جرائم اور پاکستان

کتنا بڑا المیہ ہے جو تاریخ کے سیاہ اوراق میں اضافے کا باعث ہوگا، دہشت گردی ان دنوں بام عروج پر ہے

nasim.anjum27@gmail.com

پاکستان کے عوام بہت سی مشکلات کا شکار ہیں، مہنگائی، تعلیم کافقدان، مجرمانہ ذہنیت میں اضافہ، اخلاقی اقدار سے دوری نے اس قوم کو کہیں کا نہیں رکھا، ان حالات کا ذمہ دار محض کوئی ایک ادارہ یا حکومت ہر گز نہیں ہے ، بلکہ اس مشکلات اور مسائل کے بحران میں کسی نہ کسی حوالے سے ہر شخص شریک ہے۔

سعودی عرب وہ مقدس خطہ ہے جہاں ہر سال لاکھوں لوگ عمرہ وحج کی سعادت حاصل کرتے ہیں ، ان مقامات کا تقدس وپاکیزگی اور اس کا دیدار حاصل کرنا مسلمانوں کی آرزو ہوتی ہے ۔ صدق دل سے کی ہوئی دعائیں ضرور مستجاب ہوجاتی ہیں، حج وعمرے کی فضیلت احادیث و قرآن سے ثابت ہے، اللہ تعالی نے ایک پوری سورت سورہ حج کے عنوان سے نازل فرمائی ۔

لیکن قابل شرم بات یہ ہے کہ صاف شفاف لباس یا احرام پہن کر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے اندر اور اطراف میں بے شمار پاکستانی گداگر مختلف انداز میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ، یہ لوگ جاتے ہی اس غرض سے ہیں کہ خوب دولت کمائیں گے ، یہ بات حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے، لیکن چشم پوشی کا جو لفظ ڈکشنری میں درج ہے، یوں لگتا ہے جیسے یہ لفظ ان کے لیے وجود میں آیا تھا، پاکستانی حکومت نے اس سے خوب خوب فائدہ اٹھایا ہے اور بھکاریوں سے لے کر سرمایہ داروں، امراء، وزراء تک کے لیے اسے مخصوص کردیاہے، اس ہی وجہ سے آج تک کوئی گرفت میں نہیں آیا۔

اس نرمی نے ملزموں کو نڈر بنادیا ہے اور اب انہوں نے اپنا دائرہ وسیع کرلیا ہے اور اس ملک میں جس کا نام لے کر روشن اور معطر یادیں تازہ ہوجاتی ہیں، جی ہاں، اس ملک میں پاکستانیوں نے قتل وڈکیتی کی واردات میں حصہ لیا اور پوری دنیا میں سرخرو ہوئے، جاہل انسان کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ بنا سوچے سمجھے بہادری کا مظاہرہ کرتا ہے اور خطرناک سے خطرناک کام کرجاتا ہے، جس کا انجام بدنامی اور عبرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا سو وہ ہی ہوا پانچ پاکستانیوں کے سر قلم کردیے گئے، ان لوگوں نے نجی کمپنی میں ڈاکا ڈالا اور اپنے راستے کی دیوار کو گرانے کے لیے بنگلہ دیشی چوکیدار کو قتل کردیا تھا اور اس کا خمیازہ بھگت لیا۔

بیرون ملک جانے والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کی مکمل چھان بین کے بعد انہیں ویزا اور پاسپورٹ کا جاری کرنا ناگزیر بنایا جائے اور یہ اہم قانون تو آج سے پچاس سال پہلے ہی پاس کرنا بہت ضروری تھا ۔گزرے دن مہنگائی اور حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے بہت خراب گزر رہے ہیں ، ایک خبر نگاہ سے یہ بھی گزری کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کا مذاق بنادیا ، لوگ کلاشنکوف لے کر ڈالوں میں پھرتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ ممنوعہ اسلحہ لائسنس کی کیٹگری میں میرا نام بغیر اجازت کے ڈالا گیا، قانون میں خصوصی رعایت ملنا میرے لیے باعث شرم ہے ، افسر شاہی میں اسٹینڈ لینے کا حوصلہ نہیں، منظم طریقے سے ملک تباہ کر رہی ہے۔


