اداروں میں رابطوں میں فقدان امدادی ادارے شہریوں کی جان بچانے میں ناکام
کولڈ اسٹوریج میں8افراد کی ہلاکت نے سرکاری اداروں کے رابطوں کی قلعی کھول دی
سانحہ ایئرپورٹ کے دوران کولڈ اسٹوریج میں پھنسے افراد کی ہلاکت نے سرکاری اداروں کے درمیان تعاون اور رابطوں کے فقدان کی قلعی کھول دی۔
امدادی کارروائی (ریسکیو آپریشن) کے دوران کوئی مشترکہ لائحہ عمل نظر نہیں آیا اور کولڈ اسٹوریج میں8 افراد اداروں کی بدترین نااہلی اور مجرمانہ غفلت کی بھینٹ چڑھ گئے، امدادی ادارے سانحات سے نمٹنے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں، تفصیلات کے مطابق اتوار کی شب دہشت گردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا، دہشت گردوں کی بندوقیں تو5 گھنٹے آپریشن کے دوران خاموش کردی گئیں لیکن سانحے کے بطن سے ایک اور سانحے نے جنم لیا، دہشت گردوں کے حملے سے بچنے کی خاطر کولڈ اسٹوریج میں چھپنے والے افراد موت کی وادی میں جاپہنچے۔
حملے کے بعد ایئرپورٹ پر شروع ہونے والے ریسکیو آپریشن نے سرکاری اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان کی قلعی کھول دی، آپریشن کے دوران کوئی ادارہ کسی بھی قسم کی ذمے داری لینے کو تیار نہ ہوا اور ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالی جاتی رہی ایسی ناگہانی صورتحال میں ترقی یافتہ ممالک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے تحت امدادی سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ شہری اپنی مدد آپ کے تحت ہی امدادی کارروائی (ریسکیو آپریشن) شروع کردیتے ہیں۔
ریاستی اداروں کی جائے وقوع پر تاخیر سے پہنچنے کی روایت برقرار رہی، سانحہ ایئرپورٹ سے نمٹنے کیلیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظر نہیں آئی، شہر میں کئی امدادی ادارے موجود ہیں لیکن سانحہ ایئرپورٹ میں کوئی فعال نظر نہیں آیا، سول ایوی ایشن اتھارٹی، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ، سائٹ لمیٹڈ، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم کے امدادی ادارے ایئرپورٹ پر پھنسے ہوئے شہریوں کی داد رسی میں ناکام رہے، ایسے ہنگامی حالات میں ادارے حدود کا خیال نہیں رکھتے بلکہ انسانی جانیں بچانے کیلیے فوری اقدامات کرتے ہیں۔
دہشت گردوں کے حملے کے دوران ایئرپورٹ پر موجود افراد نے قریبی عمارتوں میں پناہ لی اور اسی دوران کولڈ اسٹوریج میں بھی 8 افراد نے پناہ لی تھی بدقسمت افراد کو معلوم نہ تھا کہ ان کی پناہ گاہ ہی ان کے لیے مقتل بن جائے گی، وہاں پھنسے ہوئے افراد موبائل فون کے ذریعے اپنے اہل خانہ سے رابطے کرکے انھیں آگاہ کرتے رہے لیکن کوئی ادارہ ان کی مدد کو نہ پہنچا،کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے افراد کے اہل خانہ کے احتجاج کے بعد پیر کی شب حکام خواب غفلت سے جاگے اور بھاری مشینری کے ذریعے آپریشن کا آغاز کیا لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی۔
آپریشن کے اختتام پر کولڈ اسٹوریج سے8 افراد تو ضرور ملے لیکن تب تک ان کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی اور ان کی لاشیں اٹھائی گئیں اگر یہی آپریشن پیر کی رات کے بجائے اتوار اور پیر کی درمیانی شب دہشت گردوں کے خاتمے کے فوری بعد شروع کردیا جاتا تو ممکنہ طور پر تمام افراد زندہ اپنے گھروں کو واپس پہنچ جاتے لیکن اس دوران تمام ادارے ایک دوسرے پر ہی ریسکیو آپریشن کے ذمے داری عائد کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے رہے، کولڈ اسٹوریج میں جاں بحق ہونے والے افراد اداروں کی نااہلی ، غفلت اور ان کے درمیان مشترکہ حکمت عملی کے فقدان کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن کوئی بھی ان کی داد رسی کو نہ آیا جو یہ ظاہر کرتا ہے امدادی ادارے کسی بھی سانحے یا حادثے سے نمٹنے کی صلاحیتیں نہیں رکھتے۔
