نئی حکومت معاشی ترقی کے سفر کا آغاز کرے
کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کروا کر اور ایندھن کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر کے کیا جا سکتا ہے
بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کے بینکنگ شعبے کی ریٹنگ منفی سے مستحکم کردی ہے۔ موڈیز کے مطابق رواں سال پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح دو فی صد تک ہوسکتی ہے جب کہ افراط زرکی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں انتیس فی صد سے کم ہوکر تیئس فی صد رہے گی۔
دوسری جانب آیندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ریئل اسٹیٹ، رٹیلرز، آٹو سیکٹر، بلڈرز بڑے اسپتالوں، پیتھالوجیکل لیبارٹریوں، میڈیکل ڈائیگنوسٹک لیبارٹریوں،کلینک، میڈیکل پریکٹشنرز، جم کلب، ہیلتھ کلبوں اور دیگر نوٹیفائی کردہ شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
درحقیقت موڈیز کی جانب سے بینکنگ شعبے کی ریٹنگ کو منفی سے مستحکم کرنے سے ایک مثبت رحجان جنم لے گا۔ دراصل معاشی استحکام ریاستوں کو تازہ خون سپلائی کرتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی حکومت کی نئی ٹیکس پالیسی اور معیشت کے لیے کیے گئے اقدامات کیا مشکلات کا شکار معاشی نظام کو مستحکم کرسکیں گے؟ ملک میں ٹیکس کی وصولی کی شرح بہت کم ہے، اگر پیداواری تناسب سے دیکھا جائے تومحصولات کی شرح کم ہونے کے باعث ریاست اپنے بنیادی فرائض یعنی عوام کی جان اور مال کے تحفظ میں بھرپور اقدامات نہیں کرسکتی، ان حالت میں ان پالیسیوں کی ضرورت ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔
افرادی کھپت کے لیے روزگار مہیا کرنا اورکارخانوں کا قیام ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتے ہیں، جس پر خاطر خوا توجہ کی ضرورت ہے۔ زمینوں اورگھروں کی خرید و فروخت کا جو مروجہ طریقہ پاکستان میں رائج ہے وہ خاصا الجھا ہوا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جس شعبے میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، اس کا مکمل ڈیٹا کسی ادارے کے پاس ہے نہ ہی ایف بی آر کے پاس ہے۔
اس شعبے میں نقد رقم کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں اور سرکار کے پاس وہ رسیدیں آتی ہیں جن کی قیمت بہت کم دکھائی جاتی ہے اور یہ بعض صورتوں میں مارکیٹ ریٹ سے 60 سے 70 فیصد کم ہوتی ہے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال ہر چند سال بعد شدید دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ملک معاشی ترقی کے مختصر ادوار سے گزرتا ہے مگر یہ ترقی کا سفر عام طور پر زیادہ دیر تک نہیں چل پاتا۔ ہر بحران کے بعد حکومتیں ہنگامی اقدامات کرتی ہیں، جس کے بعد استحکام آتا ہے۔ مگر قرضوں، تجارتی خسارے اورکمزور صنعتی پیداوار کے بوجھ تلے معیشت بالآخر لڑکھڑا کرگر پڑتی ہے۔
اس دائمی بیماری سے چھٹکارا پانے اور معیشت کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے قوم کو معاشی اصلاحات کی طاقتور دوا کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کا مناسب استعمال بھی ہونا چاہیے۔ حکومت کی آمدنی میں اضافے اور عوامی خدمات پر اخراجات بڑھانے کے لیے ٹیکس پالیسی پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔
کسی مربوط نظام صحت کا نہ ہونا سارے معاشرے کے لیے ایک خوفناک شکل اختیارکرتا جا رہا ہے۔ نجی اسپتالوں اور لیبارٹریوں نے اپنی من مانی جاری رکھتے ہوئے میڈیکل ٹیسٹوں کے من پسند ریٹ مقررکر رکھے ہیں، جوآلات اور مشینریاں ان کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
وہ بھی زائد المیعاد ہوچکی ہوتی ہیں، جب کہ یہ مشینیں ٹیکس فری منگوائی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ غلط رپورٹس کی وجہ سے مرض کا درست علاج ممکن نہیں رہتا۔ نئی حکومت سب سے پہلے ٹیسٹس کے یکساں ریٹس مقررکروائے۔
