محمد علی تمہاری یاد ستاتی ہے
محمدعلی نیک انسان تھے، انڈسٹری میں بہت لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے
اداکار محمد علی اپنی مثال آپ تھے، فلم انڈسٹری میں ان کی خدمات گرانقدر تھیں۔وہ آج بھی اپنے پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی خدمات کو شائقین فلم نظر انداز نہیں کرسکتے۔
راقم جب بھی لاہور صحافتی ذمے داریوں کے حوالے سے جاتا ان سے طویل ملاقاتیں ہوتیں، کبھی کبھی گفتگو میں ماضی کے حوالے سے غم کے نمایاں پہلو بھی نظر آتے تھے۔ میری معلومات میں اضافے کے لیے فلم انڈسٹری کے بہت سے واقعات کا تذکرہ کرتے، اداکار محمدعلی کے پرستار پوری دنیا میں تھے۔
راقم اسپین کے شہر بار سلونیا، اٹلی کے شہر وینس، فرانس کے شہر سن مارکو کئی مرتبہ گیا آپ یقین کریں میں نے ان کے پرستار وہاں بھی دیکھے، ان کے جانے سے فلم انڈسٹری عظیم نقصان سے دوچار ہوئی۔ ان کی فلمیں سلاخیں، حیدرعلی،آس، آئینہ اور صورت دیکھ کر دلیپ کمار نے کہا تھا کہ '' اگر علی انڈیا میں ہوتے تو فن اداکاری میں ان سے سخت مقابلہ ہوتا ( دلیپ کمار نے انڈیا کے فنکار کے لیے ایسی بات کبھی نہیں کہی ، یہ خبر انڈین ماہانہ'' شمع '' میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی۔) واحد پاکستانی فنکار تھے جب وہ بھارت گئے تو اندرا گاندھی نے ان کے اعزاز میں وزیر اعظم ہائوس میں عشائیہ دیا تھا۔
'' جانے انجانے'' کی شوٹنگ کے لیے جب بنگلہ دیش گئے تو ایوان صدر میں صدر بنگلہ دیش نے ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا اور انہیں صدارتی اعزاز سے نوازا گیا، یہ رتبہ کبھی بھی کسی پاکستانی فنکار کو نہیں ملا۔ محمدعلی انڈیا کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے ہجرت کے بعد جب پاکستان آئے تو ان کے ساتھ ان کے والدین نہیں عصمت اور رضیہ آپا ان کے ہمراہ آئے تھے بچپن میں یتیم ہوگئے تھے ان کی دیکھ بھال عصمت آپا نے کی۔ وہ حیدرآباد میں کافی عرصے رہے، ٹھنڈی سڑک اولڈ کمپلیکس کے برابر والی گلی کے مکان نمبر3 میں رہتے تھے۔
انہوں نے بتایا میں نے ملتان کے گورنمنٹ کالج ایمرسن سے ایف اے کیا اور پھر ہم حیدرآباد آگئے پھر نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا پھر ایک آفس میں بحیثیت کلرک کے 88 روپے ماہانہ کی نوکری مل گئی پھر نوکری کو خیرآباد کرکے حیدرآباد ریڈیو جوائن کر لیا۔ ایس ایم سلیم بڑے ریڈیو پروڈیوسر تھے ان کے ڈرامے آوازیں اور دھڑکن میں محمد علی نے کام کیا، دونوں ڈرامے سپرہٹ ہوئے۔
انہوں نے سادگی سے ہر بات مجھے بتائی '' جب کراچی آیا تو آئی آئی چندریگر کی ایک بلڈنگ میں میرے چچا رہا کرتے تھے، میں چچا اشرف کے گھر سے ریڈیو پاکستان پیدل جایا کرتا۔ میرے بھائی ارشادعلی نے کافی اولڈ کردار ادا کیے۔ ان کے گھر کے سامنے اداکار آزاد ناظم آباد نمبر چار میں رہا کرتے تھے جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور بھی تھے۔ ان کی مہربانی سے مصنف سلیم احمد کی فلم آگ اور خون میں مہمان اداکارکی حیثیت سے کام کیا، یہ میری پہلی فلم تھی مگر ریلیز نہ ہوسکی، جس کا مجھے بہت ہی دکھ ہوا۔
