ادبی میلے ثقافت و روایات کے امین
لاہور میں سجا تین روزہ ادبی فیسٹیول اختتام پذیر
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ادبی میلے صرف رابطوں کو ہی پروان نہیں چڑھاتے، بلکہ کلچر، ثقافت، زبان، ادب، روایات، اور آزادی اظہار کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان میلوں ٹھیلوں کے سرسنگیت، فن، مکالمے اور قہقہوں سے فضا معطر ہو جاتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نئی نسل میں کتاب ، ادیب، شاعر اور فنکار سے محبت کی جو ایک لہر دوڑی ہے، اس میں ادبی میلوں ٹھیلوں نے بڑاہم کردار ادا کیا ہے، یہ پہلو بھی خوش آئند ہے کہ کتاب میلوں کے ساتھ ساتھ اب ادبی میلے بھی ہماری روایت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، ویسے تو ادبی میلے سجانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچکی ہے، لیکن 2008 میں ہمسایہ ملک بھارت میں لٹریچر فیسیٹول کا پہلی بار انعقاد کیا گیا تو حسب روایت پاکستان میں بھی ادبی حلقوں نے اس طرف توجہ دی اور لٹریری فیسٹول کے انعقادکے لئے کوشش شروع کردیں اور انہیں کوششوں کے نتیجے میں دو برس بعد 2010 میں کراچی میں ایسے ہی ادبی میلے کا انعقاد کیا گیا۔ بات کراچی سے شروع ہوئی لیکن ادب کے حوالے سے لاہور نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں لہذا جلد ہی ادبی میلے کا رخ لاہور کی جانب موڑ دیا گیا اورزندہ دلان لاہور کے شہر میں لاہور لٹریری فیسٹیول کے نام سے ادبی میلے کا انعقاد کیا گیا۔
پنجاب بالخصوص لاہور میں فروری کا مہینہ بہار اور بسنت میلے کے لئے مشہور ہے، دنیا بھر سے لوگ لاہور میں بسنت منانے کے لئے آتے تھے ، خود لاہور یوں کو بھی بسنت کے تہوار کا شدت کے ساتھ انتظار ہوتا تھا، جب بسنت خوشیوں کے تہوار کی بجائے خونی بسنت میں تبدیل ہو گئی تو حکومت نے اس پر پابندی لگا دی۔ اس کے نتیجے میں تفریح اور خوشیوں کا سامان پیدا کرنے والا قدیم ثقافتی تہوار ہمیشہ کیلئے ہماری زندگیوں سے کٹ گیا۔ لٹریری فیسٹیول کو بسنت جیسے تہوار کا متبادل تو نہیں کہاجاسکتا مگر شعور و آگہی میں افزودگی اور تفریح کے حصول کا ذریعہ ضرور سمجھا جاسکتا ہے۔ لٹریری فیسٹیول کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ لٹریچر فیسٹیول کے نام سے منعقد کی جانے والی تقریبات کی تبدیل شدہ اور ترقی یافتہ شکل ہے۔
لٹریچر فیسٹیول کی تقریبات اگرصرف مختلف زبانوں میں ہونے والی تخلیقات کے متعلق اظہار خیال تک محدود ہوا کرتی تھیں تو لٹریری فیسٹیولز کے دوران اب زبان و ادب پر گفتگو کے ساتھ ساتھ رقص اور موسیقی کی محفلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ ادبی مجلسوں کے ساتھ رقص و موسیقی کی محفلوں کے انعقاد کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کہا جاسکتا کیونکہ الگ الگ نظر آنے کے باوجود یہ فنون بر صغیر میں زمانہ قدیم سے اس طرح باہم وابستہ ہیں کہ ان میںارتقا ایک دوسر ے کے زیر اثر رہ کر ہی ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم میں جب مہا بھارت سے ماخوذ کالی داس کی لکھی ہوئی کہانی '' شکنتلا'' کو ڈرامائی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا تو یہ پیشکش مغربی اوپیرا کی طرح ادب ، موسیقی اور رقص کا مجموعہ ہوتی تھی۔ اس پیشکش کے دوران ایک گلوکار شعروں پر مبنی مختلف اداکاروں کے ڈائیلاگ اونچی آواز میں گیت کی شکل میں گاتا تھا، اس گائیکی کوڈھولک سمیت جن دوسرے آلات موسیقی کی سنگت میسر ہوتی تھی ان ہی کی تھاپ پر رقاص اپنے جسم کے مختلف اعضا کو ایک ڈسپلن میں حرکت دیتے ہوئے اس طرح رقص کرتا تھا کہ گائیک کی بیان کردہ کہانی ان لوگوں کے ذہنوں میں آسانی سے منتقل ہوجاتی جن کے کانوں تک اس کی آواز نہیں پہنچ پاتی تھی۔ کالی داس کے ڈرامے ''شکنتلا '' کی ڈرامائی تشکیل کے دوران برصغیر میں ادب، موسیقی اور رقص کی آمیزش کی جو روایت قائم ہوئی ہماری فلموں کے گانے اسی روایت کا تسلسل ہیں۔
