بگڑتی ہوئی ملکی صورتحال فوری دانشمندانہ فیصلوں کی متقاضی
حکومت کو ملک کے اندر امن عامہ کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور سخت ترین اقدامات کرنا ہوں گے
ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے وزیراعظم محمد نواز شریف اور ان کی ٹیم کے خلوصِ نیت پہ کسی طور شک کی گنجائش موجود نہیں کہ تمام تر مخالفت کے باوجود انہوں نے امن کے حصول کے لیے بات چیت کا راستہ اختیار کیا کہ وہ پاکستانی قوم کو بارود کی بُو سے حتی الامکان حد تک دور رکھتے ہوئے ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔
کمال احتیاط سے انہوں نے مذاکرات کے آغاز سے قبل آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ملک بھر کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا۔ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومتی مذاکرات کاروں کی ٹیم نے تو اپنی ذمہ داریاں انتہائی احتیاط سے ادا کرنے کی کوشش کی مگر طالبان کی جانب سے مذاکرات کار بن کر سامنے آنے والے رابطوں کاروں بالخصوص مولانا یوسف شاہ اوران کے مُربّی مولانا سمیع الحق نے خاموشی سے بات چیت آگے بڑھانے کی بجائے ٹیلی ویژن ٹاک شوز اور نیوز بلیٹنز کے ذریعے میڈیا پر زیادہ سے زیادہ وقت اور شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اس سارے عمل کو پیشہ ورانہ سنجیدگی سے آگے بڑھانے کے خواہش مند میجر (ر) محمد عامر نے روز اوّل سے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا پر کم سے کم آیا جائے اور دونوں اطراف کے مذاکرات کاروں یا رابطہ کاروں کو اپنی تمام تر توجہ محض بات چیت کو آگے بڑھانے پر دینا چاہیے مگر ان کی کسی نے ایک نہ سنی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میجر (ر) عامر جیسا تجربہ کار محب وطن مذاکرات کار بوجھل دل سے اس اہم قومی معاملے سے الگ ہو گیا۔ مولانا یوسف شاہ اور مولانا سمیع الحق کے روّیے پر اعتراض کرتے ہوئے ہمیں اپنے میڈیا کے کردار پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی کہ انہوں نے بھی ذمہ داری کا ثبوت کم ہی دیا ہے۔
اسی گومگو کے عالم میں غیر اعلانیہ آپریشن بھی اس وزن دار جواز کے ساتھ شروع کر دیا گیا کہ جب دہشت گرد سکیورٹی فورسز پر حملہ کریں گے تو انہیں جوابی کارروائی کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ اسی کارروائی اور جوابی کارروائی کی تکرار کا نشانہ کراچی ائیرپورٹ بنا اور غیر ملکی خد و خال کے حامل دہشت گردوں نے اتوار کی رات سوا گیارہ بجے کراچی ائیرپورٹ کو سافٹ ٹارگٹ تصور کرتے ہوئے حملہ کر دیا۔ وزارت داخلہ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ انہیں خفیہ اطلاعات ملی تھیں کہ دہشت گرد ملک کے کسی بھی بڑے ائیرپورٹ پر حملے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان کی پہلی کوشش اسلام آباد ائیرپورٹ پر حملہ کرنا تھا مگر یہاں سکیورٹی کا نظام انتہائی سخت ہونے کے باعث وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ البتہ کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے لیے انہوں نے اتوار کا دن اور رات کا وقت منتخب کیا۔ اس سے ان کی منصوبہ بندی کا اندازہ ہوتا ہے۔
دہشت گردوں نے دستی بموں سے دھماکے کرکے ائیرپورٹ پر سنسنی پھیلائی اور اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے اولڈ ٹرمینل کے علاقے سے ائیرپورٹ کی حدود میں داخل ہوگئے۔واجبی سے اسلحے کے ساتھ فرائض سرانجام دینے والے اے ایس ایف کے اہلکاروں نے کمال مہارت اور بہادری سے دہشت گردوں پر جوابی فائرنگ کرکے ان کی ابتدائی پیش قدمی روک دی ۔ تقریباً سات اے ایس ایف اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا مگر ابتدائی مزاحمت کے نتیجے میں دہشت گرد آگے بڑھنے اور رن وے پر کھڑے جہازوں تک پہنچنے میں ہرگز کامیاب نہ ہوئے اس دوران پاک فوج اور رینجرز کے دستے اے ایس ایف کی مدد کو ائیر پورٹ پہنچ گئے۔
