جامعہ پنجاب کا کتاب میلہ
اس کتاب میلہ کا بڑا کریڈٹ جامعہ پنجاب کے سربراہ یا وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کو جاتا ہے
کسی بھی معاشرے میں کتاب دوستی ، کتاب عشق اور مطالعہ کتب یا کتابوں کا فروغ یا اس عمل کی بھرپور طریقے سے پذیرائی کرنا علمی اور فکری عمل کی پہچان ہوا کرتا ہے ۔کتاب ایک ایسی روشنی کی مانند ہوتی ہے جو معاشرے یا افراد میں موجود تنگ نظری یا اجتماعی گھٹن کو ختم کرکے روشنی کے نئے پہلوؤں اور نئی جدتوں کو اجاگر کرتی ہے ۔
معاشرے کی علمی اور فکری بنیاد بھی کتاب ہوتی ہے اور یہ ہی عادتیں ہمیں مجموعی طور پر نئے راستوں اور نئے امکانات کو پیدا کرنے یا متبادل سوچ اور فکر کو سامنے لانے کی کوششوں کا حصہ بنتی ہیں۔ ایک عمومی سوچ یہ بڑھ رہی ہے کہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت کم ہورہی ہے اور لوگ مطالعہ کے عادی نہیں رہے ۔
جب کہ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اچھی کتاب اور اس میں پیش کیا جانے والا جاندار مواد اپنی اہمیت کو خود منواتا ہے ۔البتہ مطالعہ کے نئے انداز اور جدیدیت پر مبنی نئی سوچیں ضرور سامنے آئی ہیں اور ان میں ایک بڑی تبدیلی ڈیجیٹل دنیا میں آنے والا ٹیکنالوجی کا انقلاب بھی ہے اور یہ انقلاب اب کتاب کو اور کتاب بینی کو ایک نئے انداز اور ایک نئی جہت کے طور پر بھی سامنے لایا ہے ۔
کتاب کی اہمیت ، فروغ اور لوگوں میں مطالعہ کی عادت یا شوق کو پیدا کرنے کے عمل میں تعلیمی اداروں کی سوچ اور فکر کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔کیونکہ یہ تعلیمی ادارے اور استاد ہی کا کمال ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے والوں کو نصابی کتابوں تک محدود کرنے کے بجائے ان میں مطالعہ کے لیے غیر نصابی کتابوں کو پڑھنے کی اہمیت بھی بڑھاتا ہے ۔
کیونکہ لوگوں میں سیاسی ، سماجی ، علمی اور فکری شعور کو اجاگر کرنے یا ان میں عملی بنیادوں پر متبادل خیالات کو اجاگر کرنے میں ان ہی غیر نصابی کتابوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔جس بھی معاشرے میں کتابوں کو اہمیت ملے گی اس میں ریاستی ، سیاسی اور حکومتی نظام کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں اور جامعات کا خصوصی کردار ہوتا ہے ۔
یہ ہی تعلیمی ادارے جہاں بچوں اور بچیوں میں کتابوں کو پڑھنے کا شوق پیدا کرتے ہیں بلکہ اپنے تعلیمی اداروں میں اچھی اور معیاری کتابوں پر مشتمل لائبریری کی تشکیل کو یقینی بنانا سمیت اچھی کتابوں پر مکالمہ کو فروغ دیتے ہیں تاکہ بچوں میں نئے علم اور نئی بحثوں کی بنیاد پر ان کے شعور کو پختہ اور مضبوط بنایا جائے۔
اسی بنیاد پر میں ہمیشہ سے اس بات کا حامی رہا ہوں کہ ہمارے کالجزاور بالخصوص جامعات کو کتاب بینی کو فروغ دینے کے لیے اپنے اپنے اداروں میں ''کتاب میلوں '' کے انعقاد کو ہر سطح پر فروغ دینا چاہیے۔کیونکہ کتاب لکھنے والوں ، کتاب چھاپنے والوں اور کتاب کو پڑھنے والوں کے درمیان باہمی رابطہ اور مضبوط تعلق ہی کتاب دوستی کی ضمانت بن سکتا ہے ۔
پچھلے دنوں پاکستان کی معروف تعلیمی جامعہ یا درس گا ہ '' پنجا ب یونیورسٹی '' میں 7تا 9مارچ تین روزہ شانداراور کامیاب کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کتاب میلہ جامعہ پنجاب میں 9برس کے بعد منعقد کیا گیا جو واقعی تشویش کا پہلو بھی اور خوشی اس بات کی ہے کہ اس کی اہمیت کو ہی سمجھ کر اس بار کتاب میلہ کا انعقاد کیا گیا۔
