کمزور مگر مستحکم حکومت
مسلم لیگ نون نے اس بارملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ سمجھداری اوربردباری کا مظاہرہ کیا ہے
جمہوری نظام حکومت میں سارا دارومدار پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کا ہوتا ہے۔جس پارٹی کے پاس ممبران کی اکثریت ہوتی ہے وہی حکمرانی کا اہل کہلاتا ہے،مگر دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت بھی کبھی کبھار بہت کمزور اورغیر مستحکم ہوتی ہے اورصرف ایک دو ووٹ سے برتری رکھنے والی پارٹی اپنی مقرر ہ آئینی مدت بڑے اطمینان اورسکون سے پوری کرلیتی ہے۔
میاں نوازشریف کو ہماری قوم نے تین دفعہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے اعزاز سے نوازااور دو دفعہ انھیں دوتہائی اکثریت بھی سرفراز کیا لیکن وہ تینوںدفعہ قبل ازوقت معزول کردیے گئے۔جمہوری نظام حکومت میں دنیا کے بعض ملکوں میں ہم نے بہت سے ایسی بھی حکومتیں دیکھی ہیںجو عددی اعتبار سے صرف چند ووٹ کی اکثریت سے بنائی گئیں مگر انھوں نے اپنا مقررہ دور بڑے اطمینان سے مکمل بھی کیا۔
فروری 2024 کے حالیہ انتخابات میں کسی ایک پارٹی کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی لیکن ہمارے ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے ملکر یہ فیصلہ کیا کہ سادہ اکثریت کی خاطراس ملک میں باربار الیکشن نہیں کروائے جاسکتے ہیں ۔ویسے بھی ہمارا ملک اس وقت انتہائی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے اوروہ ایسی کسی بھی افراتفری اورعدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتاہے۔اسی لیے فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ملکر ایک ایسی جمہوری حکومت تشکیل دینگے جسے اپنے تمام ہم خیال فریقوں کی حمایت حاصل ہوگی۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے بظاہر اس تجویز کی بھر پور حمایت تو کردی لیکن کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ خیال کیاجانے لگا کہ وہ اِن مشکل ترین حالات میں حکومت کے مشکل فیصلوں کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں ہے اس لیے اس نے بات چیت اور ایک سمجھوتے کے تحت صرف آئینی عہدوں کے حصول کا مطالبہ کرلیا۔
وہ اس طرح حکومت میں شامل رہتے ہوئے بھی اس کی ناکامیوں کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہ تھی۔اُسے معلوم ہے کہ جس طرح PDM کی سولہ ماہ کی حکومت میں عوام کو کوئی راحت اورریلیف نہ مل سکا اس بار بھی شاید ایسا ہی ہو۔ اسی لیے وہ ملک اورریاست کی خاطراپنی سیاست کی قربانی دینے کو تیارنہ تھی۔
ہمیشہ کی طرح یہ ذمے داری بھی مسلم لیگ نون کے کاندھوں پرڈال دی گئی۔2022 میں PTIکی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا سہرا اورکریڈٹ بھی پیپلزپارٹی اپنے نام کرتی رہی لیکن سخت معاشی بحران میں عارضی حکومت سنبھالنے کا بوجھ مسلم لیگ نون پر ڈال دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی ایک بڑی جمہوری سیاسی پارٹی ضرور ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ مشکل حالات میں وہ ہمیشہ اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کردیتی ہے۔
الیکشن سے پہلے بلاول زرداری نے اپنی ساری انتخابی مہم میں اُن سولہ ماہ کی عارضی حکومت کے فیصلوں پرصرف مسلم لیگ نون ہی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اورخود کو تمام ناکامیوں سے علیحدہ اورمبرا قرار دے دیا۔وہ اس مہم میں یہ بھی کہتے رہے کہ میاں نوازشریف کی ڈیل ہوچکی ہے اوروہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے لیے لندن سے واپس تشریف لائے ہیں۔
