رمضان ریلیف پیکیج اور مہنگائی

منڈیوں میں مڈل مین جسے عام زبان میں ’’پھڑیا‘‘ کہتے ہیں اس کے کردار کو ختم کرنا لازم ہے

منڈیوں میں مڈل مین جسے عام زبان میں ’’پھڑیا‘‘ کہتے ہیں اس کے کردار کو ختم کرنا لازم ہے (فوٹو : فائل)

وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے رمضان ریلیف پیکیج کی رقم میں 5ارب کا اضافہ کر دیا ہے، یوں رمضان پیکیج کا حجم ساڑھے 7ا رب روپے سے بڑھا کر ساڑھے 12ارب روپے کردیا گیا ہے ۔

وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیر اعظم نے رمضان ریلیف پیکیج کا حجم بڑھانے کے ساتھ اس کا دائرہ کار بھی مزید وسیع کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔یوٹیلیٹی اسٹورز اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ ساتھ موبائل یونٹس بھی سستے داموں کھانے پینے کی اشیافراہم کریں گے۔

وزیر اعظم نے ہدایت کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ غریب، نادار اور مستحق افراد تک رمضان ریلیف پیکیج پہنچایاجائے،ابتدائی طورپر 1200موبائل پوائنٹس اور 300 مستقل پیکیج ریلیف مراکز قائم کیے جائیں گے۔یکم رمضان سے اختتام رمضان تک ریلیف پیکیج کے تحت بازار سے کم قیمت پر اشیاء خورونوش فراہم کی جائیں گی۔

مقررہ مقامات کے علاوہ ٹرک مختلف علاقوں میں عوام کو سستی اشیائے خورونوش پہنچائیں گے۔مقام کا تعین جی پی ایس کی مددسے کیا جائے گا۔موبائل ایپ کے استعمال کی راہنمائی کے لیے خصوصی وڈیو بھی جاری کی جائے گی،ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے چلنے والا ڈیش بورڈ تیار کیا جارہا ہے تاکہ موبائل آٹے کی فروخت کی نگرانی ہوسکے۔موبائل یونٹس کے ایک سے دوسرے مقام تک منتقلی کے دوران آٹے کی فراہمی کا عمل جاری رہے گا۔موبائل اور لائیو فوٹیج سے آٹے کی تقسیم کی مسلسل نگرانی کی جائے گی۔

وزیراعظم نے7 مارچ 2024 کوساڑھے سات ارب روپے کی سبسڈی سے رمضان ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا، اس پیکیج کے تحت3کروڑ 96 لاکھ خاندانوں کو رمضان المبار ک کے دوران سستے داموں کھانے پینے کی اشیا فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اب یہ پیکیج ساڑھے بارہ ارب روپے کا ہوگیا ہے ۔

یقیناً یہ ایک اچھا قدم ہے اور اس سے عام شہریوں کو قدرے ریلیف ملے گا۔سامان کی تقسیم کو شفاف بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا فیصلہ بھی اچھے نتائج دے گا۔ شہریوں کو بھی احساس ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظم وضبط کے ساتھ راشن وغیرہ لینا چاہیے۔

دیکھنے میں آیا کہ کئی لوگ ایک سے زیادہ بار راشن کے بیگ لے جاتے ہیں، پروفیشنل بھکاری بھی حرکت میں آجاتے ہیں،یوں کئی حقدار اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔رمضان ریلیف پیکیج کے تحت بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت آٹا، چاول، دال، گھی، چینی، شربت اور دودھ مارکیٹ سے کم قیمت پر فراہم کیاجائے گا، مستحق افراد کو بازار سے 30 فیصد کم قیمت پر اشیائے خورونوش فراہم کی جائیں گی۔آٹے پر فی کلو 77روپے اورگھی پر 100روپے فی کلو سبسڈی دی جائے گی۔

پنجاب' سندھ'کے پی اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی رمضان میں شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ہر برس وفاقی اور صوبائی حکومتیں رمضان المبارک میں شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کرتی ہیں 'اصل مسئلہ مستحقین تک ریلیف کو پہنچانا ہے۔

پاکستان میں کچھ برسوں سے مفت خوری کا کلچر پروان چڑھا ہے' کھاتے پیتے گھرانے بھی مفت کا مال ہاتھ آئے تو اسے چھوڑتے نہیں ہیں' یوں حق دار منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں' وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے کارپردازوں کو اس کلچر کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ کلچر اس لیے پروان چڑھا ہے کہ سرکاری عہدے داروں کو بے جا قسم کی مراعات ملتی ہیں۔ افسروں کے یکطرفہ اختیارات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں ' سرکاری افسر اور ملازم بغیر کام کے تنخواہ اور مراعات لینے کے عادی ہو چکے ہیں اور یہ عادت یا کلچر اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ اب یہ لوگ شہریوں کی حق تلفی کر کے فوائد حاصل کرنے کو بھی اپنا حق سمجھنے لگے ہیں۔اس حوالے سے قانون سازی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے'پاکستان کا کاروباری کلچر بھی ''مال مفت دل بے رحم'' کا نمونہ ہے۔

رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کی لہر تیز ہو جاتی ہے 'حالانکہ کاروباری طبقے کا ذہنی رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہے لیکن ناجائز منافع خوری 'ذخیرہ اندوزی اور ملاوٹ کو وہ بے ایمانی تصور ہی نہیں کرتے بلکہ اسے کاروباری ضرورت کہہ کر اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں 'رمضان المبارک میں اشیائے ضروریہ کی مہنگائی کیوں ہوتی ہے ؟خصوصاً سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا جاتا ہے۔


