عام انتخابات کا سال
ملک پہلے ہی معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور اقتصادی دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے
رواں سال 2024 انتخابات کا سال ہے۔ وطنِ عزیز میں انتخابات کے چرچے اگرچہ ایک مدت سے ہو رہے تھے لیکن یقین سے یہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ انتخابات کب ہوں گے یا ہوں گے بھی یا نہیں۔
تاریخوں پر تاریخیں دی جارہی تھیں لیکن ہر مرتبہ معاملہ کھٹائی میں پڑ جاتا تھا کبھی کوئی حیلہ اس کا سبب بن جاتا تھا اور کبھی کوئی بہانہ اس کے آڑے آجاتا تھا۔خدا کا شکر ہے کہ ٹال مٹول کا یہ سلسلہ ختم ہوا اور عوام نے اطمینان کا سانس لیا گویا کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ بہرحال الیکشن ہو تو گئے لیکن غیر متنازعہ نہیں ہوئے جس کی ملک و قوم کو توقع اور ضرورت بھی تھی۔
نتیجہ یہ ہے کہ ملک جہاں کا تہاں کھڑا ہوا ہے۔ ملک پہلے ہی معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے اور اقتصادی دلدل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔ ہوس اقتدار نے سیاستدانوں پر ایسا غلبہ حاصل کیا ہوا ہے کہ بقول غالب:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
سیاست بنام جمہوریت بے بس نظر آتی ہے۔ بقول شاعر:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
عوام بے چارے بے بسی اور بے کسی کا شکار ہیں اور بھوک افلاس سے ان کی زندگی اجیرن ہے اور روزمرہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان کا جینا ہی نہیں مرنا بھی حرام کردیا ہے۔
اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سچ تو یہ ہے کہ موت بھی زندگی سے زیادہ بھاری ہے کیونکہ کفن دفن کے بھاری اخراجات بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں۔
ایک طرف حکمراں طبقے کے لوگ ہیں جو برائے نام بیماری کی صورت میں بڑے بڑے اسپتالوں میں داخل ہوکر 5 اسٹار ہوٹلوں کی سہولیات کے مزے لوٹتے ہیں یا بیرون ملک علاج کرانے کے لیے اس آسانی کے ساتھ چلے جاتے ہیں کہ گویا شہر کے ایک محلے سے دوسرے محلے میں جارہے ہوں اور دوسری جانب ایسے غریب ہیں جن کی اکثریت ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتی ہے۔
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھرکا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
ہر برسر اقتدار آنے والی حکومت الیکشن سے قبل طرح طرح کے وعدے اور دعوے کرتی ہے اور عوام الناس کو سبز باغ دکھاتی ہے اور نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ان کا مقدر بن گیا ہے۔
وطن عزیز کی حالت تو جو بھی ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے، لیکن آئیے! اب پڑوسی ملک پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں جہاں عام چناؤ کا ناٹک شروع ہوچکا ہے اور وہ دیش جسے بڑے فخر کے ساتھ جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے فاشزم کی بدترین مثال ہے اور جمہوریت کی ماں کا لباس تار تار ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں بیچاری ماں بچاؤ بچاؤ کی دہائی دے رہی ہے۔
140 کروڑ کی آبادی والے ملک کی اکثریت کو بی جے پی کی حکومت نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور جھوٹے اور من گھڑت آکڑوں ( اعداد و شمار) کی بنیاد پر گمراہ کیا جا رہا ہے اور سرکاری میڈیا کے ذریعے بھارتی جنتا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ہٹلر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے کہ اتنا جھوٹ بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور ایک دن ایسا آتا ہے کہ جب بھانڈہ پھوٹ جاتا ہے اور اصل حقیقت سب کے سامنے کھل کر آجاتی ہے اور جھوٹ کا ہتھیار بوم رینگ کی طرح پلٹ کر استعمال کرنے والے کو زخمی کردیتا ہے۔
بی جے پی کی حکومت نے جھوٹ پر جھوٹ بول کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس کے گزشتہ 10 سالہ دور میں دیش میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں جب کہ اصل صورتحال اس قدر بھیانک ہے کہ بیچارے عام آدمی کو روزانہ 46 روپے کی آمدنی پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے جس میں اس کی دال روٹی، تن ڈھانپنے اور دوا دارو سمیت بال بچوں کے پالنے کے اخراجات بھی شامل ہیں۔یہ تو تھا بی جے پی کی ظالم سرکار کا ایک رخ اور دوسرا رخ یہ ہے کہ بھارت کے پسماندہ طبقوں بشمول دلتوں اور آدی واسیوں کی حالت آنے والے ہر دن کے ساتھ بد سے بدتر ہو رہی ہے۔
نہ انھیں عام زندگی کی سہولیات میسر ہیں بلکہ انھیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ اس سے بھی برا حال بھارت کی دوسری سب سے بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کا ہے۔ ان کی املاک اور مساجد کی حفاظت تو کجا بلکہ آئے دن ان کا انہدام کیا جارہا ہے۔بی جے پی سرکار کا بس نہیں چلتا کہ ان کا سانس لینا بھی بند کر دیا جائے۔ ان کو بیڑیوں میں جکڑنے کے لیے نت نئے قوانین اور ضابطے لاگو کیے جا رہے ہیں۔
ہندو توا کو فروغ دینے کے لیے مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کا جبر و تشدد بڑھایا جا رہا ہے۔ بی جے پی کی حکمرانی کے دو ادوار کے دوران ہونے والے بھرشٹا چار (کرپشن) اور اتیا چار (مظالم) کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کی تفصیلات بیان کرنے کے لیے ایک پورا کالم بھی ناکافی ہوگا۔سوال یہ ہے کہ آخر بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے اسباب اور وجوہات کیا ہیں؟ اس سوال کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ اس کی وجہ دیگر سیاسی جماعتوں اور بالخصوص کانگریس پارٹی کی غفلت اور لاپرواہی ہے۔
جہاں تک آزادی کے بعد برسر اقتدار آنے والی کانگریس پارٹی کا تعلق ہے تو اس نے اپنے قد آور لیڈروں کے انتقال کے بعد مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا جس کی سزا اسے عوامی نا مقبولیت کی صورت میں ملنا تھی اور بالاخر مل کر رہی۔تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ نہرو خاندان کے چشم و چراغ راہول گاندھی کو جنت گم گشتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارنے اور پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں۔
ان کی کوشش یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح بھارت کے حالیہ چناؤ میں بی جے پی کو شکست دی جائے، جس کے لیے انھوں نے ایک سیاسی اتحاد قائم کیا ہے، اگرچہ راہول گاندھی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ انتخابات میں بی جے پی کو ہرایا جائے لیکن انھوں نے پیش رفت میں کافی تاخیر کردی ہے جس کے حوالے سے بھلا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ بہت دیرکی مہرباں آتے آتے۔