کتابوں کا گلدستہ
جنرل مشرّف کے مارشل لاء کا بھی لبرلز نے استقبال کیا تھا
کتابیں اتنی تعداد میں آتی ہیں کہ کچھ تو کھولی بھی نہیں جاسکتیں مگر کچھ ایسی ہیں کہ تمام تر مصروفیات کے باوجود وہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔
پچھلے چند مہینوں میں جو کتابیں پڑھ سکا، ان میں جناب الطاف حسین قریشی کی 'قافلے دل کے چلے'، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کی 'اقبال کا نغمۂ شوق'، جسٹس (ر)سیّد افضل حیدر کی جستجو، محترم نعیم صدیقی کی فکر اور قلم کا شاہکار ''محسنِ ِ انسانیّت ؐ''، محترم محمود شام کی 'روبرو' جناب انتظار حسین کی خودنوشت 'چراغوں کا دھواں'، بریگیڈیئر(ر) صولت رضا کی خودنوشت 'پیچ وتابِ زندگی' اور ڈاکٹر محمد صادق کی کتاب جسے ہمارے دوست ظفر حسن رضا نے 'بیسویں صدی کا اردو ادب'کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔
محترم الطاف حسن قریشی صاحب دنیائے صحافت کے بے تاج بادشاہ ہیں، وہ اس ملک میں ڈائجسٹ کلچر کے بانی، قلم کے مصوّر، رجحان ساز، استادوں کے استاد، trend setter اور ایک ایسے تربیّتی ادارے کی حیثیّت رکھتے ہیں جس نے سیکڑوں صحافی تیار کیے ہیں جن میں سے بیسیوں ماہناموں اور ہفت روزوں کے مدیر بنے۔
قریشی صاحب کو 1967میں حرمین شریفین کا پہلا سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ایک ایسا روحانی سفر تھا جس میں اُن کا دل میرِکارواں تھا، اس قلبی واردات اور تجربات کو قریشی صاحب نے اپنے قلم کی تمام تر بوقلمونیوں کے ساتھ قلمبند کیا ہے، ان کی تحریر کے ایک ایک فقرے سے ان کی مسرّت وانبساط کی شدت اور جذبوں کی وارفتگی جھلکتی ہے۔
قلم فاؤنڈیشن کے سربراہ علامہ عبدالستار عاصم صاحب نے جو کتاب بینی کو فروغ دینے کے جوش وجنون سے سرشار ہیں، قریشی صاحب کے اس سفرنامے کو 'قافلے دل کے چلے' کے نام سے ایک خوبصورت کتاب کی شکل دے دی ہے۔ ان کے مضامین کو الطاف صاحب کے پوتے ایقان حسن قریشی نے مرتّب کیا ہے۔
الطاف صاحب سرکارِ دوعالمؐ کی مرقد مبارک پر حاضری کا احوال اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ''مجھے روضۂ محبوبِ خداﷺ کے اندر جانے کی سعادت نصیب ہوئی لیکن میں شافعﷺ محشر کا سامنا نہ کرسکا اور میرے ہوش وحواس جواب دے گئے۔ وہ کیا کیفیّت تھی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ گناہوں اور معصیّت سے بھری زندگی رحمۃللعَالمینؐ کے قدموں میں بڑی دیر تک تڑپتی اور سسکتی رہی، شرمندگی اور ندامت کے آنسوؤں سے پورا جسم تر ہوچکا تھا اور بندگی ایک ارتقائی منزل طے کر رہی تھی۔ واردات تھی یا ایک خواب تھا یا ایک بندۂ عاصی کی کیفیت کا اظہار تھا؟ جو کچھ بھی تھا ندامت اور شرمساری کا ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا''۔
دربارِ الٰہی میں لاکھوں طلبگار اپنے خالق اور مالک سے کس طرح دعائیں اور التجائیں کرتے ہیں، اس کا نقشۂ اس طرح کھینچتے ہیں۔ ''لاکھوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھے تھے، محبّت کے شعلوں سے آہیں اٹھتی تھیں اور عشق کی آنکھ سے قطرے بہہ رہے تھے، کوئی کیا مانگ رہا ہے اس کا کسی کو ہوش نہیں تھا۔ چشم ہائے خوں بار میں کتنی ہی حکایتیں بھری ہوئی تھیں اور کانپتے ہونٹوں پہ ان گنت فسانے ادھورے رہ گئے تھے۔
