خواتین کا عالمی دن اور انگارے والی
اردو میں ترقی پسند فکر کا آغاز جن تین افراد کے نام اور کام سے ہوتا ہے، ان میں سے ایک رشیدہ آپا تھیں
حمزہ خلیق صاحبہ پر میرا ایک کالم شایع ہونے کے بعد امریکا سے ایک صاحب کا فون آیا اوروہ آٹھ مارچ کے حوالے سے اپنا شکوہ بیان کرنے لگے۔
ان کاکہنا تھا کہ آٹھ مارچ کے جلسے جلوس کو منسوخ کرنے کے لیے آپ کے ہاں مقدمے دائر ہورہے ہیں اور آپ نے اس موقع پر ڈاکٹر رشید جہاں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا جب کہ سب سے پہلا حق تو ان کا بنتا ہے۔
میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ یہ کسی خاص وجہ سے نہیں ہوا بلکہ سہوا ہوا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ڈاکٹر رشید جہاں کو عصمت چغتائی اپنا رہنما مانتی تھیں، اب میری کیا مجال کہ انھیں بھلاسکوں۔ہندوستان میں ان پر بہت کام ہوا ہے اردو، ہندی ،بنگلہ ، انگریزی اور دیگر زبانوں میں اور پاکستان میں بھی حمیرا اشفاق اور شکیلہ رفیق نے ان پر کام کیا ہے۔
ان یادوں نے مجھ پر اس وقت ہجوم کیا جب کراچی میں ڈاکٹررشید جہاں کی زندگی اور ان کی تحریروں کے لیے ایک محفل مخصوص کی گئی تھی۔ دلی میں رہنے والی اور انگریزی میں اردو ادب اور ادیبوں پر کام کرنے والی ڈاکٹر رخشندہ جلیل کی کتاب ' اے'ریبل اینڈ ہر کاز( ایک باغی اور ان کا مقصد حیات)پر گفتگو کے لیے تیس منٹ رکھے گئے ۔رخشندہ ایک ادارے ' ہندوستانی آواز' کی بنیاد گزار بھی ہیں۔
مجھے قدرے حیرت بھی ہوئی کہ رخشندہ جلیل کا میرے سوا کسی نے ذکر نہیں کیا ، شاید وقت اتنا کم تھا کہ سب لوگ جلدی جلدی اپنی بات کہہ دینا چاہتے تھے ۔سچ تو یہی ہے کہ تیس منٹ میں ایک ایسی عورت کے بارے میں بات کیسے کی جاسکتی تھی جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر، ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی رکن' ترقی پسند مصنفین کی بنیاد گزاروں میں سے ایک 'انگارے ' جیسے ہنگامہ خیز افسانوں کے مجموعے کی شریک مصنف، جس کے نام پر منبر و محراب سے دشنام طرازی کی گئی ۔
یہ عورت فاشزم اور امپریل ازم کے خلاف تھی' اس دور میں فیمنزم ' نیشنل ازم' سوشل ازم اور صنفی انصاف کی بات کرتی تھی،جس نے 1933 ء میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت اس وقت اختیار کی تھی جب بہت سے پڑھے لکھے اور سیاسی شعور رکھنے والے مردوں کو اس خیال سے ہی پسینہ آجاتا تھا ۔ وہ رشیدہ آپا کے نام سے مشہور ہوئیں۔
انھوں نے رومانوی شاعری کرنے والے فیض کا رشتہ انقلاب اور ترقی پسند تحریک سے جوڑااور ان کے بعد آنے والی عصمت چغتائی نے بارہا یہ کہا کہ اگر رشیدہ آپا نہ ہوتیں، تو ان کے بعد آنے والیاں اپنی تحریروں میں اس جرات اور روشن خیالی کا مظاہرہ نہ کرسکتی تھیں۔
الہٰ آباد یونیورسٹی سے ڈاکٹر رشید جہاں پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والی ڈاکٹر شاہدہ بانو نے ان کے بھائی محسن عبداللہ، سید سبط حسن اور کیفی اعظمی سے انٹرویو کیے اور پھر رشیدہ آپا کے بارے میں لکھا کہ انگارے میںان کی تخلیقات کی شمولیت، ان کے اندر عورتوں پر ظلم ہونے کے خلاف جو جذبہ لہریں مار رہا تھا، اس کا تو اظہار کرتا ہی ہے،ساتھ ہی ان کی بے خوفی اور بے باکی کا بھی اظہار کرتا ہے ۔ا س بے خوفی نے انھیں اس وقت مزید امتحان میں ڈالا جب 'انگارے' میں شامل مرد افسانہ نگاروں کے خلاف کم رشیدہ جہاں کے خلاف زیادہ آگ اگلی گئی۔
