بھٹو شہید سپریم کورٹ کی تاریخی رائے …
نظریہ ضرورت اور نظریہ مصلحت کے تحت ہونے والے ہر فیصلے نے آمروں کو طاقت عطا کی اور جمہوریت کو کمزور کیا
6 مارچ 2024 پاکستان کی عدالتی تاریخ کا سب سے اہم دن قرار پائے گا، اس کی وجہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم نو رکنی لارجر بنچ کا فیصلہ ہے جس میں متفقہ طور پر یہ رائے دی گئی ہے کہ بھٹو کو موت کی جو سزا سنائی گئی تھی اس کا مقدمہ شفاف انداز سے نہیں چلایاگیا تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیاگیا، اس کے متعلق آصف علی زرداری کی جانب سے ایک صدارتی ریفرنس دائر کیاگیا تھا جسے پاکستان کی سپریم کورٹ کا کوئی چیف جسٹس سننے اور اس پر اپنی رائے صادر کرنے کی جرات نہیں کرسکا تھا۔
ریفرنس دائر ہونے کے بعد کم و بیش بارہ چیف جسٹس صاحبان نے اپنا اپنا دور بڑے جاہ وجلال کے ساتھ گزارا اور اپنے اعتبار سے کافی جرأت مندانہ فیصلے بھی کیے۔
ذرایع ابلاغ میں بھی ان میں سے کئی چیف جسٹس صاحبان کی شان میں قصیدے لکھے گئے لیکن ان میں سے کسی نے بھی ایک بے گناہ پاکستانی شہری کے عدالتی قتل کو انصاف کے مروجہ تقاضوں کے منافی کہنے کی ہمت نہیں کی، جس پاکستانی شہری کو ناکردہ جرم میں پھانسی دی گئی، وہ پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم بھی تھا۔
یہ وہ سیاسی رہنما تھا جس نے اس مشکل ترین وقت میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب پاکستان دو ٹکڑے ہوچکا تھا اور دنیا کے نقشے پر مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد و خود مختار ملک کے طور پر نمودار ہوچکاتھا، پاکستان کے نوے ہزار فوجی ہندوستان کی قید میں تھے، ان پر جنگی جرائم کے حوالے سے مقدمات چلانے کے مطالبات کیے جا رہے تھے۔
عالمی رائے عامہ مکمل طور پر حکومت پاکستان کی فوجی کاروائیوں کی سخت ترین مخالفت کرچکی تھی، دنیا کے ملک یکے بعد دیگر بنگلہ دیش کو تسلیم کرتے چلے جارہے تھے اور پاکستان عالمی برادری میں تنہا ہورہا تھا۔ عدالتی قتل کا نشانہ بننے والے اس منتخب وزیر اعظم نے اس وقت آگے بڑھ کر ملک کو عالمی تنہائی سے نکالنے کی جدوجہد کی۔
پاکستان کے جنگی قیدیوں کو ہندوستان سے واپس لایا ' واپسی پر ان کی عزت وتکریم کی ' شکست خوردہ فوج کا مورال بلند کیا۔ہزاروں میل کا پاکستانی علاقہ ہندوستان سے واگذار کرایا، یہ وہی وزیر اعظم تھا جس نے پاکستان کو پہلا آئین دیا، تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملایا اور1973کے آئین کو ایک متفقہ دستاویز بنانے کی بھر پور کوشش کی۔
1973کے آئین نے اداروں اور محکموں کے دائرہ کار متعین کیے۔پارلیمنٹ کی بالادستی اور خود مختاری کو یقینی بنایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام صوبوں کو وفاقی اکائیوں کے طور پر تسلیم کیا اوران کی اندرونی خود مختاری کا تعین کردیا۔ اس آئین کے ذریعے ملک میںوفاقی پارلیمانی نظام کی بنیاد ڈالی گئی جو پاکستان کی سلامتی کی واحد ضمانت ہے۔
ایک فوجی آمر کی خواہش پراعلیٰ ترین عدالت نے جس شخص کی پھانسی کے خلاف اپیل مسترد کردی تھی،اس نے اپنے ملک کے لیے جو کچھ کیا اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے، اس کی سب سے بڑی عظمت یہ تھی کہ اس نے معافی نہیں مانگی اور تختۂ دار پر جانا قبول کرلیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو داد دی جانی چاہیے کہ انھوں نے نہ صرف اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کی بلکہ اس حوالے سے اپنی رائے کا کھل کر اظہار بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو شہید کے خلاف عدلیہ نے جو فیصلہ دیاتھا اس میںخوف کا عنصر شامل تھا ۔ ان کی یہ بات جزوی طور پر درست ہے بھٹو صاحب کے خلاف فیصلہ دینے والوں پر جنرل ضیا الحق کا یقینا دبائو تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالتوں اوران کے ججوں کو آمروں کے دباؤ میں آنا چاہیے تھا، کیا انھیں اپنے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں کرنا چاہیے تھے ؟