زیڈ اے بخاری ریڈیو سے منسلک تھے، ان کی کوشش سے مجھے کریم فضلی سے کہہ کر ''چراغ جلتا رہا '' میں چانس دلوایا۔ فلم کا افتتاح نشاط سینما میں محترمہ فاطمہ جناح نے کیا۔ یہ فلم سپرہٹ ہوئی۔ ہیروکے طور پر پہلی فلم ''شرارت'' تھی۔ محمد علی بھائی نے مزید بتایا جب ندیم کی فلم ''اناڑی'' کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو ہر پروڈیوسر ندیم کوکاسٹ کرنا چاہتا تھا۔
شباب کیرانوی منجھے ہوئے بڑے ہدایت کار تھے، انہوں نے مجھے مزاحیہ اسکرپٹ پکڑا کرکہا '' اسے پڑھ لو'' میں نے برجستہ کہا کہ '' میں اور مزاحیہ کردار آپ یہ کردار ندیم سے کروالیں میں نے معذرت کی اور کہا کہ فلم فلاپ ہوئی تو آپ کا پیسہ ڈوب جائے گا'' انہوں نے غصے اور ناراضگی سے کہا '' پیسہ میرا ڈوبے گا تمہیں کیا تکلیف ہے میاں؟'' میں ان کا بہت ادب کرتا تھا یوں میں نے '' آئینہ اور صورت'' میں کام کیا، فلم ریلیز ہوئی اور سپر ہٹ ہوئی کچھ سینمائوں کے افتتاح کے حوالے سے بتایا۔
میری فلم ''رواج'' سے شمع سینما کا افتتاح ہوا فلم صاعقہ کیپری سینما میں ریلیز ہوئی یہ پہلی فلم اردو تھی جو کیپری سینما میں ریلیز ہوئی۔ اداکار محمدعلی کو اپنے وطن سے بہت پیار تھا، پسندیدہ گلوکارہ ''نسیم بیگم'' تھیں ان کے اس گیت نے '' اے راہ حق کے شہیدوں'' نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔
راقم کو پروڈیوسر زینت بیگم نے بتایا تھا '' مجھے پیسوں کی بہت ضرورت تھی، میں نے علی بھائی سے کہا اگر آپ اس وقت میری مدد کردیں تو میں مشکل گھڑی سے نکل جائوں گی، میری فلم '' بن بادل برسات'' میں کام کریں تاکہ میں برے وقت سے نکل سکوں کیونکہ آپ گزشتہ 15سال سے سپرہٹ ہیرو ہیں، پھر انہوں نے فلم ''بن بادل برسات'' میں کام کیا فلم ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوئی معاوضہ لے کر میں ان کے گھرگئی اور فلم میں کام کرنے کا معاوضہ یہ کہہ کردیا کہ علی بھائی یہ قبول کرلیں آپ کی بہن بہت مشکل میں تھی میں یہ احسان نہیں بھول سکتی '' انہوں نے پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ '' بھائی بہنوں سے پیسے تھوڑی لیتے ہیں'' اور پھر میرے آنسو ہچکیوں میں بدل گئے میں روتی رہی اور وہ دلاسا دیتے رہے۔
ہدایت کار ایم اے رشید ڈبل ایم اے تھے ہم سے بہت محبت سے پیش آتے تھے انہوں نے ایک واقعہ سنایا، ان کی وجہ شہرت سپرہٹ فلم ''پاٹے خاں'' تھی انہوں نے بتایا جب میں نے '' تم سلامت رہو'' فلم شروع کی تو وحید مراد اور محمدعلی کافی عرصے کے بعد ایک ساتھ کام کررہے تھے۔ میں نے محمدعلی کے مقابل رانی کو کاسٹ کیا اس زمانے میں رانی بہت معروف تھیں۔ اداکارہ آسیہ نے محمد علی سے کہا آپ میری سفارش کردیں کہ وہ مجھے کاسٹ کرلیں اس زمانے میں آسیہ کے پاس بہت کم فلمیں تھیں وہ کچھ پریشان تھیں۔ اس شام میں محمد علی بھائی سے ملا کہ میں زیبا بھابھی کو رانی کی جگہ کاسٹ کر رہا ہوں۔
