آصف زرداری ۔ مرد مفاہمت

ایک معروف محاورے کے مطابق ان کے بیچ سے ہوا کا گزر بھی مشکل نظر آتا ہے

atharqhasan@gmail.com

سیاست میں انہونیاں ہوتی رہتی ہیں اور پاکستانی سیاست میں توکچھ زیادہ ہی ہوتی ہیں، اس سے بڑی انہونی کیا ہو گی کہ کل کے سیاسی حریف آج حلیف بن کر مشترکہ حکمران بن چکے ہیں اور باہم شیرو شکر ہیں۔

ایک معروف محاورے کے مطابق ان کے بیچ سے ہوا کا گزر بھی مشکل نظر آتا ہے۔ میاں شہباز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم کے منصب جلیلہ پر فائز ہو چکے ہیں جب کہ آصف علی زرداری صدر پاکستان کا حلف اٹھا چکے ہیں۔

حقیقت میں یہ آگ اور پانی کا ملاپ دکھائی دے رہا ہے، سب کو معلوم ہے کہ غیر قدرتی ملاپ زیادہ پائیدار ہر گز نہیں ہوتا، پانی آگ کو بجھا دیتا ہے لیکن آگ کا پھیلاؤ بڑھ جائے تو وہ پانی کوکھا جاتی ہے۔ یہ غیر قدرتی ملاپ کیسے وجود میں آیا ہے اس کی ایک ہی وجہ سامنے آئی ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کا مشترکہ سیاسی حریف عمران خان تاحال ان کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔

وہ جیل میں قید ہے لیکن اس کی پارٹی نے انتخابی نشان کے بغیر الیکشن میں حصہ لیا اور سب کو حیران کردیا ہے، وہ قومی اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن گئی جب کہ خیبرپختونخوا میں مسلسل تیسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ۔ چشم فلک پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں کیا کیا نظارے دکھا رہی ہے اور یہ نظارے دیکھنے والے بھی حیران و پریشان نظر آتے ہیں کہ میاں نوازشریف کی جماعت آصف علی زرداری کی کامیابی کے لیے ووٹ اکٹھے کرتی رہی ہے۔

حالیہ الیکشن کے بعد سیاسی کشمکش ختم نہیں ہوئی بلکہ ماضی کی طرح ہی جاری ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت وجود میں آچکی ہے،جسے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی حمایت حاصل ہے تو دوسری جانب اس حکومت کی واحد اپوزیشن سنی اتحاد کونسل ہے، جس میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان اسمبلی شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

وہ حکومت کے قیام کو ماننے سے مسلسل انکاری ہے اور اس پر اپنا مینڈیٹ چوری کرنے کا الزام لگا رہی ہے جس کے خلاف وہ الیکشن کمیشن میں انتخابی عذرداریاں بھی داخل کر چکی ہے اور ہر آئینی فورم پر اپیلیں بھی دائر کی جارہی ہیں۔

اسمبلیوں میں احتجاج الگ چل رہا ہے اور اپوزیشن کے بعض رہنماء تو یہ تک کہتے پائے گئے ہیں وہ ان اسمبلیوں کی کارروائی چلنے نہیں دیں گے، کیونکہ اسمبلیوں کے اندر احتجاج ان کا آئینی حق ہے اور وہ اس حق کا استعمال کریں گے۔ حکومت کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں ایک تگڑی اپوزیشن کا سامنا ہے جو حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتی رہے گی ۔

اسی سیاسی کشمکش میں پیپلز پارٹی نے اپنی سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے آئینی عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے اور جناب آصف علی زرداری جن کو مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے ، دوسری بار ملک کے صدر بن چکے ہیں۔


معاشی حالات کو مد نظر رکھ کر بات کی جائے تو ملک کو آج جس قدر باہمی مفاہمت کی اس وقت ضرورت ہے، ماضی میں نہیں رہی تھی۔ قوم کے اندر جس طرح تصادم ، باہمی عناد اور شدید اختلاف کوپیدا کر دیا گیا ہے، وہ اس قوم کی بقا کے لیے جان لیوا ہو سکتے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ جناب آصف زرداری کا بطور صدر انتخاب اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ اپنے مشہور زمانہ مفاہمتی کردار اور پالیسی کو بروئے کار لاکر ملکی سیاسی فضا میں تلخی کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔

پاکستانی کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر وہ حکمران چاہے وہ سویلین ہو یا فوجی اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے مخالفین کو کچلنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی راہوں میں کانٹے کوئی اور بچھاتا ہے اور چننے کسی اور کو پڑتے ہیں۔

جناب آصف زرداری ایسے کانٹے چننے کے ماہر ہیں، وہ ایک ایسے سیاسی رہنماء ہیں جن کے ہاںسیاسی جمود نہیں ہے، وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف اور ان کا ازالہ کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے ہیں۔

قوم کو یاد ہو گا کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد وفاق کے استحکام کے لیے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا تھااور اس عزم کا اعلان کیا تھا کہ وفاق کی زنجیر کو ٹوٹنے نہیں دیا جائے گا۔ انھوں نے پاکستانیت سے بھرے اعلانات کیے اور اس وقت غمزدہ کارکنوں کو یاد دلایا کہ ان کی قائد ملک کے وفاق کے لیے قربان ہوئی ہیں۔

آصف زرداری کے بطور صدر مملکت انتخاب کے بعد یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ وہ جلد ہی ملک میں مفاہمتی سیاست کا آغاز کریں گے اور آنے والے دنوں میں ایوان صدر مفاہمتی سیاست کا ایوان بن جائے گا۔ آصف علی زرداری سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں، انھوں نے جیلیں اور جلاوطنیاں کاٹی ہیں، ان کو سیاسی میدان کی مصیبتوں کا ادراک ہے۔

ان سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ میں نہ مانوں کی رٹ لگائے عمران خان کو قومی سیاسی دھارے میں لانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، اس کے لیے ان کی پس پردہ کوششیں حکومت کے قیام سے قبل ہی جاری ر ہیں لیکن تحریک انصاف کی جانب سے شاید سیاسی نقصان اور عوامی ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بیل منڈے نہ چڑھ سکی، اب بھی اگر وہ تحریک انصاف کو ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ ان کی مفاہمتی پالیسی کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔

آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کی معیشت کی بحالی کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتیں میثاق مفاہمت کر لیں تا کہ ملک کی معیشت کا پہیہ چل سکے۔ سیاست توگھر کی لونڈی ہے وہ بعد میں ہوتی رہے گی اور بقول شاعر''ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں''والا معاملہ ہے۔

گزارش ہی کی جا سکتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماء اپنی اپنی انا کے خول سے باہر نکل کر قومی مفاہمت پر متفق ہو جائیں۔ اگر جناب صدر پاکستان بچاؤ مشن میں کامیاب ہو جاتے ہیںتو آج کے حالات میں یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہو گی۔مرد مفاہمت کا خطاب تو وہ پہلے ہی پا چکے ہیں لیکن ریاست کے مفاد میںجس قدر مفاہمت کی آج ضرورت ہے، وہ شاید پہلے کبھی نہ تھی ۔ قوم زرداری صاحب کے لیے دعا گو ہے۔
Load Next Story