اپنے تمام بیانات میں وہ میاں صاحب کو لاڈلا بھی کہتے رہے،لیکن مسلم لیگ نون نے جواب میں وہ طرزعمل اختیار نہ کیا جسے اُسے بعد میںشرمندگی اُٹھانی پڑے ۔ اُسے شاید یہ اندازہ تھا کہ ہوسکتا ہے کہ الیکشن کے بعد ایک بار پھر پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ نہ صرف سمجھوتہ کرنا پڑے بلکہ ساتھ ملکرحکومت بھی بنانی پڑے گی۔
فروری کے انتخابات کے نتائج ویسے توحیران کن ضرور ہیں لیکن انھیں یکسرغیرمتوقع بھی قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔مسلم لیگ نون جس کے بارے میں یہ کہاجارہا تھا کہ اُسے پس پردہ قوتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے وہ یقینی طور پر سادہ اکثریت حاصل کرلے گی اورمیاں نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے ، لیکن دیکھا یہ گیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ مسلم لیگ نون کو سادہ اکثریت دلائی گئی اورنہ میاں نوازشریف چوتھی بار وزارت عظمیٰ کے منصب پرسرفراز ہوئے۔مسلم لیگ نون کے کئی بڑے بڑے رہنما اس الیکشن میں شکست سے دوچار ہوگئے۔خود میاں نوازشریف بھی ایک حلقے سے ہار گئے۔
چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کے نتائج کو دیکھا جائے تو یہ کسی بھی طرح غیر متوقع نظر نہیں آتے ہیں۔سندھ میں پیپلزپارٹی ، پنجاب میں مسلم لیگ نون اوربلوچستان میں ملا جلا مینڈیٹ واضح کرتا ہے کہ انتخابات بڑی حد تک منصفانہ ہی تھے۔ ہارنے والا ہمارے ملک میں ہمیشہ اپنی شکست تسلیم نہیں کرتااوراس بار بھی ایسا ہی ہواہے۔
PTIکا المیہ بھی یہی ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ 2013 کے الیکشنوں میں بھی اس کا ایسا ہی ردعمل تھا۔وہ آج بھی اپنی ضد اورہٹ دھرمی پر قائم ہے۔احتجاج ، اشتعال ، انتشار اورفساد اس کا وطیرہ رہا ہے۔ وہ یہ نہ کرے تو اس کی سیاست کا بھی خاتمہ ہوجائے۔ اسی لیے وہ ایسا کرنے پرمجبور ہے۔
مسلم لیگ نون نے اس بارملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ سمجھداری اوربردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ میاں نوازشریف نے اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ کی دوڑسے باہرکردیا اوربیک فٹ پرجاکراپنے بھائی اور اپنی بیٹی کی رہنمائی کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کرلیا۔ اس طرح انھوں نے اس تاثر کو بھی زائل کردیا کہ انھیں مقتدر قوتوں نے چوتھی بار وزیراعظم بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ اپنے بھائی کواس عہدے کے لیے منتخب کروادیا جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے بڑی حد تک قابل قبول بھی ہیں۔دوسرا دانشمندانہ فیصلہ آصف علی زرداری کوصدر مملکت کے لیے نامزد کرنا تھا۔ اس طرح انھوں نے نہ صرف مفاہمت کا ایک بڑا دروازہ کھولا ہے بلکہ بلاول زرداری کے جارحانہ حملوں سے بھی اپنی حکومت کو محفوظ کرلیا ہے۔آصف علی زرداری دوستی ، مفاہمت اورسیاسی شطرنج پرکامیابی سے چالیں چلنے میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔
وہ جب تک اس عہدے پرفائزرہیں گے حکومت کو درپیش تمام مشکلات میں معاون اورمددگار بھی رہیںگے۔ صدرمملکت کے منصب کے لیے اُن سے اچھا کوئی اورآپشن نہیںتھا۔میاں نواز شریف نے یہ عہدہ بھی قبول نہ کرکے ایک اور درست اورصائب فیصلہ کیا ہے۔