انہوں نے ایم اے رشید سے کہا زیبا کی جگہ آسیہ کو کاسٹ کرلیں میں نے انکار کیا پھر علی بھائی کے اصرار پر آسیہ کو کاسٹ کرلیا جبکہ زیبا تو ان کی بیوی تھیں۔ اداکار مرحوم کے پڑوسی سہیل احمد نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ 1966ء کی بات ہے فلم'' تم ملے پیار ملا'' کی شوٹنگ کراچی میں ہورہی تھی محمد علی اور زیبا کا نکاح کراچی نظم آباد نمبر4 میں ہوا۔ نکاح قاضی سید احتشام نے پڑھایا۔
ہدایت کار ایم اے رشید، یونس ملک، اقبال کاشمیری، نذر شباب، حسن عسکری، الطاف حسین نے ایک ہی بات کہی کہ علی نیک انسان تھے سیٹ پر ان کی ہیروئن انہیں شوٹنگ سے قبل علی بھائی پکارتی تھیں۔ اس کا راقم بھی گواہ ہے کہ جب شمیم آرا، آسیہ اور نیلو ان سے ملنے آئی تو میں موجود تھا۔ علی بھائی کہہ کر بات کرتی رہیں وہ شریف النفس انسان تھے۔ راقم جب بھی ان کے گھرگیا بہت محبت سے ملتے۔
ان کا دستر خوان بہت وسیع ہوتا، لائٹ مین، الیکٹریشن، بڑھئی ، سیٹ پرکاغذ اور پھول لگانے والے سب کا دوپہرکا کھانا علی منگوایا کرتے اور بریک میں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھا لیا کرتے تھے۔ ورکر ان پر جان نچھاور کرتے تھے غریب لڑکیوں کی شادیوں میں بہت مدد کرتے ایکٹر خواتین آرٹسٹوں کی بھی گھریلو حالات کی باعث بہت مدد کرتے۔ ذوالفقارعلی بھٹو اور ضیاء الحق ان سے بہت محبت کا ثبوت دیتے۔ ضیا الحق کی کابینہ میں وفاقی وزیر بھی رہے۔ صوبہ پنجاب میں لوگ ان سے بہت محبت کرتے تھے جبکہ اردو فلموں کی مارکیٹ توکراچی تھی۔
محمدعلی کی بہترین فلموں میں انصاف اور قانون، گھرانہ، خاموش رہو، صورت اور سیرت، سنگرام، پھول میرے گلشن کا، آس، سلاخیں، ملن، آسرا وہ فلمیں تھیں جس میں علی صاحب پر کوئی گیت فلم بند نہیں ہوا۔ علی اور زیبا کی آخری فلم ''محبت ہو تو ایسی ہو'' تھی ''خاموش رہو'' پہلی سپرہٹ فلم ، ''ہیڈکانسٹیبل'' علی زیب کی پہلی فلم، ''شیر دی بچی'' پہلی پنجابی فلم، کنیز پہلی گولڈن جوبلی فلم، جان پہچان پہلی رنگین فلم مختلف القابات پانے والے علی بھیا، حیدرآباد کا نام بھورے میاں، انڈسٹری کے غریب کارکن اچھے میاں، والدین عزیز و اقارب منا کے نام سے انہیں پکارتے تھے۔
اداکار محمد علی (اچھے میاں) 16مارچ کی صبح گیارہ بجے 74سال 11ماہ کی عمر میں بروز اتوار اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ روحانی شخصیت میاں میر کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا جائے۔ آج بھی میاں میرکے مزار میں جب لوگ داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ان کی قبر آتی ہے تو لوگ فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھتے ہیں، ان کی تعداد روز ہزاروں میں ہوتی ہے۔