رشید جہاں انگارے والی کے خلاف جس طرح مسلمانوں میں چرچے تھے اور جس طرح ان کو ناک ،کان کاٹنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں ، عام عورت ہوتی تو خوف سے معافی مانگ لیتی یا گوشہ نشین ہوجاتی ۔ پر وہ تو رشید جہاں تھیں جو محض ستائیس سال کی عمر میں جرات' ہمت' صبر و استقلال ، بے خوفی اور بے باکی کا پیکر بن کر ایک تجربہ کار اور نڈر عورت کی طرح اس طوفان کو ہنستے کھیلتے جھیل گئیں۔
اس مسکراہٹ کے پس پردہ ان کے ذہن میں اس وقت کے معاشرے کی کمزوریاں' جہالت، توہم پرستی وغیرہ کام کررہی تھی' اسی لیے وہ پورے اعتماد سے اپنے ساتھیوں سے کہتیں کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ' انگارے' پر ہونے والے ہنگامے نے ان کے نظریات اور خیالات کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کو بھی مضبوط کیا۔
اردو میں ترقی پسند فکر کا آغاز جن تین افراد کے نام اور کام سے ہوتا ہے ، ان میں سے ایک رشیدہ آپا تھیں۔رخشندہ جلیل کی کتاب کا ابتدائیہ سلمان حیدر نے لکھا ہے جو ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ رہ چکے ہیں، رشیدہ آپا ان کی والدہ کی سب سے بڑی بہن تھیں۔انھوں نے ذاتی اور سماجی حوالے سے اپنی اس بڑی خالہ کو یاد کیا ہے اور لکھا ہے کہ برطانوی حکومت نے بہت خوب کیا کہ 'انگارے' پر پابندی عائد کردی اور اس طرح یہ کتاب اس دور کے اردو ادب میں ایک مستقل مقام حاصل کر گئی ۔
سلمان حیدر کی تحریرسے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ڈاکٹر رشیدجہاں ' آج بھی مسلم سماج میں کس طرح قابلِ گردن زنی ہیں کہ جب 2005میں کچھ لوگوں نے ان کی صدی منانے کی تجویز پیش کی تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس وقت وائس چانسلر نے ان کی صدی تقریبات پر پابندی عائد کردی۔انھیں خوف تھا کہ اس قدر نڈر اور متنازعہ شخصیت کی یاد منانے پر ہنگامہ مچ جائے گا اور احتجاج شروع ہوجائے گا۔
رشیدجہاں ایک ایسا نام ہیں جن سے اردو میںترقی پسند تحریک کا آغاز ہوتاہے۔ وہ ان میں سے ہیں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے تاسیسی اجلاس میں وہ تمام انتظام و انصرام کرتی نظر آتی ۔ لاہور سے وہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو انجمن کے جلسے میں شریک ہونے پر رضا مند کرلیتی ہیں ۔ لکھنؤ سے چوہدری محمد علی ردولوی کے علاوہ مولوی عبدالحق، دیانرائن نگم اور منشی پریم چند جیسا مشہور لکھنے والا ان کی مدلل گفتگوکے زیر اثر انجمن کے مقاصد سے متفق ہوجاتا ہے اور انجمن کے تاسیسی اجلاس میں شرکت کی ان کی دعوت قبول کرلیتا ہے۔
وہ ڈاکٹر تھیں، ان کے پیشے نے انھیں ہندوستانی عورت کے دکھ درد کو سمجھنے ، اس کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف قلم اٹھانے پر اکسایا ۔ کمیونسٹ پارٹی کارکن ہونے کے سبب انھوں نے جیل کاٹی،غریب بستیوں میں کام کرنے کو اپنا فرض جانا، پارٹی کے اخبار 'چنگاری' کے لیے کمر کس کر لکھتی رہیں، جھونپڑ پٹی کے بچوں کو سمیٹ کر انھیں پڑھنا لکھنا سکھاتی رہیں۔