سیاست میں جذباتیت اورجارحیت کے بجائے دانشمندی اورذہانت پرمبنی فیصلوں کی ضرورت ہواکرتی ہے۔ بچکانہ اورلااُبالی فیصلوں سے نہ ملک کی خدمت کی جاسکتی ہے اورنہ خود اپنی پارٹی کی۔ چالیس سالہ سیاسی زندگی میںمیاں نوازشریف اور زرداری نے یہی کچھ سیکھا ہے اوراب اسی کولے کر وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔
میاں نوازشریف کو ہماری قوم نے تین دفعہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے اعزاز سے نوازااور دو دفعہ انھیں دوتہائی اکثریت بھی سرفراز کیا لیکن وہ تینوںدفعہ قبل ازوقت معزول کردیے گئے۔جمہوری نظام حکومت میں دنیا کے بعض ملکوں میں ہم نے بہت سے ایسی بھی حکومتیں دیکھی ہیںجو عددی اعتبار سے صرف چند ووٹ کی اکثریت سے بنائی گئیں مگر انھوں نے اپنا مقررہ دور بڑے اطمینان سے مکمل بھی کیا۔
فروری 2024 کے حالیہ انتخابات میں کسی ایک پارٹی کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں ہوئی لیکن ہمارے ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نے ملکر یہ فیصلہ کیا کہ سادہ اکثریت کی خاطراس ملک میں باربار الیکشن نہیں کروائے جاسکتے ہیں ۔ویسے بھی ہمارا ملک اس وقت انتہائی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے اوروہ ایسی کسی بھی افراتفری اورعدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتاہے۔اسی لیے فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ملکر ایک ایسی جمہوری حکومت تشکیل دینگے جسے اپنے تمام ہم خیال فریقوں کی حمایت حاصل ہوگی۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے بظاہر اس تجویز کی بھر پور حمایت تو کردی لیکن کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ خیال کیاجانے لگا کہ وہ اِن مشکل ترین حالات میں حکومت کے مشکل فیصلوں کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں ہے اس لیے اس نے بات چیت اور ایک سمجھوتے کے تحت صرف آئینی عہدوں کے حصول کا مطالبہ کرلیا۔
وہ اس طرح حکومت میں شامل رہتے ہوئے بھی اس کی ناکامیوں کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہ تھی۔اُسے معلوم ہے کہ جس طرح PDM کی سولہ ماہ کی حکومت میں عوام کو کوئی راحت اورریلیف نہ مل سکا اس بار بھی شاید ایسا ہی ہو۔ اسی لیے وہ ملک اورریاست کی خاطراپنی سیاست کی قربانی دینے کو تیارنہ تھی۔
ہمیشہ کی طرح یہ ذمے داری بھی مسلم لیگ نون کے کاندھوں پرڈال دی گئی۔2022 میں PTIکی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا سہرا اورکریڈٹ بھی پیپلزپارٹی اپنے نام کرتی رہی لیکن سخت معاشی بحران میں عارضی حکومت سنبھالنے کا بوجھ مسلم لیگ نون پر ڈال دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی ایک بڑی جمہوری سیاسی پارٹی ضرور ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ مشکل حالات میں وہ ہمیشہ اپنے دونوں ہاتھ کھڑے کردیتی ہے۔
الیکشن سے پہلے بلاول زرداری نے اپنی ساری انتخابی مہم میں اُن سولہ ماہ کی عارضی حکومت کے فیصلوں پرصرف مسلم لیگ نون ہی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا اورخود کو تمام ناکامیوں سے علیحدہ اورمبرا قرار دے دیا۔وہ اس مہم میں یہ بھی کہتے رہے کہ میاں نوازشریف کی ڈیل ہوچکی ہے اوروہ چوتھی بار وزیراعظم بننے کے لیے لندن سے واپس تشریف لائے ہیں۔