راقم جب بھی لاہور صحافتی ذمے داریوں کے حوالے سے جاتا ان سے طویل ملاقاتیں ہوتیں، کبھی کبھی گفتگو میں ماضی کے حوالے سے غم کے نمایاں پہلو بھی نظر آتے تھے۔ میری معلومات میں اضافے کے لیے فلم انڈسٹری کے بہت سے واقعات کا تذکرہ کرتے، اداکار محمدعلی کے پرستار پوری دنیا میں تھے۔
راقم اسپین کے شہر بار سلونیا، اٹلی کے شہر وینس، فرانس کے شہر سن مارکو کئی مرتبہ گیا آپ یقین کریں میں نے ان کے پرستار وہاں بھی دیکھے، ان کے جانے سے فلم انڈسٹری عظیم نقصان سے دوچار ہوئی۔ ان کی فلمیں سلاخیں، حیدرعلی،آس، آئینہ اور صورت دیکھ کر دلیپ کمار نے کہا تھا کہ '' اگر علی انڈیا میں ہوتے تو فن اداکاری میں ان سے سخت مقابلہ ہوتا ( دلیپ کمار نے انڈیا کے فنکار کے لیے ایسی بات کبھی نہیں کہی ، یہ خبر انڈین ماہانہ'' شمع '' میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی۔) واحد پاکستانی فنکار تھے جب وہ بھارت گئے تو اندرا گاندھی نے ان کے اعزاز میں وزیر اعظم ہائوس میں عشائیہ دیا تھا۔
'' جانے انجانے'' کی شوٹنگ کے لیے جب بنگلہ دیش گئے تو ایوان صدر میں صدر بنگلہ دیش نے ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا اور انہیں صدارتی اعزاز سے نوازا گیا، یہ رتبہ کبھی بھی کسی پاکستانی فنکار کو نہیں ملا۔ محمدعلی انڈیا کے شہر رام پور میں پیدا ہوئے ہجرت کے بعد جب پاکستان آئے تو ان کے ساتھ ان کے والدین نہیں عصمت اور رضیہ آپا ان کے ہمراہ آئے تھے بچپن میں یتیم ہوگئے تھے ان کی دیکھ بھال عصمت آپا نے کی۔ وہ حیدرآباد میں کافی عرصے رہے، ٹھنڈی سڑک اولڈ کمپلیکس کے برابر والی گلی کے مکان نمبر3 میں رہتے تھے۔
انہوں نے بتایا میں نے ملتان کے گورنمنٹ کالج ایمرسن سے ایف اے کیا اور پھر ہم حیدرآباد آگئے پھر نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا پھر ایک آفس میں بحیثیت کلرک کے 88 روپے ماہانہ کی نوکری مل گئی پھر نوکری کو خیرآباد کرکے حیدرآباد ریڈیو جوائن کر لیا۔ ایس ایم سلیم بڑے ریڈیو پروڈیوسر تھے ان کے ڈرامے آوازیں اور دھڑکن میں محمد علی نے کام کیا، دونوں ڈرامے سپرہٹ ہوئے۔
انہوں نے سادگی سے ہر بات مجھے بتائی '' جب کراچی آیا تو آئی آئی چندریگر کی ایک بلڈنگ میں میرے چچا رہا کرتے تھے، میں چچا اشرف کے گھر سے ریڈیو پاکستان پیدل جایا کرتا۔ میرے بھائی ارشادعلی نے کافی اولڈ کردار ادا کیے۔ ان کے گھر کے سامنے اداکار آزاد ناظم آباد نمبر چار میں رہا کرتے تھے جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ڈرائیور بھی تھے۔ ان کی مہربانی سے مصنف سلیم احمد کی فلم آگ اور خون میں مہمان اداکارکی حیثیت سے کام کیا، یہ میری پہلی فلم تھی مگر ریلیز نہ ہوسکی، جس کا مجھے بہت ہی دکھ ہوا۔