اس کتاب میلہ کا بڑا کریڈٹ جامعہ پنجاب کے سربراہ یا وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کو جاتا ہے جو خود ایک علمی اور فکری استاد اور دانشور سمیت کتاب دوست بھی ہیں ۔اس سیاسی ، سماجی ، معاشی اور علمی و فکری گھٹن میں واقعی یہ کتاب میلہ ہم سب کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا ۔اس میلہ میں پاکستان کے تمام اہم اشاعتی اداروں کی کتابیں موجود تھیں اور خاص طور پر ان میں کتابیں کافی رعایتی قیمتوںمیں دی گئی اور اہم بات یہ کتاب میلہ محض استادوں یا طلبہ و طالبات تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک خاندانی منظر کو بھی پیش کررہا تھا جہاں لوگ اپنی اپنی فیملیوں کے ساتھ کتاب میلہ میں موجود تھے ۔
یہ واقعی ایک سماجی ، علمی اور فکری و ثقافتی شو تھا جہاں ہم سب کو نہ صرف کتابوں سے آگاہی ہوئی بلکہ کتاب پڑھنے والوں اور کتاب لکھنے والوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کا بھی موقع ملا جو واقعی اہم بھی تھا اور دلچسپ بھی ۔جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کے بقول ہم نے اس کتاب میلہ کو محض کاروباری بنیاد پر نہیں سجایا بلکہ اس کی اصل اہمیت کتاب کلچر کا فروغ تھا اور ہماری کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ اشاعتی اداروں کو دعوت بھی دی جائے اور یہ ترغیب بھی دی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ رعایتی قیمتوں پر طلبہ و طالبات سمیت سب کو کتابیں فراہم کریں۔
ان کے بقول اشاعتی اداروں نے نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی کی بلکہ ہمیں حوصلہ اور شوق دیا کہ ہم اس طرز کی اور زیادہ تقریبات کا انعقاد کریں ۔اس کتاب میلہ میں تقریباً ایک لاکھ 45ہزار کتابیں فروخت ہوئیں جو اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ کتاب دوست موجود ہیں اور لوگ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں اور یہ فکر درست نہیں کہ کتاب بینی کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔
جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود نے یہ بھی کوشش کی کہ اس کتاب میلہ میں لاہور میں موجود مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی اہم علمی و فکری شخصیات، دانشور،شاعر، ادیب، صحافیوں ، کالم نگاروں سیاسی و سماجی افراد کو بھی دعوت دی کہ وہ نہ صرف کتاب میلہ میں شریک ہوں بلکہ طلبہ و طالبات کے ساتھ مکالمہ کا حصہ بھی بنیں ۔ اصولی طور پر تو میں اس بات کا حامی ہوں اور وائس چانسلر سے درخواست بھی کروں گا کہ وہ اس طرز کے کتاب میلہ کو سال میں دوبار منعقد کریں اور اسی میلہ میں نئی کتابوں کی تقریب رونمائی یا نئی کتابوں پر مختصر نوعیت کی گفتگو ، مختلف مصنفین اور نئے لکھنے والوں کے درمیان مکالمہ کا بھی اہتمام ہونا چاہیے اور اس طرز کی خاص نشستیں ہوں جہاں معروف افراد اور مصنفین نئے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مکالمہ کرسکیں اور اپنے سوالات کی روشنی میں نئے زاویوں کو بھی سمجھ سکیں ۔اسی طرح نئے مصنفین کو جامعہ پنجاب کی طرف سے خصوصی ایوارڈ بھی دیے جائیں تاکہ لکھنے والوں کی تعلیمی ادارے بھی پزیرائی کو ہر سطح پر ممکن بناسکیں ۔
یہ عمل محض جامعہ پنجاب تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر جامعہ کو ایسے ہی کتاب میلہ کا تواتر کے ساتھ انعقاد کرنا چاہیے اور جہاں سب کو اس میں شمولیت کی دعوت دی جائے ۔کیونکہ کتاب تحریک پیدا کرنے میں اس طرح کے کتاب میلے اپنی خاص اہمیت رکھتے ہیں اور بالخصوص جو اشاعتی ادارے ہیںان کو زیادہ سے زیادہ اسٹال لگوانے کے لیے سہولت کاری یا سہولیات دی جائیں اور اس میں کمرشل سے زیادہ کتاب پھیلاؤ یا فروغ کو اہمیت دی جانی چاہیے ۔
