بھارتی فلم نگری مسلمانوں کی کردار کشی میں آلہ کار بن گی

بھارتی حکمرانوں کے سیاسی نظریات پیروکار فلمساز مسلمانوں کو دہشتگرد، مذہبی جنونی جنسی درندوں کے روپ میں پیش کرتے ہیں

فوٹو : فائل

یش چوپڑا (متوفی2012 ء )بھارتی فلموں کے ممتاز ہدایت کار گزرے ہیں۔وہ لاہور میں پیدا ہوئے تھے اور تقسیم ہند کے بعد بمبئی چلے گئے۔گو یہ تقسیم ہندو مسلم فساد سے داغدار ہو گئی مگر یش چوپڑا مسلمانوں کو ناپسند نہیں کرتے تھے۔مذہباً وہ سیکولر تھے اور کئی مسلمان ان کے دوست تھے۔یہی وجہ ہے، انھوں نے جب 1959ء میں بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ''دھول کا پھول ''بنائی تو اس میں ایک اہم مسلم کردار، عبدالرشید کا بھی تھا۔

عبدالرشید ایک نیک اور رحم دل مسلمان تھا۔اسے ایک دن لاوارث ہندو بچہ ملا۔وہ اسے اپنے گھر رکھ کر پالتا پوستا ہے۔یہ کردار بڑی عمدگی سے اداکار منموہن کرشن نے ادا کیا جو خود بھی لاہورمیں پیدا ہوئے تھے۔ان پہ فلمایا گیا گانا جو انسانیت کی اہمیت اجاگر کرتا ہے، آج کلاسیک میں شمار ہوتا ہے۔

یہ ایک مثبت مسلم کردار تھا۔اس کے ذریعے یش چوپڑا نے اہل وطن کو انسان دوستی کا پیغام دینے کی کوشش کی اور واضح کیا کہ مذہبی انتہا پسند اپنے تباہ کن نظریات کی مدد سے مسلمانوں ، ہندؤں اور عیسائیوں میں اختلافات اور نفرت پیدا کرنے کا کاروبار کرتے ہیں تاکہ اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔

ہندوستان میں مذہبی جنگ کا آغاز انگریزوں کے دور میں برہمن طبقے نے کیا جو اپنا مذہب بت پرستوں میں پھیلانا چاہتا تھا۔وشنو، شیو، رام، ہنومان وغیرہ اسی مذہب کے نمایاں کردار ہیں۔یہ مذہب صرف شمالی و مغربی ہندوستان میں مروج تھا۔چونکہ انہی علاقوں میں مسلمان بھی بہ کثرت تھے، لہذا ان کا برہمنوں سے ٹکراؤ ہو گیا۔برہمن مذہبی رہنما مثلاً دیانند سرسوتی، پنڈت مالویہ، بال گنگا دھرتلک، ساورکر، ڈاکٹر مونجے، ہیڈگوار (بانی آر ایس ایس) وغیرہ ہندوستان کو بزور (طاقت کے بل بوتے پر)ہندو راجیہ یعنی ہندوؤں کا دیش بنانے کی جدوجہد کرنے لگے۔اس نظریے کی گاندھی جی نے مخالفت کی تو انھیں بھی مار ڈالا۔

گاندھی جی کے قتل نے تاہم نئی مملکت، بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو پس پشت جانے پر مجبور کر دیا۔ان کی مسلم دشمن سوچ کے بجائے تب بھارت میں عام طور پہ یہ فکر پروان چڑھی کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کو مل جل کر رہنا چاہیے۔یہی وجہ ہے، 1950 ء سے لے کر 1990ء تک بالی وڈ کی بیشتر فلموں میں مسلمانوں کے کردار مثبت تھے۔بعض فلموں میں انھیں بدمعاش یا منفی کردار میں بھی دکھایا گیا مگر ان کی تعداد کم ہے۔

یہی وجہ ہے ، ہمیں دھول کا پھول کے علاوہ اس عرصے میں کئی فلموں میں ایسے مسلم کردار بھی دکھائی دیتے ہیں جنھیں بہت شہرت ملی۔ انار کلی (1953ئ)، چھلیا (1960ئ) چودہویں کا چاند (1960ئ)، مغل اعظم (1960ئ)، پاکیزہ (1972ئ)، شور (1972ئ) زنجیر (1973ئ) امراکبر انتھونی (1977ئ) اس امر کی نمایاں مثالیں ہیں۔

