ایٹم کی تباہ کاریاں
پیوٹن، یوکرین کی جانب پھر سے پیش قدمی کر رہے ہیں کہ شاید امریکا کی توجہ اسرائیل کے نخروں سے ہٹ جائے
مارچ اٹھائیس 1979ء صبح کے چار بجے امریکا کے تھری مائل آئی لینڈ کے پینسلوائیہ میں ایٹمی ری ایکٹر سے ایسی گیسز خارج ہونا شروع ہوگئیں جو زندگی کے لیے خطرناک تھیں۔
ایسا سوچا بھی نہ گیا تھا کہ امریکا میں ایٹمی اسلحے کے تجربات کے سلسلے کی کڑی اس خوفناک حادثے کو انجام دے گی۔ بظاہر اس حادثے سے فوری طور پر اموات یا زخمی ہونے کی تو اطلاعات نہیں ملی تھیں لیکن کہا جارہا تھا کہ تابکاری کے اثرات بھیانک ہیں اور وقت کے گزرنے کے ساتھ دیکھا گیا کہ وہاں اور اردگرد کے باسیوں میں بلڈکینسر اور دیگر عوارض پائے گئے اور یہ تعداد لاکھوں میں تھی۔
ایٹمی تابکاری انسانی جسم پر اس انداز سے اثرکرتی ہے کہ ظاہری اور اندرونی طور پر بیماریاں نمو پاتی رہتی ہیں جبکہ زندگی سے متعلق ہر نوع بھی اس خطرناک آفت سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ چرنوبل کے ایٹمی ری ایکٹر کی مثال اس سلسلے میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
چھبیس اپریل 1986ء یوکرین (حالیہ) سابقہ سوویت یونین کا یہ علاقہ جہاں چرنوبل ایٹمی پاور پلانٹ قائم تھا طاقتور سوویت یونین نہیں جانتا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ انجینئرز نے پاور سپلائی منقطع کردی تھی یہ سب تجرباتی دور کا اہم حصہ تھا لیکن ناکام، ری ایکٹر غیر مستحکم تھے۔ ری ایکٹرزکو ٹھنڈا پانی پہنچانے والے ٹربائنز کی رفتار آہستہ ہوگئی۔ پانی کم ہوا تو بھاپ زیادہ بننے لگی اور ری ایکٹرکے اندر پریشر بڑھنے لگا۔
ری ایکٹرکو بند کرنے کی کوششیں کی گئی لیکن بے سود رہی کیونکہ بھاپ کے دبائو نے دھماکے سے ری ایکٹرکی چھت اڑا دی تھی، اس دھماکے سے دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ آگ بھڑک اٹھی تھی ہوا کی شدت نے اس آگ کو دس دن تک جلائے رکھا۔ تابکاری سے بھرا دھواں ہوا سے یورپ تک پھیل گیا تھا۔
امدادی کارکن فوراً پہنچے تھے جن میں سے اٹھائیس کارکن اس حادثے کے چند ماہ میں ہی مرگئے تھے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہاں زراعت اور جانور بھی شدید متاثر ہوئے تھے۔ آگ بجھانے والے ایک فائر فائٹرکی بیوی نے اپنے شوہر کی موت کے اذیت ناک لمحوں کو اس طرح تحریر کیا تھا۔
'' اسپتال میں ان آخری دنوں کے دوران اگر میں اس کا ہاتھ اٹھاتی تو اس کے بازوکی ہڈیاں وہیں لٹکی رہ جاتیں۔ اس کے جسم میں ہڈیاں علیحدہ ہوچکی تھیں۔ پھیپھڑوں اور جگرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے منہ میں آتے تھے۔ پیٹ کے دیگر عضلات اس کے گلے میں پھنس جاتے تھے۔ میں اپنے ہاتھ کے گرد پٹی باندھ کر ہاتھ کو اس کے منہ میں گھسیڑتی اور انہیں باہرکھینچتی تھی۔ میں بیان نہیں کرسکتی اور یہ سب کچھ لکھا بھی نہیں جاسکتا اور جب وہ مرا تو انہیں اس کی وردی کاٹ کر نکالنا پڑا۔ اس کا جسم یکجا نہیں تھا۔ وہ ایک بہت بڑا زخم بن چکا تھا۔''
یہ صرف ایک داستان غم ہے جسے پڑھ کر طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے لیکن ایٹمی توانائی کے حصول میں حضرت انسان اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ ماضی کے سارے اذیت ناک حادثات و واقعات بھول چکا ہے۔
