کرکٹرز کو عزت دیں
کرکٹ کو بہتر کرنے کیلیے جان لڑا دیں، البتہ قدم زمین پر رکھیں
''محسن نقوی آج کرکٹرز سے ملاقات کریں گے'' چند روز قبل جب یہ پیغام ملا تو کھلاڑی خوش ہو گئے کہ چلیں چیئرمین کو ہماری یاد تو آئی، اب ہم بھی اپنے دل کی باتیں ان کے ساتھ کریں گے، البتہ میٹنگ کے بعد بیشتر کو مایوسی کا سامنا ہی کرنا پڑا، بہت سے پلیئرز کو مدعو کیا گیا تھا،چیئرمین نے ان سے خطاب کیا اور ڈھکے چھپے الفاظ میں کافی سخت باتیں بھی کہہ دیں۔
اس حد تک تو ٹھیک تھا کیونکہ بطور چیئرمین کرکٹرز کو سمجھانا ان کا استحقاق ہے، البتہ بعد میں اس ملاقات کے میڈیا کو ٹکرز جاری کر دیے گئے، کچھ دیر بعد ویڈیو بھی آ گئی جسے دیکھ کر جس نے جو مناسب سمجھا اسی اینگل سے اسٹوری بنائی، محسن نقوی اپنے ساتھ پی آر او بھی لائے ہیں جو ان کی ''مصروفیات'' کی تفصیلات جاری کرتے رہتے ہیں، شاید بورڈ والے بھی انھیں بتاتے ہوئے ڈر رہے ہیں کہ سر یہ پنجاب حکومت نہیں کرکٹ بورڈ ہے یہاں ایسا نہیں ہوتا، قومی ٹیم کے بعض کھلاڑیوں کو ایسا لگا کہ محسن نقوی نے کئی باتوں میں ان ڈائریکٹ انھیں نشانہ بنایا ہے'' ساری ٹیم باہر کر دوں گا۔
یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا''ایسی باتیں ویسے ہی کسی چیئرمین کو زیب نہیں دیتیں، اگر انھیں کسی پر شک ہے کہ وہ سیاست کر رہا ہے تو اسے اکیلے میں بلا کر سمجھا دیتے، ایک ساتھ سب کوسخت باتیں سنانا درست نہ تھا، پھر انھوں نے بعض ایسی باتیں بھی کیں جو سمجھ سے بالاتر تھیں جیسے ''ہمارے پلیئرز کی فٹنس اچھی نہیں اس لیے پی ایس ایل میں کراؤڈ کی جانب جو چھکا جاتا وہ سمجھ جاتے کہ کسی غیرملکی نے لگایا ہے'' ویسے اعظم خان کی فٹنس پر سوال اٹھتے ہیں لیکن ان کے اکثر چھکوں پر گیند باہر جاتی ہے، فٹنس بہت ضروری ہے لیکن چھکے لگانے میں اسکلز کا بھی اہم کردار ہوتا ہے، کھلاڑیوں کو اصل مسئلہ کاکول میں ٹریننگ کیمپ لگانے سے ہے۔
رمضان المبارک میں سخت ٹریننگ ان کیلیے آزمائش بن سکتی ہے، یقینی طور پر گذشتہ کچھ برسوں میں فٹنس کلچر کو نظرانداز کیا گیا، محمد حفیظ نے بھی اس کی نشاندہی کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ یکدم منفرد فیصلے کرنے لگیں، کھلاڑیوں کو تھوڑا وقت دیں کہ اتنے عرصے بعد فٹنس ٹیسٹ لیا جائے گا خود کو بہتر کر لیں، پھر جو نہ کر سکے اس کیخلاف ایکشن لیں۔
کرکٹرز کی زبان میں مشکل تربیتی کیمپس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''رگڑا لگانے'' کیلیے ایسا ہو رہا ہے، اب بھی بیشتر کا یہی خیال ہے، یہ کرکٹرز بچے نہیں ہیں، سب نے اپنی فیلڈ میں کارنامے سرانجام دیے ہیں، ان کے ساتھ اسکول بوائز جیسا سلوک نہ کریں بلکہ یکساں عزت دیں،بابر اعظم وہیں کا وہیں ہے لیکن پی سی بی میں 4،5 چیئرمین تبدیل ہو چکے ہیں، اصل عزت کرکٹرز کی ہی ہوتی ہے، دنیا میں انہی کو جانا جاتا ہے۔
آپ سینئرز کو ملاقات کیلیے بلوائیں تجاویز لیں پھر ان پر عمل کریں، محسن نقوی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب تک دو کشتیوں کے سوار ہیں، سیاسی مصروفیات بھی جاری ہیں، انھیں وزارت کا بھی شوق ہے لیکن کرکٹ بورڈ کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتے،اس سے مسائل کا سلسلہ جاری رہے گا، اگر وہ خود کو کسی ایک کام کیلیے مختص کر لیں تو زیادہ مناسب ہے، ابھی ان کے پاس کرکٹ کے لیے اتنا وقت نہیں ہے، اسلام آباد تو کبھی لاہور میں ہوتے ہیں۔