گناہوں کی مغفرت طلبی کے بعد میرے ہونٹوں پہ جو دعا بے اختیار آئی، وہ یقیناً میری روح کے شعور سے ابھری تھی: ''اے خدا! پاکستان کو سب بلاؤں سے محفوظ رکھیو۔ یہ اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ اس پر اپنے انوارِ کرم کی بارش کر۔ تیرے دستِ فیض کی بخششوں کا کیا ٹھکانہ'' غلغلہ بلند ہوا تو میں نے یوں محسوس کیا جیسے فرشتے سدرۃالمنتہا کو اﷲ کے دیوانوں کے لیے خالی کررہے ہوں۔ پوری فضا پہ نور کی چادر تنی ہوئی تھی، عقیدت ومحبت اور عشق وستی کے اس سفر کا مسافر جب مدینہ منورہ پہنچتا ہے تو اس کی قلبی کیفیّت کیسی تھی اس کی ہلکی سی جھلک بھی دیکھ لیجیے۔
''تمام رات پہلو بدلتے گذری۔ نیند کیونکر آتی۔ میں اس شہر میں تھا جس کا حسین اور دلکش تصوّر میرے خوابوں میں رنگ بھرتا رہا ہے، جسے ایک نظر دیکھ لینے کا اضطراب دل کے اندر ایک شہرِ تمنّا بسائے ہوئے ہے۔
ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے ہلکی ہلکی چاندنی میں گنبدِ خضریٰ نظر آرہا تھا، وہی گنبدِ خضریٰ جس میں انسانِ کامل آرام فرما ہیں وہی گنبدِ خضریٰ جو ہماری تاریخ کا مرکز اور ہماری تہذیب کا محور ہے، وہی گنبدِ خضریٰ جہاں کے انواروتجلیات، آنکھیں خیرہ نہیں کرتے بلکہ سیاہ خانۂ دل کو عشق وسرمستی کا ایک لطیف احساس بخشتے ہیں۔
میری آنکھوں کے سامنے تاریخ کے وہ اوراق پلٹنے لگے جو عشقِ رسول کی کیفیّتوں سے دمک رہے تھے، ان کیفیّتوں میں وہ کیفیّت بھی نظر آئی جو حضرت ادریس قرنیؒ پہ گذری تھی کہ جب آپ شوقِ زیارت کے لیے ضاضر ہوئے اور بابِ جبریل تک پہنچے ہی تھے کہ تب کسی نے کہہ دیا "دیکھیے وہ سامنے رسول اللہ کا مرقد ہے" یہ سننا تھا غش کھا کے گر پڑے اور ہوش آنے آنے پر کیا "مجھے ابھی واپس لے چلو جس شہر میں حبیبﷺ کے بجائے حبیبﷺ کی تربت ہو وہاں میں ایک لمحہ نہیں ٹھہرسکتا " پھر انھی نقوش میں امام مالکؒ کے نقوشِ محبّت مہکتے نظر آئے۔
وہ مدینے کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلتے تھے کہ کبھی ان گلیوں میں آقائےﷺ دو جہاں نے خرامِ ناز فرمایا تھا۔ تحریر کے ایک ایک لفظ سے دل ودماغ ہی نہیں روح تک سرشار ہوجاتی ہے۔
اقبال اکیڈمی لاہور کی سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین صاحبہ نے اقبالؒ کا نعمۂ شوق بھیجی تو میں نے چند نشستوں میں ہی ختم کر دی۔ علامہ اقبالؒ کے کلام میں جہاں علمی اور فکری گہرائی اور خیال کی وسعت اور بلندی بے مثال ہے وہاں ان کی شاعری کا فنی حسن بھی باکمال ہے، جس میں بلبل کا ترنّم، اور آبشاروں کی نغمگی بھی سنائی دیتی ہے اور سورج کی حرارت، چاند کی چاندنی، ستاروں کی جھملاہٹ بھی نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر بصیرہ نے علامہ کی شاعری کے تخلیقی اسلوب کا تجزیہ کیا ہے جس میں ان کے شعری محاسن کے فنّی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ اگرچہ خود شاعرِ مشرق کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندی میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
اور کئی شعروں میں تو اپنی بلند پایہ شاعری کو شاعری ہی نہیں مانتے، کہتے ہیں کہ مجھے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کسی ذریعۂ ابلاغ کی ضرورت تھی اور اس کے لیے مجھے شاعری کو ذریعۂ ابلاغ بنانا پڑا۔ مگر ادب اور شاعری کے بڑے بڑے نقّاد اعتراف کرتے ہیں کہ بلاشبہ اقبال کی شاعری الہامی ہے جس میں ایک ایک لفظ مناسب اور متناسب نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ یہ جڑے ہوئے نگینے آسمانوں سے اُترے ہیں۔