کئی گھنٹے کی دو طرفہ فائرنگ کے بعد دہشت گرد تو اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے مگر ذمہ داران اور پوری قوم کے ذہنوں میں کئی سوال چھوڑ گئے۔ سب سے اہم یہ کہ جب وزارت داخلہ کو ائیرپورٹ پر ممکنہ حملوں کے حوالے سے اطلاعات موجود تھیں تو پھر سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہ کیے گئے۔ کراچی میں ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کے حالاتِ کار تو یہ ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں موجود اہلکاروں کے رہنے کے لیے ائیرپورٹ پر جگہ تک موجود نہ تھی، وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے شہری ہوا بازی شجاعت عظیم کی کوششوں سے انہیں کئی ایکڑ زمین لے کے دی گئی اور اب وہاں ان کے لیے دفاتر، رہائش اور تربیتی مرکز کی جدید سہولتوں کا انتظام و انصرام کیا جا رہا ہے۔
ائیرپورٹ سکیورٹی فورس والے اس لیے بھی داد و تحسین کے حقدار ہیں کہ دہشت گردوں کے حوالے سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق ان کے ادارے رن وے پر کھڑے ایک یا ایک سے زیادہ جہازوں پر قبضہ کرکے انہیں اغوا کرنے اور حکومت سے اپنے زیر حراست ساتھیوں کی رہائی کا سودا کرنا تھا مگر اے ایس ایف کے فوری اور کامیاب ردعمل اور بعد ازاں رینجرز اور پاک فوج کی بروقت پہنچ جانے والی کمک اور موثر کارروائی نے دہشت گردوں کے ارادے خاک میں ملا دیے۔
پیر کے روز آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا۔ مگر منگل کی صبح کراچی ائیرپورٹ کی حدود میں موجود ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کے کیمپ پر پہلوان گوٹھ کے علاقے کی جانب سے چند فائر کیے گئے۔ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز نے حسب عادت دہشت گردوں کی اس بزدلانہ کارروائی کو پھر ہوا دینے کی کوشش کی، بہرحال چند منٹ کی ہوہا کے بعد معلوم ہوا کہ یہ اتنی بڑی کارروائی نہ تھی جتنا ہمارے میڈیا والوں نے شور مچایا۔ بہر طور بہتر ہوا کہ پہلوان گوٹھ اور ائیرپورٹ کے اطراف کی آبادیوں کا بھرپور سرچ آپریشن کر لیا گیا۔
وزیراعظم نواز شریف کو بھی اس سارے واقعے کی فوری رپورٹ دے دی گئی ہے، انہوں نے ہدایت جاری کی کہ علاقے کا سرچ آپریشن مکمل کرکے ائیرپورٹ کے اطراف کے علاقوں کو ہر قسم کے خطرے سے پاک کیا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کراچی ائیرپورٹ کے واقعے کے بعد کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن اور فاٹا کے شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کے لیے فیصلہ کن راؤنڈ کے حوالے سے قومی سلامتی پر مامور اداروں کے سربراہان اور شخصیات کا اہم ترین اجلاس طلب کر لیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے حقیقی معنوں میں فعال اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے بھی طالبان کی امن مخالف پرتشدد کارروائیوں کے بعد آپریشن کی مشروط حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر متعدد سیاسی جماعتیں پہلے ہی مذاکرات پر آپریشن کو ترجیح دے رہی ہیں۔ کراچی ائیرپورٹ اور چند روز قبل فتح جنگ میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران پر کیے جانے والے جان لیوا حملوں کے بعد عوامی رائے عامہ بھی تیزی سے آپریشن کے حق میں بدل رہی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم کے لیے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن سے زیادہ دیر تک انکار یا التواء اب ممکن نظر نہیں آ رہا۔
حکومت کو ایک جانب ملک کے اندر امن عامہ کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور سخت ترین اقدامات کرنا ہوں گے وہاں پاک افغان بارڈر پر نگرانی سخت کرنا ہو گی اور ملک بھر میں وقفے وقفے سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے کارفرما غیر ملکی ہاتھ کو بھی نظرانداز نہ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے ملنے والے ثبوت بھی پاکستان کے محب وطن میڈیا سمیت عالمی ذرائع ابلاغ کو فراہم کرنا ہو گا۔ ہم اس موقع پر یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کو اپنے فرائض مزید ذمہ داری سے سرانجام دینے کے لیے جو وسائل درکار ہیں بلاتاخیر فراہم کرنے کے احکامات جاری کر دیں گے۔