ماضی قریب کی طرح اس بار بھی لاہور لیٹریری فیسٹول 3روز تک ادب کے رنگ بکھیر کر اختتام پذیرہوا، ادبی فیسٹول کے آخری روز بھی 24 سیشنز میں ملکی اور غیر ملکی دانشوروں ادیبوں، فنکاروں اور شاعروں نے علم کے دیئے روشن کئے۔ ابتدائی دو روز کی طرح آخری دن بھی الحمرا کے چاروں مین ہالز میں مجموعی طور پر 24سیشنز ہوئے جن میں نامور ادیبوں، فنکاروں، شاعروں پروفیسرز اور معروف بیوروکریٹس نے ادب، ثقافت سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ فیسٹیول کے اردو فکشن کے سیشن رولاک میں مصنف رفاقت حیات اور اسامہ صدیقی موجود تھے جبکہ نئی نسل، نئی شاعری کے سیشن میں تنویر انجم، فاطمہ مہرو اور افضال احمد سید شریک ہوئے۔
منصور حلاج کی کتاب الطواسین پر بھی ایک سیشن رکھا گیا جس میں سید نعمان الحق، اسامہ صدیق کے علاوہ نجیبہ عارف شریک ہوئے۔ سفینہ دانش الہٰی کی کتاب کی تقریبِ رونمائی بھی فیسٹیول کا حصہ تھی۔ فیسٹیول کے تیسرے روز کا آخری سیشن حمزہ نامہ اور طلسم ہوشربا کے عنوان سے رکھا گیا تھا۔آخری روز بھی میوزیکل پروگرام میں نامور گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگا کر میلہ لوٹ لیا۔ فیسٹول کے دوران کتابوں کے سٹالز اور چٹ پٹے کھانے بھی شہریوں کی توجہ کا مرکز رہے۔فیسٹول میں آئے لوگوں نے ادبی میلے کو خوب سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے ایونٹس کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے۔ اس سے قبل لاہور لٹریری فیسٹول کی افتتاحی تقریب بھی قابل دید تھی، افتتاحی تقریب میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے سکالرزودانشوروں نے شرکت کی۔
چیئرمین ایل ایل ایف اقبال زیڈ احمد نے فیسٹیول کا حصہ بننے والے تمام مندوبین کا خیرمقدم کرتے ہوئے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز قوالی سے ہوا جسے ہال میں موجود عوام نے پسند کیا۔ لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین رضی احمدنے کہا کہ لاہور سمیت پاکستان بھر میں پھیلے ورثے کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہیں، اپنے آرٹسٹوں کی خدمات کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر نامور آرٹسٹ سلیمہ ہاشمی اور نامور شاعر افتخار عارف کو اعلی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ دوسرے روز بھی نامور ادیب اور فنکار حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ مجموعی طور پر 22 سے زائد سیشنزہوئے جس میں نامور ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کر کے سیر حاصل گفتگو کی۔ نامور مصنف محسن حامد کے ساتھ ماڈریٹر لارولائن نشست ''کرداروں سے جذبات اخذ کرنا'' میں گفتگو کی۔
مشاعرہ میں تنویر انجم، افتخار عارف، عباس تابش، ناصرہ زبیری، اشفاق حسین اور حارث خلیق اپنا کلام پیش کیا۔ روشنہ ظفر، مومنہ اظہرالدین اور صدف عابد نشست ''غربت کا خاتمہ بذریعہ ڈیجیٹل میڈیم'' میں مارڈیٹر تیمور رحمان نے بات چیت کی، سلمان فاروقی پر شکیل درانی اور راشد امجدنے اظہار خیال کیا۔ نشست شعر و شاعری میں افتخار عارف اور واجد جواد سے قاسم جعفری نے گفتگو کی۔ موسمیاتی تبدیلی کے دور پاکستان، آرٹ کا معیار کیا ہے، سرائیکی ادب، شاہ عبدالطیف کی شاعر ی اور سندھ کی زندگی، کروشیا میں مزاحمتی شاعری، لاہور کی دیوانگی و دیگر نشستیں بھی ہوئیں۔