علّامہ نے بڑی مہارت سے تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے۔ مصنّفہ لکھتی ہیں اقبالؒ کی شاعری کی کارگاہ میں تشبیہہ ایک باضابطہ نظام کی حیثیت رکھتی ہے جس میں روایت وجدّت دونوں کا دلکش امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ شعر دیکھیے
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہہِ کامل نہ بن جائے
اس طرح کے سیکڑوں اشعار کلامِ اقبال میں ملتے ہیں۔
مصنّفہ لکھتی ہیں کہ استعاراتِ اقبال ان کے مشرقی ومغربی مطالعات کا دلکش اظہار ہے۔ فکری حوالے سے ان کے اشعاروں کے پس منظر میں اقبال کے باطنی سوزتیقن وتحریک، جگر سوزی اور حرارتِ عمل کے جذبوں کی سرشاری محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثلاً
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کرلیتا ہے یہ بال وپرِ روح الامیں پیدا
تو میری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
تیرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی!
علامہ رمز اور کنایہ سے بھی خوب کام لیتے ہیں۔
رنگ ہو یا خشت وسنگ، چنگ ہو یا حرف وصَوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
مصنّفہ اقبالؒ کے شعری آہنگ کے بارے میں لکھتی ہیں کہ
''یہ کہنا بیجا نہیں کہ علامہ اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی بحور اور اوزان ان کے فکروفلسفہ کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں جس سے آہنگ و نغمگی کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
وہ مے جس میں ہے سوزوزسازِازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازل
تمدن تصوّف شریعت تمام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے کلامِ اقبال کے فنی محاسن پر بلاشبہ ایک معیاری کتاب لکھی ہے جس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ انتظار حسین مرحوم کی خودنوشت خاصی دلچسپ ہے، کئی دوسرے ادیبوں نے اپنے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں یا اپنے ہم عصروں کے بارے میں لکھا، تو ان کی خامیاں اور کمینگیاں بے نقاب کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے مگر انتظار حسین نے دوسروں کی خامیاں اور خوبیاں اجاگر کی ہیں۔ ان کی تحریر ان کی اپنی شخصیّت کی طرح شائستہ اور شُستہ ہے۔ کتاب میں ایک جگہ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کا ہمارے اشتراکی اور لبرل ادیبوں کی اکثریت نے خیر مقدم کیا تھا۔
جنرل مشرّف کے مارشل لاء کا بھی لبرلز نے استقبال کیا تھا۔ ریٹائرڈ بریگیڈئر صولت رضا کی خودنوشت ڈیڑھ سو صفحات سے بھی کم ہے، ان کی نظریاتی سمت سے اتفاق ہے مگر ان کی کتاب نے اس تاثر کی تائید کی کہ فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے سرکاری پریس ریلز جاری کررہے ہوں۔ اگر وردی اتارنے کے بعد بھی اپنے ادارے کا ہر قیمت پر دفاع کرنے اور کسی غلطی کا اعتراف نہ کرنے کا تہیّہ کرلیا جائے تو پھر سچائی گم ہوجاتی ہے اور تحریر کا حسن گہنا جاتا ہے۔ (جاری ہے)