پی سی بی فل ٹائم کام ہے،انھیں بھی ایسا کرنا پڑے گا، قومی ٹیم کی نیوزی لینڈ سے سیریز قریب ہے اور ابھی کوچنگ اسٹاف کا ہی نہیں پتا، محمد حفیظ کو کوچنگ کورسز نہ کرنے کے طعنے دیے جا رہے تھے لیکن اب شین واٹسن سے بھی رابطہ کیا جا چکا، مجھے نہیں پتا کہ انھوں نے کتنے لیول پاس کیے ہیں، ڈیرن سیمی اور مائیک ہیسن سے بھی بات کی گئی کیونکہ یہ سب پی ایس ایل میں خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن پاکستان میں کوچز کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اسے دیکھتے ہوئے مشکل ہی لگتا ہے کہ کوئی بڑا نام ذمہ داری قبول کر لے۔
نئے چیئرمین کیلیے یہ بڑا ٹاسک ہے، وہ اب آئی سی سی کی میٹنگ میں شرکت کیلیے دبئی جانے والے ہیں، وہاں بھارتی بورڈ حکام سے بھی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کی بات کریں گے،البتہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ نریندر مودی کے دور میں بھارتی ٹیم کے پاکستان آنے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے۔
اگلے الیکشن میں بھی مودی کی ہی فتح کے چانسز زیادہ ہیں لہذا اگلے سال تک صورتحال میں کسی ڈرامائی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں لگتا، اب پی سی بی کو یہ بات ذہن میں رکھ کر اگلی پلاننگ کرنا چاہییے ورنہ وقت ہی ضائع ہوتا رہے گا، محسن نقوی نے اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا ہے، ان پر یقینی طور پر اربوں روپے کی لاگت آئے گی لیکن اس سے پہلے شائقین کو سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی 25 فیصد بھی نہیں بھر پاتا، آپ اس کی گنجائش بڑھا بھی دیں تو فائدہ کیا ہوگا،اس حوالے سے اسٹیک ہولڈرز کو میٹنگ کیلیے بلا کر معلوم کریں پھر ایک پلاننگ کے تحت کام کریں، پی سی بی کے پاس یقینی طور پر بہت پیسہ ہے لیکن قارعون کا خزانہ موجود نہیں،دیکھ بھال کر اخراجات ضروری ہیں،سنا ہے محسن نقوی آپریشن کلین اپ کی بھی تیاری کر رہے ہیں۔
یہ جان کر پی سی بی ملازمین میں خوف کی فضا پائی جا رہی ہے،چیئرمین کو چاہیے کہ واضح کریں صرف وہ لوگ جو کام نہیں کرتے انہی کو فارغ کیا جائے گا باقی سب فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
اس سے ماحول میں بہتری آئے گی، پنجاب حکومت سے وہ کئی افسران کو ساتھ لائے ہیں، ہر آدمی اپنے بھروسے کے لوگوں کو ساتھ لاتا ہے لیکن انھیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کرکٹ بالکل الگ فیلڈ ہے، اس میں مختلف انداز میں کام ہوتا ہے، اپنی ٹیم ضرور بنائیں لیکن تجربہ کار بورڈ ملازمین کو بھی ساتھ رکھیں ،اسی صورت توازن برقرار رہے گا۔
محسن نقوی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ''سب'' کے فیورٹ ہیں، انھیں بھرپور اعتماد بھی حاصل ہے لہذا کرکٹ کو بہتر کرنے کیلیے جان لڑا دیں، البتہ قدم زمین پر رکھیں ، ان کا مسئلہ نہیں ہے جھنڈے والی گاڑی اور پروٹوکول اچھے اچھوں کو اونچی ہواؤں میں اڑانے لگتا ہے، خیر نئے چیئرمین سے امید ہے کہ وہ ملکی کرکٹ کو دوبارہ سے ٹریک پر واپس لے آئیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