اپنے تمام بیانات میں وہ میاں صاحب کو لاڈلا بھی کہتے رہے،لیکن مسلم لیگ نون نے جواب میں وہ طرزعمل اختیار نہ کیا جسے اُسے بعد میںشرمندگی اُٹھانی پڑے ۔ اُسے شاید یہ اندازہ تھا کہ ہوسکتا ہے کہ الیکشن کے بعد ایک بار پھر پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ نہ صرف سمجھوتہ کرنا پڑے بلکہ ساتھ ملکرحکومت بھی بنانی پڑے گی۔
فروری کے انتخابات کے نتائج ویسے توحیران کن ضرور ہیں لیکن انھیں یکسرغیرمتوقع بھی قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔مسلم لیگ نون جس کے بارے میں یہ کہاجارہا تھا کہ اُسے پس پردہ قوتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے وہ یقینی طور پر سادہ اکثریت حاصل کرلے گی اورمیاں نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے ، لیکن دیکھا یہ گیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ مسلم لیگ نون کو سادہ اکثریت دلائی گئی اورنہ میاں نوازشریف چوتھی بار وزارت عظمیٰ کے منصب پرسرفراز ہوئے۔مسلم لیگ نون کے کئی بڑے بڑے رہنما اس الیکشن میں شکست سے دوچار ہوگئے۔خود میاں نوازشریف بھی ایک حلقے سے ہار گئے۔
چاروں صوبوں کی اسمبلیوں کے نتائج کو دیکھا جائے تو یہ کسی بھی طرح غیر متوقع نظر نہیں آتے ہیں۔سندھ میں پیپلزپارٹی ، پنجاب میں مسلم لیگ نون اوربلوچستان میں ملا جلا مینڈیٹ واضح کرتا ہے کہ انتخابات بڑی حد تک منصفانہ ہی تھے۔ ہارنے والا ہمارے ملک میں ہمیشہ اپنی شکست تسلیم نہیں کرتااوراس بار بھی ایسا ہی ہواہے۔
PTIکا المیہ بھی یہی ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی ہار ماننے کو تیار نہیں ہوتی ہے۔ 2013 کے الیکشنوں میں بھی اس کا ایسا ہی ردعمل تھا۔وہ آج بھی اپنی ضد اورہٹ دھرمی پر قائم ہے۔احتجاج ، اشتعال ، انتشار اورفساد اس کا وطیرہ رہا ہے۔ وہ یہ نہ کرے تو اس کی سیاست کا بھی خاتمہ ہوجائے۔ اسی لیے وہ ایسا کرنے پرمجبور ہے۔
مسلم لیگ نون نے اس بارملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ سمجھداری اوربردباری کا مظاہرہ کیا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ میاں نوازشریف نے اپنے آپ کو وزارت عظمیٰ کی دوڑسے باہرکردیا اوربیک فٹ پرجاکراپنے بھائی اور اپنی بیٹی کی رہنمائی کرنے کا دانشمندانہ فیصلہ کرلیا۔ اس طرح انھوں نے اس تاثر کو بھی زائل کردیا کہ انھیں مقتدر قوتوں نے چوتھی بار وزیراعظم بنانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ اپنے بھائی کواس عہدے کے لیے منتخب کروادیا جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے بڑی حد تک قابل قبول بھی ہیں۔دوسرا دانشمندانہ فیصلہ آصف علی زرداری کوصدر مملکت کے لیے نامزد کرنا تھا۔ اس طرح انھوں نے نہ صرف مفاہمت کا ایک بڑا دروازہ کھولا ہے بلکہ بلاول زرداری کے جارحانہ حملوں سے بھی اپنی حکومت کو محفوظ کرلیا ہے۔آصف علی زرداری دوستی ، مفاہمت اورسیاسی شطرنج پرکامیابی سے چالیں چلنے میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔
وہ جب تک اس عہدے پرفائزرہیں گے حکومت کو درپیش تمام مشکلات میں معاون اورمددگار بھی رہیںگے۔ صدرمملکت کے منصب کے لیے اُن سے اچھا کوئی اورآپشن نہیںتھا۔میاں نواز شریف نے یہ عہدہ بھی قبول نہ کرکے ایک اور درست اورصائب فیصلہ کیا ہے۔
سیاست میں جذباتیت اورجارحیت کے بجائے دانشمندی اورذہانت پرمبنی فیصلوں کی ضرورت ہواکرتی ہے۔ بچکانہ اورلااُبالی فیصلوں سے نہ ملک کی خدمت کی جاسکتی ہے اورنہ خود اپنی پارٹی کی۔ چالیس سالہ سیاسی زندگی میںمیاں نوازشریف اور زرداری نے یہی کچھ سیکھا ہے اوراب اسی کولے کر وہ آگے بڑھ رہے ہیں۔