پندرہواں کراچی لٹریچر فیسٹیول جہاں علم وادب کے دیے جگمگا اٹھے
جہاں علم وادب کے دیے جگمگا اٹھے
کراچی کی جو چند بہت نُمایاں اور اہم ادبی تقریبات ہیں اُن میں کراچی لٹریچر فیسٹیول، جسے اختصار کی غرض سے کے ایل ایف کہا جاتا ہے، خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ لٹریری فیسٹیول جسے اُردو میں آپ ادبی میلہ کہہ سکتے ہیں، آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کے زیرِاہتمام موسمِ بہار میں منعقد کِیا جاتا ہے۔
اِس فیسٹیول کا آغاز آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس اور برٹش کاؤنسل کے اشتراک سے 2010 میں ہوا تھا۔ ابتدائی تین میلے کارلٹن ہوٹل ڈیفنس میں ہوئے اس کے بعد سے یہ میلہ بیچ لگژری ہوٹل میں چار ہالز اور لان میں کہ جسے مین گارڈن کہا جاتا ہے، سجایا جاتا ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والا یہ ادبی میلہ اپنی نوعیت کا اس لحاظ سے واحد میلہ ہے کے یہ عوام کے ساتھ ساتھ خواص کے لیے بھی ہے۔ اس کے سیشنز زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔ اردو میں تو ادبی تقریبات عموماً ہوتی ہی ہیں لیکن انگریزی زبان میں ادبی تقریبات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چناں چہ وہ لوگ جو انگریزی زبان و ادب سے رغبت رکھتے ہیں وہ بہت دل چسپی سے اس میں شرکت کرتے ہیں۔
اِمسال یہ پندرہواں کراچی لٹریچر فیسٹیول تھا۔ یہ فیسٹیول عموماً فروری/مارچ یعنی موسمِ بہار میں ہوتا ہے۔ بہار ویسے ہی بہت خوش گوار موسم ہوتا ہے پھر سمندر کنارے سجی علم و ادب کے موضوعات کی محفل تو گویا سونے پہ سہاگہ والی بات ہے۔ اس پرفضا ماحول اور خوش گوار موسم میں شائقینِ ادب کی تسکینِ ذوق کے لیے اس سے زیادہ پُرلطف بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس مرتبہ یہ میلہ عین موسمِ بہار کے عروج کے دنوں میں ہوا۔
میلے کی افتتاحی تقریب کا وقت چار بجے سہ پہر تھا جو کہ لان میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس کے مہمانانِ خصوصی امریکا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے قونصل جنرل حضرات تھے، جنھوں نے اپنی تقاریر میں کراچی لٹریچر فیسٹیول کے مسلسل انعقاد اور اچّھے انتظامات کو سراہتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کِیا۔
تقاریر کے بعد حسبِ روایت کے ایل ایف گٹز فارما پرائز کی طرف سے پانچ کتابوں کو انعام سے نوازا گیا۔ اس کے بعد اعضاء کی شاعری یعنی رقص کا پروگرام پیش کِیا گیا۔ نگہت چوہدری رقص کی دُنیا میں ایک بہت نمایاں مُقام کی حامِل ہیں۔ ان کے خوب صورت رقص کو حاضرین نے خوب داد سے نوازا۔ اگلا پروگرام پینل ڈسکشن تھا۔
پی ٹی وی پر جب سیاسی گفت گو پر مبنی پروگرامز نشر ہونا شروع ہوئے تو ابتدا میں جن تین افراد نے ان کی میزبانی کی، شاہین صلاح الدین ان میں سے ایک تھیں۔
