ کرے۔ (طبقات ابن سعد)
حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا کہ (تمام) مسلمانوں میں (سب سے) اچھا مسلمان کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے ہاتھ اور زبان (کی ایذا رسانی) سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔ (صحیح بخاری)
ایک حدیث میں آیا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(بخاری و مسلم)
ایک دوسری حدیث میں آیا ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان والی چیز (زبان) اور اپنی دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز (شرم گاہ) کی (حفاظت کی) ضمانت دیدے ( کہ وہ انہیں بے جا اور غلط استعمال نہیں کرے گا) تو میں اسے جنّت ( میں داخل ہونے ) کی ضمانت دیتا ہوں۔ (صحیح بخاری)