ایک اہم نشست میں مشہور ومعروف آرٹسٹ سلمان فاروقی کی خودنوشت کی تقریب رونمائی کا انعقاد ہوا۔ نشست میں سابق چیئرمین واپڈا شکیل درانی اور نامور کالم نگار راشد امجد نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ پنلسٹ نے سلمان فاروقی کی نجی، معاشرتی زندگی، انکے فن وشخصیت پر گفتگو کی۔ راشد امجد نے سلمان فاروقی کی اچیوئمنٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جدوجہد کا استعارہ ہیں۔ کراچی سکول آف آرٹ سے تعلیم حاصل کی، اقبال مہدی کی راہنمائی میں تربیت حاصل کی۔ ان کے کام میں حقیقت پسندی اور جدیدیت کے رنگ نمایاں ہیں، منظر نگاری میں تاثر پرستی کا اظہار انھیں اپنے فن میں ممتاز کرتا ہے۔
شکیل درانی نے سلمان فاروقی کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو عیاں کیا، انکے مشفیق رویوں پر لب کشائی کی، پاکستان کے حالات پر نقطہ نظر کو بھی سامعین کے سامنے رکھا، سلمان فاروقی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی اور مصروفیت کی معلومات بھی جاننے والے کے گوش گزار کی۔ ڈی جی والڈسٹی کامران لاشاری، نامور آرٹسٹ ذوالفقار علی زلفی و دیگر اہم شخصیات بھی تقریب میں موجود تھیں جنہوں نے پنلسٹ کی گفتگو کو پسند کیا۔
لاہور لٹریری فیسٹول کے کامیاب انعقاد سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستانی آرٹ اور فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، جو چاہتے ہیں کہ ایسی صحت مند سرگرمیاں یہاں تواتر کے ساتھ ہونی چاہیں۔ ایسی سرگرمیاں موجودہ سیاسی ،سماجی اور معاشی گھٹن کے ماحول میں ایک تازہ ہوا کا جھو نکا بن کے آتی ہیں بلکہ آنے والوں کو بھی بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں، دعا ہے کہ ایسی صحت مندانہ سرگرمیاں پاکستان میں جاری و ساری رہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نئی نسل میں کتاب ، ادیب، شاعر اور فنکار سے محبت کی جو ایک لہر دوڑی ہے، اس میں ادبی میلوں ٹھیلوں نے بڑاہم کردار ادا کیا ہے، یہ پہلو بھی خوش آئند ہے کہ کتاب میلوں کے ساتھ ساتھ اب ادبی میلے بھی ہماری روایت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، ویسے تو ادبی میلے سجانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچکی ہے، لیکن 2008 میں ہمسایہ ملک بھارت میں لٹریچر فیسیٹول کا پہلی بار انعقاد کیا گیا تو حسب روایت پاکستان میں بھی ادبی حلقوں نے اس طرف توجہ دی اور لٹریری فیسٹول کے انعقادکے لئے کوشش شروع کردیں اور انہیں کوششوں کے نتیجے میں دو برس بعد 2010 میں کراچی میں ایسے ہی ادبی میلے کا انعقاد کیا گیا۔ بات کراچی سے شروع ہوئی لیکن ادب کے حوالے سے لاہور نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں لہذا جلد ہی ادبی میلے کا رخ لاہور کی جانب موڑ دیا گیا اورزندہ دلان لاہور کے شہر میں لاہور لٹریری فیسٹیول کے نام سے ادبی میلے کا انعقاد کیا گیا۔
پنجاب بالخصوص لاہور میں فروری کا مہینہ بہار اور بسنت میلے کے لئے مشہور ہے، دنیا بھر سے لوگ لاہور میں بسنت منانے کے لئے آتے تھے ، خود لاہور یوں کو بھی بسنت کے تہوار کا شدت کے ساتھ انتظار ہوتا تھا، جب بسنت خوشیوں کے تہوار کی بجائے خونی بسنت میں تبدیل ہو گئی تو حکومت نے اس پر پابندی لگا دی۔ اس کے نتیجے میں تفریح اور خوشیوں کا سامان پیدا کرنے والا قدیم ثقافتی تہوار ہمیشہ کیلئے ہماری زندگیوں سے کٹ گیا۔ لٹریری فیسٹیول کو بسنت جیسے تہوار کا متبادل تو نہیں کہاجاسکتا مگر شعور و آگہی میں افزودگی اور تفریح کے حصول کا ذریعہ ضرور سمجھا جاسکتا ہے۔ لٹریری فیسٹیول کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ لٹریچر فیسٹیول کے نام سے منعقد کی جانے والی تقریبات کی تبدیل شدہ اور ترقی یافتہ شکل ہے۔