بعدازآں وہ پاکستان چھوڑ کے کینیڈا جابسیں۔ کے ایل ایف کے سیشنز کی میزبانی کے لیے ہر سال پاکستان آتی ہیں۔ سنجیدہ سیاسی موضوعات کے سیشنز کی میزبانی اُسی عمدگی سے کرتی ہیں جیسے پی ٹی وی پروگرامز کی کرتی تھیں۔ یہ پروگرام لان میں ہوئے جب کہ ہال میں فلم ''گاندھی اینڈ جناح ریٹرن ہوم'' دکھائی گئی پھر فلم سے متعلق سوال جواب کا سیشن ہوا، جس کی نظامت حیا فاطمہ سہگل نے کی۔ یہ سیشن نو بجے ختم ہوا یوں پہلے دن کے پروگراموں کا اختتام ہوا۔
دوسرے دن گیارہ بجے سے سیشن شروع ہوا۔ اس دن بھی بہت اچھے موضوعات پر بات ہوئی۔ مین گارڈن میں ''UNRAVELING SOUTH ASIA'' کے عنوان سے دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل اور میزبان اعزاز احمد چوہدری کی گفت گو تھی جس میں کئی اہم پہلوؤں کو زیربحث لایا گیا۔ ''اردو شاعری کے درخشاں ستارے'' کی میزبان حُوری نورانی اور مہمان زہرہ نگاہ اور کشور ناہید تھیں۔
بک ڈسکشن کے عنوان کے تحت کتاب ''قیدی'' پر غازی صلاح الدین نے مصنف عمر شاہد حامد اور اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے انعام ندیم سے گفت گو کی۔ عمر شاہد حامد محکمۂ پولیس سے وابستہ ہیں۔ ان کی کتاب کا انعام ندیم نے انگریزی میں ترجمہ کِیا ہے۔ دیگر سیشنز میں ''THE EVOLVING FEDERATION: TWO STEPS FORWARD ONE STEP BACK''، ''نورجہاں سرورِ جہاں''، ''الیکشن سے ذرا ہٹ کے''، ''PERFORMING PAKISTAN: A NEW SOCIAL''، ''مُور'' شامل تھے۔
جاسمین ہال میں پہلا سیشن ''میری دھرتی میرے لوگ'' تھا، جس میں احمد سلیم اور بابر ایاز کے بارے میں گفت گو ہوئی۔ اگلے دو سیشنز کتاب کی رونمائی کے تھے۔ پہلے سیشن کی کتاب کا نام تھا
DEVELOPMENT PATHWAY:INDIA-
PAKISTAN-BANGLADESH '' جو اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین کی تحریر کردہ ہے۔ کتاب پر سابق ممبر قومی اسمبلی مفتاح اسماعیل، عشرت حسین اور سلیم مانڈوی والا نے گفت گو کی۔ میزبان اسماء حیدر تھیں۔ دوسرا سیشن جس کتاب کا تھا اس کا نام '' SUFFOCATION'' ہے۔ پھر ''افتخار عارف، یادیں اور باتیں'' کے عنوان سے سیشن ہوا۔ اس کے بعد اسی ہال میں '' Imran khan Myth of the Pakistani Middle-Class'' کی رونمائی اور کتاب پر گفت گو ہوئی۔ اگلا سیشن شہزاد رائے سے فلم ایوارڈ سے متعلق ایک تقریب کے بارے میں گفت گو کا تھا۔
اگلے سیشن میں ''TO PRINT OR NOT TO PRINT : BLENDED DIGITAL FACE OF'' پر بات ہوئی۔ میزبان فیصل باری تھے۔ اس کے بعد افتخار عارف کی صدارت اور ناصرہ زبیری کی نظامت میں مشاعرہ ہوا۔ کشور ناہید، انور شعور، عقیل عباس جعفری، افضال احمد سیّد، تنویرانجم، حارث خلیق، فاضل جمیلی، احمد عطائ، وحید نور، سلمان ثروت، عنبرین حسیب عنبر اور ثروت زہرا نے کلام پیش کیا اور داد پائی۔