پسِ تحریر: ملک بھر میں بک فیئر ہوتے ہیں مگر پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ سب پر بازی لے گیا ہے۔ اس پر وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود مبارکباد کے مستحق ہیں۔
پچھلے چند مہینوں میں جو کتابیں پڑھ سکا، ان میں جناب الطاف حسین قریشی کی 'قافلے دل کے چلے'، ڈاکٹر بصیرہ عنبرین کی 'اقبال کا نغمۂ شوق'، جسٹس (ر)سیّد افضل حیدر کی جستجو، محترم نعیم صدیقی کی فکر اور قلم کا شاہکار ''محسنِ ِ انسانیّت ؐ''، محترم محمود شام کی 'روبرو' جناب انتظار حسین کی خودنوشت 'چراغوں کا دھواں'، بریگیڈیئر(ر) صولت رضا کی خودنوشت 'پیچ وتابِ زندگی' اور ڈاکٹر محمد صادق کی کتاب جسے ہمارے دوست ظفر حسن رضا نے 'بیسویں صدی کا اردو ادب'کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔
محترم الطاف حسن قریشی صاحب دنیائے صحافت کے بے تاج بادشاہ ہیں، وہ اس ملک میں ڈائجسٹ کلچر کے بانی، قلم کے مصوّر، رجحان ساز، استادوں کے استاد، trend setter اور ایک ایسے تربیّتی ادارے کی حیثیّت رکھتے ہیں جس نے سیکڑوں صحافی تیار کیے ہیں جن میں سے بیسیوں ماہناموں اور ہفت روزوں کے مدیر بنے۔
قریشی صاحب کو 1967میں حرمین شریفین کا پہلا سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ایک ایسا روحانی سفر تھا جس میں اُن کا دل میرِکارواں تھا، اس قلبی واردات اور تجربات کو قریشی صاحب نے اپنے قلم کی تمام تر بوقلمونیوں کے ساتھ قلمبند کیا ہے، ان کی تحریر کے ایک ایک فقرے سے ان کی مسرّت وانبساط کی شدت اور جذبوں کی وارفتگی جھلکتی ہے۔
قلم فاؤنڈیشن کے سربراہ علامہ عبدالستار عاصم صاحب نے جو کتاب بینی کو فروغ دینے کے جوش وجنون سے سرشار ہیں، قریشی صاحب کے اس سفرنامے کو 'قافلے دل کے چلے' کے نام سے ایک خوبصورت کتاب کی شکل دے دی ہے۔ ان کے مضامین کو الطاف صاحب کے پوتے ایقان حسن قریشی نے مرتّب کیا ہے۔
الطاف صاحب سرکارِ دوعالمؐ کی مرقد مبارک پر حاضری کا احوال اس طرح بیان کرتے ہیں۔ ''مجھے روضۂ محبوبِ خداﷺ کے اندر جانے کی سعادت نصیب ہوئی لیکن میں شافعﷺ محشر کا سامنا نہ کرسکا اور میرے ہوش وحواس جواب دے گئے۔ وہ کیا کیفیّت تھی، میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ گناہوں اور معصیّت سے بھری زندگی رحمۃللعَالمینؐ کے قدموں میں بڑی دیر تک تڑپتی اور سسکتی رہی، شرمندگی اور ندامت کے آنسوؤں سے پورا جسم تر ہوچکا تھا اور بندگی ایک ارتقائی منزل طے کر رہی تھی۔ واردات تھی یا ایک خواب تھا یا ایک بندۂ عاصی کی کیفیت کا اظہار تھا؟ جو کچھ بھی تھا ندامت اور شرمساری کا ایک ناقابلِ فراموش تجربہ تھا''۔
دربارِ الٰہی میں لاکھوں طلبگار اپنے خالق اور مالک سے کس طرح دعائیں اور التجائیں کرتے ہیں، اس کا نقشۂ اس طرح کھینچتے ہیں۔ ''لاکھوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھے تھے، محبّت کے شعلوں سے آہیں اٹھتی تھیں اور عشق کی آنکھ سے قطرے بہہ رہے تھے، کوئی کیا مانگ رہا ہے اس کا کسی کو ہوش نہیں تھا۔ چشم ہائے خوں بار میں کتنی ہی حکایتیں بھری ہوئی تھیں اور کانپتے ہونٹوں پہ ان گنت فسانے ادھورے رہ گئے تھے۔
