بجٹ اور غربت
حکومت سرکاری شعبے میں قائم صنعتوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔
KARACHI:
عمر محلہ فقیر کالونی اورنگی ٹاؤن میں آباد ہے۔ مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد پر مشتمل آبادی پانی کے قطرے قطرے کی محتاج ہے۔ اس علاقے کے مکینوں کو 2 سے 5 ہزار روپے ہر ماہ پانی کی خریداری پر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ 15 سال قبل گھروں تک پانی کی لائنیں بچھائی گئی تھیں مگر 10، 12 سال سے یہ لائنیں سوکھ گئی ہیں۔ علاقے کے لوگ ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ووٹر رہے مگر پیپلز پارٹی کے ووٹر ہونے کی بنا پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں برسرِ اقتدار نمایندوں نے پانی کے مسئلے کو اہمیت نہیں دی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے لیے فقیر کالونی میں پانی کی فراہمی ترجیح نہیں ہے، یوں گرمی میں پانی کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ اس علاقے کے لوگوں کی زندگی اجیرن کررہی ہے۔
پانی کا مسئلہ پورے کراچی کا مسئلہ ہے۔ کراچی کی بیشتر غریب بستیوں کو پانی کے حصول کے لیے دن رات تگ و دو کرنا پڑتی ہے، پھر اب تو ملک کے بیشتر علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوچکی ہے۔
پانی کی قلت کا تعلق پانی کو محفوظ رکھنے اور فراہمی آب کے لیے جدید طریقوں کا استعمال اور پانی چوری کرنے والی مافیاز کا مستحکم ہونا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پسماندہ آب پاشی کے نظام کی بنا پر پانی کا بیشتر حصہ ضایع ہوجاتا ہے، یوں امیروں کو پینے کے علاوہ ان کی زمینوں کو آباد کرکے مویشیوں کو تروتازہ رکھنے کے لیے تو پانی موجود ہے مگر ملک کے غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے بجٹ سے ایک دن قبل قومی اقتصادی سروے پیش کرتے وقت بتایا تھا کہ ملک کی آدھی آبادی کی آمدنی 2 ڈالر فی دن سے زیادہ نہیں بڑھ سکی۔
اس بنا پر ملک کی آدھی آبادی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ گزشتہ 3 برسوں سے اقتصادی سروے میں خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی شرح 30 سے 35 فیصد تک بتائی جاتی تھی مگر وزیر خزانہ کے اس انکشاف کے بعد اس شرح میں 15 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے اور اقتصادی ترقی کے تمام دعوے باطل ثابت ہوگئے ہیں۔ وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں 11 فیصد کمی ہوگئی ہے، تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کردہ رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک بلین روپے کم ہے۔ اس سال اس مد میں 80 بلین روپے مختص کیے گئے ہیںجب کہ گزشتہ سال یہ رقم 87 بلین روپے تھی۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کا تعلیم پر جی ڈی پی کا 4 فیصد خرچ ہونا اس سال بھی ایک خواب ہی رہے گا۔
پاکستان میں غربت کی بڑھتی ہوئی شرح کی مختلف وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ بعض اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ برسر اقتدار حکومتیں غربت کی شرح میں کمی کے لیے سنجیدہ نہیں رہیں۔ غربت کی شرح میں کمی کے لیے تعلیم عام کرنے، صحت کی سہولتیں فراہم کرنے، روزگار کے آسان مواقعے فراہم کرنے، غریبوں کی آبادیوں کو پانی، بجلی کی فراہمی اور محفوظ ٹرانسپورٹ کا نظام مہیا کرنے، غریبوں کو ترقی کی دوڑ سے منسلک کرنے کے سماجی حرکت پذیری (Social Mobility) کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک کی 79 فیصد آبادی ناخواندگی کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ خواندگی کے بین الاقوامی انڈیکس میں 221 ممالک شامل ہیں اور ان میں پاکستان کا 180 واں نمبر ہے۔ پاکستان میں صرف 6.8 فیصد بچے اسکول جاتے ہیں جب کہ بھارت میں یہ شرح 10.3 فیصد، بنگلہ دیش میں 8.1 فیصد، نیپال میں 8.8 فیصد اور سری لنکا میں 12 فیصد ہے۔ ایسی ہی صورتحال کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کی ہے، ملک میں ناقص نظام تعلیم نافذ کرنے کی بنا پر سرکاری شعبہ زوال پذیر ہے۔ گھوسٹ اسکول، غیر حاضر اساتذہ اور نااہل افراد کے اساتذہ کی حیثیت سے تقرر کے کلچر نے سرکاری شعبے کو مفلوج کردیا ہے۔