اسی طرح یہ ہر شہری اور ذمے دار والدین کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اپنے گھر کی سطح پر مختصر طرز کی لائبریری بنائیں اور اچھی کتابیں خود بھی خریدیں اور پڑھیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ کتاب سے دوستی ہی ان کی زندگی میں نئے افکار اور نئی سوچ و فکر کو جنم دینے کا سبب بنے گی ۔اس طرز کے کتاب میلہ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کو مختلف خیالات و فکر پر مبنی مختلف نظریات کی کتابیں بھی دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں ۔
یہ سوچ اور فکر یا مطالعہ کی عادت ہمیں اجتماعی طور پر انتہا پسندانہ رجحانات کے خاتمہ اور ایک دوسرے کو قبول کرنے ، برداشت کرنے یا رواداری پر مبنی طرز عمل کو بھی تقویت دیتے ہیں ۔کیونکہ مطالعہ کی عادت ہی لوگوں میں تحقیق، شواہد، دلیل ، منطق اور عدم جذباتیت پر مبنی رویوں و سوچ کو بھی فروغ دیتی ہے ۔کیونکہ مطالعہ کی عادت بنیادی طور پر ہمارے اندر موجود بند دریچوں کو کھولنے اور پرانے خیالات کے مقابلے میں نئے خیالات کو بیدار کرنے اور ان کی قبولیت کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ ہم جس طرز کے معاشرے میں موجود ہیں اور جہاں انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کو تقویت مل رہی ہے وہیں اس کا ایک علاج ہمیں کتاب دوستی اور کتاب میلہ کے فروغ کی صورت میں بھی ملتا ہے ۔اس تناظر میں خود حکومت کو بھی کتاب میلوں کے فروغ میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور جو تعلیمی ادارے اس میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
ان کی بھی حکومتی محاذ سے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے تاکہ مزید کتاب میلے ہوں اور لوگوں میں کتاب بینی کا شوق پیدا ہو۔جامعہ پنجاب نے اس تین روزہ کتاب میلہ سے ایک بار پھر اس شہر میں کتاب کلچر کو فروغ دیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ اس سلسلہ میں تعطل نہ پیدا ہو بلکہ تواتر کے ساتھ یہ سلسلہ مختلف تعلیمی اداروں میں تحریک کے طور پر جاری رہنا چاہیے اور یہ ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے ۔
معاشرے کی علمی اور فکری بنیاد بھی کتاب ہوتی ہے اور یہ ہی عادتیں ہمیں مجموعی طور پر نئے راستوں اور نئے امکانات کو پیدا کرنے یا متبادل سوچ اور فکر کو سامنے لانے کی کوششوں کا حصہ بنتی ہیں۔ ایک عمومی سوچ یہ بڑھ رہی ہے کہ معاشرے میں کتاب کی اہمیت کم ہورہی ہے اور لوگ مطالعہ کے عادی نہیں رہے ۔
جب کہ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اچھی کتاب اور اس میں پیش کیا جانے والا جاندار مواد اپنی اہمیت کو خود منواتا ہے ۔البتہ مطالعہ کے نئے انداز اور جدیدیت پر مبنی نئی سوچیں ضرور سامنے آئی ہیں اور ان میں ایک بڑی تبدیلی ڈیجیٹل دنیا میں آنے والا ٹیکنالوجی کا انقلاب بھی ہے اور یہ انقلاب اب کتاب کو اور کتاب بینی کو ایک نئے انداز اور ایک نئی جہت کے طور پر بھی سامنے لایا ہے ۔
کتاب کی اہمیت ، فروغ اور لوگوں میں مطالعہ کی عادت یا شوق کو پیدا کرنے کے عمل میں تعلیمی اداروں کی سوچ اور فکر کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔کیونکہ یہ تعلیمی ادارے اور استاد ہی کا کمال ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے والوں کو نصابی کتابوں تک محدود کرنے کے بجائے ان میں مطالعہ کے لیے غیر نصابی کتابوں کو پڑھنے کی اہمیت بھی بڑھاتا ہے ۔
