بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں

عطاء الحق قاسمی کسی تعارف کے محتاج نہیں‘ میں اپنے کالم میں ان کا ذکر نہ بھی کروں تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا


Latif Chaudhry June 11, 2014
[email protected]

عطاء الحق قاسمی کسی تعارف کے محتاج نہیں' میں اپنے کالم میں ان کا ذکر نہ بھی کروں تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑے گا' وہ ایسی شخصیت ہیں' جنھیں کسی ایک حوالے سے پرکھا نہیں جا سکتا۔ وہ کالم نگار ہیں' ادیب ہیں' شاعر ہیں' ڈراما نگار اور سفارتکار بھی ہیں۔ ناروے میں انھوں نے پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ آج کے زمانے میں کسی اہل قلم میں اتنے اوصاف کا یکجا ہونا ممکن نہیں۔

اپنے کالموں اور تقریروں میں وہ جس شگفتہ بیانی اور طنز و مزاح کا اظہار کرتے ہیں' یہ انھی کا خاصا ہے' آج کے دور کا کوئی دوسرا کالم نگار ان کی جملہ بازی تک نہیں پہنچ سکتا۔ انھوں نے گزشتہ دنوں لاہور کے الحمرا ہال میں ''بیتے ہوئے دن یاد آتے ہیں ''کے عنوان سے اپنے اپنے شعبوں کے نامور لوگوں کا میلہ سجایا۔ اس عالمی ادبی میلے میں بیورو کریٹس' صحافیوں' کالم نگاروں' ادیبوں اور شاعروں کا خوش رنگ اور مہکتا ہوا گلدستہ سجایا گیا' سامعین کو ایسی ایسی باتیں سننے کو ملیں جو کتابوں اور رسالوں میں نہیں مل سکتیں۔ ماضی خواہ کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو' وہ حال میں آ کر رومانٹک بن جاتا ہے۔

ایسا انوکھا آئیڈیا عطاء الحق قاسمی کے ذہن رسا میں ہی آ سکتا تھا۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو چند ماہ قبل وہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے مشیر برائے توانائی شاہد ریاض گوندل کی درخواست پر منڈی بہاؤ الدین گئے تھے۔ میں بھی ان کے ہمراہ تھا' دوران سفر انھوں نے سرسری انداز میں اپنے اس ارادے کا ذکر کیا تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ چند ماہ میں ہی اس خواب کی تعبیر سامنے آ جائے گی۔ اتنا بڑا کام اس قدر جلد پایہ تکمیل تک پہنچنا بظاہر ممکن نہیں تھا لیکن قاسمی صاحب نے اسے ممکن بنا دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر دھن کے پکے ہیں۔

اس عالمی کانفرنس میں انھوں نے مجھ نا چیز کو بھی دعوت دی۔ میں اس پر ان کا انتہائی مشکور ہوں۔ ورنہ جس معاشرے میں ہم زندہ ہیں' وہاں کون کسی کو تسلیم کرتا ہے لیکن قاسمی صاحب میں احساس برتری نام کو بھی نہیں۔وہ سرتاپا لاہوری ہیں۔ اس کا اظہار ان کی باتوں میں بھی ہوتا ہے اور تحریروں میں بھی۔

مجھے کانفرنس کے دوسرے روز بولنا تھا' اس سیشن میں نامور شخصیات موجود تھیں۔ انتظار حسین' کامران لاشاری' ثریا ملتانیکر' اداکار اور اینکر سہیل احمد' یونس جاوید' شمیم حنفی' مسعود اشعر' حسین شیرازی اور انعام الحق جاوید جیسی نامور شخصیات کی اس کہکشاں میں میرے جیسا شہاب ثاقب بھی شامل تھا۔ الحمرا ہال نمبر2 میں ہر شخصیت کی یادیں گلاب بن کر مہک رہی تھیں' میں جب اسٹیج پر پہنچا تو وہاں نشستیں پوری ہو چکی تھیں۔ صبح صادق صاحب نے میرے لیے عقب میں نشست لگائی۔