ذرا،آج کے منظر نامے میں سوچیے جاپان کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ایٹمی قیامت نے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا۔ چرنوبل کے اس حادثے کے بعد ایک ہزار میل وسیع علاقے کو پورے ملک سے علیحدہ کرلیا گیا ہے کہ اس ممنوع علاقے میں کوئی نہیں بستا، یہ پورا علاقہ لندن کے رقبے سے بھی دگنا ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق تابکاری سے متاثرہ شدید علاقوں کے پرندوں تک کے ڈی این اے میں زہریلے اثرات پائے گئے ہیں۔ یہ علاقہ کب تک اس عظیم سائنسی تجربے کا تاوان بھگتائے گا خدا جانے۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر جب ایٹم بم گرائے گئے تھے جس سے درجہ حرارت دس کروڑ سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔
آگ نے گرم ہوا کی شکل اختیارکرتے ہوئے ہر شے کو جیسے اپنی زد میں لے لیا تھا، اس کی رفتار آوازکی رفتار یعنی (332میٹر فی سیکنڈ) سے بھی تیز تھی۔ ہر شے تابکاری سے بھرپور آگ بھری ہوا کے اثر میں آگئی تھی۔ تابکارنیوکلیائی جو بم کے پھٹنے سے خارج ہوئے گرد کے ذروں سے چمٹ کر نیچے آنے والی ہوا کے دوش پر جان لیوا زہرکی صورت میں پھیل گئی اور آج بھی اس کے اثرات ہیروشیما اور ناگاساکی میں طرح طرح کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہونیوالے بچوں کی صورت میں نظر آجاتے ہیں۔
ایٹمی توانائی اور اس سے منسلک کارروائیاں انسانی ترقی اور زندگی کیلئے جس حد تک کارگر ہے اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں اور ابھی تک دنیا نے اس کے نقصانات کو جس شرح سے بڑھتے دیکھا ہے، اس سے ایک اشارہ تو واضح طور پر ملتا ہے کہ توانائی کا حصول قدرت کے نظام سے اس حد تک ممکن ہے کہ جس حد تک اسے سنبھالا جائے لیکن انسان کم مدت میں توانائی کا بے پناہ حصول جس انداز میں چاہتا ہے وہ سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں جس کا اختتام ایک بھیانک دھماکے سے ہوا تھا مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ قوتوں کی غیر متوازن صورت ہمیشہ فساد کی صورت عیاں کرتا ہے لیکن اس توازن کی ترتیب کو بنانے کی بجائے بگاڑا ہی گیا ہے کہیں طاقتوں کو مسخ کرنے کیلئے تو کہیں دھاک بٹھانے کیلئے لیکن اس کے نقصان دہ اثرات پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی۔بھارت کے پوکھران میں ایٹمی دھماکوں سے طرح طرح کے مہلک اثرات رونما ہوئے تھے۔
راجھستان میں پوکھران کے اس علاقے میں گیارہ اور تیرہ مئی 1998ء میں بھارت نے طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا کرنے کی بیہودہ کارروائی کی تھی۔پانچ ایٹمی دھماکے ماضی میں دنیا کے ایٹمی دھماکوں کے نقصانات کو نظر انداز کرکے دراصل پاکستان پر دھاک بٹھانے کی کوشش کی گئی تھی یہ ایک نفسیاتی حربہ بھی تھا ۔ پاکستان اس نفسیاتی دبائو سے نکلنا چاہتا تھا۔ لہٰذا یہاں سے بھی جواب دیاگیا۔
اٹھائیس مئی 1998ء کو پاکستان نے وہ کر دکھایا جس کیلئے اسے بڑے طاقتوں نے روکنے کیلئے اپنا زور لگالیا تھا۔ اس جوابی کارروائی سے جو فوائد حاصل ہوئے وہ ایک طرف لیکن دونوں ممالک کے اس اقدام سے مجموعی طور پر جن مہلک اثرات نے فضا میں اپنا رنگ جمایا اس سے انکار کرنا ناممکن ہے۔
بھارت اور پاکستان نے 1998ء میں مئی کے مہینے میں صرف گیارہ دنوں میں چالیس ارب روپے خرچ کیے۔ گو آج بھارت بظاہر ترقی کی جانب دوڑتا بھاگتا نظر آرہا ہے لیکن آج بھی وہاں غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا جبکہ پاکستان کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال خوابوں کی بات ہے۔ فلسطین جل رہا ہے اور اس کی حدت اب دنیا بھر میں محسوس کی جارہی ہے پھر بھی خاموشی تو طاری ہے۔
پیوٹن، یوکرین کی جانب پھر سے پیش قدمی کر رہے ہیں کہ شاید امریکا کی توجہ اسرائیل کے نخروں سے ہٹ جائے۔ایٹم ایک ننھا سا ذرہ ہی تو ہے کہ جس کے وجود سے کتنی توانائیاں منسلک ہیں لیکن حضرت انسان کی چھیڑ خانیاں دنیا میں توانائیوں کے توازن کو بگاڑنے اورکمزوروں پر ظلم ڈھانے سے باز نہیں رہتے اگر قدرت کے نظام کو سمجھ جائے تو ہر جانب امن ہی امن ہو۔