ایکوریئس ہال میں دوسرے دن کا پہلا سیشن ''نثری نظم کا ارتقائ'' تھا جس میں عہدِحاضر کے نثری نظم کے اہم نام عذرا عباس اور افضال احمد سید کے علاوہ دونوں کے شریکِ حیات جو کہ خود بھی ادب کے نمایاں نام ہیں، افضال احمد سید اور تنویر انجم بھی گفت گو کا حصہ بنے۔ نظامت سید کاشف رضا کی تھی۔ اگلا سیشن "Sustainability and the Evolving New World Order"'' سے متعلق بات کرنے کا تھا۔ میزبان علی عثمان قاسمی اور شرکاء گفتگو حسنین کاظم اور نعمان نقوی تھے۔ اگلے سیشن میں کتاب ''خوشبو کی دیوار کے پیچھے'' پر مبین مرزا کی مصنف حمید شاہد سے گفتگو تھی۔ اگلے چند سیشنز بھی گفت گو اور کتابوں پر تبصروں سے متعلق تھے۔
ان میں ایک اہم گفتگو '', Arab Identity in Contemporary Times'' تھی جس میں جوزف میسڈ سے سید اکبر زیدی نے بات کی۔ پروفیسر جوزف مصاد اردن سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں جن کا موضوع عرب دنیا اور مشرقِ وُسطیٰ کے امور ہیں۔ خاصی بھرپور گفتگو تھی۔
ان سیشنز کے علاوہ اُس دن ایکوریئس ہال میں ''VLOGVOLUTION: CONTENT BEYOND LIKES"، "THE LAST WHITE MAN"
'' LAUREATE NATIONAL YOUTH POET''، اور ''HISTORICAL FICTION: CAPTURING THE ATMOSPHERE'' شامل تھے، جب کہ روم نمبر 007 میں ہونے والے آٹھ سیشنز میں پہلا سیشن ''پشتو ادب کا حالیہ منظر نامہ'' تھا۔ میزبان طاہر مندوخیل اور شرکائے گفت گو قیصر خان آفریدی، ماخم خٹک اور زہرا شاہ تھے۔ اگلے دو سیشنز کتابوں کی رونمائی کے تھے۔ اصغر ندیم سیّد کے ناول ''جہان آباد کی گلیاں'' پر ناصر عباس نیّر نے مصنف سے گفت گو کی۔ دوسرے سیشن میں بھی ناول کے بارے میں بات کی گئی۔
یہ رفاقت حیات کا ناول ''رولاک'' تھا، جس پر سیّد کاشف رضا نے رفاقت حیات سے بات کی۔ دیگر سیشنز میں ''A LIFE LIVED WITH PASSION'' مصنف عرفان حسین، ''LIFETIME OF DISSENT: A MEMOIR BY I. A. REHMAN'' کی رونمائی تھی۔ گفتگو کے اور سیشنز میں نگارعالم کے ناول ''BUILDING FUTURE''، ''بلڈنگ فیوچر اسکلز دا کو ایگزسٹنس آف لوکل اینڈ انٹرنیشنل ایگزامینیشن بورڈز''، ''چند بہترین کہانی کاروں کی یاد میں'' منعقدہ سیشن شامل تھے۔ ٹیولپ ہال میں ''بیت بازی''، ''کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر''، ''پیشن اور پروفیشن''، ''تھیٹریکل سیشن ڈرامیٹک ریڈنگز'' منعقد ہوئے۔ آخری سیشنز رات نو بجے تھے۔
تیسرے اور آخری دن کے سیشنز بھی بہت اہم تھے۔ لان میں ہونے والے سیشنز ''IN PERSUIT OF AN ETHICAL STATE''، ''URBAN DIALOGUES: DECODING KARACHI'S DYNAMICS''، ''AWAZ: ECHOES OF FREEDOM & JUSTICE'' کی رونمائی''، مزاح پر مبنی پروگرام ''ہنسنا منع ہے''، ''FILM THE POWER OF STORYTELLING''، ''HUMAN RIGHTS AND WRONG''، ''FRAMING REALITY AS COMEDY'' سوا سات بجے اختتامی تقریب ہوئے اور یہ میلہ اپنی خوش گوار یادیں ذہنوں میں ثبت کرکے ختم ہوا۔