اس کی بظاہر وجہ طلب و رسد کے درمیان عدم توازن سمجھی جاتی ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی ایسے اسباب ہیں جو سبزیوں اور پھلوں کی مہنگائی کا سبب بنتے ہیں۔ ملک کے ہر شہر اور قصبے میں سبزی اور پھل منڈیاں ہیں' یہاں کسان اپنی فصلیں لا کر فروخت کرتے ہیں۔

منڈیوں کے آڑھتی کسانوں سے فصلیں خریدتے ہیں اور وہیں فروخت کر دیتے ہیں' منڈی میں ہی یہ سبزیاںاور پھل خریدنے والے 'دکانداروں کو فروخت کرتے ہیں۔دکاندار یہ سبزیاں اپنی اپنی دکانوں پر لا کر فروخت کر دیتے ہیں ۔ان سبزیوں اور پھلوں کا آخری خریدار عام شہری ہوتا ہے۔ یعنی عام شہری آڑھتی کو بھی منافع دیتا ہے ' مڈل مین کو بھی منافع دیتا ہے 'آڑھتی سے سبزی خریدنے والے کو بھی منافع دیتا ہے اور آخر میں دکاندار کو بھی منافع دیتا ہے ۔

حکومت کو اس خریداری اور منافع کے میکنزم کو مختصر کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔سب سے پہلے منڈی کے آڑھتی کے لیے فصل کی خریداری کا ریٹ مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔

منڈیوں میں مڈل مین جسے عام زبان میں ''پھڑیا'' کہتے ہیں اس کے کردار کو ختم کرنا لازم ہے۔ جب آڑھتی مقررہ نرخ پر خریدے گا اور اپنا مقررہ منافع رکھ کرمقررہ نرخ پر چیز فروخت کرے گا تو دکاندار بھی مقررہ ریٹ پر فروخت کرے گا 'اس طرح آخری خریدار کو فائدہ پہنچے گا۔ جب تک منڈی میں قانون نافذ نہیں کیا جاتا اس وقت تک سبزیوں' پھلوں اور دیگر اجناس کی مہنگائی کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا ۔

پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز گزشتہ روز بغیر اطلاع کے لاہور میں قائم ''ماڈل رمضان بازار کنٹرول روم'' پہنچیں اور صوبائی ماڈل بازار کنٹرول روم میں مانیٹرنگ کا جائزہ لیا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے رمضان پیکیج کی گھروں میں ترسیل کی مانیٹرنگ کی ضرورت پر زور دیاہے'یہ ایک اچھی بات ہے۔صوبائی انتظامیہ کو متحرک رکھنے کے لیے وزیر اعلیٰ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے' بیوروکریسی اسی صورت میں متحرک ہوتی ہے جب اسے پتہ ہو کہ صوبے کا سربراہ بھی متحرک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لاہور میں گراں فروشوں کے خلاف بھی مہم جاری ہے۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گراں فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن مزید تیز کر دیا گیا۔اعدادوشمار کے مطابق صرف لاہور میں ایک ہفتے کے دوران1757 افراد کو گرفتار اور 639 مقدمات درج کیے گئے ۔

یہ مہم بظاہر بہت اچھی نظر آتی ہے لیکن اس کے نتائج ماضی سے مختلف نہیں ہونے چاہئیں۔ پرچون فروش مہنگائی کے بنیادی اور مرکزی کردار نہیں ہیں۔ پرچون فروش اینڈپرچیزرز اور سیلر ز ہیں'ان کا زیادہ سے زیادہ منافع بھی دس سے بیس روپے فی کلو گرام سے آگے نہیں جاتا' البتہ پرائس کنٹرول سرکاری عملے کا سب سے زیادہ شکار یہی طبقہ بنتا ہے۔

اصل مسئلہ پھر وہی آتا ہے کہ سبزی اور پھل منڈیوں کے آڑھتی ارب پتی لوگ ہیں' ان کا منافع بھی اسی حساب سے ہوتا ہے ' وہ اپنی اشیا کی فروخت میں دس روپے فی کلو گرام بھی اضافہ کرے تو یہ حجم کروڑوں میں بن جاتا ہے۔ یہ آڑھتی طبقہ جی ایس ٹی سمیت انکم ٹیکس بھی اپنی کمائی سے کہیں کم ظاہر کرتا ہے۔

سبزی اور پھل منڈیوں میں صفائی کا سسٹم انتہائی ابتر ہے ' گندگی کے ڈھیر پر بیٹھ کر کروڑوں روپے کمانے والے طبقے منڈیوں کی اپنے خرچ پر صفائی ستھرائی کرانے پر بھی تیار نہیں ہیں 'حکومت کو سبزی منڈیوں میں صفائی اور سیوریج سسٹم کو بہترین بنانے کے لیے آڑھتیوں سے اضافی ٹیکس لینا چاہیے۔

تاجر تنظیمیں سیاست کرنے میں سب سے آگے ہوتی ہیں'تاجر رہنما ارب پتی لوگ ہیں 'کئی ارب پتی تاجر قتل و غارت اور دشمنیوں میں ملوث ہیں'یہ لوگ اپنے سیکیورٹی گارڈز 'مخبروں اور شوٹرز پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن سسٹم کو بہتر کرنے کے لیے ان کا کوئی کردار نہیں ہے 'وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس حوالے سے سخت پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

سبزی منڈیوں اور پھل منڈیوں میں صفائی اور سیوریج کے نظام کو بہتر کرنے کی ذمے داری آڑھتیوں پر عائد کر دی جائے 'منڈیوں کے ارد گرد چائے خانوں اور ریستورانوں وغیرہ پر بھی ریٹ لسٹ آویزاں کرنے کی قانونی پابندی عائد کی جائے۔اس طریقے سے بے جا اور خود ساختہ مہنگائی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
Load Next Story