ایسا سوچا بھی نہ گیا تھا کہ امریکا میں ایٹمی اسلحے کے تجربات کے سلسلے کی کڑی اس خوفناک حادثے کو انجام دے گی۔ بظاہر اس حادثے سے فوری طور پر اموات یا زخمی ہونے کی تو اطلاعات نہیں ملی تھیں لیکن کہا جارہا تھا کہ تابکاری کے اثرات بھیانک ہیں اور وقت کے گزرنے کے ساتھ دیکھا گیا کہ وہاں اور اردگرد کے باسیوں میں بلڈکینسر اور دیگر عوارض پائے گئے اور یہ تعداد لاکھوں میں تھی۔
ایٹمی تابکاری انسانی جسم پر اس انداز سے اثرکرتی ہے کہ ظاہری اور اندرونی طور پر بیماریاں نمو پاتی رہتی ہیں جبکہ زندگی سے متعلق ہر نوع بھی اس خطرناک آفت سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ چرنوبل کے ایٹمی ری ایکٹر کی مثال اس سلسلے میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
چھبیس اپریل 1986ء یوکرین (حالیہ) سابقہ سوویت یونین کا یہ علاقہ جہاں چرنوبل ایٹمی پاور پلانٹ قائم تھا طاقتور سوویت یونین نہیں جانتا تھا کہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ انجینئرز نے پاور سپلائی منقطع کردی تھی یہ سب تجرباتی دور کا اہم حصہ تھا لیکن ناکام، ری ایکٹر غیر مستحکم تھے۔ ری ایکٹرزکو ٹھنڈا پانی پہنچانے والے ٹربائنز کی رفتار آہستہ ہوگئی۔ پانی کم ہوا تو بھاپ زیادہ بننے لگی اور ری ایکٹرکے اندر پریشر بڑھنے لگا۔
ری ایکٹرکو بند کرنے کی کوششیں کی گئی لیکن بے سود رہی کیونکہ بھاپ کے دبائو نے دھماکے سے ری ایکٹرکی چھت اڑا دی تھی، اس دھماکے سے دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ آگ بھڑک اٹھی تھی ہوا کی شدت نے اس آگ کو دس دن تک جلائے رکھا۔ تابکاری سے بھرا دھواں ہوا سے یورپ تک پھیل گیا تھا۔
امدادی کارکن فوراً پہنچے تھے جن میں سے اٹھائیس کارکن اس حادثے کے چند ماہ میں ہی مرگئے تھے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ وہاں زراعت اور جانور بھی شدید متاثر ہوئے تھے۔ آگ بجھانے والے ایک فائر فائٹرکی بیوی نے اپنے شوہر کی موت کے اذیت ناک لمحوں کو اس طرح تحریر کیا تھا۔
'' اسپتال میں ان آخری دنوں کے دوران اگر میں اس کا ہاتھ اٹھاتی تو اس کے بازوکی ہڈیاں وہیں لٹکی رہ جاتیں۔ اس کے جسم میں ہڈیاں علیحدہ ہوچکی تھیں۔ پھیپھڑوں اور جگرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے منہ میں آتے تھے۔ پیٹ کے دیگر عضلات اس کے گلے میں پھنس جاتے تھے۔ میں اپنے ہاتھ کے گرد پٹی باندھ کر ہاتھ کو اس کے منہ میں گھسیڑتی اور انہیں باہرکھینچتی تھی۔ میں بیان نہیں کرسکتی اور یہ سب کچھ لکھا بھی نہیں جاسکتا اور جب وہ مرا تو انہیں اس کی وردی کاٹ کر نکالنا پڑا۔ اس کا جسم یکجا نہیں تھا۔ وہ ایک بہت بڑا زخم بن چکا تھا۔''
یہ صرف ایک داستان غم ہے جسے پڑھ کر طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے لیکن ایٹمی توانائی کے حصول میں حضرت انسان اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ ماضی کے سارے اذیت ناک حادثات و واقعات بھول چکا ہے۔
ذرا،آج کے منظر نامے میں سوچیے جاپان کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ایٹمی قیامت نے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا۔ چرنوبل کے اس حادثے کے بعد ایک ہزار میل وسیع علاقے کو پورے ملک سے علیحدہ کرلیا گیا ہے کہ اس ممنوع علاقے میں کوئی نہیں بستا، یہ پورا علاقہ لندن کے رقبے سے بھی دگنا ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق تابکاری سے متاثرہ شدید علاقوں کے پرندوں تک کے ڈی این اے میں زہریلے اثرات پائے گئے ہیں۔ یہ علاقہ کب تک اس عظیم سائنسی تجربے کا تاوان بھگتائے گا خدا جانے۔ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر جب ایٹم بم گرائے گئے تھے جس سے درجہ حرارت دس کروڑ سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔
آگ نے گرم ہوا کی شکل اختیارکرتے ہوئے ہر شے کو جیسے اپنی زد میں لے لیا تھا، اس کی رفتار آوازکی رفتار یعنی (332میٹر فی سیکنڈ) سے بھی تیز تھی۔ ہر شے تابکاری سے بھرپور آگ بھری ہوا کے اثر میں آگئی تھی۔ تابکارنیوکلیائی جو بم کے پھٹنے سے خارج ہوئے گرد کے ذروں سے چمٹ کر نیچے آنے والی ہوا کے دوش پر جان لیوا زہرکی صورت میں پھیل گئی اور آج بھی اس کے اثرات ہیروشیما اور ناگاساکی میں طرح طرح کی بیماریوں کے ساتھ پیدا ہونیوالے بچوں کی صورت میں نظر آجاتے ہیں۔
ایٹمی توانائی اور اس سے منسلک کارروائیاں انسانی ترقی اور زندگی کیلئے جس حد تک کارگر ہے اس سے کہیں زیادہ اس کے نقصانات ہیں اور ابھی تک دنیا نے اس کے نقصانات کو جس شرح سے بڑھتے دیکھا ہے، اس سے ایک اشارہ تو واضح طور پر ملتا ہے کہ توانائی کا حصول قدرت کے نظام سے اس حد تک ممکن ہے کہ جس حد تک اسے سنبھالا جائے لیکن انسان کم مدت میں توانائی کا بے پناہ حصول جس انداز میں چاہتا ہے وہ سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں جس کا اختتام ایک بھیانک دھماکے سے ہوا تھا مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ قوتوں کی غیر متوازن صورت ہمیشہ فساد کی صورت عیاں کرتا ہے لیکن اس توازن کی ترتیب کو بنانے کی بجائے بگاڑا ہی گیا ہے کہیں طاقتوں کو مسخ کرنے کیلئے تو کہیں دھاک بٹھانے کیلئے لیکن اس کے نقصان دہ اثرات پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی۔بھارت کے پوکھران میں ایٹمی دھماکوں سے طرح طرح کے مہلک اثرات رونما ہوئے تھے۔
راجھستان میں پوکھران کے اس علاقے میں گیارہ اور تیرہ مئی 1998ء میں بھارت نے طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا کرنے کی بیہودہ کارروائی کی تھی۔پانچ ایٹمی دھماکے ماضی میں دنیا کے ایٹمی دھماکوں کے نقصانات کو نظر انداز کرکے دراصل پاکستان پر دھاک بٹھانے کی کوشش کی گئی تھی یہ ایک نفسیاتی حربہ بھی تھا ۔ پاکستان اس نفسیاتی دبائو سے نکلنا چاہتا تھا۔ لہٰذا یہاں سے بھی جواب دیاگیا۔
اٹھائیس مئی 1998ء کو پاکستان نے وہ کر دکھایا جس کیلئے اسے بڑے طاقتوں نے روکنے کیلئے اپنا زور لگالیا تھا۔ اس جوابی کارروائی سے جو فوائد حاصل ہوئے وہ ایک طرف لیکن دونوں ممالک کے اس اقدام سے مجموعی طور پر جن مہلک اثرات نے فضا میں اپنا رنگ جمایا اس سے انکار کرنا ناممکن ہے۔
بھارت اور پاکستان نے 1998ء میں مئی کے مہینے میں صرف گیارہ دنوں میں چالیس ارب روپے خرچ کیے۔ گو آج بھارت بظاہر ترقی کی جانب دوڑتا بھاگتا نظر آرہا ہے لیکن آج بھی وہاں غربت کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا جبکہ پاکستان کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال خوابوں کی بات ہے۔ فلسطین جل رہا ہے اور اس کی حدت اب دنیا بھر میں محسوس کی جارہی ہے پھر بھی خاموشی تو طاری ہے۔
پیوٹن، یوکرین کی جانب پھر سے پیش قدمی کر رہے ہیں کہ شاید امریکا کی توجہ اسرائیل کے نخروں سے ہٹ جائے۔ایٹم ایک ننھا سا ذرہ ہی تو ہے کہ جس کے وجود سے کتنی توانائیاں منسلک ہیں لیکن حضرت انسان کی چھیڑ خانیاں دنیا میں توانائیوں کے توازن کو بگاڑنے اورکمزوروں پر ظلم ڈھانے سے باز نہیں رہتے اگر قدرت کے نظام کو سمجھ جائے تو ہر جانب امن ہی امن ہو۔