گناہوں کی مغفرت طلبی کے بعد میرے ہونٹوں پہ جو دعا بے اختیار آئی، وہ یقیناً میری روح کے شعور سے ابھری تھی: ''اے خدا! پاکستان کو سب بلاؤں سے محفوظ رکھیو۔ یہ اسلام کی عظمت کا نشان ہے۔ اس پر اپنے انوارِ کرم کی بارش کر۔ تیرے دستِ فیض کی بخششوں کا کیا ٹھکانہ'' غلغلہ بلند ہوا تو میں نے یوں محسوس کیا جیسے فرشتے سدرۃالمنتہا کو اﷲ کے دیوانوں کے لیے خالی کررہے ہوں۔ پوری فضا پہ نور کی چادر تنی ہوئی تھی، عقیدت ومحبت اور عشق وستی کے اس سفر کا مسافر جب مدینہ منورہ پہنچتا ہے تو اس کی قلبی کیفیّت کیسی تھی اس کی ہلکی سی جھلک بھی دیکھ لیجیے۔
''تمام رات پہلو بدلتے گذری۔ نیند کیونکر آتی۔ میں اس شہر میں تھا جس کا حسین اور دلکش تصوّر میرے خوابوں میں رنگ بھرتا رہا ہے، جسے ایک نظر دیکھ لینے کا اضطراب دل کے اندر ایک شہرِ تمنّا بسائے ہوئے ہے۔
ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے ہلکی ہلکی چاندنی میں گنبدِ خضریٰ نظر آرہا تھا، وہی گنبدِ خضریٰ جس میں انسانِ کامل آرام فرما ہیں وہی گنبدِ خضریٰ جو ہماری تاریخ کا مرکز اور ہماری تہذیب کا محور ہے، وہی گنبدِ خضریٰ جہاں کے انواروتجلیات، آنکھیں خیرہ نہیں کرتے بلکہ سیاہ خانۂ دل کو عشق وسرمستی کا ایک لطیف احساس بخشتے ہیں۔
میری آنکھوں کے سامنے تاریخ کے وہ اوراق پلٹنے لگے جو عشقِ رسول کی کیفیّتوں سے دمک رہے تھے، ان کیفیّتوں میں وہ کیفیّت بھی نظر آئی جو حضرت ادریس قرنیؒ پہ گذری تھی کہ جب آپ شوقِ زیارت کے لیے ضاضر ہوئے اور بابِ جبریل تک پہنچے ہی تھے کہ تب کسی نے کہہ دیا "دیکھیے وہ سامنے رسول اللہ کا مرقد ہے" یہ سننا تھا غش کھا کے گر پڑے اور ہوش آنے آنے پر کیا "مجھے ابھی واپس لے چلو جس شہر میں حبیبﷺ کے بجائے حبیبﷺ کی تربت ہو وہاں میں ایک لمحہ نہیں ٹھہرسکتا " پھر انھی نقوش میں امام مالکؒ کے نقوشِ محبّت مہکتے نظر آئے۔
وہ مدینے کی گلیوں میں ننگے پاؤں چلتے تھے کہ کبھی ان گلیوں میں آقائےﷺ دو جہاں نے خرامِ ناز فرمایا تھا۔ تحریر کے ایک ایک لفظ سے دل ودماغ ہی نہیں روح تک سرشار ہوجاتی ہے۔
اقبال اکیڈمی لاہور کی سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر بصیرہ عنبرین صاحبہ نے اقبالؒ کا نعمۂ شوق بھیجی تو میں نے چند نشستوں میں ہی ختم کر دی۔ علامہ اقبالؒ کے کلام میں جہاں علمی اور فکری گہرائی اور خیال کی وسعت اور بلندی بے مثال ہے وہاں ان کی شاعری کا فنی حسن بھی باکمال ہے، جس میں بلبل کا ترنّم، اور آبشاروں کی نغمگی بھی سنائی دیتی ہے اور سورج کی حرارت، چاند کی چاندنی، ستاروں کی جھملاہٹ بھی نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر بصیرہ نے علامہ کی شاعری کے تخلیقی اسلوب کا تجزیہ کیا ہے جس میں ان کے شعری محاسن کے فنّی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ اگرچہ خود شاعرِ مشرق کسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندی میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے شاعری کیا ہے
اور کئی شعروں میں تو اپنی بلند پایہ شاعری کو شاعری ہی نہیں مانتے، کہتے ہیں کہ مجھے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کسی ذریعۂ ابلاغ کی ضرورت تھی اور اس کے لیے مجھے شاعری کو ذریعۂ ابلاغ بنانا پڑا۔ مگر ادب اور شاعری کے بڑے بڑے نقّاد اعتراف کرتے ہیں کہ بلاشبہ اقبال کی شاعری الہامی ہے جس میں ایک ایک لفظ مناسب اور متناسب نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ یہ جڑے ہوئے نگینے آسمانوں سے اُترے ہیں۔