ایکوریئس میں ''THE HISTORY OF THE BALOCH AND BALOCHISTAN'' نامی کِتاب کی رونمائی تھی۔ اس میں بلوچستان کے ادب، تاریخ، تہذیب و ثقافت کے بارے میں بحث تھی۔ اِس سیشن میں گذشتہ دنوں سب کی توجہ کا مرکز بننے والی ماہ رنگ بلوچ کی ساتھی سمّی بلوچ بھی شریکِ گفت گو تھیں یہ خواتین بلوچستان کے مسائل اور عوام کے حقوق کے لیے جوجہد کررہی ہیں اور اس حوالے سے نہ صِرف خاصی سرگرم ہیں بلکہ میڈیا میں بھی شہرت رکھتی ہیں۔ دیگر شرکاء کی طرح انھوں نے بھی بلوچستان کی روایات اور زمینی حقائق پر بہت اچّھی اور پرمغز گفتگو کی۔
ممکن ہے کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ سیاسی ایکٹیوسٹ کا کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں کیا کام؟ لیکن بات یہ ہے کہ کسی بھی زبان کے ادب کو اس کی ثقافت اور روایات کے پس منظر سے واقفیت اور خاص کر وہاں کے مختلف طبقہ ہائے فِکر کے لوگوں کی سوچ سے واقفیت کے ساتھ پڑھا جائے تو موضوع کے ہر زاویے سے اچّھی طرح آگاہی ہوتی ہے اور ہر نکتہ واضح ہوتا ہے۔ بقیہ سیشنز میں ''JERUSALEM: A JOURNEY BACK IN TIME A PRESENTATION''، ''علی روہیلہ کی کتاب ''THE WHISPERING CHINAR'' کی رونمائی، کتاب '' QAUM MULK SULTANAT: CITIZENSHIP AND NATIONAL BELONGING IN PAKISTAN'' کی رونمائی''، ''الیکشن 2024 ایک نیا زاویہ''، ''TRANSLATION OF SINDHI CLASSICS: FROM SHAH ABDUL''، ثمینہ نذیر کا تحریر کردہ ڈرامہ ''لیڈیز ٹیلر'' شامل تھے، جب کہ روم نمبر 007 میں ہونے والے سیشنز میں ''پاکستان تعلیم اور اکیسویں صدی''، ''BEYOND THE SEAS: READINGS BY MICHEAL CIRELLI AND AYESHA BAQIR''، ''حیاء فاطمہ سہگل کی کتاب ''EARTH AND GLIMMER'' کی رونمائی''، ''اشرف شاد کی کتاب ''انڈر گراؤنڈ'' کی رونمائی''، ''بینا شاہ کے ناول ''THE MONSON WAR'' کی رونما?ی''، ''HIGHER EDUCATION: NURTURING TOMORROW'S INNOVATORS''، ''CEASEFIRE FOREVER''، ''عامر جعفری کی کتاب ''A WORLD OF HER OWN: ADA JAFAREY''کی رونمائی اور گفتگو اور ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کی کتاب ''AMONG MY OWN: THE UNTOLD STORIES OF MY PEOPLE'' کی رونمائی۔ ٹیولپ میں مختلف موضوعات پر گفتگو کے پروگرام ہوئے۔
اس میلے کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ نوجوانوں کے لیے خاص طور پر ایک سیشن رکھا گیا تھا جس میں ان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے اسٹیج مہیا کیا گیا تھا کہ وہ کُھل کر اپنی صلاحیتوں کو سامنے لائیں۔ اس فورم پر طلبہ کے لیے بیت بازی، گانا گانے کے مواقع فراہم کِیے گئے۔ یہ بہت اچّھی بات ہے کہ اس طرح نوجوان نہ صرف اپنے سیشن بلکہ گفت گو کے دیگر سیشنز میں بھی جاتے ہیں اور علم و ادب سے ان کی وابستگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے ہر ادبی میلے اور تقریب میں لوگوں کی بڑی تعداد نظر آتی ہے جن میں نوجوانوں کی اکثریت ہوتی ہے جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے یہاں کے لوگوں خاص کر نئی نسل میں ادب سے وابستگی کِتنی زیادہ ہے۔ ایسی محفلیں معاشرے میں ثقافت، رواداری، تحمل و برداشت اور علم و ادب کے فروغ کے لیے بے حد ضروری ہیں اور ان کا انعقاد متواتر ہوتے رہنا چاہیے۔
