کہانی ختم یا ……

عدلیہ، حکومت یا وہ عناصر جو عدلیہ اور حکومت میں مصالحت کی بجائے محاذ آرائی بڑھانے میں مصروف رہے.

عدلیہ، حکومت یا وہ عناصر جو عدلیہ اور حکومت میں مصالحت کی بجائے محاذ آرائی بڑھانے میں مصروف رہے

بحران حل ہونے والا ہے یا اس نے محض اپنی شکل تبدیل کر لی ہے؟

این آر او کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے کیس میں یہ دیکھ کر حیرت ضرور ہوئی کہ حکومت اس بات پر راضی ہو گئی کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھ دے گی۔ اُس نے خط لکھنے کا اختیار بھی وزیر قانون کو دے دیاہے۔

حکومت کے اس ''سرپرائز'' کے بعد سپریم کورٹ نے کوئی فوری فیصلہ سنانے کی بجائے اسے مزید ایک ہفتے کی مہلت دے دی تا کہ وہ خط لکھ سکے لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی سنا دیا کہ خط ارسال کرنے سے پہلے اُس کا مسودہ سپریم کورٹ کو دکھایا جائے جس میں وہ ردوبدل کرنے کی مجاز ہو گی۔ تقریباً چار سال سے جاری اس ''کہانی'' میں یہ (پہلا) نیا موڑ ہے۔

سپریم کورٹ پہلے ہی وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کو دو مرتبہ مہلت دے چکی ہے جس کے نتیجے میں وہ قیاس آرائیاں، خوش فہمیاں یا غلط فہمیاں ''مشکوک'' ہو گئیں کہ یوسف رضا گیلانی کے بعد اب پرویز اشرف کی باری ہے۔پہلی مہلت پر تو اگرچہ کچھ خاص تبصرے نہیں ہوئے لیکن دوسری مہلت کے بعد یہ ''بریکنگ نیوز'' اخباری تبصروں اور سینہ گزٹ کے ذریعے خوب پھیلی کہ سپریم کورٹ بند گلی میں ہے.

وہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتی اس لیے وہ درمیانی راستہ نکالے گی اور درمیانی راستہ یہ ہو گا کہ حکومت کوئی گول مول خط لکھ دے گی اور اس طرح عدلیہ کی بات بھی رہ جائے گی اور حکومت کو بھی کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ بظاہر یہ ''بریکنگ نیوز'' صحیح ثابت ہوئی۔

کچھ باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں فریقوں نے اپنے اپنے اندر لچک پیدا کی اور درمیانی راستے پر اتفاق ہو گیا لیکن یہ محض تبصرہ، تجزیہ اور خیال یا تاثر ہے۔ صحیح بات کیا ہے؟ اس کا کسی کو علم نہیں، عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ بڑے بڑے ''باخبر ذرائع'' کو بھی بہت بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ تو محض ''ذرائع'' تھے ورنہ اصل خبر تو کچھ اور ہی تھی۔ سوئس کیس کے معاملے میں بھی حقیقت لاپتہ ہے جو اس سارے قصے کے اختتام پر ہی ظاہر ہو گی۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت نے واقعی اپنا موقف ترک کر دیا۔؟

اب تک حکومت خط نہ لکھنے کی جو وجوہ بتاتی رہی ہے ان میں ایک یہ ہے کہ آئین کے تحت صدر کو استثنیٰ حاصل ہے اور حکومت خط لکھ کر آئین کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔ یوسف رضا گیلانی تو اس خلاف ورزی کو آئین سے بغاوت تک قرار دیتے رہے جس کی سزا موت ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ آئین سے بغاوت کر کے پھانسی چڑھنے کی بجائے توہین عدالت کر کے چھ ماہ کی قید بھگتنے کو ترجیح دیں گے۔


دوسری وجہ یہ بتائی جاتی رہی کہ خط لکھنا محترمہ بینظیر کی قبر کے ٹرائل کے مترادف ہو گا۔ یہ دونوں وجوہ صدر، وزیر اعظم سے لے کر صوبائی سطح کے وزیر اور عہدیدار سبھی اپنے بیانات میں بار بار دہراتے رہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت بیک وقت آئین سے بغاوت اور بینظیر شہید کی قبر کا ٹرائل دونوں کام کرنے کے لیے تیار ہو گئی ہے؟

عقل یہ بات نہیں مان سکتی۔ اس کے علاوہ عمومی سیاسی قاعدے کے تحت سوال کیا جا سکتا ہے کہ خط لکھنا ہی تھا تو پہلے لکھ دیتے تا کہ یوسف رضا گیلانی کی کرسی بچی رہتی، اور بعد میں پرویز اشرف کو ووٹ ڈلوانے کے لیے اتحادی جماعتوں کے ساتھ مہنگی سودے بازی بھی نہ کرنی پڑتی۔ شاید اسی سودے بازی کی مجبوری تھی کہ پیپلزپارٹی کو سندھ میں دوہرے بلدیاتی نظام کا کڑوا گھونٹ بھی نگلنا پڑا۔

کوئی راز تو ضرور ہے، لیکن ایک سامنے کی بات کچھ اس طرح نظر آ رہی ہے کہ دونوں فریق معاملہ ''طے'' کرنے کی بجائے اسے ''تہہ'' کرنے کی طرف چل پڑے ہیں۔ یعنی جس طرح ساڑھے تین چار سال گزر گئے ،اسی طرح باقی ماندہ کے چھ سات ماہ کی مہلت بھی مل جائے گی۔ یہاں تک کہ نئے انتخابات کا مرحلہ آ جائے گا.

جس کے بعد منظر بالکل تبدیل ہو جائیگا۔ حکمران جماعت کو یوں نجات مل جائے گی کہ سوئس کیس کو ری اوپن کرنے کے لیے مطلوبہ مدت گزر چکی ہو گی اور اس کے بعد خط لکھ بھی دیا گیا تو اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا، دوسری طرف سپریم کورٹ کا ضمیر بھی مطمئن ہو جائے گا کہ آخر کار اس نے خط لکھوانے میں کامیابی حاصل کر لی۔ لیکن اس تین چار سال کی کشمکش میں عوام کو کیا ملا۔؟

اس عرصے میں ان کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ حکومت کہتی ہے کہ اسے عدلیہ نے الجھائے رکھا اور وہ سارا عرصہ اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے لیے مجبور رہی جس سے ملک اور عوام کے مسائل بڑھتے رہے۔ عدلیہ یہ کہتی ہے کہ اسے ہر حالت میں آئین کی پاسداری کرنا تھی۔ اب سوئس حکومت کو خط مدت گزرنے کے بعد بھیجا جائے گا یا خط لکھنے کا معاملہ نئی منتخب حکومت پر چھوڑ دیا جائے گا،گستاخی کے زُمرے میں نہ آئے تو عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر انھیں کس حساب میں اتنا لمبا عرصہ سولی پر لٹکائے رکھا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟ عدلیہ، حکومت یا وہ عناصر جو عدلیہ اور حکومت میں مصالحت کی بجائے محاذ آرائی بڑھانے میں مصروف رہے اور یہی نعرے لگاتے رہے کہ ملک کی بقا اسی میں ہے کہ سپریم کورٹ آئین کو سربلند رکھے۔

کہانی ختم ہو گئی ہے یا نئے رنگ میں دوبارہ شروع ہوئی ہے... ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
Load Next Story