فوجی آمروں کی خوشنودی یا اپنی ذاتی اورسیاسی وابستگی اور پسندیدگی کی بنیاد پر آئین اور قانون سے ماوراء فیصلہ دینا کیا درست اقدام ہے، اگر نہیں تو پھر ایسا فیصلہ دینے والوں کو روکنے کی کوئی آئینی اور قانونی گنجائش موجود ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب بھی لارجر بنچ نے اپنی رائے کے ذریعے دے دیا ہے۔
لارجر بنچ نے اپنی رائے میںکہا ہے کہ اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے اور نہ ہی قانون میں ایسا طریقہ کار دیا گیا ہے جس کے ذریعے بھٹو کیس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طریقہ کار کو ختم ہونا چاہیے کہ کوئی عدالت یا جج اگر واضح طور پر آئین اور قانون سے انحراف کرتے ہوئے فیصلے کرے اور کسی بے گناہ کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم دے تو وہ فیصلہ نہ تبدیل ہوسکے اور نہ ہی اسے کالعدم قرار دیا جاسکے۔
مستقبل میںکسی بھی بے گناہ پاکستانی کو خواہ و ہ وزیر اعظم ہو یا ایک عام شہری ' عدالت کے ذریعے قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ٹرائل غلط ہواتھا، سوال یہ ہے کہ اگر یہ معلوم ہوجائے اور صاف نظر آنے لگے کہ ایک بے گناہ انسان کو کسی عدالت نے موت کی سزا دے کر اس پر عمل درآمد کرایا ہے تو اس کا مداوا اور تلافی کس طرح کی جائے گی؟ ایک ایسے سماج میں جہاں انصاف کرنے والے طاقتوروں کے حکم کے آگے سرنگوں ہوجائیں ، عدل اور انصاف کے بجائے اپنی پسند نا پسند پر فیصلے کریں تو کیا ایسے حالات میں کسی ملک میں پھانسی کی سزا برقرار رکھی جانی چاہیے؟
جس عمل کا مداوا اور تلافی ممکن نہیں اسے قانونی طور پر قائم رکھنے کا کیا جواز ہے۔زندگی کے علاوہ ہر چیز کی تلافی کرنی پوری حد تک نہیں تو کسی حد تک ضرور ممکن ہے لیکن جب یہ معلوم ہوجائے کہ کسی انسان کو اس کی زندگی سے غلط طور پر محروم کردیاگیا ہے تو کیا اسے زندگی واپس کی جاسکتی ہے؟کم از کم ایک ایسے معاشرے میں جہاں انصاف کے تقاضے سو فیصد پورے نہیں کیے جاسکتے اس میں مو ت کی سزا برقرار رکھنے کا کوئی منطقی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔
صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کی متفقہ رائے کی قدر کی جانی چاہیے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ کہنا خوش آیند ہے کہ عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے۔ اس بات کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو کرنا ہوگا ۔یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ احتساب کا ڈر اور خوف نہ ہو تو عام حالات میں بھی ہر طاقتور اور با اختیار انسان بے قابو ہوجاتا ہے۔
قاضی صاحب کی اس بات نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے کہ ہماری عدلیہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ شہید بھٹو کے مقدمے میں ایک بھیانک غلطی کا اعتراف سامنے آگیا ہے، ہماری عدالتی تاریخ میں ججوں کی جانب سے ایسے درجنوں غلط فیصلے کیے گئے جن کا ملک کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ اہے۔