انھوں نے 47برس کی عمر پائی لیکن ان کی انسان دوستی، ان کے خلوص،اور ان کی با وقار شخصیت کے سامنے اس دور کے مشہور اور بڑے نام بھی سر جھکاتے تھے۔ ان کے بارے میں آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ '' میں نے جوش کو رندی میں رشید جہاں کے سامنے ہوشیار اور باادب پایا اور جگر کی زبان سے بارہا ان کی تعریف سنی ہے ۔ مذہب' ملت' اور ذات پات سے بلند اس پیکرمہر و وفا کے لیے میں نے مذہب کے عالموں اوردہریت کے پرستاروں کو متفقہ طور پر ثنا خواں پایا جو ان سے سخت اختلاف رکھتے تھے ، وہ بھی ان کے احترام پر مجبور ہوتے تھے ۔''
کینسر نے انھیں جیل میں شکار کیا ۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کے پاس مہلت زندگی کم ہے، اس کے باوجود جیل سے باہر آکر بھی انھوں نے اپنی زندگی کی طرف کم ہی توجہ دی۔ آخری سانسیں انھوں نے ماسکو کے ایک اسپتال میں لیں' وہیں کے ایک قبرستان میں دفن ہوئیں جہاں ان کے لوح مزار پر کندہ ہے ۔'کمیونسٹ ڈاکٹر، لکھنے والی۔ان کا انتقال ہوا تو فیض جیل میں تھے ۔
رشید جہاں کی باتیں ان کا جہان بدل گئی تھیں۔اگر ان کی ملاقات رشید جہاں سے نہ ہوتی تو شاید اردو ادب ایک انقلابی شاعر کے وجود سے محروم رہتا۔فیض نے ایلس کو لکھا ''رشیدہ کے ماسکو میں مرنے کی خبر کل پڑھی۔ اگر میںجیل سے باہر ہوتا تو شاید زار و قطار رو تا لیکن اب تو رونے کو آنسو ہی باقی نہیں رہے۔
افسوس کہ موت کے خلاف ان کی طویل جنگ اتنی جلد ختم ہوگئی۔ ان کے جانے سے ہمار ے بر صغیر سے نیکی اور انسان دوستی کی بہت بڑی دولت چھن گئی اور ان کے دوستوںکی محرومی کا کیا کہیے جن کی زندگیاں ان کے ایثار و مروت سے اس قدر آسودہ اور مزین ہوئیں۔'' رشیدہ آپا کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ' خوش و خرسند' ولے شعلۂ مستعجل بود، خواتین کا عالمی دن منایا جائے اور رشید جہاں ' انگارے والی ' کو یاد نہ کیا یہ کیسے ممکن ہے؟
ان کاکہنا تھا کہ آٹھ مارچ کے جلسے جلوس کو منسوخ کرنے کے لیے آپ کے ہاں مقدمے دائر ہورہے ہیں اور آپ نے اس موقع پر ڈاکٹر رشید جہاں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا جب کہ سب سے پہلا حق تو ان کا بنتا ہے۔
میں نے ان سے معذرت کی اور کہا کہ یہ کسی خاص وجہ سے نہیں ہوا بلکہ سہوا ہوا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ ڈاکٹر رشید جہاں کو عصمت چغتائی اپنا رہنما مانتی تھیں، اب میری کیا مجال کہ انھیں بھلاسکوں۔ہندوستان میں ان پر بہت کام ہوا ہے اردو، ہندی ،بنگلہ ، انگریزی اور دیگر زبانوں میں اور پاکستان میں بھی حمیرا اشفاق اور شکیلہ رفیق نے ان پر کام کیا ہے۔
ان یادوں نے مجھ پر اس وقت ہجوم کیا جب کراچی میں ڈاکٹررشید جہاں کی زندگی اور ان کی تحریروں کے لیے ایک محفل مخصوص کی گئی تھی۔ دلی میں رہنے والی اور انگریزی میں اردو ادب اور ادیبوں پر کام کرنے والی ڈاکٹر رخشندہ جلیل کی کتاب ' اے'ریبل اینڈ ہر کاز( ایک باغی اور ان کا مقصد حیات)پر گفتگو کے لیے تیس منٹ رکھے گئے ۔رخشندہ ایک ادارے ' ہندوستانی آواز' کی بنیاد گزار بھی ہیں۔
مجھے قدرے حیرت بھی ہوئی کہ رخشندہ جلیل کا میرے سوا کسی نے ذکر نہیں کیا ، شاید وقت اتنا کم تھا کہ سب لوگ جلدی جلدی اپنی بات کہہ دینا چاہتے تھے ۔سچ تو یہی ہے کہ تیس منٹ میں ایک ایسی عورت کے بارے میں بات کیسے کی جاسکتی تھی جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر، ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کی رکن' ترقی پسند مصنفین کی بنیاد گزاروں میں سے ایک 'انگارے ' جیسے ہنگامہ خیز افسانوں کے مجموعے کی شریک مصنف، جس کے نام پر منبر و محراب سے دشنام طرازی کی گئی ۔