زیڈ اے بخاری ریڈیو سے منسلک تھے، ان کی کوشش سے مجھے کریم فضلی سے کہہ کر ''چراغ جلتا رہا '' میں چانس دلوایا۔ فلم کا افتتاح نشاط سینما میں محترمہ فاطمہ جناح نے کیا۔ یہ فلم سپرہٹ ہوئی۔ ہیروکے طور پر پہلی فلم ''شرارت'' تھی۔ محمد علی بھائی نے مزید بتایا جب ندیم کی فلم ''اناڑی'' کامیابی سے ہمکنار ہوئی تو ہر پروڈیوسر ندیم کوکاسٹ کرنا چاہتا تھا۔
شباب کیرانوی منجھے ہوئے بڑے ہدایت کار تھے، انہوں نے مجھے مزاحیہ اسکرپٹ پکڑا کرکہا '' اسے پڑھ لو'' میں نے برجستہ کہا کہ '' میں اور مزاحیہ کردار آپ یہ کردار ندیم سے کروالیں میں نے معذرت کی اور کہا کہ فلم فلاپ ہوئی تو آپ کا پیسہ ڈوب جائے گا'' انہوں نے غصے اور ناراضگی سے کہا '' پیسہ میرا ڈوبے گا تمہیں کیا تکلیف ہے میاں؟'' میں ان کا بہت ادب کرتا تھا یوں میں نے '' آئینہ اور صورت'' میں کام کیا، فلم ریلیز ہوئی اور سپر ہٹ ہوئی کچھ سینمائوں کے افتتاح کے حوالے سے بتایا۔
میری فلم ''رواج'' سے شمع سینما کا افتتاح ہوا فلم صاعقہ کیپری سینما میں ریلیز ہوئی یہ پہلی فلم اردو تھی جو کیپری سینما میں ریلیز ہوئی۔ اداکار محمدعلی کو اپنے وطن سے بہت پیار تھا، پسندیدہ گلوکارہ ''نسیم بیگم'' تھیں ان کے اس گیت نے '' اے راہ حق کے شہیدوں'' نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔
راقم کو پروڈیوسر زینت بیگم نے بتایا تھا '' مجھے پیسوں کی بہت ضرورت تھی، میں نے علی بھائی سے کہا اگر آپ اس وقت میری مدد کردیں تو میں مشکل گھڑی سے نکل جائوں گی، میری فلم '' بن بادل برسات'' میں کام کریں تاکہ میں برے وقت سے نکل سکوں کیونکہ آپ گزشتہ 15سال سے سپرہٹ ہیرو ہیں، پھر انہوں نے فلم ''بن بادل برسات'' میں کام کیا فلم ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ہوئی معاوضہ لے کر میں ان کے گھرگئی اور فلم میں کام کرنے کا معاوضہ یہ کہہ کردیا کہ علی بھائی یہ قبول کرلیں آپ کی بہن بہت مشکل میں تھی میں یہ احسان نہیں بھول سکتی '' انہوں نے پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ '' بھائی بہنوں سے پیسے تھوڑی لیتے ہیں'' اور پھر میرے آنسو ہچکیوں میں بدل گئے میں روتی رہی اور وہ دلاسا دیتے رہے۔
ہدایت کار ایم اے رشید ڈبل ایم اے تھے ہم سے بہت محبت سے پیش آتے تھے انہوں نے ایک واقعہ سنایا، ان کی وجہ شہرت سپرہٹ فلم ''پاٹے خاں'' تھی انہوں نے بتایا جب میں نے '' تم سلامت رہو'' فلم شروع کی تو وحید مراد اور محمدعلی کافی عرصے کے بعد ایک ساتھ کام کررہے تھے۔ میں نے محمدعلی کے مقابل رانی کو کاسٹ کیا اس زمانے میں رانی بہت معروف تھیں۔ اداکارہ آسیہ نے محمد علی سے کہا آپ میری سفارش کردیں کہ وہ مجھے کاسٹ کرلیں اس زمانے میں آسیہ کے پاس بہت کم فلمیں تھیں وہ کچھ پریشان تھیں۔ اس شام میں محمد علی بھائی سے ملا کہ میں زیبا بھابھی کو رانی کی جگہ کاسٹ کر رہا ہوں۔