ریاست اپنے شہریوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے، جس کا مقصد ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے ایسا ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے، جہاں تمام شہری ایک احساسِ تحفظ کے ساتھ نہ صرف اپنی زندگی بسر کر سکیں بلکہ انھیں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع بھی فراہم ہوں۔تعلیم، حصولِ انصاف اور بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس کے عین برعکس ہے۔
موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے پر توجہ دی جائے۔ زراعت، جسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، کے شعبے کو جدید بنانے کے لیے اصلاحات متعارف کرائی جائیں جن کا ہدف فصلوں کی پیداوار میں اضافہ اور ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہو۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو درآمدات میں کمی اور ہر سال اربوں ڈالرکے زرمبادلہ سے بچانے کے لیے توانائی کی مصنوعات، جیسے پٹرول اور ڈیزل، کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔
یہ کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کروا کر اور ایندھن کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر کے کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی بدحالی کی بڑی وجہ ایندھن کی قیمتوں، بالخصوص پٹرول، ڈیزل اور ایل این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ بیرونی قرضوں کی مدد کے بغیر، کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی اور روپے کی قدر آسمان سے زمین پر آگری۔ پٹرول کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھی مہنگائی کو تکلیف دہ حد تک بڑھا کر معاملات کو مزید خراب کر دیا۔
تاہم، اگر حکومت پاکستان ریفائنرز کے تعاون سے پٹرول اور ڈیزل کی پیداوار بڑھاتی ہے اور ایندھن کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر کے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مابین مسابقت کو فروغ دیتی ہے، تو اس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایسے اقدامات یقینی طور پر معیشت کو مضبوط بنیادوں پر رکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں کاروباری ماحول میں خرابی کی وجہ سے ریفائنریاں بھرپور طریقے سے کام نہیں کر پا رہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کا پٹرول اور ڈیزل کی درآمدات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ تیل صاف کرنے کی صنعت کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ملک کو برآمدات سے امریکی ڈالر میں آمدنی حاصل کرنے سے بھی محروم کر دیتی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ سب سے پہلے، ایک نئی کاروبار دوست آئل ریفائننگ پالیسی متعارف کرائی جائے تاکہ ریفائنریاں اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کر سکیں۔
دوم، صنعت کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرنے والے غیر ضروری قوانین اور ضابطوں کو ختم اور ایندھن کی قیمتوں کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔ حکومت کو اب ایسا ماحول بنانا چاہیے جس میں تیل صاف کرنے والی کمپنیاں اپنے منصوبوں پر جلد از جلد کام مکمل کر سکیں تاکہ ملک کی معیشت درست سمت میں آگے بڑھے، اگر ریفائنریاں بھرپور صلاحیت کے ساتھ کام کریں اور پلانٹس کی توسیع کے منصوبوں پر عمل درآمد کریں، تو پھر ملک کو پٹرول، ڈیزل اور دیگر پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔
اس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کروڑوں امریکی ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ مقامی ریفائنریاں اپنی اضافی پیداوار کو افغانستان، سری لنکا، نیپال اور دوسرے ممالک میں فراہم کر کے خطے میں ایندھن کی بڑھتی ہوئی طلب کو بھی پورا کر کے ملک میں خاطر خواہ زرمبادلہ لا سکتی ہیں۔ درآمدی متبادل اور برآمدی آمدنی کے ساتھ، آئل ریفائنریاں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط کر سکتی ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے مسئلے کو حل کرنے میں بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ایندھن کی قیمتوں کی مکمل ڈی ریگولیشن پاکستان کے تیل کے شعبے میں ایک بڑی مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ فی الحال، پاکستان میں اوگرا (OGRA)،جو کہ ایک حکومتی ادارہ ہے، ایندھن کی قیمتیں طے کرنے کا کام کرتا ہے۔ مگر اوگرا کے بجائے طلب اور رسد کے بنیادی اصولوں کو قیمتوں کا تعین کرنے کی اجازت دے کر، پاکستان پورے پٹرولیم سیکٹر کی صنعت کو زیادہ موثر، زیادہ مسابقتی اور سرمایہ کاری کے لیے زیادہ پرکشش بنا سکتا ہے۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کے ذریعہ آئل مارکیٹنگ اور ریفائننگ کمپنیوں میں جدت آئے گی اور تحقیق کے میدان میں پیشرفت ہوگی۔ اس کے علاوہ،آئل کمپنیوں کے درمیان مسابقت میں اضافے سے صارفین کو فائدہ پہنچے گا جو کچھ عرصے میں پٹرول پمپس پر قیمتوں میں کمی، مصنوعات کے معیار میں اضافے، اور خدمات میں بہتری دیکھیں گے۔
اگر پاکستان میں توانائی کی مصنوعات کی پیداوار مضبوط ہو جائے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی ہو گی، پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہو جائے گی، پٹرول پمپس پر قیمتیں گریں گی، اور پٹرولیم مصنوعات کا معیار بہتر ہو گا۔ مزید برآں، مہنگی پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی کا خطرہ بھی کم ہو جائے گا۔ اس لیے توانائی کے شعبے میں اصلاحات فوری طور پر متعارف کرائی جانی چاہئیں۔ معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں بھی کمی لانے کی اشد ضرورت ہے۔
اعداد وشمار کے حوالے سے دیکھا جائے توگروتھ ریٹ میں اضافہ معاشی استحکام کی طرف مثبت اقدام ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کم سے کم گردشی قرضوں پر انحصار برآمدات کے حجم اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کے لیے اس میکنزم کی ضرورت ہے کہ غربت میں کمی کی جائے روزگار میں اضافہ کیا جائے اور انسانی وسائل کی ترقی پر زور دیا جائے تاکہ روبہ زوال معیشت کو کسی پٹری پر ڈالا جا سکے اگر ہم مضبوط معیشت کے لیے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کرتے، کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں اور ٹیکس نادہندگان تک رسائی ممکن نہیں بناتے تو ہارورڈ کے تمام اقتصادی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرلیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔
دوسری جانب آیندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں ریئل اسٹیٹ، رٹیلرز، آٹو سیکٹر، بلڈرز بڑے اسپتالوں، پیتھالوجیکل لیبارٹریوں، میڈیکل ڈائیگنوسٹک لیبارٹریوں،کلینک، میڈیکل پریکٹشنرز، جم کلب، ہیلتھ کلبوں اور دیگر نوٹیفائی کردہ شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
درحقیقت موڈیز کی جانب سے بینکنگ شعبے کی ریٹنگ کو منفی سے مستحکم کرنے سے ایک مثبت رحجان جنم لے گا۔ دراصل معاشی استحکام ریاستوں کو تازہ خون سپلائی کرتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی حکومت کی نئی ٹیکس پالیسی اور معیشت کے لیے کیے گئے اقدامات کیا مشکلات کا شکار معاشی نظام کو مستحکم کرسکیں گے؟ ملک میں ٹیکس کی وصولی کی شرح بہت کم ہے، اگر پیداواری تناسب سے دیکھا جائے تومحصولات کی شرح کم ہونے کے باعث ریاست اپنے بنیادی فرائض یعنی عوام کی جان اور مال کے تحفظ میں بھرپور اقدامات نہیں کرسکتی، ان حالت میں ان پالیسیوں کی ضرورت ہے کہ ان چیلنجز سے نمٹا جاسکے۔
افرادی کھپت کے لیے روزگار مہیا کرنا اورکارخانوں کا قیام ریڑھ کی ہڈ ی کی حیثیت رکھتے ہیں، جس پر خاطر خوا توجہ کی ضرورت ہے۔ زمینوں اورگھروں کی خرید و فروخت کا جو مروجہ طریقہ پاکستان میں رائج ہے وہ خاصا الجھا ہوا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جس شعبے میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، اس کا مکمل ڈیٹا کسی ادارے کے پاس ہے نہ ہی ایف بی آر کے پاس ہے۔
اس شعبے میں نقد رقم کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں اور سرکار کے پاس وہ رسیدیں آتی ہیں جن کی قیمت بہت کم دکھائی جاتی ہے اور یہ بعض صورتوں میں مارکیٹ ریٹ سے 60 سے 70 فیصد کم ہوتی ہے۔