چھلیا کے بعد ممتاز بھارتی ہدایتکار، من موہن ڈیسائی نے امر اکبر انتھونی میں بھی مسلم کردار کو عمدگی سے نمایاں کیا۔فلم میں تین ہندو بھائی بچھڑ جاتے ہیں۔دو بچوں کی پرورش مسلم اور عیسائی گھرانوں میں ہوتی ہے۔تینوں بچے جوان ہو کر ملتے اور ظلم کے خلاف لڑتے ہیں۔فلم نے پیغام دیا کہ تمام انسان کسی تفریق کے بغیر عدل و انصاف پانے کی جدوجہد کر سکتے ہیں۔

1990ء کے بعد مگر ہندو انتہاپسندوں نے مسلمانوں سے ایودھیا میں رام جنم بھومی واپس لینے کی تحریک چلا دی۔اس تحریک کا انھوں نے پورے بھارت میں اتنے زورشور سے چرچا کیا کہ وہ عام ہندو بھی اس کا حصّہ بن گئے جو مسلمانوں سے کوئی پُرخاش نہیں رکھتے تھے۔اس تحریک نے خصوصاً شمالی اور مغربی بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین تقسیم پیدا کر دی اور وہ معاشی، مذہبی، سیاسی اور معاشرتی اختلافات کا نشانہ بن گئے۔

انتہا پسندوں نے 1992ء میں بابری مسجد شہید کر دی۔اس موقع پہ وسیع پیمانے پر ہندومسلم فسادات ہوئے۔گو قیام بھارت کے بعد سے مختلف بھارتی علاقوں میں ہندو مسلم فساد ہوئے تھے، مگر اس بار وہ پورے شمالی و مغربی ہندوستان میں پھیل گئے۔انھوں نے دونوں اقوام کے درمیان خلیج بڑھا دی۔نیز اختلافات بھی شدت اختیار کر گئے۔

یہ اختلافات بالی وڈ پر بھی اثرانداز ہوئے اور ہندوؤں کی بالادستی کے قائل پروڈیوسر، ہدایت کار اور اداکار ایسی فلمیں بنانے کی جستجو میں لگ گئے جو مسلمانوں کو منفی انداز میں پیش کر سکیں۔ماضی میں مسلمانوں کو غنڈے بدمعاش کے طور پہ دکھایا جاتا تھا۔اب وہ دہشت گرد اور قاتل بن گئے۔گویا وقت کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ میں مسلمانوں کی تصویر کشی مثبت سے منفی ہوتی چلی گئی۔


بھارت میں ''روجا''پہلی فلم ہے جس میں مسلمانوں کو بطور دہشت گرد دکھایا گیا۔ گو 1992ء میں سامنے آنے والی یہ فلم تامل تھی مگر اس کا ہندی (اردو)ورژن بھی تیار ہوا جو پورے بھارت میں دیکھا گیا۔اس فلم کا پروڈیوسر جنوبی ہند کا ایک کٹر برہمن، کے بالاچندر تھا۔وہ اپنی فلموں کے ذریعے برہمن مت (المعروف بہ ہندومت) کو مقبول بنانا چاہتا تھا۔چونکہ مسلم دشمنی برہمن مت کو مشہور کرنے کا بہترین ہتھیار بن چکا، اسی لیے روجا میں مسلمانوں کو بہ حیثیت دہشت گرد پیش کیا گیا۔

فلم میں پیش کیے گئے دہشت گرد حقیقت میں کشمیری مجاہدین ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں بے سروسامانی کے باوجود بھارتی ریاست کی پوری طاقت سے نہایت دلیری و بے جگری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔اس فلم کے ذریعے انھیں بدنام کرنے کا پروپیگنڈا کیا گیا۔

روجا کی کامیابی نے بھارت میں یہ نظریہ پروان چڑھایا کہ تمام برائیوں اور خرابیوں کی جڑ مسلمان ہی ہیں۔ یہ بھارت میں رہتے مگر کام پاکستان کے لیے کرتے ہیں۔ وہ غدار اور بھارت دشمن ہیں۔اس لیے ان کا مقاطع کر دینا چاہیے۔یہ مسلمان عورتوں کو مارتے اور گوشت کھاتے ہیں۔غرض مسلمان کو اجڈ، جاہل، جھگڑالو اور جنس زدہ کے طور پہ فلموں میں پیش کیا جانے لگا۔