کمال احتیاط سے انہوں نے مذاکرات کے آغاز سے قبل آل پارٹیز کانفرنس بلا کر ملک بھر کی تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا۔ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومتی مذاکرات کاروں کی ٹیم نے تو اپنی ذمہ داریاں انتہائی احتیاط سے ادا کرنے کی کوشش کی مگر طالبان کی جانب سے مذاکرات کار بن کر سامنے آنے والے رابطوں کاروں بالخصوص مولانا یوسف شاہ اوران کے مُربّی مولانا سمیع الحق نے خاموشی سے بات چیت آگے بڑھانے کی بجائے ٹیلی ویژن ٹاک شوز اور نیوز بلیٹنز کے ذریعے میڈیا پر زیادہ سے زیادہ وقت اور شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اس سارے عمل کو پیشہ ورانہ سنجیدگی سے آگے بڑھانے کے خواہش مند میجر (ر) محمد عامر نے روز اوّل سے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا پر کم سے کم آیا جائے اور دونوں اطراف کے مذاکرات کاروں یا رابطہ کاروں کو اپنی تمام تر توجہ محض بات چیت کو آگے بڑھانے پر دینا چاہیے مگر ان کی کسی نے ایک نہ سنی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ میجر (ر) عامر جیسا تجربہ کار محب وطن مذاکرات کار بوجھل دل سے اس اہم قومی معاملے سے الگ ہو گیا۔ مولانا یوسف شاہ اور مولانا سمیع الحق کے روّیے پر اعتراض کرتے ہوئے ہمیں اپنے میڈیا کے کردار پر بھی نظرثانی کرنا ہوگی کہ انہوں نے بھی ذمہ داری کا ثبوت کم ہی دیا ہے۔
اسی گومگو کے عالم میں غیر اعلانیہ آپریشن بھی اس وزن دار جواز کے ساتھ شروع کر دیا گیا کہ جب دہشت گرد سکیورٹی فورسز پر حملہ کریں گے تو انہیں جوابی کارروائی کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ اسی کارروائی اور جوابی کارروائی کی تکرار کا نشانہ کراچی ائیرپورٹ بنا اور غیر ملکی خد و خال کے حامل دہشت گردوں نے اتوار کی رات سوا گیارہ بجے کراچی ائیرپورٹ کو سافٹ ٹارگٹ تصور کرتے ہوئے حملہ کر دیا۔ وزارت داخلہ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ انہیں خفیہ اطلاعات ملی تھیں کہ دہشت گرد ملک کے کسی بھی بڑے ائیرپورٹ پر حملے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ ان کی پہلی کوشش اسلام آباد ائیرپورٹ پر حملہ کرنا تھا مگر یہاں سکیورٹی کا نظام انتہائی سخت ہونے کے باعث وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ البتہ کراچی ائیرپورٹ پر حملے کے لیے انہوں نے اتوار کا دن اور رات کا وقت منتخب کیا۔ اس سے ان کی منصوبہ بندی کا اندازہ ہوتا ہے۔
دہشت گردوں نے دستی بموں سے دھماکے کرکے ائیرپورٹ پر سنسنی پھیلائی اور اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے اولڈ ٹرمینل کے علاقے سے ائیرپورٹ کی حدود میں داخل ہوگئے۔واجبی سے اسلحے کے ساتھ فرائض سرانجام دینے والے اے ایس ایف کے اہلکاروں نے کمال مہارت اور بہادری سے دہشت گردوں پر جوابی فائرنگ کرکے ان کی ابتدائی پیش قدمی روک دی ۔ تقریباً سات اے ایس ایف اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا مگر ابتدائی مزاحمت کے نتیجے میں دہشت گرد آگے بڑھنے اور رن وے پر کھڑے جہازوں تک پہنچنے میں ہرگز کامیاب نہ ہوئے اس دوران پاک فوج اور رینجرز کے دستے اے ایس ایف کی مدد کو ائیر پورٹ پہنچ گئے۔
کئی گھنٹے کی دو طرفہ فائرنگ کے بعد دہشت گرد تو اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے مگر ذمہ داران اور پوری قوم کے ذہنوں میں کئی سوال چھوڑ گئے۔ سب سے اہم یہ کہ جب وزارت داخلہ کو ائیرپورٹ پر ممکنہ حملوں کے حوالے سے اطلاعات موجود تھیں تو پھر سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیوں نہ کیے گئے۔ کراچی میں ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کے حالاتِ کار تو یہ ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں موجود اہلکاروں کے رہنے کے لیے ائیرپورٹ پر جگہ تک موجود نہ تھی، وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے شہری ہوا بازی شجاعت عظیم کی کوششوں سے انہیں کئی ایکڑ زمین لے کے دی گئی اور اب وہاں ان کے لیے دفاتر، رہائش اور تربیتی مرکز کی جدید سہولتوں کا انتظام و انصرام کیا جا رہا ہے۔