لٹریچر فیسٹیول کی تقریبات اگرصرف مختلف زبانوں میں ہونے والی تخلیقات کے متعلق اظہار خیال تک محدود ہوا کرتی تھیں تو لٹریری فیسٹیولز کے دوران اب زبان و ادب پر گفتگو کے ساتھ ساتھ رقص اور موسیقی کی محفلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے۔ ادبی مجلسوں کے ساتھ رقص و موسیقی کی محفلوں کے انعقاد کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کہا جاسکتا کیونکہ الگ الگ نظر آنے کے باوجود یہ فنون بر صغیر میں زمانہ قدیم سے اس طرح باہم وابستہ ہیں کہ ان میںارتقا ایک دوسر ے کے زیر اثر رہ کر ہی ہوتا ہے۔
زمانہ قدیم میں جب مہا بھارت سے ماخوذ کالی داس کی لکھی ہوئی کہانی '' شکنتلا'' کو ڈرامائی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جاتا تھا تو یہ پیشکش مغربی اوپیرا کی طرح ادب ، موسیقی اور رقص کا مجموعہ ہوتی تھی۔ اس پیشکش کے دوران ایک گلوکار شعروں پر مبنی مختلف اداکاروں کے ڈائیلاگ اونچی آواز میں گیت کی شکل میں گاتا تھا، اس گائیکی کوڈھولک سمیت جن دوسرے آلات موسیقی کی سنگت میسر ہوتی تھی ان ہی کی تھاپ پر رقاص اپنے جسم کے مختلف اعضا کو ایک ڈسپلن میں حرکت دیتے ہوئے اس طرح رقص کرتا تھا کہ گائیک کی بیان کردہ کہانی ان لوگوں کے ذہنوں میں آسانی سے منتقل ہوجاتی جن کے کانوں تک اس کی آواز نہیں پہنچ پاتی تھی۔ کالی داس کے ڈرامے ''شکنتلا '' کی ڈرامائی تشکیل کے دوران برصغیر میں ادب، موسیقی اور رقص کی آمیزش کی جو روایت قائم ہوئی ہماری فلموں کے گانے اسی روایت کا تسلسل ہیں۔
ماضی قریب کی طرح اس بار بھی لاہور لیٹریری فیسٹول 3روز تک ادب کے رنگ بکھیر کر اختتام پذیرہوا، ادبی فیسٹول کے آخری روز بھی 24 سیشنز میں ملکی اور غیر ملکی دانشوروں ادیبوں، فنکاروں اور شاعروں نے علم کے دیئے روشن کئے۔ ابتدائی دو روز کی طرح آخری دن بھی الحمرا کے چاروں مین ہالز میں مجموعی طور پر 24سیشنز ہوئے جن میں نامور ادیبوں، فنکاروں، شاعروں پروفیسرز اور معروف بیوروکریٹس نے ادب، ثقافت سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ فیسٹیول کے اردو فکشن کے سیشن رولاک میں مصنف رفاقت حیات اور اسامہ صدیقی موجود تھے جبکہ نئی نسل، نئی شاعری کے سیشن میں تنویر انجم، فاطمہ مہرو اور افضال احمد سید شریک ہوئے۔
منصور حلاج کی کتاب الطواسین پر بھی ایک سیشن رکھا گیا جس میں سید نعمان الحق، اسامہ صدیق کے علاوہ نجیبہ عارف شریک ہوئے۔ سفینہ دانش الہٰی کی کتاب کی تقریبِ رونمائی بھی فیسٹیول کا حصہ تھی۔ فیسٹیول کے تیسرے روز کا آخری سیشن حمزہ نامہ اور طلسم ہوشربا کے عنوان سے رکھا گیا تھا۔آخری روز بھی میوزیکل پروگرام میں نامور گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگا کر میلہ لوٹ لیا۔ فیسٹول کے دوران کتابوں کے سٹالز اور چٹ پٹے کھانے بھی شہریوں کی توجہ کا مرکز رہے۔فیسٹول میں آئے لوگوں نے ادبی میلے کو خوب سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے ایونٹس کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہنا چاہیے۔ اس سے قبل لاہور لٹریری فیسٹول کی افتتاحی تقریب بھی قابل دید تھی، افتتاحی تقریب میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے سکالرزودانشوروں نے شرکت کی۔