اب غریب آدمی بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے نجی شعبے کی جانب توجہ دینے پر مجبور ہے، وہ مالیاتی بوجھ تلے زندگی گزار کر اپنے مسائل بڑھا رہا ہے۔ لہٰذا والدین نجی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے، وہ مدرسوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں ملک بھر میں پھیلے ہوئے مدرسے بچوں کو مخصوص مذہبی تعلیم کے علاوہ مفت رہائش، کھانے اور کپڑے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج معالجے کی ناقص سہولتوں کی بنا پر غریب آدمی کے پاس موت کی تمنا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ زرعی معیشت سے وابستہ ہے۔ زرعی شعبے میں مشینوں کے استعمال، زمینوں کی تقسیم در تقسیم اور پانی کی قلت کی بنا پر بے روزگار کسانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں روزگار کے ذرایع کم کردیے ہیں۔ دیہی علاقوں سے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کی بڑھتی ہوئی شرح بھی نئے مسائل پیدا کررہی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ، گیس کی قلت، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال، بیوروکریسی کی ریشہ دوانیاں اور منتخب نمایندوں میں بدعنوانی صنعتی ترقی کی راہ میں اہم رکاوٹیں ہیں۔
صنعتیں نہ لگنے کی بنا پر بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ حکومت سرکاری شعبے میں قائم صنعتوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ پاکستان میں سرکاری صنعتوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ اب بڑے اداروں کی نجکاری پر عملدرآمد کیا گیا تو بے روزگاری کی شرح بڑھ جائے گی، انتہاپسندی کو تقویت ملے گی۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے کئی نئے مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ لاہور کے علاوہ باقی ملک کے تمام بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ نظام نہ ہونے کی بنا پر غریب آدمی کے لیے معارف زندگی برداشت کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں کسی آدمی کے لیے منی بس میں سفر کرنے میں روزانہ 60 سے 80 روپے خرچ کرنا لازمی ہوگیا ہے، معارف زندگی بڑھنے سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ متوسط طبقے کے لیے اس صورتحال میں اپنی حیثیت برقرار رکھنا انتہائی مشکل کام ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا تھا، اس حکومت نے یہ پروگرام جاری رکھا ہے۔
اس پروگرام کے تحت ہر غریب عورت کو ایک ہزار روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔ زرداری حکومت نے بینک کے ATM کارڈ کے ذریعے اس پروگرام کو شفاف رکھنے کا طریقہ کار وضع کیا تھا۔ زرداری نے الیکشن 2013 میں کامیابی کو اس نظام سے منسلک کیا تھا مگر انتخابی نتائج نے زرداری صاحب کے خواب کو چکناچور کردیا۔ مگر دوسری طرف غربت کی شرح بڑھ گئی ہے۔ اب نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس خودکشی کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی وجوہات کی بنا پر خودکشی کی شرح بڑھ گئی ہے۔
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کا غربت سے گہرا تعلق ہے۔ غربت کا خاتمہ کرکے ہی انتہاپسندی کی جڑوں کو ہمیشہ کے لیے کاٹا جاسکتا ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے ریاست کے کردار میں توسیع، شفاف طرز حکومت، تعلیم، صحت اور انسانی وسائل کی ترقی، زراعت میں جدید طریقوں کا استعمال اور ایک جدید صنعتی ڈھانچے کا قیام بہت ضروری ہے۔ وفاقی بجٹ میں یہ سب کچھ نہیں ہے۔