میں ابھی بیٹھا ہی تھا کہ جناب عطاء الحق قاسمی نے مجھے دیکھا اور اپنی نشست چھوڑ کر میرے پاس آئے اور وہاں بیٹھنے کا کہا۔ میرے لیے یہ حیران کن تھا' کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کروں' میں نے انکار کیا لیکن قاسمی صاحب نہیں مانے اور زبردستی مجھے اپنی نشست پر بٹھا دیا۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے اور قاسمی صاحب کے بلند اخلاق کی زندہ مثال ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں جو کلچر رائج ہے' وہاں تو اگلی نشست پر بیٹھنے کے لیے آدمی دو گھنٹے پہلے محفل میں پہنچتا ہے اور نشست پر قبضہ کر لیتا ہے اور پھر چاہے کچھ ہو جائے' وہ کرسی نہیں چھوڑتا لیکن قاسمی صاحب نے اپنے عمل سے پیغام دیا کہ انسان کی عظمت نشست نہیں ہوتی' اس کے اپنے اوصاف اور اس میں موجود عوامی رنگ ہوتا ہے۔

میں اگر یہاں دوسرے مقررین کی یاد یںبیان کروں تو کالم بہت طویل ہو جائے گا' لہٰذا میں قارئین سے اپنی وہ یادیں شیئر کروں گا جو میں نے الحمرا ہال میں حاضرین کو سنائیں۔ میں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر حاضرین کو بتایا کہ میں کسی ہائی فائی تعلیمی ادارے کا پڑھا ہوا نہیں ہوں بلکہ عام سے محلہ اسکول سے فارغ التحصیل ہوں جسے بقول قاسمی صاحب المعروف کھوتی اسکول تو نہیں کہا جا سکتا البتہ اس کے قریب قریب کسی نام سے ضرور پکارا جا سکتا ہے۔ میں چونکہ غریب والدین کی اولاد ہوں' اس لیے غریبوں کے شغل میلے کیا ہوتے ہیں' اس سے بخوبی واقف ہوں۔ غریبوں کی بعض عادتیں ابھی تک مجھ میں موجود ہیں۔

مثلاً محلے کے ٹی اسٹال پر بیٹھ کر شیشے کے گلاس میں چائے پینا اور دوستوں سے گپیں لگانے کی عادت آج بھی موجود ہے' سڑک کے کنارے کسی ریڑھی والے سے نان چنے آج بھی کھا لیتا ہوں۔ سچی بات ہے کہ میں اپنی کلاس کے نالائق طالب علموںمیں شمار ہوتا تھا' مجھے لکھنے لکھانے سے قطعاً دلچسپی نہیں تھی' انگریزی اور حساب سے تو خوف آتا تھا۔ میٹرک میں حساب اور ایف اے میں انگریزی میں فیل ہو گیا تھا۔ اس لیے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مجھ جیسا نالائق طالب علم کسی بڑے اخبار کے ادارتی صفحات کا ایڈیٹر اور کالم نگار بن سکتا ہے تو ہر شخص ایسا کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ محنت کرے۔بچپن کا ایک واقعہ یوں ہے کہ میں سمن آباد کی ایک مسجد میںقرآن پڑھنے جایا کرتا تھا' اس کے سامنے معروف شاعر قتیل شفائی صاحب کا گھر تھا' مسجد کے پیش امام صاحب شاید مسلک یا ان کی شاعری کی بنا پر انھیں اچھا نہیں سمجھتے تھے۔