اِس فیسٹیول کا آغاز آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس اور برٹش کاؤنسل کے اشتراک سے 2010 میں ہوا تھا۔ ابتدائی تین میلے کارلٹن ہوٹل ڈیفنس میں ہوئے اس کے بعد سے یہ میلہ بیچ لگژری ہوٹل میں چار ہالز اور لان میں کہ جسے مین گارڈن کہا جاتا ہے، سجایا جاتا ہے۔
اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والا یہ ادبی میلہ اپنی نوعیت کا اس لحاظ سے واحد میلہ ہے کے یہ عوام کے ساتھ ساتھ خواص کے لیے بھی ہے۔ اس کے سیشنز زیادہ تر انگریزی زبان میں ہوتے ہیں۔ اردو میں تو ادبی تقریبات عموماً ہوتی ہی ہیں لیکن انگریزی زبان میں ادبی تقریبات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ چناں چہ وہ لوگ جو انگریزی زبان و ادب سے رغبت رکھتے ہیں وہ بہت دل چسپی سے اس میں شرکت کرتے ہیں۔
اِمسال یہ پندرہواں کراچی لٹریچر فیسٹیول تھا۔ یہ فیسٹیول عموماً فروری/مارچ یعنی موسمِ بہار میں ہوتا ہے۔ بہار ویسے ہی بہت خوش گوار موسم ہوتا ہے پھر سمندر کنارے سجی علم و ادب کے موضوعات کی محفل تو گویا سونے پہ سہاگہ والی بات ہے۔ اس پرفضا ماحول اور خوش گوار موسم میں شائقینِ ادب کی تسکینِ ذوق کے لیے اس سے زیادہ پُرلطف بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس مرتبہ یہ میلہ عین موسمِ بہار کے عروج کے دنوں میں ہوا۔
میلے کی افتتاحی تقریب کا وقت چار بجے سہ پہر تھا جو کہ لان میں منعقد کی جاتی ہے۔ اس کے مہمانانِ خصوصی امریکا، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے قونصل جنرل حضرات تھے، جنھوں نے اپنی تقاریر میں کراچی لٹریچر فیسٹیول کے مسلسل انعقاد اور اچّھے انتظامات کو سراہتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کِیا۔
تقاریر کے بعد حسبِ روایت کے ایل ایف گٹز فارما پرائز کی طرف سے پانچ کتابوں کو انعام سے نوازا گیا۔ اس کے بعد اعضاء کی شاعری یعنی رقص کا پروگرام پیش کِیا گیا۔ نگہت چوہدری رقص کی دُنیا میں ایک بہت نمایاں مُقام کی حامِل ہیں۔ ان کے خوب صورت رقص کو حاضرین نے خوب داد سے نوازا۔ اگلا پروگرام پینل ڈسکشن تھا۔
پی ٹی وی پر جب سیاسی گفت گو پر مبنی پروگرامز نشر ہونا شروع ہوئے تو ابتدا میں جن تین افراد نے ان کی میزبانی کی، شاہین صلاح الدین ان میں سے ایک تھیں۔
بعدازآں وہ پاکستان چھوڑ کے کینیڈا جابسیں۔ کے ایل ایف کے سیشنز کی میزبانی کے لیے ہر سال پاکستان آتی ہیں۔ سنجیدہ سیاسی موضوعات کے سیشنز کی میزبانی اُسی عمدگی سے کرتی ہیں جیسے پی ٹی وی پروگرامز کی کرتی تھیں۔ یہ پروگرام لان میں ہوئے جب کہ ہال میں فلم ''گاندھی اینڈ جناح ریٹرن ہوم'' دکھائی گئی پھر فلم سے متعلق سوال جواب کا سیشن ہوا، جس کی نظامت حیا فاطمہ سہگل نے کی۔ یہ سیشن نو بجے ختم ہوا یوں پہلے دن کے پروگراموں کا اختتام ہوا۔