پاکستان کی معاشی صورتحال ہر چند سال بعد شدید دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ ملک معاشی ترقی کے مختصر ادوار سے گزرتا ہے مگر یہ ترقی کا سفر عام طور پر زیادہ دیر تک نہیں چل پاتا۔ ہر بحران کے بعد حکومتیں ہنگامی اقدامات کرتی ہیں، جس کے بعد استحکام آتا ہے۔ مگر قرضوں، تجارتی خسارے اورکمزور صنعتی پیداوار کے بوجھ تلے معیشت بالآخر لڑکھڑا کرگر پڑتی ہے۔
اس دائمی بیماری سے چھٹکارا پانے اور معیشت کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے قوم کو معاشی اصلاحات کی طاقتور دوا کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کا مناسب استعمال بھی ہونا چاہیے۔ حکومت کی آمدنی میں اضافے اور عوامی خدمات پر اخراجات بڑھانے کے لیے ٹیکس پالیسی پر نظر ثانی کی جانی چاہیے۔
کسی مربوط نظام صحت کا نہ ہونا سارے معاشرے کے لیے ایک خوفناک شکل اختیارکرتا جا رہا ہے۔ نجی اسپتالوں اور لیبارٹریوں نے اپنی من مانی جاری رکھتے ہوئے میڈیکل ٹیسٹوں کے من پسند ریٹ مقررکر رکھے ہیں، جوآلات اور مشینریاں ان کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
وہ بھی زائد المیعاد ہوچکی ہوتی ہیں، جب کہ یہ مشینیں ٹیکس فری منگوائی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ غلط رپورٹس کی وجہ سے مرض کا درست علاج ممکن نہیں رہتا۔ نئی حکومت سب سے پہلے ٹیسٹس کے یکساں ریٹس مقررکروائے۔
ریاست اپنے شہریوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے، جس کا مقصد ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے ایسا ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے، جہاں تمام شہری ایک احساسِ تحفظ کے ساتھ نہ صرف اپنی زندگی بسر کر سکیں بلکہ انھیں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع بھی فراہم ہوں۔تعلیم، حصولِ انصاف اور بنیادی صحت کی سہولیات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہوتا ہے، لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس کے عین برعکس ہے۔
موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے پر توجہ دی جائے۔ زراعت، جسے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے، کے شعبے کو جدید بنانے کے لیے اصلاحات متعارف کرائی جائیں جن کا ہدف فصلوں کی پیداوار میں اضافہ اور ملک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہو۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو درآمدات میں کمی اور ہر سال اربوں ڈالرکے زرمبادلہ سے بچانے کے لیے توانائی کی مصنوعات، جیسے پٹرول اور ڈیزل، کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا۔
یہ کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کروا کر اور ایندھن کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر کے کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ معاشی بدحالی کی بڑی وجہ ایندھن کی قیمتوں، بالخصوص پٹرول، ڈیزل اور ایل این جی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ بیرونی قرضوں کی مدد کے بغیر، کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی اور روپے کی قدر آسمان سے زمین پر آگری۔ پٹرول کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھی مہنگائی کو تکلیف دہ حد تک بڑھا کر معاملات کو مزید خراب کر دیا۔
تاہم، اگر حکومت پاکستان ریفائنرز کے تعاون سے پٹرول اور ڈیزل کی پیداوار بڑھاتی ہے اور ایندھن کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کر کے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے مابین مسابقت کو فروغ دیتی ہے، تو اس سے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایسے اقدامات یقینی طور پر معیشت کو مضبوط بنیادوں پر رکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں کاروباری ماحول میں خرابی کی وجہ سے ریفائنریاں بھرپور طریقے سے کام نہیں کر پا رہیں۔ اس وجہ سے پاکستان کا پٹرول اور ڈیزل کی درآمدات پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ تیل صاف کرنے کی صنعت کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں ملک کو برآمدات سے امریکی ڈالر میں آمدنی حاصل کرنے سے بھی محروم کر دیتی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے دو طریقے ہیں۔ سب سے پہلے، ایک نئی کاروبار دوست آئل ریفائننگ پالیسی متعارف کرائی جائے تاکہ ریفائنریاں اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کر سکیں۔