ائیرپورٹ سکیورٹی فورس والے اس لیے بھی داد و تحسین کے حقدار ہیں کہ دہشت گردوں کے حوالے سے سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق ان کے ادارے رن وے پر کھڑے ایک یا ایک سے زیادہ جہازوں پر قبضہ کرکے انہیں اغوا کرنے اور حکومت سے اپنے زیر حراست ساتھیوں کی رہائی کا سودا کرنا تھا مگر اے ایس ایف کے فوری اور کامیاب ردعمل اور بعد ازاں رینجرز اور پاک فوج کی بروقت پہنچ جانے والی کمک اور موثر کارروائی نے دہشت گردوں کے ارادے خاک میں ملا دیے۔
پیر کے روز آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردوں کا مکمل صفایا کر دیا گیا۔ مگر منگل کی صبح کراچی ائیرپورٹ کی حدود میں موجود ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کے کیمپ پر پہلوان گوٹھ کے علاقے کی جانب سے چند فائر کیے گئے۔ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز نے حسب عادت دہشت گردوں کی اس بزدلانہ کارروائی کو پھر ہوا دینے کی کوشش کی، بہرحال چند منٹ کی ہوہا کے بعد معلوم ہوا کہ یہ اتنی بڑی کارروائی نہ تھی جتنا ہمارے میڈیا والوں نے شور مچایا۔ بہر طور بہتر ہوا کہ پہلوان گوٹھ اور ائیرپورٹ کے اطراف کی آبادیوں کا بھرپور سرچ آپریشن کر لیا گیا۔
وزیراعظم نواز شریف کو بھی اس سارے واقعے کی فوری رپورٹ دے دی گئی ہے، انہوں نے ہدایت جاری کی کہ علاقے کا سرچ آپریشن مکمل کرکے ائیرپورٹ کے اطراف کے علاقوں کو ہر قسم کے خطرے سے پاک کیا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کراچی ائیرپورٹ کے واقعے کے بعد کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن اور فاٹا کے شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کے لیے فیصلہ کن راؤنڈ کے حوالے سے قومی سلامتی پر مامور اداروں کے سربراہان اور شخصیات کا اہم ترین اجلاس طلب کر لیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے لیے حقیقی معنوں میں فعال اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والے عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے بھی طالبان کی امن مخالف پرتشدد کارروائیوں کے بعد آپریشن کی مشروط حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر متعدد سیاسی جماعتیں پہلے ہی مذاکرات پر آپریشن کو ترجیح دے رہی ہیں۔ کراچی ائیرپورٹ اور چند روز قبل فتح جنگ میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران پر کیے جانے والے جان لیوا حملوں کے بعد عوامی رائے عامہ بھی تیزی سے آپریشن کے حق میں بدل رہی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کی ٹیم کے لیے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن سے زیادہ دیر تک انکار یا التواء اب ممکن نظر نہیں آ رہا۔
حکومت کو ایک جانب ملک کے اندر امن عامہ کی صورتحال کو یقینی بنانے کے لیے فوری اور سخت ترین اقدامات کرنا ہوں گے وہاں پاک افغان بارڈر پر نگرانی سخت کرنا ہو گی اور ملک بھر میں وقفے وقفے سے ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے کارفرما غیر ملکی ہاتھ کو بھی نظرانداز نہ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے ملنے والے ثبوت بھی پاکستان کے محب وطن میڈیا سمیت عالمی ذرائع ابلاغ کو فراہم کرنا ہو گا۔ ہم اس موقع پر یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف سول ایوی ایشن اتھارٹی اور ائیرپورٹ سکیورٹی فورس کو اپنے فرائض مزید ذمہ داری سے سرانجام دینے کے لیے جو وسائل درکار ہیں بلاتاخیر فراہم کرنے کے احکامات جاری کر دیں گے۔