کیونکہ لوگوں میں سیاسی ، سماجی ، علمی اور فکری شعور کو اجاگر کرنے یا ان میں عملی بنیادوں پر متبادل خیالات کو اجاگر کرنے میں ان ہی غیر نصابی کتابوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔جس بھی معاشرے میں کتابوں کو اہمیت ملے گی اس میں ریاستی ، سیاسی اور حکومتی نظام کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں اور جامعات کا خصوصی کردار ہوتا ہے ۔
یہ ہی تعلیمی ادارے جہاں بچوں اور بچیوں میں کتابوں کو پڑھنے کا شوق پیدا کرتے ہیں بلکہ اپنے تعلیمی اداروں میں اچھی اور معیاری کتابوں پر مشتمل لائبریری کی تشکیل کو یقینی بنانا سمیت اچھی کتابوں پر مکالمہ کو فروغ دیتے ہیں تاکہ بچوں میں نئے علم اور نئی بحثوں کی بنیاد پر ان کے شعور کو پختہ اور مضبوط بنایا جائے۔
اسی بنیاد پر میں ہمیشہ سے اس بات کا حامی رہا ہوں کہ ہمارے کالجزاور بالخصوص جامعات کو کتاب بینی کو فروغ دینے کے لیے اپنے اپنے اداروں میں ''کتاب میلوں '' کے انعقاد کو ہر سطح پر فروغ دینا چاہیے۔کیونکہ کتاب لکھنے والوں ، کتاب چھاپنے والوں اور کتاب کو پڑھنے والوں کے درمیان باہمی رابطہ اور مضبوط تعلق ہی کتاب دوستی کی ضمانت بن سکتا ہے ۔
پچھلے دنوں پاکستان کی معروف تعلیمی جامعہ یا درس گا ہ '' پنجا ب یونیورسٹی '' میں 7تا 9مارچ تین روزہ شانداراور کامیاب کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ کتاب میلہ جامعہ پنجاب میں 9برس کے بعد منعقد کیا گیا جو واقعی تشویش کا پہلو بھی اور خوشی اس بات کی ہے کہ اس کی اہمیت کو ہی سمجھ کر اس بار کتاب میلہ کا انعقاد کیا گیا۔
اس کتاب میلہ کا بڑا کریڈٹ جامعہ پنجاب کے سربراہ یا وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کو جاتا ہے جو خود ایک علمی اور فکری استاد اور دانشور سمیت کتاب دوست بھی ہیں ۔اس سیاسی ، سماجی ، معاشی اور علمی و فکری گھٹن میں واقعی یہ کتاب میلہ ہم سب کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا تھا ۔اس میلہ میں پاکستان کے تمام اہم اشاعتی اداروں کی کتابیں موجود تھیں اور خاص طور پر ان میں کتابیں کافی رعایتی قیمتوںمیں دی گئی اور اہم بات یہ کتاب میلہ محض استادوں یا طلبہ و طالبات تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک خاندانی منظر کو بھی پیش کررہا تھا جہاں لوگ اپنی اپنی فیملیوں کے ساتھ کتاب میلہ میں موجود تھے ۔
یہ واقعی ایک سماجی ، علمی اور فکری و ثقافتی شو تھا جہاں ہم سب کو نہ صرف کتابوں سے آگاہی ہوئی بلکہ کتاب پڑھنے والوں اور کتاب لکھنے والوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنے کا بھی موقع ملا جو واقعی اہم بھی تھا اور دلچسپ بھی ۔جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کے بقول ہم نے اس کتاب میلہ کو محض کاروباری بنیاد پر نہیں سجایا بلکہ اس کی اصل اہمیت کتاب کلچر کا فروغ تھا اور ہماری کوشش تھی کہ زیادہ سے زیادہ اشاعتی اداروں کو دعوت بھی دی جائے اور یہ ترغیب بھی دی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ رعایتی قیمتوں پر طلبہ و طالبات سمیت سب کو کتابیں فراہم کریں۔
ان کے بقول اشاعتی اداروں نے نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی کی بلکہ ہمیں حوصلہ اور شوق دیا کہ ہم اس طرز کی اور زیادہ تقریبات کا انعقاد کریں ۔اس کتاب میلہ میں تقریباً ایک لاکھ 45ہزار کتابیں فروخت ہوئیں جو اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ کتاب دوست موجود ہیں اور لوگ کتاب پڑھنا چاہتے ہیں اور یہ فکر درست نہیں کہ کتاب بینی کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔
جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود نے یہ بھی کوشش کی کہ اس کتاب میلہ میں لاہور میں موجود مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی اہم علمی و فکری شخصیات، دانشور،شاعر، ادیب، صحافیوں ، کالم نگاروں سیاسی و سماجی افراد کو بھی دعوت دی کہ وہ نہ صرف کتاب میلہ میں شریک ہوں بلکہ طلبہ و طالبات کے ساتھ مکالمہ کا حصہ بھی بنیں ۔ اصولی طور پر تو میں اس بات کا حامی ہوں اور وائس چانسلر سے درخواست بھی کروں گا کہ وہ اس طرز کے کتاب میلہ کو سال میں دوبار منعقد کریں اور اسی میلہ میں نئی کتابوں کی تقریب رونمائی یا نئی کتابوں پر مختصر نوعیت کی گفتگو ، مختلف مصنفین اور نئے لکھنے والوں کے درمیان مکالمہ کا بھی اہتمام ہونا چاہیے اور اس طرز کی خاص نشستیں ہوں جہاں معروف افراد اور مصنفین نئے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر مکالمہ کرسکیں اور اپنے سوالات کی روشنی میں نئے زاویوں کو بھی سمجھ سکیں ۔اسی طرح نئے مصنفین کو جامعہ پنجاب کی طرف سے خصوصی ایوارڈ بھی دیے جائیں تاکہ لکھنے والوں کی تعلیمی ادارے بھی پزیرائی کو ہر سطح پر ممکن بناسکیں ۔
یہ عمل محض جامعہ پنجاب تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر جامعہ کو ایسے ہی کتاب میلہ کا تواتر کے ساتھ انعقاد کرنا چاہیے اور جہاں سب کو اس میں شمولیت کی دعوت دی جائے ۔کیونکہ کتاب تحریک پیدا کرنے میں اس طرح کے کتاب میلے اپنی خاص اہمیت رکھتے ہیں اور بالخصوص جو اشاعتی ادارے ہیںان کو زیادہ سے زیادہ اسٹال لگوانے کے لیے سہولت کاری یا سہولیات دی جائیں اور اس میں کمرشل سے زیادہ کتاب پھیلاؤ یا فروغ کو اہمیت دی جانی چاہیے ۔
اسی طرح یہ ہر شہری اور ذمے دار والدین کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اپنے گھر کی سطح پر مختصر طرز کی لائبریری بنائیں اور اچھی کتابیں خود بھی خریدیں اور پڑھیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ کتاب سے دوستی ہی ان کی زندگی میں نئے افکار اور نئی سوچ و فکر کو جنم دینے کا سبب بنے گی ۔اس طرز کے کتاب میلہ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کو مختلف خیالات و فکر پر مبنی مختلف نظریات کی کتابیں بھی دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں ۔
یہ سوچ اور فکر یا مطالعہ کی عادت ہمیں اجتماعی طور پر انتہا پسندانہ رجحانات کے خاتمہ اور ایک دوسرے کو قبول کرنے ، برداشت کرنے یا رواداری پر مبنی طرز عمل کو بھی تقویت دیتے ہیں ۔کیونکہ مطالعہ کی عادت ہی لوگوں میں تحقیق، شواہد، دلیل ، منطق اور عدم جذباتیت پر مبنی رویوں و سوچ کو بھی فروغ دیتی ہے ۔کیونکہ مطالعہ کی عادت بنیادی طور پر ہمارے اندر موجود بند دریچوں کو کھولنے اور پرانے خیالات کے مقابلے میں نئے خیالات کو بیدار کرنے اور ان کی قبولیت کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ ہم جس طرز کے معاشرے میں موجود ہیں اور جہاں انتہا پسندی پر مبنی رجحانات کو تقویت مل رہی ہے وہیں اس کا ایک علاج ہمیں کتاب دوستی اور کتاب میلہ کے فروغ کی صورت میں بھی ملتا ہے ۔اس تناظر میں خود حکومت کو بھی کتاب میلوں کے فروغ میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور جو تعلیمی ادارے اس میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
ان کی بھی حکومتی محاذ سے حوصلہ افزائی ہونی چاہیے تاکہ مزید کتاب میلے ہوں اور لوگوں میں کتاب بینی کا شوق پیدا ہو۔جامعہ پنجاب نے اس تین روزہ کتاب میلہ سے ایک بار پھر اس شہر میں کتاب کلچر کو فروغ دیا ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ اس سلسلہ میں تعطل نہ پیدا ہو بلکہ تواتر کے ساتھ یہ سلسلہ مختلف تعلیمی اداروں میں تحریک کے طور پر جاری رہنا چاہیے اور یہ ہی ہماری ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے ۔