دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری
ہمیں بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور انتہا پسندی کے بڑے عوامل کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دینی ہوگی
سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف دو مختلف کارروائیاں کیں، پہلے انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کے دوران چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جب کہ کارروائی میں سیکیورٹی فورسز نے شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد دو دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کردیا، جب کہ تین دہشت گرد زخمی ہوئے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان مستقل طور پر عبوری افغان حکومت سے کہتا رہا ہے کہ وہ سرحد کے اطراف میں موثر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنائے، توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرے گی اور پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکے گی۔
گزشتہ چند مہینوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں تیزی آئی ہے جس میں ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد نیٹ ورک کو افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وطن عزیز نے طویل عرصے تک بھارتی دہشت گردی کا سامنا کیا ہے جس میں بڑے جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔
پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں تقریبا 70 ہزار معصوم جانوں کی شہادت اور تقریباً 126ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے قریب ہے لیکن اب پھر دہشت گرد متحرک ہو رہے ہیں۔لگتا ہے کہ ان کے سرپرستوں نے انھیں پھر سے منظم کرنا شروع کردیا ہے۔
آج سے دس سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب طالبان کے ساتھ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی کی کارروائیاں نہ صرف یہ کہ مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں 82 فیصد حملوں کے ذمے دار یہ تینوں گروہ ہیں۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد نیٹ ورک کو افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے افغان شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال افغان عبوری حکومت کے دعوؤں کی نفی اور سوالیہ نشان ہے۔
دہشت گردی کے یہ ابھرتے ہوئے رجحانات کے پی کے اور سابقہ قبائلی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندی، بلوچستان میں بلوچ قوم پرست بغاوت، سندھ میں نسلی قوم پرستی کے تشدد کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کے مسلسل سیکیورٹی چیلنج میں اضافہ کریں گے۔
طویل عرصے تک، عدم تحفظ، عسکریت پسندی اور تشدد کا ایسا ماحول سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان متعدد بار سیاسی، سفارتی اور عسکری سطح پر افغان حکام کو ان کا وہ وعدہ یاد دلا چکا ہے کہ افغان سر زمین کسی گروپ کو دوسرے ملک کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ افغان طالبان نے اس شکایت کو سنا ضرور لیکن اس کو دور کرنے پر توجہ نہیں دی، یوں افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان تشدد پسند گروپوں کی وجہ سے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔
کالعدم گروپ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بنیادی مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد پیدا کرنا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے عدم اعتماد موجود ہے۔ افغانستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی موجودگی ایک نئے تنازع کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دوسری جنگ کو ہوا دے سکتی ہے جس کے خطے کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرے تاہم اس دوران یہ پہلو پیش نظر رہے کہ دو طرفہ تعلقات کو دور رس نتائج کے تناظر میں استوار کیا جانا چاہیے۔
پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) افغان طالبان سے الگ ضرور ہیں، لیکن ان کے قریبی اتحادی ہیں اور تقریباً ایک ہی نظریے کے حامل ہیں، ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو نیا حوصلہ فراہم کیا ہے۔ پاکستانی طالبان کے دہشت گرد ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں چھپے رہتے تھے اور افغانستان میں بھی ان کی پناہ گاہیں تھیں، لیکن وہ زیادہ تر خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔
تاہم، پاکستانی حکام نے طالبان پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پناہ دینے اور کابل میں پچھلی انتظامیہ کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے اس کے رہنماؤں کو رہا کرنے کی نشاندہی کی ہے۔ افغان طالبان کی عبوری حکومت نے بارہا کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سمیت کسی کو بھی پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان کے قول و فعل کے درمیان تضاد ہے، جو ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملے کرنے سے روک تو سکتے ہیں، لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں۔ اس وقت بھی 20لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین پاکستان میں مقیم ہیں۔ غیر قانونی رہائش پذیر افغانوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے جن کے خلاف پاکستانی قوانین کے تحت کارروائیاں جاری ہیں۔ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے۔ خطے میں کچھ عناصر ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپوں کے ذریعے امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، اس سلسلے میں غیر ملکی مداخلت کے واضح آثار بھی موجود ہیں۔
