’’یاروں کا یار‘‘ دوسری بار صدرِ مملکت
نَو منتخب صدرِ مملکت، جناب آصف علی زرداری، وقار اور انکسار کا پیکر ہیں
2024 کا سال شریف اور بھٹو و زرداری خاندانوں کے لیے بڑی کامیابیوں اور مسرتوں کے ساتھ طلوع ہُوا ہے۔
ایک طرف شریف خاندان کی ایک بیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو چکی ہیں اور شریف خاندان کا دوسرا بیٹا دوسری بار وزیر اعظم بنا ہے ۔ جب کہ دوسری جانب زرداری خاندان اور قبیلے کے سردار و منجھے ہُوئے سیاستدان ، جناب آصف علی زرداری، دوسری مرتبہ صدرِ مملکت منتخب ہوگئے ہیں۔
9 مارچ 2024 کا دن بھٹو و زرداری خاندان کے لیے ایک بڑی نوید لے کر طلوع ہُوا کہ اس دن نے مملکتِ خداداد کی صدارت ایک بار پھر اِس خاندان کے سپرد کر دی ۔
گیارہ سال قبل جناب آصف علی زرداری پہلی صدارت کی پوری مدت پوری ہونے پر جب ایوانِ صدر سے نکل رہے تھے تو کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ 2024 میں دوبارہ اِسی بلند و محترم ایوان کے مکین بن جائیں گے۔ آج اقتدار کے بڑے اور اہم عہدے خوبصورت اسلوب میں چاروں صوبوں میں یکساں منقسم نظر آ رہے ہیں: صدرِ مملکت سندھ سے تعلق رکھتے ہیں، وزیر اعظم پنجاب سے ہیں ، قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کے پی کے سے ناتہ رکھتے ہیں جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان بلوچستان سے ۔
نَو منتخب صدرِ مملکت، جناب آصف علی زرداری، وقار اور انکسار کا پیکر ہیں ۔ اِنہی اوصاف نے انھیں دوسری بار صدارت کے بلند ترین ریاستی عہدے پر متمکن کیا ہے ۔ انھوں نے صدارتی انتخاب میں 411 ووٹ حاصل کیے ہیں :اپنے حریف، محمود خان اچکزئی، سے دگنے سے بھی زیادہ۔ اگر بوجوہ ناراض حضرت مولانا فضل الرحمن بھی اپنے منتخب ارکان کے ساتھ ووٹ کاسٹ کرتے تو زرداری صاحب کے ووٹ مزید بڑھ جاتے۔
قبلہ مولانا صاحب نے مگر زرداری صاحب کو ووٹ ڈالا نہ اچکزئی صاحب کو ۔ 9مارچ سے قبل ہی اقتدار کے ایوانوں کی ہر دیوار پر لکھا نظر آ رہا تھا کہ آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے منتخب ہوجائیں گے۔ اِس نوشتہ دیوار کو پی ٹی آئی المعروف ''سُنی اتحاد کونسل''(SIC) کے اُمیدوار، محمود خان اچکزئی صاحب، نے بھی پڑھ لیا تھا۔
شاید اِسی کارن انھوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ایک خط بھی لکھا جس میں استدعا کی گئی تھی کہ9مارچ کا صدارتی انتخاب ملتوی یا موخر کیا جائے ۔ حجت یہ کی گئی کہ صدارتی انتخاب کے لیے مطلوبہ الیکٹورل کالج نامکمل ہے ۔ اُن کا اشارہ SIC کو پارلیمنٹ میں نہ ملنے والی مخصوص نشستوں بارے تھا ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مگر اچکزئی صاحب کی درخواست یا استدعا مسترد کر دی ، یہ کہتے ہُوئے کہ الیکٹورل کالج مکمل ہے۔
اِس فیصلے سے یقیناً اچکزئی صاحب اور SIC کو دھچکا لگا ہوگا ، مگر اِس استرداد کی اُمید کی جا رہی تھی ۔ اگرچہ سُنی اتحاد کونسل نے خصوصی نشستوں کے حصول کے لیے لاہور، پشاور اور سندھ ہائیکورٹس کے دروازوں پر دستکیں بھی دے رکھی ہیں۔ اب بھیSICکو اُمید یہی ہے کہ بالآخر پانسہ انھی کے حق میں پلٹے گا۔ اُمید پر دُنیا قائم ہے۔
یہ استرداد اچکزئی صاحب کے لیے دوسرا بڑا دھچکا تھا۔ صدارتی الیکشن سے پہلے کوئٹہ میں اُن کے گھر پر مقامی ڈی سی صاحب نے جو مبینہ چھاپا مارا تھا، اِس نے بھی اچکزئی صاحب کو پریشان کر ڈالا تھا ۔ مگر اِس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔چھاپہ مارنے والوں کا الزامی دعویٰ تھا کہ اچکزئی صاحب نے اپنے گھر سے متصل ایک پلاٹ پر زبردستی قبضہ جما رکھا ہے جسے واگزار کروالیا گیا ہے۔