یہ عورت فاشزم اور امپریل ازم کے خلاف تھی' اس دور میں فیمنزم ' نیشنل ازم' سوشل ازم اور صنفی انصاف کی بات کرتی تھی،جس نے 1933 ء میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت اس وقت اختیار کی تھی جب بہت سے پڑھے لکھے اور سیاسی شعور رکھنے والے مردوں کو اس خیال سے ہی پسینہ آجاتا تھا ۔ وہ رشیدہ آپا کے نام سے مشہور ہوئیں۔
انھوں نے رومانوی شاعری کرنے والے فیض کا رشتہ انقلاب اور ترقی پسند تحریک سے جوڑااور ان کے بعد آنے والی عصمت چغتائی نے بارہا یہ کہا کہ اگر رشیدہ آپا نہ ہوتیں، تو ان کے بعد آنے والیاں اپنی تحریروں میں اس جرات اور روشن خیالی کا مظاہرہ نہ کرسکتی تھیں۔
الہٰ آباد یونیورسٹی سے ڈاکٹر رشید جہاں پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے والی ڈاکٹر شاہدہ بانو نے ان کے بھائی محسن عبداللہ، سید سبط حسن اور کیفی اعظمی سے انٹرویو کیے اور پھر رشیدہ آپا کے بارے میں لکھا کہ انگارے میںان کی تخلیقات کی شمولیت، ان کے اندر عورتوں پر ظلم ہونے کے خلاف جو جذبہ لہریں مار رہا تھا، اس کا تو اظہار کرتا ہی ہے،ساتھ ہی ان کی بے خوفی اور بے باکی کا بھی اظہار کرتا ہے ۔ا س بے خوفی نے انھیں اس وقت مزید امتحان میں ڈالا جب 'انگارے' میں شامل مرد افسانہ نگاروں کے خلاف کم رشیدہ جہاں کے خلاف زیادہ آگ اگلی گئی۔
رشید جہاں انگارے والی کے خلاف جس طرح مسلمانوں میں چرچے تھے اور جس طرح ان کو ناک ،کان کاٹنے کی دھمکیاں دی جارہی تھیں ، عام عورت ہوتی تو خوف سے معافی مانگ لیتی یا گوشہ نشین ہوجاتی ۔ پر وہ تو رشید جہاں تھیں جو محض ستائیس سال کی عمر میں جرات' ہمت' صبر و استقلال ، بے خوفی اور بے باکی کا پیکر بن کر ایک تجربہ کار اور نڈر عورت کی طرح اس طوفان کو ہنستے کھیلتے جھیل گئیں۔
اس مسکراہٹ کے پس پردہ ان کے ذہن میں اس وقت کے معاشرے کی کمزوریاں' جہالت، توہم پرستی وغیرہ کام کررہی تھی' اسی لیے وہ پورے اعتماد سے اپنے ساتھیوں سے کہتیں کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ' انگارے' پر ہونے والے ہنگامے نے ان کے نظریات اور خیالات کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کو بھی مضبوط کیا۔
اردو میں ترقی پسند فکر کا آغاز جن تین افراد کے نام اور کام سے ہوتا ہے ، ان میں سے ایک رشیدہ آپا تھیں۔رخشندہ جلیل کی کتاب کا ابتدائیہ سلمان حیدر نے لکھا ہے جو ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ رہ چکے ہیں، رشیدہ آپا ان کی والدہ کی سب سے بڑی بہن تھیں۔انھوں نے ذاتی اور سماجی حوالے سے اپنی اس بڑی خالہ کو یاد کیا ہے اور لکھا ہے کہ برطانوی حکومت نے بہت خوب کیا کہ 'انگارے' پر پابندی عائد کردی اور اس طرح یہ کتاب اس دور کے اردو ادب میں ایک مستقل مقام حاصل کر گئی ۔