نظریہ ضرورت اور نظریہ مصلحت کے تحت ہونے والے ہر فیصلے نے آمروں کو طاقت عطا کی اور جمہوریت کو کمزور کیا، جمہوریت کی کمزوری سے عدم استحکام نے جنم لیا جس کے نتیجے میں ایک بار ملک ٹوٹا اورآج وہ معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ریاست کے ہر ادارے کو نہ صرف غلطیوں کا اعتراف بلکہ ان کی ممکنہ تلافی کے علاوہ ٹھوس قوانین بنانے ہوں گے ورنہ سب کچھ ماضی کی طرح جاری رہے گا ۔ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیاگیا، اس کے متعلق آصف علی زرداری کی جانب سے ایک صدارتی ریفرنس دائر کیاگیا تھا جسے پاکستان کی سپریم کورٹ کا کوئی چیف جسٹس سننے اور اس پر اپنی رائے صادر کرنے کی جرات نہیں کرسکا تھا۔
ریفرنس دائر ہونے کے بعد کم و بیش بارہ چیف جسٹس صاحبان نے اپنا اپنا دور بڑے جاہ وجلال کے ساتھ گزارا اور اپنے اعتبار سے کافی جرأت مندانہ فیصلے بھی کیے۔
ذرایع ابلاغ میں بھی ان میں سے کئی چیف جسٹس صاحبان کی شان میں قصیدے لکھے گئے لیکن ان میں سے کسی نے بھی ایک بے گناہ پاکستانی شہری کے عدالتی قتل کو انصاف کے مروجہ تقاضوں کے منافی کہنے کی ہمت نہیں کی، جس پاکستانی شہری کو ناکردہ جرم میں پھانسی دی گئی، وہ پاکستان کا پہلا منتخب وزیر اعظم بھی تھا۔
یہ وہ سیاسی رہنما تھا جس نے اس مشکل ترین وقت میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب پاکستان دو ٹکڑے ہوچکا تھا اور دنیا کے نقشے پر مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد و خود مختار ملک کے طور پر نمودار ہوچکاتھا، پاکستان کے نوے ہزار فوجی ہندوستان کی قید میں تھے، ان پر جنگی جرائم کے حوالے سے مقدمات چلانے کے مطالبات کیے جا رہے تھے۔
عالمی رائے عامہ مکمل طور پر حکومت پاکستان کی فوجی کاروائیوں کی سخت ترین مخالفت کرچکی تھی، دنیا کے ملک یکے بعد دیگر بنگلہ دیش کو تسلیم کرتے چلے جارہے تھے اور پاکستان عالمی برادری میں تنہا ہورہا تھا۔ عدالتی قتل کا نشانہ بننے والے اس منتخب وزیر اعظم نے اس وقت آگے بڑھ کر ملک کو عالمی تنہائی سے نکالنے کی جدوجہد کی۔
پاکستان کے جنگی قیدیوں کو ہندوستان سے واپس لایا ' واپسی پر ان کی عزت وتکریم کی ' شکست خوردہ فوج کا مورال بلند کیا۔ہزاروں میل کا پاکستانی علاقہ ہندوستان سے واگذار کرایا، یہ وہی وزیر اعظم تھا جس نے پاکستان کو پہلا آئین دیا، تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملایا اور1973کے آئین کو ایک متفقہ دستاویز بنانے کی بھر پور کوشش کی۔
1973کے آئین نے اداروں اور محکموں کے دائرہ کار متعین کیے۔پارلیمنٹ کی بالادستی اور خود مختاری کو یقینی بنایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام صوبوں کو وفاقی اکائیوں کے طور پر تسلیم کیا اوران کی اندرونی خود مختاری کا تعین کردیا۔ اس آئین کے ذریعے ملک میںوفاقی پارلیمانی نظام کی بنیاد ڈالی گئی جو پاکستان کی سلامتی کی واحد ضمانت ہے۔
ایک فوجی آمر کی خواہش پراعلیٰ ترین عدالت نے جس شخص کی پھانسی کے خلاف اپیل مسترد کردی تھی،اس نے اپنے ملک کے لیے جو کچھ کیا اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے، اس کی سب سے بڑی عظمت یہ تھی کہ اس نے معافی نہیں مانگی اور تختۂ دار پر جانا قبول کرلیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو داد دی جانی چاہیے کہ انھوں نے نہ صرف اس صدارتی ریفرنس کی سماعت کی بلکہ اس حوالے سے اپنی رائے کا کھل کر اظہار بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھٹو شہید کے خلاف عدلیہ نے جو فیصلہ دیاتھا اس میںخوف کا عنصر شامل تھا ۔ ان کی یہ بات جزوی طور پر درست ہے بھٹو صاحب کے خلاف فیصلہ دینے والوں پر جنرل ضیا الحق کا یقینا دبائو تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عدالتوں اوران کے ججوں کو آمروں کے دباؤ میں آنا چاہیے تھا، کیا انھیں اپنے فیصلے آئین اور قانون کے مطابق نہیں کرنا چاہیے تھے ؟