دوسرے دن گیارہ بجے سے سیشن شروع ہوا۔ اس دن بھی بہت اچھے موضوعات پر بات ہوئی۔ مین گارڈن میں ''UNRAVELING SOUTH ASIA'' کے عنوان سے دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل اور میزبان اعزاز احمد چوہدری کی گفت گو تھی جس میں کئی اہم پہلوؤں کو زیربحث لایا گیا۔ ''اردو شاعری کے درخشاں ستارے'' کی میزبان حُوری نورانی اور مہمان زہرہ نگاہ اور کشور ناہید تھیں۔
بک ڈسکشن کے عنوان کے تحت کتاب ''قیدی'' پر غازی صلاح الدین نے مصنف عمر شاہد حامد اور اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے انعام ندیم سے گفت گو کی۔ عمر شاہد حامد محکمۂ پولیس سے وابستہ ہیں۔ ان کی کتاب کا انعام ندیم نے انگریزی میں ترجمہ کِیا ہے۔ دیگر سیشنز میں ''THE EVOLVING FEDERATION: TWO STEPS FORWARD ONE STEP BACK''، ''نورجہاں سرورِ جہاں''، ''الیکشن سے ذرا ہٹ کے''، ''PERFORMING PAKISTAN: A NEW SOCIAL''، ''مُور'' شامل تھے۔
جاسمین ہال میں پہلا سیشن ''میری دھرتی میرے لوگ'' تھا، جس میں احمد سلیم اور بابر ایاز کے بارے میں گفت گو ہوئی۔ اگلے دو سیشنز کتاب کی رونمائی کے تھے۔ پہلے سیشن کی کتاب کا نام تھا
DEVELOPMENT PATHWAY:INDIA-
PAKISTAN-BANGLADESH '' جو اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین کی تحریر کردہ ہے۔ کتاب پر سابق ممبر قومی اسمبلی مفتاح اسماعیل، عشرت حسین اور سلیم مانڈوی والا نے گفت گو کی۔ میزبان اسماء حیدر تھیں۔ دوسرا سیشن جس کتاب کا تھا اس کا نام '' SUFFOCATION'' ہے۔ پھر ''افتخار عارف، یادیں اور باتیں'' کے عنوان سے سیشن ہوا۔ اس کے بعد اسی ہال میں '' Imran khan Myth of the Pakistani Middle-Class'' کی رونمائی اور کتاب پر گفت گو ہوئی۔ اگلا سیشن شہزاد رائے سے فلم ایوارڈ سے متعلق ایک تقریب کے بارے میں گفت گو کا تھا۔
اگلے سیشن میں ''TO PRINT OR NOT TO PRINT : BLENDED DIGITAL FACE OF'' پر بات ہوئی۔ میزبان فیصل باری تھے۔ اس کے بعد افتخار عارف کی صدارت اور ناصرہ زبیری کی نظامت میں مشاعرہ ہوا۔ کشور ناہید، انور شعور، عقیل عباس جعفری، افضال احمد سیّد، تنویرانجم، حارث خلیق، فاضل جمیلی، احمد عطائ، وحید نور، سلمان ثروت، عنبرین حسیب عنبر اور ثروت زہرا نے کلام پیش کیا اور داد پائی۔
ایکوریئس ہال میں دوسرے دن کا پہلا سیشن ''نثری نظم کا ارتقائ'' تھا جس میں عہدِحاضر کے نثری نظم کے اہم نام عذرا عباس اور افضال احمد سید کے علاوہ دونوں کے شریکِ حیات جو کہ خود بھی ادب کے نمایاں نام ہیں، افضال احمد سید اور تنویر انجم بھی گفت گو کا حصہ بنے۔ نظامت سید کاشف رضا کی تھی۔ اگلا سیشن "Sustainability and the Evolving New World Order"'' سے متعلق بات کرنے کا تھا۔ میزبان علی عثمان قاسمی اور شرکاء گفتگو حسنین کاظم اور نعمان نقوی تھے۔ اگلے سیشن میں کتاب ''خوشبو کی دیوار کے پیچھے'' پر مبین مرزا کی مصنف حمید شاہد سے گفتگو تھی۔ اگلے چند سیشنز بھی گفت گو اور کتابوں پر تبصروں سے متعلق تھے۔