دوم، صنعت کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کرنے والے غیر ضروری قوانین اور ضابطوں کو ختم اور ایندھن کی قیمتوں کو مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔ حکومت کو اب ایسا ماحول بنانا چاہیے جس میں تیل صاف کرنے والی کمپنیاں اپنے منصوبوں پر جلد از جلد کام مکمل کر سکیں تاکہ ملک کی معیشت درست سمت میں آگے بڑھے، اگر ریفائنریاں بھرپور صلاحیت کے ساتھ کام کریں اور پلانٹس کی توسیع کے منصوبوں پر عمل درآمد کریں، تو پھر ملک کو پٹرول، ڈیزل اور دیگر پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی۔
اس کے نتیجے میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کروڑوں امریکی ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ مقامی ریفائنریاں اپنی اضافی پیداوار کو افغانستان، سری لنکا، نیپال اور دوسرے ممالک میں فراہم کر کے خطے میں ایندھن کی بڑھتی ہوئی طلب کو بھی پورا کر کے ملک میں خاطر خواہ زرمبادلہ لا سکتی ہیں۔ درآمدی متبادل اور برآمدی آمدنی کے ساتھ، آئل ریفائنریاں ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مضبوط کر سکتی ہیں اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے مسئلے کو حل کرنے میں بڑا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
ایندھن کی قیمتوں کی مکمل ڈی ریگولیشن پاکستان کے تیل کے شعبے میں ایک بڑی مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ فی الحال، پاکستان میں اوگرا (OGRA)،جو کہ ایک حکومتی ادارہ ہے، ایندھن کی قیمتیں طے کرنے کا کام کرتا ہے۔ مگر اوگرا کے بجائے طلب اور رسد کے بنیادی اصولوں کو قیمتوں کا تعین کرنے کی اجازت دے کر، پاکستان پورے پٹرولیم سیکٹر کی صنعت کو زیادہ موثر، زیادہ مسابقتی اور سرمایہ کاری کے لیے زیادہ پرکشش بنا سکتا ہے۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ قیمتوں کی ڈی ریگولیشن کے ذریعہ آئل مارکیٹنگ اور ریفائننگ کمپنیوں میں جدت آئے گی اور تحقیق کے میدان میں پیشرفت ہوگی۔ اس کے علاوہ،آئل کمپنیوں کے درمیان مسابقت میں اضافے سے صارفین کو فائدہ پہنچے گا جو کچھ عرصے میں پٹرول پمپس پر قیمتوں میں کمی، مصنوعات کے معیار میں اضافے، اور خدمات میں بہتری دیکھیں گے۔
اگر پاکستان میں توانائی کی مصنوعات کی پیداوار مضبوط ہو جائے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی ہو گی، پاکستانی روپے کی قدر مستحکم ہو جائے گی، پٹرول پمپس پر قیمتیں گریں گی، اور پٹرولیم مصنوعات کا معیار بہتر ہو گا۔ مزید برآں، مہنگی پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی کا خطرہ بھی کم ہو جائے گا۔ اس لیے توانائی کے شعبے میں اصلاحات فوری طور پر متعارف کرائی جانی چاہئیں۔ معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ حکومتی اخراجات میں بھی کمی لانے کی اشد ضرورت ہے۔
اعداد وشمار کے حوالے سے دیکھا جائے توگروتھ ریٹ میں اضافہ معاشی استحکام کی طرف مثبت اقدام ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کم سے کم گردشی قرضوں پر انحصار برآمدات کے حجم اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کے لیے اس میکنزم کی ضرورت ہے کہ غربت میں کمی کی جائے روزگار میں اضافہ کیا جائے اور انسانی وسائل کی ترقی پر زور دیا جائے تاکہ روبہ زوال معیشت کو کسی پٹری پر ڈالا جا سکے اگر ہم مضبوط معیشت کے لیے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی نہیں کرتے، کرپشن کے خاتمے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں اور ٹیکس نادہندگان تک رسائی ممکن نہیں بناتے تو ہارورڈ کے تمام اقتصادی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرلیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