صدر زرداری کے عہدہ سنبھالتے ہی اردو یونیورسٹی کا سلیکشن بورڈ کالعدم کردیا گیا نوٹیفکیشن جاری
سابق وائس چانسلر کے دور میں کی گئیں تمام ترقیاں، تقرریاں، مستقلی اور نئے عہدوں کی تخلیق بھی کالعدم کر دی گئی ہے
وفاقی اردو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اپنے نئے چانسلر صدرآصف علی زرداری کی جانب سے صدر مملکت کا منصب سنبھالتے ہی اساتذہ کی بھرتیاں اور ترقیاں کالعدم کردیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اس سلسلے میں یونیورسٹی کی سینیٹ کے مبہم اور غیر تصدیق شدہ فیصلے کا سہارا لیتے ہوئے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالدین کے دور میں منعقدہ سلیکشن بورڈ کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر سابق وائس چانسلر کے دور میں کی گئیں تمام ترقیاں، تقرریاں، مستقلی(ریگولرائزیشن) اور نئے عہدوں کی تخلیق بھی کالعدم کر دی گئی ہے۔
سینیٹ کمیٹی کی سفارش پر سابق وائس چانسلر کے دور میں نئے مستقل اساتذہ کی جاری کی گئیں تنخواہیں روکے جانے کا بھی امکان ہے، اس سلسلے میں اردو یونیورسٹی کے سابق دور سے چلے آرہے موجودہ قائم مقام رجسٹرار کی جانب سے کئی نوٹیفکیشنز جاری کر دیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ان مختلف نوٹیفیکیشنز کے اجرا سے اردو یونیورسٹی میں اساتذہ اور ملازمین میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے اور اساتذہ یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ سابق انتظامیہ کے افسران نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کو ادھوری حقیقت یا تصویر کا محض ایک رخ دکھا کر فیصلے کروا رہے ہیں۔
ادھر یونیورسٹی کے ایک سینیئر فرحان شفیق نے ان متعلقہ نوٹیفکیشنز پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار کو ایک خط کے ذریعے باور کرایا ہے کہ سینیٹ کی منظوری کے تذکرے کے ساتھ جو تین مختلف خطوط سامنے آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی فیصلہ سینیٹ کے 50ویں اجلاس میں نہیں ہوا اور سینیٹ سے غلط فیصلے کو منسوب کیا جا رہا ہے۔
بتایا جا رہا ہے اس طرح کے مزید خطوط کے اجرا کا بھی امکان ہے جس کے بعد موجودہ انتظامیہ کی جانب سے نکالے گئے خطوط کی حیثیت مزید مشکوک ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ قائم مقام رجسٹرار کی جانب سے جو خطوط جاری کیے گئے ہیں، ان کے مطابق سال 2017 کے جاری اشتہار کے ذیل میں 8 اور 9 ستمبر کو منعقدہ سلیکشن بورڈ کو کالعدم کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں سینیٹ کے 50ویں اجلاس میں پیش کردہ رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ادھر بتایا جا رہا ہے کہ یہ رپورٹ 20 فروری 2024 کو منعقدہ سینیٹ کے اجلاس میں بحث کے لیے پیش کی گئی تھی تو اس پر کئی سینیٹرز نے اعتراض کیا تھا کہ جب رپورٹ انھیں شیئر ہی نہیں کی گئی تو اس پر بحث کیسی، جس پر اس وقت کے چیئرمین سینیٹ صدر مملکت نے ناگواری کا اظہار کیا تھا اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ اسے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ موجودہ نئے وائس چانسلر کو اس سلسلے میں سینیٹ کے منٹس (روداد) کا بغور اور غیر جانب داری سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ادھر ایک اور نوٹیفکیشن کے مطابق سابق وائس چانسلر کے دور میں کی گئی تمام ترقیوں، مستقلیوں اور تقرریوں کو بھی کالعدم کیا گیا ہے اور نوٹیفکیشن میں جس رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں سابق دور کی جاری تنخواہیں روکنے کا بھی ذکر ہے۔