ان میں ایک اہم گفتگو '', Arab Identity in Contemporary Times'' تھی جس میں جوزف میسڈ سے سید اکبر زیدی نے بات کی۔ پروفیسر جوزف مصاد اردن سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار ہیں جن کا موضوع عرب دنیا اور مشرقِ وُسطیٰ کے امور ہیں۔ خاصی بھرپور گفتگو تھی۔
ان سیشنز کے علاوہ اُس دن ایکوریئس ہال میں ''VLOGVOLUTION: CONTENT BEYOND LIKES"، "THE LAST WHITE MAN"
'' LAUREATE NATIONAL YOUTH POET''، اور ''HISTORICAL FICTION: CAPTURING THE ATMOSPHERE'' شامل تھے، جب کہ روم نمبر 007 میں ہونے والے آٹھ سیشنز میں پہلا سیشن ''پشتو ادب کا حالیہ منظر نامہ'' تھا۔ میزبان طاہر مندوخیل اور شرکائے گفت گو قیصر خان آفریدی، ماخم خٹک اور زہرا شاہ تھے۔ اگلے دو سیشنز کتابوں کی رونمائی کے تھے۔ اصغر ندیم سیّد کے ناول ''جہان آباد کی گلیاں'' پر ناصر عباس نیّر نے مصنف سے گفت گو کی۔ دوسرے سیشن میں بھی ناول کے بارے میں بات کی گئی۔
یہ رفاقت حیات کا ناول ''رولاک'' تھا، جس پر سیّد کاشف رضا نے رفاقت حیات سے بات کی۔ دیگر سیشنز میں ''A LIFE LIVED WITH PASSION'' مصنف عرفان حسین، ''LIFETIME OF DISSENT: A MEMOIR BY I. A. REHMAN'' کی رونمائی تھی۔ گفتگو کے اور سیشنز میں نگارعالم کے ناول ''BUILDING FUTURE''، ''بلڈنگ فیوچر اسکلز دا کو ایگزسٹنس آف لوکل اینڈ انٹرنیشنل ایگزامینیشن بورڈز''، ''چند بہترین کہانی کاروں کی یاد میں'' منعقدہ سیشن شامل تھے۔ ٹیولپ ہال میں ''بیت بازی''، ''کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر''، ''پیشن اور پروفیشن''، ''تھیٹریکل سیشن ڈرامیٹک ریڈنگز'' منعقد ہوئے۔ آخری سیشنز رات نو بجے تھے۔
تیسرے اور آخری دن کے سیشنز بھی بہت اہم تھے۔ لان میں ہونے والے سیشنز ''IN PERSUIT OF AN ETHICAL STATE''، ''URBAN DIALOGUES: DECODING KARACHI'S DYNAMICS''، ''AWAZ: ECHOES OF FREEDOM & JUSTICE'' کی رونمائی''، مزاح پر مبنی پروگرام ''ہنسنا منع ہے''، ''FILM THE POWER OF STORYTELLING''، ''HUMAN RIGHTS AND WRONG''، ''FRAMING REALITY AS COMEDY'' سوا سات بجے اختتامی تقریب ہوئے اور یہ میلہ اپنی خوش گوار یادیں ذہنوں میں ثبت کرکے ختم ہوا۔
ایکوریئس میں ''THE HISTORY OF THE BALOCH AND BALOCHISTAN'' نامی کِتاب کی رونمائی تھی۔ اس میں بلوچستان کے ادب، تاریخ، تہذیب و ثقافت کے بارے میں بحث تھی۔ اِس سیشن میں گذشتہ دنوں سب کی توجہ کا مرکز بننے والی ماہ رنگ بلوچ کی ساتھی سمّی بلوچ بھی شریکِ گفت گو تھیں یہ خواتین بلوچستان کے مسائل اور عوام کے حقوق کے لیے جوجہد کررہی ہیں اور اس حوالے سے نہ صِرف خاصی سرگرم ہیں بلکہ میڈیا میں بھی شہرت رکھتی ہیں۔ دیگر شرکاء کی طرح انھوں نے بھی بلوچستان کی روایات اور زمینی حقائق پر بہت اچّھی اور پرمغز گفتگو کی۔