فوجی آمروں کی خوشنودی یا اپنی ذاتی اورسیاسی وابستگی اور پسندیدگی کی بنیاد پر آئین اور قانون سے ماوراء فیصلہ دینا کیا درست اقدام ہے، اگر نہیں تو پھر ایسا فیصلہ دینے والوں کو روکنے کی کوئی آئینی اور قانونی گنجائش موجود ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب بھی لارجر بنچ نے اپنی رائے کے ذریعے دے دیا ہے۔
لارجر بنچ نے اپنی رائے میںکہا ہے کہ اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے اور نہ ہی قانون میں ایسا طریقہ کار دیا گیا ہے جس کے ذریعے بھٹو کیس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر پاکستانی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طریقہ کار کو ختم ہونا چاہیے کہ کوئی عدالت یا جج اگر واضح طور پر آئین اور قانون سے انحراف کرتے ہوئے فیصلے کرے اور کسی بے گناہ کو پھانسی پر چڑھانے کا حکم دے تو وہ فیصلہ نہ تبدیل ہوسکے اور نہ ہی اسے کالعدم قرار دیا جاسکے۔
مستقبل میںکسی بھی بے گناہ پاکستانی کو خواہ و ہ وزیر اعظم ہو یا ایک عام شہری ' عدالت کے ذریعے قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ٹرائل غلط ہواتھا، سوال یہ ہے کہ اگر یہ معلوم ہوجائے اور صاف نظر آنے لگے کہ ایک بے گناہ انسان کو کسی عدالت نے موت کی سزا دے کر اس پر عمل درآمد کرایا ہے تو اس کا مداوا اور تلافی کس طرح کی جائے گی؟ ایک ایسے سماج میں جہاں انصاف کرنے والے طاقتوروں کے حکم کے آگے سرنگوں ہوجائیں ، عدل اور انصاف کے بجائے اپنی پسند نا پسند پر فیصلے کریں تو کیا ایسے حالات میں کسی ملک میں پھانسی کی سزا برقرار رکھی جانی چاہیے؟
جس عمل کا مداوا اور تلافی ممکن نہیں اسے قانونی طور پر قائم رکھنے کا کیا جواز ہے۔زندگی کے علاوہ ہر چیز کی تلافی کرنی پوری حد تک نہیں تو کسی حد تک ضرور ممکن ہے لیکن جب یہ معلوم ہوجائے کہ کسی انسان کو اس کی زندگی سے غلط طور پر محروم کردیاگیا ہے تو کیا اسے زندگی واپس کی جاسکتی ہے؟کم از کم ایک ایسے معاشرے میں جہاں انصاف کے تقاضے سو فیصد پورے نہیں کیے جاسکتے اس میں مو ت کی سزا برقرار رکھنے کا کوئی منطقی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔
صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ کی متفقہ رائے کی قدر کی جانی چاہیے۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا یہ کہنا خوش آیند ہے کہ عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے۔ اس بات کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کو کرنا ہوگا ۔یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ احتساب کا ڈر اور خوف نہ ہو تو عام حالات میں بھی ہر طاقتور اور با اختیار انسان بے قابو ہوجاتا ہے۔
قاضی صاحب کی اس بات نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے کہ ہماری عدلیہ ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ شہید بھٹو کے مقدمے میں ایک بھیانک غلطی کا اعتراف سامنے آگیا ہے، ہماری عدالتی تاریخ میں ججوں کی جانب سے ایسے درجنوں غلط فیصلے کیے گئے جن کا ملک کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑ اہے۔
نظریہ ضرورت اور نظریہ مصلحت کے تحت ہونے والے ہر فیصلے نے آمروں کو طاقت عطا کی اور جمہوریت کو کمزور کیا، جمہوریت کی کمزوری سے عدم استحکام نے جنم لیا جس کے نتیجے میں ایک بار ملک ٹوٹا اورآج وہ معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ریاست کے ہر ادارے کو نہ صرف غلطیوں کا اعتراف بلکہ ان کی ممکنہ تلافی کے علاوہ ٹھوس قوانین بنانے ہوں گے ورنہ سب کچھ ماضی کی طرح جاری رہے گا ۔ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوگا ۔