انہوں نے ایم اے رشید سے کہا زیبا کی جگہ آسیہ کو کاسٹ کرلیں میں نے انکار کیا پھر علی بھائی کے اصرار پر آسیہ کو کاسٹ کرلیا جبکہ زیبا تو ان کی بیوی تھیں۔ اداکار مرحوم کے پڑوسی سہیل احمد نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ 1966ء کی بات ہے فلم'' تم ملے پیار ملا'' کی شوٹنگ کراچی میں ہورہی تھی محمد علی اور زیبا کا نکاح کراچی نظم آباد نمبر4 میں ہوا۔ نکاح قاضی سید احتشام نے پڑھایا۔
ہدایت کار ایم اے رشید، یونس ملک، اقبال کاشمیری، نذر شباب، حسن عسکری، الطاف حسین نے ایک ہی بات کہی کہ علی نیک انسان تھے سیٹ پر ان کی ہیروئن انہیں شوٹنگ سے قبل علی بھائی پکارتی تھیں۔ اس کا راقم بھی گواہ ہے کہ جب شمیم آرا، آسیہ اور نیلو ان سے ملنے آئی تو میں موجود تھا۔ علی بھائی کہہ کر بات کرتی رہیں وہ شریف النفس انسان تھے۔ راقم جب بھی ان کے گھرگیا بہت محبت سے ملتے۔
ان کا دستر خوان بہت وسیع ہوتا، لائٹ مین، الیکٹریشن، بڑھئی ، سیٹ پرکاغذ اور پھول لگانے والے سب کا دوپہرکا کھانا علی منگوایا کرتے اور بریک میں ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھا لیا کرتے تھے۔ ورکر ان پر جان نچھاور کرتے تھے غریب لڑکیوں کی شادیوں میں بہت مدد کرتے ایکٹر خواتین آرٹسٹوں کی بھی گھریلو حالات کی باعث بہت مدد کرتے۔ ذوالفقارعلی بھٹو اور ضیاء الحق ان سے بہت محبت کا ثبوت دیتے۔ ضیا الحق کی کابینہ میں وفاقی وزیر بھی رہے۔ صوبہ پنجاب میں لوگ ان سے بہت محبت کرتے تھے جبکہ اردو فلموں کی مارکیٹ توکراچی تھی۔
محمدعلی کی بہترین فلموں میں انصاف اور قانون، گھرانہ، خاموش رہو، صورت اور سیرت، سنگرام، پھول میرے گلشن کا، آس، سلاخیں، ملن، آسرا وہ فلمیں تھیں جس میں علی صاحب پر کوئی گیت فلم بند نہیں ہوا۔ علی اور زیبا کی آخری فلم ''محبت ہو تو ایسی ہو'' تھی ''خاموش رہو'' پہلی سپرہٹ فلم ، ''ہیڈکانسٹیبل'' علی زیب کی پہلی فلم، ''شیر دی بچی'' پہلی پنجابی فلم، کنیز پہلی گولڈن جوبلی فلم، جان پہچان پہلی رنگین فلم مختلف القابات پانے والے علی بھیا، حیدرآباد کا نام بھورے میاں، انڈسٹری کے غریب کارکن اچھے میاں، والدین عزیز و اقارب منا کے نام سے انہیں پکارتے تھے۔
اداکار محمد علی (اچھے میاں) 16مارچ کی صبح گیارہ بجے 74سال 11ماہ کی عمر میں بروز اتوار اپنے رب کی طرف لوٹ گئے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ روحانی شخصیت میاں میر کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا جائے۔ آج بھی میاں میرکے مزار میں جب لوگ داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ان کی قبر آتی ہے تو لوگ فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھتے ہیں، ان کی تعداد روز ہزاروں میں ہوتی ہے۔