جناب آصف علی زرداری دوسری بار صدرِ مملکت تو منتخب ہو گئے ہیں مگر پی ٹی آئی المعروف سُنی اتحاد کونسل کے وابستگان کا کہنا ہے کہ صدر کا انتخاب بھی 8فروری کے انتخابات کی طرح متنازع اور مشکوک ہے ۔ اقتدار و اختیار کی گاڑی مگر چل پڑی ہے۔ گلے شکوے تو ہوتے ہی رہیں گے ۔ طاقتور مقتدرہ کی بھی یہی تمنا اور سعی ہے کہ یہ گاڑی اب رکنی نہیں چاہیے ؛ چنانچہ مناسب یہی ہے کہ اِس گاڑی کے راستے میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائیں۔ نَو منتخب صدر سے یہ بھی توقعات کی جا رہی ہیں کہ وہ نَو منتخب وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔
ویسے تو جناب آصف علی زرداری کھلے دل سے نئے وزیر اعظم سے ہر ممکنہ تعاون کا یقین اور وعدہ کرتے ہُوئے شہباز شریف کو ''آئن اسٹائن'' قرار دے چکے ہیں۔ گزشتہ روز میاں نواز شریف صاحب نے اپنے برادرِ خورد کا ہاتھ پکڑ کر آصف زرداری صاحب سے جب یہ کہا: '' اِن کا خیال رکھئے گا'' تو آصف زرداری نے ہاتھ سینے پر رکھتے ہُوئے کہا تھا:'' ہم تو یاروں کے یار ہیں ۔ وفا کریں گے۔''
جناب شہباز شریف بھی نَو منتخب صدر صاحب سے وفا، محبت اور تعاون کی بھرپور اُمید رکھتے ہیں۔ شہباز شریف کی خوش بختی ہے کہ وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی ایوانِ صدر پی ٹی آئی کے ایک فدائی اور شیدائی رکن سے خالی ہو گیا ہے۔ یہ جگہ اب زرداری صاحب سنبھال چکے ہیں ۔ یہ واقعہ اس لیے بھی ظہور میں آیا ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر سامنے آئی ہے۔
یہ دراصل اُس میثاقِ جمہوریت(CoD) کا ثمر بھی کہا جا سکتا ہے جو18 سال قبل لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب نواز شریف کے درمیان طے پایا تھا ۔ آج ہمیں مرکز میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ یک جان و دو قالب نظر آ رہی ہیں ۔ یہ حالات کا تقاضا بھی ہے اور حالات کا جبر بھی ۔ نئے سیاسی حالات کے اِنہی تقاضوں اور جبر کے تحت ہی پیپلز پارٹی کے تعاون سے نون لیگ کے صدر، جناب شہباز شریف ، وزیر اعظم منتخب ہُوئے ہیں ۔ اور اب اِسی اتحاد نے جناب آصف علی زرداری کو دوسری بار ایوانِ صدر میں پہنچا دیا ہے ۔
ایک زمانہ تھا جب شریف برادران اورمحترمہ بے نظیر بھٹو و آصف زرداری ایک دوسرے کا نام بھی احترام سے لینے کے روادار نہیں تھے ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے ایک دوسرے سے سینگ پھنسائے رکھے ۔ دونوں نے بھاری نقصانات اُٹھائے ۔ پھر حالات کے دباؤ اور وقت کے جبر نے دونوں کو مصافحہ و معانقہ کرنے پر مائل کر دیا ۔ لندن کا ''میثاقِ جمہوریت'' اِسی کا شاخسانہ تھا ۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ جناب آصف علی زرداری نے کئی بار نون لیگ کو اپنا دستِ تعاون فراہم کیا ۔
اِس تعاون سے نون لیگ نے کئی سیاسی فوائد سمیٹے ۔ مثال کے طور پر (1)محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور2008 کے عام انتخابات سے قبل ''آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ'' کے پلیٹ فارم سے جب نواز شریف نے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا تو یہ زرداری صاحب تھے جنھوں نے نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے پر قائل کیا ۔
اور یوں اس الیکشن سے نون لیگ کے لیے پنجاب میں اقتدار کا دروازہ پھر کھل گیا تھا (2)2014 میں بھی آصف زرداری صاحب نون لیگ کی مدد کو پہنچے تھے جب پی ٹی آئی اسلام آباد میں دھرنے دے کر وزیر اعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کررہی تھی (3) خان صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرکے جناب شہباز شریف ''پی ڈی ایم '' کے پلیٹ فارم سے پہلی بار وزیر اعظم بنے تو یہ بھی زرداری صاحب کی جادوگری اور کاریگری کا نتیجہ تھا ۔