ممکن ہے کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہ سیاسی ایکٹیوسٹ کا کسی کتاب کی تقریبِ رونمائی میں کیا کام؟ لیکن بات یہ ہے کہ کسی بھی زبان کے ادب کو اس کی ثقافت اور روایات کے پس منظر سے واقفیت اور خاص کر وہاں کے مختلف طبقہ ہائے فِکر کے لوگوں کی سوچ سے واقفیت کے ساتھ پڑھا جائے تو موضوع کے ہر زاویے سے اچّھی طرح آگاہی ہوتی ہے اور ہر نکتہ واضح ہوتا ہے۔ بقیہ سیشنز میں ''JERUSALEM: A JOURNEY BACK IN TIME A PRESENTATION''، ''علی روہیلہ کی کتاب ''THE WHISPERING CHINAR'' کی رونمائی، کتاب '' QAUM MULK SULTANAT: CITIZENSHIP AND NATIONAL BELONGING IN PAKISTAN'' کی رونمائی''، ''الیکشن 2024 ایک نیا زاویہ''، ''TRANSLATION OF SINDHI CLASSICS: FROM SHAH ABDUL''، ثمینہ نذیر کا تحریر کردہ ڈرامہ ''لیڈیز ٹیلر'' شامل تھے، جب کہ روم نمبر 007 میں ہونے والے سیشنز میں ''پاکستان تعلیم اور اکیسویں صدی''، ''BEYOND THE SEAS: READINGS BY MICHEAL CIRELLI AND AYESHA BAQIR''، ''حیاء فاطمہ سہگل کی کتاب ''EARTH AND GLIMMER'' کی رونمائی''، ''اشرف شاد کی کتاب ''انڈر گراؤنڈ'' کی رونمائی''، ''بینا شاہ کے ناول ''THE MONSON WAR'' کی رونما?ی''، ''HIGHER EDUCATION: NURTURING TOMORROW'S INNOVATORS''، ''CEASEFIRE FOREVER''، ''عامر جعفری کی کتاب ''A WORLD OF HER OWN: ADA JAFAREY''کی رونمائی اور گفتگو اور ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کی کتاب ''AMONG MY OWN: THE UNTOLD STORIES OF MY PEOPLE'' کی رونمائی۔ ٹیولپ میں مختلف موضوعات پر گفتگو کے پروگرام ہوئے۔
اس میلے کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ نوجوانوں کے لیے خاص طور پر ایک سیشن رکھا گیا تھا جس میں ان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے اسٹیج مہیا کیا گیا تھا کہ وہ کُھل کر اپنی صلاحیتوں کو سامنے لائیں۔ اس فورم پر طلبہ کے لیے بیت بازی، گانا گانے کے مواقع فراہم کِیے گئے۔ یہ بہت اچّھی بات ہے کہ اس طرح نوجوان نہ صرف اپنے سیشن بلکہ گفت گو کے دیگر سیشنز میں بھی جاتے ہیں اور علم و ادب سے ان کی وابستگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسے ہر ادبی میلے اور تقریب میں لوگوں کی بڑی تعداد نظر آتی ہے جن میں نوجوانوں کی اکثریت ہوتی ہے جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے یہاں کے لوگوں خاص کر نئی نسل میں ادب سے وابستگی کِتنی زیادہ ہے۔ ایسی محفلیں معاشرے میں ثقافت، رواداری، تحمل و برداشت اور علم و ادب کے فروغ کے لیے بے حد ضروری ہیں اور ان کا انعقاد متواتر ہوتے رہنا چاہیے۔