سلمان حیدر کی تحریرسے ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ڈاکٹر رشیدجہاں ' آج بھی مسلم سماج میں کس طرح قابلِ گردن زنی ہیں کہ جب 2005میں کچھ لوگوں نے ان کی صدی منانے کی تجویز پیش کی تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اس وقت وائس چانسلر نے ان کی صدی تقریبات پر پابندی عائد کردی۔انھیں خوف تھا کہ اس قدر نڈر اور متنازعہ شخصیت کی یاد منانے پر ہنگامہ مچ جائے گا اور احتجاج شروع ہوجائے گا۔
رشیدجہاں ایک ایسا نام ہیں جن سے اردو میںترقی پسند تحریک کا آغاز ہوتاہے۔ وہ ان میں سے ہیں کہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے تاسیسی اجلاس میں وہ تمام انتظام و انصرام کرتی نظر آتی ۔ لاہور سے وہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو انجمن کے جلسے میں شریک ہونے پر رضا مند کرلیتی ہیں ۔ لکھنؤ سے چوہدری محمد علی ردولوی کے علاوہ مولوی عبدالحق، دیانرائن نگم اور منشی پریم چند جیسا مشہور لکھنے والا ان کی مدلل گفتگوکے زیر اثر انجمن کے مقاصد سے متفق ہوجاتا ہے اور انجمن کے تاسیسی اجلاس میں شرکت کی ان کی دعوت قبول کرلیتا ہے۔
وہ ڈاکٹر تھیں، ان کے پیشے نے انھیں ہندوستانی عورت کے دکھ درد کو سمجھنے ، اس کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف قلم اٹھانے پر اکسایا ۔ کمیونسٹ پارٹی کارکن ہونے کے سبب انھوں نے جیل کاٹی،غریب بستیوں میں کام کرنے کو اپنا فرض جانا، پارٹی کے اخبار 'چنگاری' کے لیے کمر کس کر لکھتی رہیں، جھونپڑ پٹی کے بچوں کو سمیٹ کر انھیں پڑھنا لکھنا سکھاتی رہیں۔
انھوں نے 47برس کی عمر پائی لیکن ان کی انسان دوستی، ان کے خلوص،اور ان کی با وقار شخصیت کے سامنے اس دور کے مشہور اور بڑے نام بھی سر جھکاتے تھے۔ ان کے بارے میں آل احمد سرور نے لکھا ہے کہ '' میں نے جوش کو رندی میں رشید جہاں کے سامنے ہوشیار اور باادب پایا اور جگر کی زبان سے بارہا ان کی تعریف سنی ہے ۔ مذہب' ملت' اور ذات پات سے بلند اس پیکرمہر و وفا کے لیے میں نے مذہب کے عالموں اوردہریت کے پرستاروں کو متفقہ طور پر ثنا خواں پایا جو ان سے سخت اختلاف رکھتے تھے ، وہ بھی ان کے احترام پر مجبور ہوتے تھے ۔''
کینسر نے انھیں جیل میں شکار کیا ۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کے پاس مہلت زندگی کم ہے، اس کے باوجود جیل سے باہر آکر بھی انھوں نے اپنی زندگی کی طرف کم ہی توجہ دی۔ آخری سانسیں انھوں نے ماسکو کے ایک اسپتال میں لیں' وہیں کے ایک قبرستان میں دفن ہوئیں جہاں ان کے لوح مزار پر کندہ ہے ۔'کمیونسٹ ڈاکٹر، لکھنے والی۔ان کا انتقال ہوا تو فیض جیل میں تھے ۔
رشید جہاں کی باتیں ان کا جہان بدل گئی تھیں۔اگر ان کی ملاقات رشید جہاں سے نہ ہوتی تو شاید اردو ادب ایک انقلابی شاعر کے وجود سے محروم رہتا۔فیض نے ایلس کو لکھا ''رشیدہ کے ماسکو میں مرنے کی خبر کل پڑھی۔ اگر میںجیل سے باہر ہوتا تو شاید زار و قطار رو تا لیکن اب تو رونے کو آنسو ہی باقی نہیں رہے۔
افسوس کہ موت کے خلاف ان کی طویل جنگ اتنی جلد ختم ہوگئی۔ ان کے جانے سے ہمار ے بر صغیر سے نیکی اور انسان دوستی کی بہت بڑی دولت چھن گئی اور ان کے دوستوںکی محرومی کا کیا کہیے جن کی زندگیاں ان کے ایثار و مروت سے اس قدر آسودہ اور مزین ہوئیں۔'' رشیدہ آپا کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ' خوش و خرسند' ولے شعلۂ مستعجل بود، خواتین کا عالمی دن منایا جائے اور رشید جہاں ' انگارے والی ' کو یاد نہ کیا یہ کیسے ممکن ہے؟