امدادی کارروائی (ریسکیو آپریشن) کے دوران کوئی مشترکہ لائحہ عمل نظر نہیں آیا اور کولڈ اسٹوریج میں8 افراد اداروں کی بدترین نااہلی اور مجرمانہ غفلت کی بھینٹ چڑھ گئے، امدادی ادارے سانحات سے نمٹنے کی صلاحیتوں سے عاری ہیں، تفصیلات کے مطابق اتوار کی شب دہشت گردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا، دہشت گردوں کی بندوقیں تو5 گھنٹے آپریشن کے دوران خاموش کردی گئیں لیکن سانحے کے بطن سے ایک اور سانحے نے جنم لیا، دہشت گردوں کے حملے سے بچنے کی خاطر کولڈ اسٹوریج میں چھپنے والے افراد موت کی وادی میں جاپہنچے۔
حملے کے بعد ایئرپورٹ پر شروع ہونے والے ریسکیو آپریشن نے سرکاری اداروں کے درمیان رابطوں کے فقدان کی قلعی کھول دی، آپریشن کے دوران کوئی ادارہ کسی بھی قسم کی ذمے داری لینے کو تیار نہ ہوا اور ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالی جاتی رہی ایسی ناگہانی صورتحال میں ترقی یافتہ ممالک میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے تحت امدادی سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ شہری اپنی مدد آپ کے تحت ہی امدادی کارروائی (ریسکیو آپریشن) شروع کردیتے ہیں۔
ریاستی اداروں کی جائے وقوع پر تاخیر سے پہنچنے کی روایت برقرار رہی، سانحہ ایئرپورٹ سے نمٹنے کیلیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ نظر نہیں آئی، شہر میں کئی امدادی ادارے موجود ہیں لیکن سانحہ ایئرپورٹ میں کوئی فعال نظر نہیں آیا، سول ایوی ایشن اتھارٹی، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن ، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ، سائٹ لمیٹڈ، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم کے امدادی ادارے ایئرپورٹ پر پھنسے ہوئے شہریوں کی داد رسی میں ناکام رہے، ایسے ہنگامی حالات میں ادارے حدود کا خیال نہیں رکھتے بلکہ انسانی جانیں بچانے کیلیے فوری اقدامات کرتے ہیں۔
دہشت گردوں کے حملے کے دوران ایئرپورٹ پر موجود افراد نے قریبی عمارتوں میں پناہ لی اور اسی دوران کولڈ اسٹوریج میں بھی 8 افراد نے پناہ لی تھی بدقسمت افراد کو معلوم نہ تھا کہ ان کی پناہ گاہ ہی ان کے لیے مقتل بن جائے گی، وہاں پھنسے ہوئے افراد موبائل فون کے ذریعے اپنے اہل خانہ سے رابطے کرکے انھیں آگاہ کرتے رہے لیکن کوئی ادارہ ان کی مدد کو نہ پہنچا،کولڈ اسٹوریج میں پھنسے ہوئے افراد کے اہل خانہ کے احتجاج کے بعد پیر کی شب حکام خواب غفلت سے جاگے اور بھاری مشینری کے ذریعے آپریشن کا آغاز کیا لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی۔
آپریشن کے اختتام پر کولڈ اسٹوریج سے8 افراد تو ضرور ملے لیکن تب تک ان کی سانسوں کی ڈور ٹوٹ چکی تھی اور ان کی لاشیں اٹھائی گئیں اگر یہی آپریشن پیر کی رات کے بجائے اتوار اور پیر کی درمیانی شب دہشت گردوں کے خاتمے کے فوری بعد شروع کردیا جاتا تو ممکنہ طور پر تمام افراد زندہ اپنے گھروں کو واپس پہنچ جاتے لیکن اس دوران تمام ادارے ایک دوسرے پر ہی ریسکیو آپریشن کے ذمے داری عائد کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے رہے، کولڈ اسٹوریج میں جاں بحق ہونے والے افراد اداروں کی نااہلی ، غفلت اور ان کے درمیان مشترکہ حکمت عملی کے فقدان کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن کوئی بھی ان کی داد رسی کو نہ آیا جو یہ ظاہر کرتا ہے امدادی ادارے کسی بھی سانحے یا حادثے سے نمٹنے کی صلاحیتیں نہیں رکھتے۔