آصف زرداری اور شہباز شریف کی جوڑی
حکمرانوں کی کارکردگی کا کافی کچھ انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ کون سی ذمے داری کس کے پاس ہے
صدارتی انتخاب کے بعد انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اس کے بعد قوم حکمرانوں سے بہت سی توقعات خاص طور پراقتصادی دباؤ سے نجات کی امیدوابستہ کرتی ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکمراں اتحاد عوام کی توقعات پر کتنا اتر سکتا ہے؟
حکمرانوں کی کارکردگی کا کافی کچھ انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ کون سی ذمے داری کس کے پاس ہے کیوں کہ یہ افراد ہی ہوتے ہیں جو اپنی فکر، حکمت اور کارکردگی سے ناممکن کو ممکن بناتے ہیں جیسے سولہ ماہ کی حکومت کے دوران میں شہباز شریف نے اپنی تدبیر سے آئی ایم ایف کے ساتھ تقریبا ًناممکن ڈیل کو ممکن بنایا اور بہت سی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے جب کہ 2018 میں بانی پی ٹی آئی نے حزب اختلاف کی طرف سے میثاقِ معیشت کی پیش کش کو ٹھکرا کر ملک کا معاشی مستقبل تاریک کر دیا۔
انتخابی عمل مکمل ہو جانے کے بعد جناب آصف علی زرداری ایوانِ صدر کے مکیں بن چکے ہیں اور جناب شہباز شریف ملک کے انتظامی سربراہ یعنی وزیر اعظم کی حیثیت سے وزیر اعظم ہاؤس پہنچ چکے ہیں۔ کیا یہ کمبینیشن درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہی آج کا سب سے اہم سوال ہے۔ کسی حکومت کے اہم بلکہ کلیدی ذمے داروں کی قوتِ کار کو سمجھنے کا راز ان عوامل میں پوشیدہ ہوتا ہے جن کی شرکت سے کوئی شخصیت تشکیل پاتی ہے۔
آصف علی زرداری کی شہرت ایک زندہ دل امیر زادے کی تھی، زندگی جس کے لیے آسانیاں لے کر آئی اور وہ ان سے لطف اندوز ہوئے۔ بے نظیر بھٹو سے شادی کر کے انھوں نے اپنے لیے خود مشکل راستے کا انتخاب کیا۔ شادی کے بعد انھوں نے کہا تھا کہ آزمائش کی راہ گزر پرمیری نصف بہتر اور پیپلز پارٹی کے جیالے مجھے ثابت قدم پائیں گے۔ انھوں نے یہ دعویٰ سچ ثابت کر دکھایا۔
ان سے اختلاف رکھنے والے اپنے اختلاف کے وفور میں عام طور پر ان کی شخصیت کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی زندگی تک ان کی شخصیت افراط و تفریط کی دھندمیں دھندلائی رہی لیکن ان کی شہادت کے بعد زرداری صاحب کی شخصیت اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ منظر عام پرآتی ہے۔
محترمہ کی شہادت ظاہر ہے کہ نہ صرف ان کی اپنی بلکہ قومی زندگی کے لیے بھی ایک بہت بڑا سانحہ تھا ہی لیکن یہ وقت بہت بڑی ذمے داری کا بھی تھا۔ محترمہ کی شہادت پر شدتِ غم میں مبتلا کارکنوں یا پھر سندھ میں موجود مٹھی بھر پاکستان بیزار طبقے کی طرف سے ' پاکستان نہ کھپے'یعنی پاکستان نامنظور کا نعرہ لگایا گیا۔
بڑے بڑے سانحات میں بڑی بڑی باتیں بھی نظر انداز ہو جاتی ہیں یا سودے بازی کے لیے انھیں بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کر لیا جاتا ہے لیکن اس بحرانی کیفیت میں آصف علی زرداری مردِ میدان بن کر ابھرے اور انھوں نے پوری قوت کے ساتھ ' پاکستان کھپے' کا جوابی بیانیہ دے کر پورا منظر نامہ ہی بدل دیا۔ یہی وہ موقع تھا جب آصف علی زرداری کی شخصیت کا سیاسی پہلو پوری تاب ناکی کے ساتھ قومی سطح پر اجاگر ہوا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے قومی منظر نامے پر چھا گئے۔ اس کے بعدکے واقعات بہت اہم ہیں جو ان کی سیاسی بصیرت کو ظاہر کرتے ہیں۔
اوّل٢٠٠٨ء کے انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ۔ ہماری قومی زندگی میں وہ پہلی بار تھا جب ریاست کے معاملات اولڈ گارڈز کے بہ جائے بعد کی نسل کے ہاتھ میں آئے اور انھوں نے اپنے انداز میں انھیں انجام تک پہنچایا۔ اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ زرداری صاحب بڑی پیچیدہ سیاست کرتے ہیں۔ یہ پیچیدہ سیاست کیا تھی؟ اس کے بنیادی اجزا زمینی حقائق ،رازداری اور اچانک غیر متوقع فیصلوں کا مرکب تھے۔ یہ ترکیب کام یاب رہی ، اس کے نتیجے میں نہ صرف پیپلز پارٹی کی حکومت بنی بلکہ خود زرداری صاحب بھی ایوان صدر پہنچ گئے۔
ان کے سیاسی کردار کا دوسرا اہم ترین واقعہ اٹھارہویں ترمیم ہے جس نے آمرانہ ادوار کی آئینی ترامیم کا خاتمہ کر کے آئین اور سیاسی نظام کو نہ صرف مزید جمہوری بنا دیا بلکہ صوبائی خود مختاری جیسا مشکل کام بھی آسانی کے ساتھ کر دیا۔ یہ آئینی ترمیم دو وجہ سے ممکن ہو سکی، ان میں ایک میثاق جمہوریت تھا اور دوسرا آصف علی زرداری کی شخصیت۔