اس کے بعد ایسی فلموں کی لائن لگ گئی جن میں مسلم کردار منفی رنگ میں پیش کیے گئے۔ سرفروش (1999ئ)، ایل او سی: کارگل (2003ئ) ویر زارا (2004ئ)، فنا (2006ئ) قربان (2009ئ) اور نیویارک (2009ئ) ایسی ہی فلمیں ہیں۔ گو ہمیں مثبت کردار والی فلمیں بھی نظر آتی ہیں، جیسے غلام مصطفی(1997ئ) مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر ہے۔ رفتہ رفتہ بالی وڈ ہی نہیں تامل فلموں میں بھی مسلمانوں کو منفی انداز میں پیش کرنا معمول بن گیا۔

ہندو قوم پرست و انتہا پسند جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 2014ء کے عام الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ اس کے بعد تو اسلاموفوبیا اور ہندو برتری بھارتی فلموں کے محبوب موضوع بن گئے۔ اسی تناظر میں پدماوت (2018ئ) اور تاناجی (2020ء ) جیسی تاریخی فلمیں بنائی گئیں جن میں حقائق اور دیومالائی داستانوں کو غلط ملط کر دیا گیا۔

ان فلموں کی کہانی صدیوں پہلے گذرے کرداروں پہ مبنی ہیں۔مگر انھیں سچ بنا کر پیش کیا گیا۔اور ناخواندہ ہندو عوام نے انھیں سچ سمجھ بھی لیا۔اور یہ شرانگیز اور نفرت کا زہر پھیلانے والی ان فلموں کا ٹارگٹ بھی ہندو عوام تھے۔مقصد یہ تھا کہ فلموں میں مسلمانوں کو ایسے منفی انداز میں پیش کیا جائے کہ عام ہندو ان سے نفرت کرنے لگیں۔

اسی پروپیگنڈے کا نتیجہ ہے کہ آج بھارت میں بیشتر مسلمان اچھوتوں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔خاص طور پہ جن علاقوں میں ان کی تعداد تھوڑی ہے، وہاں تو وہ اپنا مذہب تک پوشیدہ رکھنے پر مجبور ہو چکے تاکہ انتہا پسندوں سے اپنی جان و مال و عزت محفوظ رکھ سکیں۔یہ صورت حال دیکھ کر ان بزرگوں کی دوراندیشی کو داد دینی پڑتی ہے جو قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کرتے رہے۔انھوں نے بجا طور پہ محسوس کر لیا تھا کہ ہندو اکثریت بتدریج مسلم اقلیت کو ہڑپ کر جائے گی۔

بھارت کی فلموں میں اب مسلم دشمنی انتہا کو پہنچ چکی۔اس کی واضح مثال حال ہی سامنے آنے والی فلمیں...دی کشمیر فائلز، دی کیرالہ سٹوری، اینیمل، ڈنکی اور فائٹر ہیں۔دی کیرالہ سٹوری کی تو ان ریاستوں میں مفت نمائش کی گئی جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔مدعا یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ ہندو عوام انھیں دیکھنے کو آ سکیں۔

ان تمام فلموں میں مسلمان دہشت گرد، کرپٹ، زانی، جنگجواور بدمعاش کی صورت نمایاں ہوتے ہیں۔دی کشمیر فائلز اور فائٹر میں کشمیری حریت پسند ولن بن گئے تو ڈنکی میں ایرانی فوجؤں کو ظالم وجابر کے روپ میں پیش کیا گیا۔

یہ بھارتی فلمیں دراصل اب آر ایس ایس ، بی جے پی اور ہندوتوا نظریے پہ عمل پیرا سبھی تنظیموں کے لیے پروپیگنڈے کا نہایت موثر کردار بن گئی ہیں۔اس لیے خیال ہے کہ بھارت میں مستقبل میں مذید مسلم و پاکستان دشمن فلمیں بنیں گی تاکہ نریندر مودی اور اس کے ساتھیوں کو اپنے زہریلے نظریات ہندو عوام میں راسخ کرنے میں مدد وتعاون مل سکے۔

صد افسوس کہ انھوں نے فلم جسیے میڈیم کو اپنی شرانگیز فکر پھیلانے کا ذریعہ بنا لیا...وہ میڈیم جو ماضی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو قریب لانے اور اختلافات مٹانے میں اہم مثبت کردار ادا کرتا رہا۔مگر اس کے نام لیوا اور علم بردار انسان دوست ہستیاں دنیا سے رخصت ہو چکیں۔اور جو باقی ہیں ، وہ اب بھارت میں چلتے انتہا پسندی و نفرت کے طوفان کے سامنے خود کو بے بس و ناتواں پاتے ہیں۔
Load Next Story