چیئرمین ایل ایل ایف اقبال زیڈ احمد نے فیسٹیول کا حصہ بننے والے تمام مندوبین کا خیرمقدم کرتے ہوئے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔پروگرام کا باقاعدہ آغاز قوالی سے ہوا جسے ہال میں موجود عوام نے پسند کیا۔ لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین رضی احمدنے کہا کہ لاہور سمیت پاکستان بھر میں پھیلے ورثے کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہیں، اپنے آرٹسٹوں کی خدمات کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر نامور آرٹسٹ سلیمہ ہاشمی اور نامور شاعر افتخار عارف کو اعلی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ دوسرے روز بھی نامور ادیب اور فنکار حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ مجموعی طور پر 22 سے زائد سیشنزہوئے جس میں نامور ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کر کے سیر حاصل گفتگو کی۔ نامور مصنف محسن حامد کے ساتھ ماڈریٹر لارولائن نشست ''کرداروں سے جذبات اخذ کرنا'' میں گفتگو کی۔
مشاعرہ میں تنویر انجم، افتخار عارف، عباس تابش، ناصرہ زبیری، اشفاق حسین اور حارث خلیق اپنا کلام پیش کیا۔ روشنہ ظفر، مومنہ اظہرالدین اور صدف عابد نشست ''غربت کا خاتمہ بذریعہ ڈیجیٹل میڈیم'' میں مارڈیٹر تیمور رحمان نے بات چیت کی، سلمان فاروقی پر شکیل درانی اور راشد امجدنے اظہار خیال کیا۔ نشست شعر و شاعری میں افتخار عارف اور واجد جواد سے قاسم جعفری نے گفتگو کی۔ موسمیاتی تبدیلی کے دور پاکستان، آرٹ کا معیار کیا ہے، سرائیکی ادب، شاہ عبدالطیف کی شاعر ی اور سندھ کی زندگی، کروشیا میں مزاحمتی شاعری، لاہور کی دیوانگی و دیگر نشستیں بھی ہوئیں۔
ایک اہم نشست میں مشہور ومعروف آرٹسٹ سلمان فاروقی کی خودنوشت کی تقریب رونمائی کا انعقاد ہوا۔ نشست میں سابق چیئرمین واپڈا شکیل درانی اور نامور کالم نگار راشد امجد نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ پنلسٹ نے سلمان فاروقی کی نجی، معاشرتی زندگی، انکے فن وشخصیت پر گفتگو کی۔ راشد امجد نے سلمان فاروقی کی اچیوئمنٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جدوجہد کا استعارہ ہیں۔ کراچی سکول آف آرٹ سے تعلیم حاصل کی، اقبال مہدی کی راہنمائی میں تربیت حاصل کی۔ ان کے کام میں حقیقت پسندی اور جدیدیت کے رنگ نمایاں ہیں، منظر نگاری میں تاثر پرستی کا اظہار انھیں اپنے فن میں ممتاز کرتا ہے۔
شکیل درانی نے سلمان فاروقی کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو عیاں کیا، انکے مشفیق رویوں پر لب کشائی کی، پاکستان کے حالات پر نقطہ نظر کو بھی سامعین کے سامنے رکھا، سلمان فاروقی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی اور مصروفیت کی معلومات بھی جاننے والے کے گوش گزار کی۔ ڈی جی والڈسٹی کامران لاشاری، نامور آرٹسٹ ذوالفقار علی زلفی و دیگر اہم شخصیات بھی تقریب میں موجود تھیں جنہوں نے پنلسٹ کی گفتگو کو پسند کیا۔
لاہور لٹریری فیسٹول کے کامیاب انعقاد سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستانی آرٹ اور فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، جو چاہتے ہیں کہ ایسی صحت مند سرگرمیاں یہاں تواتر کے ساتھ ہونی چاہیں۔ ایسی سرگرمیاں موجودہ سیاسی ،سماجی اور معاشی گھٹن کے ماحول میں ایک تازہ ہوا کا جھو نکا بن کے آتی ہیں بلکہ آنے والوں کو بھی بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں، دعا ہے کہ ایسی صحت مندانہ سرگرمیاں پاکستان میں جاری و ساری رہیں۔