میری عمر اس وقت دس بارہ سال کے قریب ہو گی۔ ایک روز مولوی صاحب نے ہمیں بتایا کہ یہ شاعر کوئی اچھا آدمی نہیں ہے۔ پھر کیا تھا' ایک روز میں اور میرے دیگر ساتھی منہ اندھیرے مسجد میں قرآن پڑھنے آئے' مسجد کے سامنے زیر تعمیر سڑک پر پتھر پڑے ہوئے تھے۔ میں نے اور دوسرے لڑکوں نے پتھر اٹھائے اور قتیل شفائی صاحب کے گھر پر برسا دیے اور فرار ہو گئے۔ اس ''کامیاب واردات کے ملزموں'' کا سراغ آج تک نہیں لگ سکا۔ یہ واقعہ آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہے' اس پر اب افسوس بھی ہوتا ہے لیکن یہ کہہ کر تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ بچپن کا زمانہ تھا' اسے شرارت ہی سمجھا جانا چاہیے۔ بہر حال اس کو زمانہ بیت گیا ہے۔

دوسرا واقعہ اس زمانے کا ہے جب میں روزنامہ پاکستان اسلام آباد میں سب ایڈیٹر تھا۔ آج کے معروف اینکرپرسن اور کالم نگار جاوید چوہدری بھی وہیں سینئر سب ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ ہم کئی دوست لاہور سے اسلام آباد آئے تھے' اس لیے سب نے مشترکہ طور پر اسلام آباد کے نواحی علاقے راول ٹاؤن میں ایک گھر کرائے پر لے رکھا تھا۔ یہ 1992ء اور 93ء کی بات ہے۔ جو گھر ہم نے کرائے پر حاصل کیا تھا' یہ راول ٹاؤن کی گوالا کالونی میں تھا' اس کالونی میں بھینسوں کے باڑے کے لیے تقریباً دس مرلے یا اس سے زیادہ زمین مختص تھی۔ اس کے سامنے تقریباً دو اڑھائی مرلے جگہ رکھی گئی تھی جہاں گائے بھینسوں کو چارہ وغیرہ ڈالنے کے لیے کھرلی بنائی جاتی تھی لیکن جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے' گوالا کالونی میں بھی پلاٹ ان افراد نے الاٹ کرا لیے جن کے پاس نہ کوئی گائے تھی نہ بھینسیں۔ ان افراد نے وہاں گھر بنا لیے' ہمیں کرائے پر جو گھر ملا' وہ کھرلی والی جگہ میں بنایا گیا تھا۔

ہمارے اخبار کا دفتر اسلام آباد کی میلوڈی مارکیٹ میں تھا' رات کی ڈیوٹی ہوتی اور یہاں سے میں جاوید چوہدری' اسلم ڈوگر' شجاع الدین' عبدالحمید تبسم اور یوسف خان پیدل راول ٹاؤن جایا کرتے تھے' سردیوں کے موسم کی ایک رات کو ہم میلوڈی مارکیٹ سے نکلے اور آپس میں گپیں ہانکتے ہوئے راول ٹاؤن کے لیے روانہ ہو گئے' شدید سردی اور دھند کے باعث کچھ نظر نہیں آ رہا تھا کہ اچانک سڑک کے قریبی جنگل میں سے کئی سُور ہمارے سامنے آگئے۔ میں نے گھبراہٹ کے عالم میں جاوید چوہدری کو مخاطب کیا اور بولا '''چوہدری سور آ گئے نیں''۔ جاوید چوہدری نے کوئی لمحہ ضایع کیے بغیر بے ساختگی سے کہا، ''فکر نہ کر' اپنے پرا نیں' سانوں کجھ نیں کیہن گے''، (فکر مت کرو' یہ ہمارے بھائی ہیں' ہمیں کچھ نہیں کہیں گے) اور وہ ہی ہوا' انھوں نے ہماری طرف دیکھا اور بڑے آرام سے ٹہلتے ہوئے جنگل میں گم ہو گئے۔

یوں تو زندگی تلخ و شیریں یادوں سے بھری پڑی ہے لیکن کم وقت کے باعث یہی کچھ سنایا جا سکا باقی یادیں' پھر کبھی سہی۔ یار زندہ صحبت باقی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں