کراچی باپ کے ہاتھوں جلایا جانے والا 3سالہ بچہ بھی دم توڑ گیا
جلائے جانے والے تینوں بچے اور خود سوزی کرنے والا باپ یکے بعد دیگرے چل بسے
نارتھ کراچی میں باپ کے ہاتھوں جلایا جانے والا تین سالہ بچہ بھی دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا، اس طرح باپ کے ہاتھوں جلائے جانے والے اس کے تینوں بچے اور خود سوزی کرنے والا باپ یکے بعد دیگرے چل بسے۔
تفصیلات کے مطابق خواجہ اجمیر نگری کے علاقے نارتھ کراچی سیکٹر فائیو سی فور میں واقعے گراؤنڈ میں پانچ اور چھ مارچ کی درمیانی شب باپ نے تین بچوں سمیت خود کو آگ لگا لی تھی، جس کے اگلے ہی روز 45 سالہ عارف ولد بشیر سول اسپتال کے برنس وارڈ میں دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا جبکہ زخمی ہونے والے تین بچوں میں 3 سالہ غلام حسین، 4 سالہ ایمان فاطمہ اور 5 سالہ حوریہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (جناح اسپتال) میں زیر علاج تھے۔
زخمی ہونے والی پانچ سالہ حوریہ پیر کی صبح دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھی، اس سے پہلے ایمان فاطمہ بھی دوران علاج دم توڑ گئی تھی جبکہ غلام حسین جو این آئی سی ایچ میں زیرِ علاج تھا وہ بھی پیر اور منگل کی درمیانی شب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
واضح رہے کہ جاں بحق ہونے والے بچوں کی ماں کچھ عرصہ قبل انتقال کر گئی تھی بعد ازاں عارف نے ایک شادی شدہ خاتون آمنہ سے دوسرے شادی کر لی تھی، آمنہ جوان بچوں کی ماں تھی۔
مزید پڑھیں: کراچی میں باپ کے ہاتھوں جلائی گئی 5 سالہ بچی دوران علاج دم توڑگئی
آمنہ کی ساس نے بتایا تھا کہ عارف بے روزگار تھا تاہم وہ شادیاں کرنے کا شوقین تھا، اس کی نیو کراچی پیلا اسکول کے قریب بھی ایک بیوی رہتی ہے جبکہ اس نے پنجاب میں بھی ایک شادی کی ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عارف کو آمنہ کے بچے پال رہے تھے اور وہ خود پورا دن گھر پر پڑا رہتا تھا، جس گھر کے پورشن میں اس نے اپنے مذکورہ تینوں بچوں کو رکھا ہوا تھا اس کا کرایا 10 ہزار روپے بھی آمنہ کے لڑکے دیتے تھے جبکہ کھانا پینا وہ آمنہ کے ساتھ کرتا تھا۔
آمنہ کی والدہ نے واقعے والے روز ایکسپریس کو بتایا تھا کہ انہوں نے عارف کو کہا تھا کہ کیا پورا دن گھر میں پڑا رہتا ہے جا کر مزدوری کر اور کم سے کم گھر کا کرایا تو خود دے دیا کر جس پر اس نے رات کو کھانا کھانے کے بعد اپنے مذکورہ تین بچوں کو لیا اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے یہ بول کر چلا گیا کہ میں گراؤنڈ میں جا رہا ہوں آپ سب گھر کی کھڑکی جو گراؤنڈ کی جانب تھی وہاں سے دیکھتے رہنا۔
انہوں نے بتایا کہ عارف گراؤنڈ کے درمیان میں تینوں بچوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور پھر اس نے ماچس جلا کر پہلے تینوں بچوں کو آگ لگائی پھر خود کو بھی آگ لگا لی، بچوں اور عارف کو جلتا دیکھ کر وہ اور دیگر علاقہ مکین گراؤنڈ کی طرف بھاگے تاہم اس وقت تک عارف اور اس کے تینوں بچے کافی جھلس چکے تھے۔
آمنہ کی والدہ نے ایکسپریس کے پوچھنے پر بتایا کہ عارف گھر سے جب نکلا تھا تو اس کے ہاتھ میں پیٹرول یا مٹی کے تیل کی کوئی بوتل نہیں تھی، کیونکہ عارف اور بچے جس طریقے سے جلے تھے اس سے لگتا تھا کہ ان پر پیٹرول یا مٹی کا تیل چھڑکا گیا ہے اس بات کی اسپتال ذرائع نے بھی تصدیق کی تھی۔
عارف کے مذکورہ بچوں کا ایک بھائی اور تھا جو عارف نے اپنے بڑے بھائی کے ہاں چھوڑا ہوا تھا جس کے باعث وہ بچ گیا۔
تفصیلات کے مطابق خواجہ اجمیر نگری کے علاقے نارتھ کراچی سیکٹر فائیو سی فور میں واقعے گراؤنڈ میں پانچ اور چھ مارچ کی درمیانی شب باپ نے تین بچوں سمیت خود کو آگ لگا لی تھی، جس کے اگلے ہی روز 45 سالہ عارف ولد بشیر سول اسپتال کے برنس وارڈ میں دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا تھا جبکہ زخمی ہونے والے تین بچوں میں 3 سالہ غلام حسین، 4 سالہ ایمان فاطمہ اور 5 سالہ حوریہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ (جناح اسپتال) میں زیر علاج تھے۔
زخمی ہونے والی پانچ سالہ حوریہ پیر کی صبح دوران علاج زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھی، اس سے پہلے ایمان فاطمہ بھی دوران علاج دم توڑ گئی تھی جبکہ غلام حسین جو این آئی سی ایچ میں زیرِ علاج تھا وہ بھی پیر اور منگل کی درمیانی شب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔
واضح رہے کہ جاں بحق ہونے والے بچوں کی ماں کچھ عرصہ قبل انتقال کر گئی تھی بعد ازاں عارف نے ایک شادی شدہ خاتون آمنہ سے دوسرے شادی کر لی تھی، آمنہ جوان بچوں کی ماں تھی۔
مزید پڑھیں: کراچی میں باپ کے ہاتھوں جلائی گئی 5 سالہ بچی دوران علاج دم توڑگئی
آمنہ کی ساس نے بتایا تھا کہ عارف بے روزگار تھا تاہم وہ شادیاں کرنے کا شوقین تھا، اس کی نیو کراچی پیلا اسکول کے قریب بھی ایک بیوی رہتی ہے جبکہ اس نے پنجاب میں بھی ایک شادی کی ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عارف کو آمنہ کے بچے پال رہے تھے اور وہ خود پورا دن گھر پر پڑا رہتا تھا، جس گھر کے پورشن میں اس نے اپنے مذکورہ تینوں بچوں کو رکھا ہوا تھا اس کا کرایا 10 ہزار روپے بھی آمنہ کے لڑکے دیتے تھے جبکہ کھانا پینا وہ آمنہ کے ساتھ کرتا تھا۔
آمنہ کی والدہ نے واقعے والے روز ایکسپریس کو بتایا تھا کہ انہوں نے عارف کو کہا تھا کہ کیا پورا دن گھر میں پڑا رہتا ہے جا کر مزدوری کر اور کم سے کم گھر کا کرایا تو خود دے دیا کر جس پر اس نے رات کو کھانا کھانے کے بعد اپنے مذکورہ تین بچوں کو لیا اور گھر سے باہر نکلتے ہوئے یہ بول کر چلا گیا کہ میں گراؤنڈ میں جا رہا ہوں آپ سب گھر کی کھڑکی جو گراؤنڈ کی جانب تھی وہاں سے دیکھتے رہنا۔
انہوں نے بتایا کہ عارف گراؤنڈ کے درمیان میں تینوں بچوں کے ساتھ بیٹھ گیا اور پھر اس نے ماچس جلا کر پہلے تینوں بچوں کو آگ لگائی پھر خود کو بھی آگ لگا لی، بچوں اور عارف کو جلتا دیکھ کر وہ اور دیگر علاقہ مکین گراؤنڈ کی طرف بھاگے تاہم اس وقت تک عارف اور اس کے تینوں بچے کافی جھلس چکے تھے۔
آمنہ کی والدہ نے ایکسپریس کے پوچھنے پر بتایا کہ عارف گھر سے جب نکلا تھا تو اس کے ہاتھ میں پیٹرول یا مٹی کے تیل کی کوئی بوتل نہیں تھی، کیونکہ عارف اور بچے جس طریقے سے جلے تھے اس سے لگتا تھا کہ ان پر پیٹرول یا مٹی کا تیل چھڑکا گیا ہے اس بات کی اسپتال ذرائع نے بھی تصدیق کی تھی۔
عارف کے مذکورہ بچوں کا ایک بھائی اور تھا جو عارف نے اپنے بڑے بھائی کے ہاں چھوڑا ہوا تھا جس کے باعث وہ بچ گیا۔