اس حد تک تو ٹھیک تھا کیونکہ بطور چیئرمین کرکٹرز کو سمجھانا ان کا استحقاق ہے، البتہ بعد میں اس ملاقات کے میڈیا کو ٹکرز جاری کر دیے گئے، کچھ دیر بعد ویڈیو بھی آ گئی جسے دیکھ کر جس نے جو مناسب سمجھا اسی اینگل سے اسٹوری بنائی، محسن نقوی اپنے ساتھ پی آر او بھی لائے ہیں جو ان کی ''مصروفیات'' کی تفصیلات جاری کرتے رہتے ہیں، شاید بورڈ والے بھی انھیں بتاتے ہوئے ڈر رہے ہیں کہ سر یہ پنجاب حکومت نہیں کرکٹ بورڈ ہے یہاں ایسا نہیں ہوتا، قومی ٹیم کے بعض کھلاڑیوں کو ایسا لگا کہ محسن نقوی نے کئی باتوں میں ان ڈائریکٹ انھیں نشانہ بنایا ہے'' ساری ٹیم باہر کر دوں گا۔
یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا''ایسی باتیں ویسے ہی کسی چیئرمین کو زیب نہیں دیتیں، اگر انھیں کسی پر شک ہے کہ وہ سیاست کر رہا ہے تو اسے اکیلے میں بلا کر سمجھا دیتے، ایک ساتھ سب کوسخت باتیں سنانا درست نہ تھا، پھر انھوں نے بعض ایسی باتیں بھی کیں جو سمجھ سے بالاتر تھیں جیسے ''ہمارے پلیئرز کی فٹنس اچھی نہیں اس لیے پی ایس ایل میں کراؤڈ کی جانب جو چھکا جاتا وہ سمجھ جاتے کہ کسی غیرملکی نے لگایا ہے'' ویسے اعظم خان کی فٹنس پر سوال اٹھتے ہیں لیکن ان کے اکثر چھکوں پر گیند باہر جاتی ہے، فٹنس بہت ضروری ہے لیکن چھکے لگانے میں اسکلز کا بھی اہم کردار ہوتا ہے، کھلاڑیوں کو اصل مسئلہ کاکول میں ٹریننگ کیمپ لگانے سے ہے۔
رمضان المبارک میں سخت ٹریننگ ان کیلیے آزمائش بن سکتی ہے، یقینی طور پر گذشتہ کچھ برسوں میں فٹنس کلچر کو نظرانداز کیا گیا، محمد حفیظ نے بھی اس کی نشاندہی کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ یکدم منفرد فیصلے کرنے لگیں، کھلاڑیوں کو تھوڑا وقت دیں کہ اتنے عرصے بعد فٹنس ٹیسٹ لیا جائے گا خود کو بہتر کر لیں، پھر جو نہ کر سکے اس کیخلاف ایکشن لیں۔
کرکٹرز کی زبان میں مشکل تربیتی کیمپس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''رگڑا لگانے'' کیلیے ایسا ہو رہا ہے، اب بھی بیشتر کا یہی خیال ہے، یہ کرکٹرز بچے نہیں ہیں، سب نے اپنی فیلڈ میں کارنامے سرانجام دیے ہیں، ان کے ساتھ اسکول بوائز جیسا سلوک نہ کریں بلکہ یکساں عزت دیں،بابر اعظم وہیں کا وہیں ہے لیکن پی سی بی میں 4،5 چیئرمین تبدیل ہو چکے ہیں، اصل عزت کرکٹرز کی ہی ہوتی ہے، دنیا میں انہی کو جانا جاتا ہے۔
آپ سینئرز کو ملاقات کیلیے بلوائیں تجاویز لیں پھر ان پر عمل کریں، محسن نقوی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب تک دو کشتیوں کے سوار ہیں، سیاسی مصروفیات بھی جاری ہیں، انھیں وزارت کا بھی شوق ہے لیکن کرکٹ بورڈ کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتے،اس سے مسائل کا سلسلہ جاری رہے گا، اگر وہ خود کو کسی ایک کام کیلیے مختص کر لیں تو زیادہ مناسب ہے، ابھی ان کے پاس کرکٹ کے لیے اتنا وقت نہیں ہے، اسلام آباد تو کبھی لاہور میں ہوتے ہیں۔