علّامہ نے بڑی مہارت سے تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا ہے۔ مصنّفہ لکھتی ہیں اقبالؒ کی شاعری کی کارگاہ میں تشبیہہ ایک باضابطہ نظام کی حیثیت رکھتی ہے جس میں روایت وجدّت دونوں کا دلکش امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ شعر دیکھیے
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہہِ کامل نہ بن جائے
اس طرح کے سیکڑوں اشعار کلامِ اقبال میں ملتے ہیں۔
مصنّفہ لکھتی ہیں کہ استعاراتِ اقبال ان کے مشرقی ومغربی مطالعات کا دلکش اظہار ہے۔ فکری حوالے سے ان کے اشعاروں کے پس منظر میں اقبال کے باطنی سوزتیقن وتحریک، جگر سوزی اور حرارتِ عمل کے جذبوں کی سرشاری محسوس کی جاسکتی ہے۔ مثلاً
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کرلیتا ہے یہ بال وپرِ روح الامیں پیدا
تو میری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
تیرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی!
علامہ رمز اور کنایہ سے بھی خوب کام لیتے ہیں۔
رنگ ہو یا خشت وسنگ، چنگ ہو یا حرف وصَوت
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
مصنّفہ اقبالؒ کے شعری آہنگ کے بارے میں لکھتی ہیں کہ
''یہ کہنا بیجا نہیں کہ علامہ اقبال کا امتیاز یہ ہے کہ ان کی بحور اور اوزان ان کے فکروفلسفہ کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں جس سے آہنگ و نغمگی کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔
وہ جوئے کہستاں اچکتی ہوئی
اٹکتی، لچکتی، سرکتی ہوئی
وہ مے جس میں ہے سوزوزسازِازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے رازِ ازل
تمدن تصوّف شریعت تمام
بتانِ عجم کے پجاری تمام
ڈاکٹر بصیرہ عنبرین نے کلامِ اقبال کے فنی محاسن پر بلاشبہ ایک معیاری کتاب لکھی ہے جس پر وہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔ انتظار حسین مرحوم کی خودنوشت خاصی دلچسپ ہے، کئی دوسرے ادیبوں نے اپنے ہم عصر ادیبوں اور شاعروں یا اپنے ہم عصروں کے بارے میں لکھا، تو ان کی خامیاں اور کمینگیاں بے نقاب کرنے پر زیادہ توجہ دی ہے مگر انتظار حسین نے دوسروں کی خامیاں اور خوبیاں اجاگر کی ہیں۔ ان کی تحریر ان کی اپنی شخصیّت کی طرح شائستہ اور شُستہ ہے۔ کتاب میں ایک جگہ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کا ہمارے اشتراکی اور لبرل ادیبوں کی اکثریت نے خیر مقدم کیا تھا۔
جنرل مشرّف کے مارشل لاء کا بھی لبرلز نے استقبال کیا تھا۔ ریٹائرڈ بریگیڈئر صولت رضا کی خودنوشت ڈیڑھ سو صفحات سے بھی کم ہے، ان کی نظریاتی سمت سے اتفاق ہے مگر ان کی کتاب نے اس تاثر کی تائید کی کہ فوجی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسے لکھتے ہیں جیسے سرکاری پریس ریلز جاری کررہے ہوں۔ اگر وردی اتارنے کے بعد بھی اپنے ادارے کا ہر قیمت پر دفاع کرنے اور کسی غلطی کا اعتراف نہ کرنے کا تہیّہ کرلیا جائے تو پھر سچائی گم ہوجاتی ہے اور تحریر کا حسن گہنا جاتا ہے۔ (جاری ہے)
پسِ تحریر: ملک بھر میں بک فیئر ہوتے ہیں مگر پنجاب یونیورسٹی کا کتاب میلہ سب پر بازی لے گیا ہے۔ اس پر وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود مبارکباد کے مستحق ہیں۔