امن بگاڑنے والوں کا مقصد افغانستان اور خطے کو نقصان پہنچانا ہے۔ دہشت گرد گروپوں کی موجودگی افغانستان اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے جس کا اظہار اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ افغانستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر کوئی دہشت گرد کارروائی نہیں کرسکتا اور بارڈر پر کسی بھی قسم کی جارحیت عبوری افغان حکومت کی مرضی کے بغیر ناممکن ہے۔ افواج پاکستان ہر دم مستعد اور ان دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لیے بھرپور صلاحیت کے ساتھ تیار ہیں۔ افغان عبوری حکومت پر لازم ہے کہ بین الاقوامی اصولوں اور قواعد و ضوابط پر ان کی روح کے مطابق عمل کرے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد طالبان کی جو عبوری حکومت وجود میں آئی اس نے کالعدم ٹی ٹی پی اور ایسے ہی دیگر دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جیلوں سے نکال کر نہ صرف آزاد کردیا بلکہ انھیں ہمسایہ ممالک میں کارروائیاں کرنے کی اجازت بھی دیدی۔
افغان حکومت کی جانب سے بار بار یہ تو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سر زمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ افغان سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ بنی ہوئی ہے اور وہ تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے کے بعد فرار ہو کر افغان علاقوں میں ہی پناہ لیتے ہیں۔ اس صورتحال سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ افغان حکومت دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کررہی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خطے میں جو دہشت گردی ہورہی ہے اس کی وجہ سے صرف پاکستان ہی متاثر نہیں ہورہا بلکہ دیگر ممالک بھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے جو بے چینی پیدا ہورہی ہے یہ امریکا اور برطانیہ سمیت تمام بڑے ملکوں اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہونی چاہیے کیونکہ اگر دہشت گردی کی لعنت پر قابو نہ پایا گیا تو صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی اور امریکا سمیت دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
ویسے بھی یہ ایک کھلا راز ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت افغانستان میں موجود زیادہ تر دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی تشکیل میں کئی اہم اور طاقتور ممالک نے کردار ادا کیا تھا۔ اب ان گروہوں اور تنظیموں کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی برادری کو متحد اور متفق ہونا چاہیے بصورتِ دیگر یہ عفریت آہستہ آہستہ سب کے لیے دردِ سر بن جائے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستانی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی میں امریکی اسلحے کے استعمال سے متعلق تمام ثبوت اور شواہد امریکا کو بھی دے اور اقوامِ متحدہ میں بھی جمع کرائے۔ ہمیں بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور انتہا پسندی کے بڑے عوامل کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دینی ہوگی۔ اس ضمن میں گورننس اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا، بنیاد پرستی کا خاتمہ، معاشی کمزوری سے نمٹنا، آن لائن پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا اور عسکریت پسندی سے نمٹنا شامل ہے۔
افغان عبوری حکومت کو اپنے شہریوں کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں سے روکنے کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو پاکستان میں ہونے والی افغان دہشت گردوں کی سرگرمیاں روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان مستقل طور پر عبوری افغان حکومت سے کہتا رہا ہے کہ وہ سرحد کے اطراف میں موثر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنائے، توقع ہے کہ عبوری افغان حکومت اپنی ذمے داریاں پوری کرے گی اور پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کو روکے گی۔
گزشتہ چند مہینوں سے پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں تیزی آئی ہے جس میں ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد نیٹ ورک کو افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وطن عزیز نے طویل عرصے تک بھارتی دہشت گردی کا سامنا کیا ہے جس میں بڑے جانی و مالی نقصانات بھی ہوئے۔
پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں تقریبا 70 ہزار معصوم جانوں کی شہادت اور تقریباً 126ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے قریب ہے لیکن اب پھر دہشت گرد متحرک ہو رہے ہیں۔لگتا ہے کہ ان کے سرپرستوں نے انھیں پھر سے منظم کرنا شروع کردیا ہے۔
آج سے دس سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب طالبان کے ساتھ داعش خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی کی کارروائیاں نہ صرف یہ کہ مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں 82 فیصد حملوں کے ذمے دار یہ تینوں گروہ ہیں۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد نیٹ ورک کو افغان دہشت گردوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ٹی ٹی پی کی جانب سے افغان شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال افغان عبوری حکومت کے دعوؤں کی نفی اور سوالیہ نشان ہے۔
دہشت گردی کے یہ ابھرتے ہوئے رجحانات کے پی کے اور سابقہ قبائلی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندی، بلوچستان میں بلوچ قوم پرست بغاوت، سندھ میں نسلی قوم پرستی کے تشدد کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کے مسلسل سیکیورٹی چیلنج میں اضافہ کریں گے۔
طویل عرصے تک، عدم تحفظ، عسکریت پسندی اور تشدد کا ایسا ماحول سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان متعدد بار سیاسی، سفارتی اور عسکری سطح پر افغان حکام کو ان کا وہ وعدہ یاد دلا چکا ہے کہ افغان سر زمین کسی گروپ کو دوسرے ملک کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ افغان طالبان نے اس شکایت کو سنا ضرور لیکن اس کو دور کرنے پر توجہ نہیں دی، یوں افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان تشدد پسند گروپوں کی وجہ سے تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔
کالعدم گروپ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ بنیادی مسئلہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد پیدا کرنا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے عدم اعتماد موجود ہے۔ افغانستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی موجودگی ایک نئے تنازع کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دوسری جنگ کو ہوا دے سکتی ہے جس کے خطے کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرے تاہم اس دوران یہ پہلو پیش نظر رہے کہ دو طرفہ تعلقات کو دور رس نتائج کے تناظر میں استوار کیا جانا چاہیے۔
پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) افغان طالبان سے الگ ضرور ہیں، لیکن ان کے قریبی اتحادی ہیں اور تقریباً ایک ہی نظریے کے حامل ہیں، ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو نیا حوصلہ فراہم کیا ہے۔ پاکستانی طالبان کے دہشت گرد ملک کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں چھپے رہتے تھے اور افغانستان میں بھی ان کی پناہ گاہیں تھیں، لیکن وہ زیادہ تر خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔
تاہم، پاکستانی حکام نے طالبان پر ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو پناہ دینے اور کابل میں پچھلی انتظامیہ کے ہاتھوں گرفتار کیے گئے اس کے رہنماؤں کو رہا کرنے کی نشاندہی کی ہے۔ افغان طالبان کی عبوری حکومت نے بارہا کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سمیت کسی کو بھی پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ لیکن پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان کے قول و فعل کے درمیان تضاد ہے، جو ٹی ٹی پی کو پاکستان میں حملے کرنے سے روک تو سکتے ہیں، لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان دو برادر اسلامی ممالک ہیں۔ اس وقت بھی 20لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین پاکستان میں مقیم ہیں۔ غیر قانونی رہائش پذیر افغانوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے جن کے خلاف پاکستانی قوانین کے تحت کارروائیاں جاری ہیں۔ افغانستان میں امن و استحکام پاکستان کے مفاد میں ہے۔ خطے میں کچھ عناصر ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپوں کے ذریعے امن میں خلل ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں، اس سلسلے میں غیر ملکی مداخلت کے واضح آثار بھی موجود ہیں۔
امن بگاڑنے والوں کا مقصد افغانستان اور خطے کو نقصان پہنچانا ہے۔ دہشت گرد گروپوں کی موجودگی افغانستان اور عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے جس کا اظہار اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی کیا گیا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ افغانستان کی لاجسٹک سپورٹ کے بغیر کوئی دہشت گرد کارروائی نہیں کرسکتا اور بارڈر پر کسی بھی قسم کی جارحیت عبوری افغان حکومت کی مرضی کے بغیر ناممکن ہے۔ افواج پاکستان ہر دم مستعد اور ان دہشت گردوں کے عزائم خاک میں ملانے کے لیے بھرپور صلاحیت کے ساتھ تیار ہیں۔ افغان عبوری حکومت پر لازم ہے کہ بین الاقوامی اصولوں اور قواعد و ضوابط پر ان کی روح کے مطابق عمل کرے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ افغانستان سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کے بعد طالبان کی جو عبوری حکومت وجود میں آئی اس نے کالعدم ٹی ٹی پی اور ایسے ہی دیگر دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کو جیلوں سے نکال کر نہ صرف آزاد کردیا بلکہ انھیں ہمسایہ ممالک میں کارروائیاں کرنے کی اجازت بھی دیدی۔
افغان حکومت کی جانب سے بار بار یہ تو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سر زمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ افغان سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ ٹھکانہ بنی ہوئی ہے اور وہ تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے کے بعد فرار ہو کر افغان علاقوں میں ہی پناہ لیتے ہیں۔ اس صورتحال سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ افغان حکومت دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کررہی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خطے میں جو دہشت گردی ہورہی ہے اس کی وجہ سے صرف پاکستان ہی متاثر نہیں ہورہا بلکہ دیگر ممالک بھی اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔ خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی وجہ سے جو بے چینی پیدا ہورہی ہے یہ امریکا اور برطانیہ سمیت تمام بڑے ملکوں اور اقوامِ متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہونی چاہیے کیونکہ اگر دہشت گردی کی لعنت پر قابو نہ پایا گیا تو صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی اور امریکا سمیت دیگر ممالک بھی اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
ویسے بھی یہ ایک کھلا راز ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت افغانستان میں موجود زیادہ تر دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی تشکیل میں کئی اہم اور طاقتور ممالک نے کردار ادا کیا تھا۔ اب ان گروہوں اور تنظیموں کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی برادری کو متحد اور متفق ہونا چاہیے بصورتِ دیگر یہ عفریت آہستہ آہستہ سب کے لیے دردِ سر بن جائے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستانی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی میں امریکی اسلحے کے استعمال سے متعلق تمام ثبوت اور شواہد امریکا کو بھی دے اور اقوامِ متحدہ میں بھی جمع کرائے۔ ہمیں بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور انتہا پسندی کے بڑے عوامل کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دینی ہوگی۔ اس ضمن میں گورننس اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا، بنیاد پرستی کا خاتمہ، معاشی کمزوری سے نمٹنا، آن لائن پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا اور عسکریت پسندی سے نمٹنا شامل ہے۔
افغان عبوری حکومت کو اپنے شہریوں کو پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں سے روکنے کے لیے ٹھوس اور موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو پاکستان میں ہونے والی افغان دہشت گردوں کی سرگرمیاں روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