پی سی بی فل ٹائم کام ہے،انھیں بھی ایسا کرنا پڑے گا، قومی ٹیم کی نیوزی لینڈ سے سیریز قریب ہے اور ابھی کوچنگ اسٹاف کا ہی نہیں پتا، محمد حفیظ کو کوچنگ کورسز نہ کرنے کے طعنے دیے جا رہے تھے لیکن اب شین واٹسن سے بھی رابطہ کیا جا چکا، مجھے نہیں پتا کہ انھوں نے کتنے لیول پاس کیے ہیں، ڈیرن سیمی اور مائیک ہیسن سے بھی بات کی گئی کیونکہ یہ سب پی ایس ایل میں خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن پاکستان میں کوچز کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے اسے دیکھتے ہوئے مشکل ہی لگتا ہے کہ کوئی بڑا نام ذمہ داری قبول کر لے۔
نئے چیئرمین کیلیے یہ بڑا ٹاسک ہے، وہ اب آئی سی سی کی میٹنگ میں شرکت کیلیے دبئی جانے والے ہیں، وہاں بھارتی بورڈ حکام سے بھی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کی بات کریں گے،البتہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ نریندر مودی کے دور میں بھارتی ٹیم کے پاکستان آنے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے۔
اگلے الیکشن میں بھی مودی کی ہی فتح کے چانسز زیادہ ہیں لہذا اگلے سال تک صورتحال میں کسی ڈرامائی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں لگتا، اب پی سی بی کو یہ بات ذہن میں رکھ کر اگلی پلاننگ کرنا چاہییے ورنہ وقت ہی ضائع ہوتا رہے گا، محسن نقوی نے اسٹیڈیمز کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا ہے، ان پر یقینی طور پر اربوں روپے کی لاگت آئے گی لیکن اس سے پہلے شائقین کو سہولتیں فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
نیشنل اسٹیڈیم کراچی 25 فیصد بھی نہیں بھر پاتا، آپ اس کی گنجائش بڑھا بھی دیں تو فائدہ کیا ہوگا،اس حوالے سے اسٹیک ہولڈرز کو میٹنگ کیلیے بلا کر معلوم کریں پھر ایک پلاننگ کے تحت کام کریں، پی سی بی کے پاس یقینی طور پر بہت پیسہ ہے لیکن قارعون کا خزانہ موجود نہیں،دیکھ بھال کر اخراجات ضروری ہیں،سنا ہے محسن نقوی آپریشن کلین اپ کی بھی تیاری کر رہے ہیں۔
یہ جان کر پی سی بی ملازمین میں خوف کی فضا پائی جا رہی ہے،چیئرمین کو چاہیے کہ واضح کریں صرف وہ لوگ جو کام نہیں کرتے انہی کو فارغ کیا جائے گا باقی سب فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
اس سے ماحول میں بہتری آئے گی، پنجاب حکومت سے وہ کئی افسران کو ساتھ لائے ہیں، ہر آدمی اپنے بھروسے کے لوگوں کو ساتھ لاتا ہے لیکن انھیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کرکٹ بالکل الگ فیلڈ ہے، اس میں مختلف انداز میں کام ہوتا ہے، اپنی ٹیم ضرور بنائیں لیکن تجربہ کار بورڈ ملازمین کو بھی ساتھ رکھیں ،اسی صورت توازن برقرار رہے گا۔
محسن نقوی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ ''سب'' کے فیورٹ ہیں، انھیں بھرپور اعتماد بھی حاصل ہے لہذا کرکٹ کو بہتر کرنے کیلیے جان لڑا دیں، البتہ قدم زمین پر رکھیں ، ان کا مسئلہ نہیں ہے جھنڈے والی گاڑی اور پروٹوکول اچھے اچھوں کو اونچی ہواؤں میں اڑانے لگتا ہے، خیر نئے چیئرمین سے امید ہے کہ وہ ملکی کرکٹ کو دوبارہ سے ٹریک پر واپس لے آئیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)