امکان ہے کہ اگر علیحدہ سے اس رپورٹ پر مکمل عمل درآمد کیا گیا تو 2021 میں سلیکشن بورڈ پاس کرنے والے اساتذہ کی تنخواہیں بھی رک جائیں، یہ تنخواہیں ڈاکٹر ضیا الدین کے دور میں جنوری 2023 سے جاری ہوئی تھیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اس سلسلے میں یونیورسٹی کی سینیٹ کے مبہم اور غیر تصدیق شدہ فیصلے کا سہارا لیتے ہوئے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاالدین کے دور میں منعقدہ سلیکشن بورڈ کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر سابق وائس چانسلر کے دور میں کی گئیں تمام ترقیاں، تقرریاں، مستقلی(ریگولرائزیشن) اور نئے عہدوں کی تخلیق بھی کالعدم کر دی گئی ہے۔
سینیٹ کمیٹی کی سفارش پر سابق وائس چانسلر کے دور میں نئے مستقل اساتذہ کی جاری کی گئیں تنخواہیں روکے جانے کا بھی امکان ہے، اس سلسلے میں اردو یونیورسٹی کے سابق دور سے چلے آرہے موجودہ قائم مقام رجسٹرار کی جانب سے کئی نوٹیفکیشنز جاری کر دیے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ ان مختلف نوٹیفیکیشنز کے اجرا سے اردو یونیورسٹی میں اساتذہ اور ملازمین میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے اور اساتذہ یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ سابق انتظامیہ کے افسران نئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری کو ادھوری حقیقت یا تصویر کا محض ایک رخ دکھا کر فیصلے کروا رہے ہیں۔
ادھر یونیورسٹی کے ایک سینیئر فرحان شفیق نے ان متعلقہ نوٹیفکیشنز پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار کو ایک خط کے ذریعے باور کرایا ہے کہ سینیٹ کی منظوری کے تذکرے کے ساتھ جو تین مختلف خطوط سامنے آئے ہیں ان میں سے کوئی بھی فیصلہ سینیٹ کے 50ویں اجلاس میں نہیں ہوا اور سینیٹ سے غلط فیصلے کو منسوب کیا جا رہا ہے۔
بتایا جا رہا ہے اس طرح کے مزید خطوط کے اجرا کا بھی امکان ہے جس کے بعد موجودہ انتظامیہ کی جانب سے نکالے گئے خطوط کی حیثیت مزید مشکوک ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ قائم مقام رجسٹرار کی جانب سے جو خطوط جاری کیے گئے ہیں، ان کے مطابق سال 2017 کے جاری اشتہار کے ذیل میں 8 اور 9 ستمبر کو منعقدہ سلیکشن بورڈ کو کالعدم کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں سینیٹ کے 50ویں اجلاس میں پیش کردہ رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔
ادھر بتایا جا رہا ہے کہ یہ رپورٹ 20 فروری 2024 کو منعقدہ سینیٹ کے اجلاس میں بحث کے لیے پیش کی گئی تھی تو اس پر کئی سینیٹرز نے اعتراض کیا تھا کہ جب رپورٹ انھیں شیئر ہی نہیں کی گئی تو اس پر بحث کیسی، جس پر اس وقت کے چیئرمین سینیٹ صدر مملکت نے ناگواری کا اظہار کیا تھا اور فیصلہ کیا گیا تھا کہ اسے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے۔
ذرائع کہتے ہیں کہ موجودہ نئے وائس چانسلر کو اس سلسلے میں سینیٹ کے منٹس (روداد) کا بغور اور غیر جانب داری سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے، ادھر ایک اور نوٹیفکیشن کے مطابق سابق وائس چانسلر کے دور میں کی گئی تمام ترقیوں، مستقلیوں اور تقرریوں کو بھی کالعدم کیا گیا ہے اور نوٹیفکیشن میں جس رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں سابق دور کی جاری تنخواہیں روکنے کا بھی ذکر ہے۔
امکان ہے کہ اگر علیحدہ سے اس رپورٹ پر مکمل عمل درآمد کیا گیا تو 2021 میں سلیکشن بورڈ پاس کرنے والے اساتذہ کی تنخواہیں بھی رک جائیں، یہ تنخواہیں ڈاکٹر ضیا الدین کے دور میں جنوری 2023 سے جاری ہوئی تھیں۔