سپریم کورٹ نے ممنوعہ بور کے اسلحہ کے لائسنس جاری کرنے کے خلاف کیس میں وزرات داخلہ کی رپورٹ مسترد کردی ، پاکستان کے وقار اور استحکام کے لیے انصاف کو اولیت دینا اور طاقت ور و غرباء ومساکین کو مساوی حقوق دینا لازم ہے ۔ہمارے ملک میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف کام کیے جارہے ہیں ، جو بااختیار ہے حکم اس کا ہی چلتا ہے اور انصاف ذرا دور ، پرے ہٹ کر ظالم کو مسکرا کے دیکھتا ہے ، بے شمار معصوم لوگوں کا قتل ببانگ دہل ہوا ، جھوٹے کیس بناکر سزائیں دی گئیں ، قانون خاموش رہا ، نہ دہشت گردی اور قتل وغارت گری کا نوٹس لیا اور اس ملک کے بھی بااثر ادارے نے مہنگائی جیسے عذاب کو کم کرانے کے لیے اقدام نہیں کیا۔

مہنگائی کے مارے ہوئے لوگ خود کشی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں ، خود تو مرتے ہی ہیں ساتھ میں اپنے معصوم بچوں کو شدید اذیت سے دوچار کرتے ہیں ، بے روزگار اور تنگدست لوگوںکو خودکشی جیسے گناہ سے بچانے کے لیے سرکاری طور پر ایسے ادارے بنانے کی ضرورت ہے، جہاں سے انہیں مہنگائی الاؤنس ماہانہ مل جایا کرے ، لیکن افسوس حکومت نہ تو ڈکیتی ، لوٹ مار اور قتل جیسے جرائم کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ بجلی ، گیس کے نرخ کم کرانے کے لیے سنجیدہ ہے ۔کراچی میں باقاعدگی اور منصوبہ بندی کے ساتھ نوجوانوں کو قتل کردیا جاتا ہے۔

آخر وزیر اعلیٰ سے لے کر گورنر اور پولیس کے اعلی عہدیداران نوٹس کیوں نہیں لیتے ہیں، اپنی ذمہ داریوں کو بالائے طاق رکھ کر خونی کھیل سے غفلت برتنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں ، ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ ان مقتولین کی جگہ ان کا اپنا بھائی باپ بھی ہوسکتا تھا ، ان کے دل پر کیا گزرتی خون کے رشتہ لہو رلاتے ہیں اس وقت تک جب تک کہ لواحقین اپنی آخری سانس پوری نہ کرلیں، جب چوروں اور ڈاکوؤں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے ، گزرے سالوں میں پولیس گشت پر ہوا کرتی تھی ، لیکن اپنی اس ذمے داری سے بھی فارغ ہوچکے ہیں ، جبکہ گزشتہ ماہ و سال کی نسبت وارداتیں زیادہ بڑھ گئی ہیں ، اب لٹیروں کے لیے دن رات برابر ہیں۔

کتنا بڑا المیہ ہے جو تاریخ کے سیاہ اوراق میں اضافے کا باعث ہوگا، دہشت گردی ان دنوں بام عروج پر ہے، اب دہشت گردوں نے اڈیالہ جیل کا رخ اسلحہ کے ساتھ کیا ہے ، الحمدللہ اڈیالہ جیل کے قیدی محفوظ رہے ، سر چ آپریشن رات بھر جاری رہا، افغانستان سے تعلق رکھنے والے تین افغان دہشت گرد کس پلاننگ کے تحت پاکستان پہنچے تھے ، یہ تحقیق کے بعد ہی پتہ چلے گا ، لیکن اس واقعہ نے بہت سی اہم شخصیات کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے چونکہ اس ہی جیل میں قیدی نمبر 804یعنی پی ٹی آئی کے بانی ،سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی قید ہیں۔

اللہ تعالی اپنا کرم کرے اور تمام لوگوں کی حفاظت فرمائے ، آمین، اب پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو پر ہونے والی جیسی سنگین غلطی کو نہ دہرایا جائے ، پینتالیس سال بعد تاریخی فیصلہ ہوا تو کیا ہوا؟ دانشوروں اور سیاستدانوں کو چاہیے کہ ماضی کے دکھوں ، پچھتاوے اور کوتاہیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انصاف کی بقا کے لیے کام کریں تو حالات سدھر سکتے ہیں۔
Load Next Story