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کامیابی کے پس پشت میاں نواز شریف کی جمہوریت کے ساتھ بے مثال وابستگی نے بھی اہم کردار ادا کیا لیکن آصف زرداری اگر میثاق جمہوریت کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ جڑے نہ رہتے تو میاں صاحب کا اخلاص اور ایثار رائیگاں چلا جاتا۔ آصف علی زرداری کی معاملہ فہمی اور جمہوریت کے ساتھ مضبوط وابستگی کی یہ دو بڑی اور بنیادی مثالیں ہیں اس کے علاوہ ان کی شخصیت کی ایک بڑی خوبی غیر جذباتی ہونا اور جلد بازی میں فیصلے نہ کرنا بھی ہے۔
موجودہ حکمراں اتحاد کی دوسری اہم ترین شخصیت میاں محمد شہباز شریف کی ہے۔ میاں صاحب ہمارے سیاسی منظر نامے کی ایک منفرد شخصیت ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوبی بنیادی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے لچک دار رویہ ہے۔ سیاست میں لچک ہی کو سب سے بڑی خوبی تصور کیا جاتا ہے۔ ہماری تہذیب کے ایک بڑے شاعر ماہر القادری کا ایک شعر ہے
جہاں جس کی ضرورت تھی، وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجوں کو ٹھہرایا
شہباز شریف کی شخصیت اسی شعر سے عبارت ہے۔ سیاسی پنڈٹ کئی دہائیوں سے ن میں سے شین نکالنے اور شہباز شریف کی طرف سے میاں نواز شریف کے متوازی راستہ اختیار کرنے کی خبریں دیتے رہے ہیں لیکن گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران میں ایسی کوئی پیشین گوئی پوری نہ ہو سکی۔ شہباز شریف نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ جمہوریت کے ساتھ ان کی وابستگی غیر متزلزل ہے اور وہ اپنی جماعت کے ساتھ وفا دار رہتے ہوئے مشکل صورت حال میں راستہ نکالنے کے ماہر ہیں۔
شہباز شریف مشکل حالات میں کس طرح راستہ نکالتے ہیں؟ اس کی ایک زندہ مثال تو سولہ ماہ کی حکومت ہے جس میں وہ متضاد خیالات رکھنے والی تیرہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لے کر کامیابی کے ساتھ چلے۔یہ کیسے ممکن ہوا، اس کا راز ان کا مزاج ہے جس کے تحت وہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے قابل عمل راستہ نکال لیتے ہیں، ان کی یہ خوبی انھیں اپنے عصر لوگوں میں ممتاز کرتی ہے۔
ان کی ایک اور خوبی کم سے کم سرمایے یا بالکل تہی دست ہوتے ہوئے بھی کاروبار کرنا اور اسے کام یاب کر دکھانا ہے۔ ان کی کاروباری زندگی میں تو اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، سرکاری زندگی میں بھی بہت سے واقعات ہیں جیسے آئی ایم ایف کے ساتھ تقریباً ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ استوار کر نا۔ پنجاب میں میٹروبس، اورنج ٹرین اور بجلی کی پیداوار کے منصوبوں سمیت کئی دیگر منصوبوں کوطے شدہ کم لاگت سے بھی کم لاگت میں مکمل کرانا۔ ان کی یہی خوبی پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کا باعث بنے گی۔
شہباز شریف کی شخصیت کی ایک اور خوبی اِن تھک محنت اور مسلسل مصروفِ عمل رہنا ہے۔ وہ اپنے لیے کام تلاش کرتے ہیں پھر تن دہی سے اس میں مصروف ہو جاتے ہیں۔اپنی اس خوبی میں وہ دنیا بھر میں معروف ہیں۔ اس کا تذکرہ ایک بار ممنون حسین نے بھی کیا جس مکمل تفصیلات سے مجھے صدر صاحب کے پرنسپل سیکریٹری جناب احمد فاروق نے بتائیں۔
صدر ممنون حسین چین کے دورے پر گئے تو جناب شہباز شریف نے جو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب تھے، صدر ممنون حسین سے درخواست کی کہ وہ چین کے صدر سے کہیں کہ لاہور میں اورنج ٹرین کے منصوبے کو اقتصادی راہ داری کے منصوبے میں شامل کردیں۔ صدر صاحب نے شی جن پنگ سے یہ بات کہی تو چینی صدر مسکرائے اور شہباز شریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :
' He is known as speed.'
یہ دلچسپ مکالمہ تھا جس کے بعد پہلے 'پنجاب اسپیڈ' کی اصطلاح عام ہوئی پھر ' شہباز اسپیڈ ' کی۔ پاکستان اس وقت جن چیلنجوں سے دوچار ہے، اس میں شہباز شریف جیسے اعصاب اور قوتِ کار رکھنے والا وزیر اعظم مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ انھیں اپنے زیرک اور تجربہ کار قائدمیاں محمد نواز شریف اور صدر آصف علی زرداری جیسی شخصیات کا تعاون بھی حاصل ہو تو کیا نہیں ہو سکتا؟
میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم اور آصف علی زرداری کے صدر منتخب ہونے کے بعد توقع نہیں یقین ہے کہ پاکستان مشکل حالات کے باوجود کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