مفت راشن کے بجائے صنعتیں لگائی جائیں
وطن عزیز پاکستان میں بدقسمتی سے جو حکومت آتی ہے وہ عارضی طور پر وقت گزاری کی پالیسی پر گامزن رہتی ہے۔ حکومت کی توجہ اپنی جماعت کو فروغ دینے پر مرکوز رہتی ہے اور اپنی اور جماعت کے رہنماؤں کی تشہیر کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
حکومت ایسے پیکیج متعارف کرواتی ہے جو وقتی طور پر تو عوام کےلیے فائدہ مند نظر آئیں اور حکمران جماعت کی واہ واہ ہوجائے لیکن اس کے دیرپا نتائج نہیں ہوتے اور نہ ہی ملک و قوم کا مستبل میں کوئی فائدہ ہوتا ہے۔ فائدہ ہوتا ہے تو صرف حکومت کو، جس کی وقتی طور پر ستائش ہوتی ہے اور ان کے چاہنے والے حکومت کے ریلیف پیکیج گن گن کر ان کے گُن گاتے پھرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سب عارضی ہیں، جو دو دن چلنے کے بعد بند ہوجائیں گے اور عوام وہیں کے وہیں کھڑے ہوں گے جہاں اربوں روپے لٹانے سے پہلے کھڑے تھے۔
کوئی حکومت صحت کارڈ متعارف کراتی ہے، لنگر خانے کھولتی ہے تو کوئی حکومت مفت راشن تقسیم کرتی ہے۔ یوں عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور اپنی محنت کے بل بوتے پر کمانے کے بجائے انہیں مفت کھانے کے عادی بناتے ہیں۔ ہماری حکومتیں اربوں روپے کے پیکیج متعارف کراتی ہیں یعنی ان پیکیجز میں اربوں روپے جھونک دیے جاتے ہیں اور عوام کو کیا ملتا ہے دس دن کا راشن یا عارضی کھانا و علاج۔ راشن زیادہ سے زیادہ کتنا چل جاتا ہے؟ پانچ دن یا دس دن، بس اس سے زیادہ تو نہیں چل سکتا۔ اس کے بعد وہی بھوک اور افلاس کے ڈیرے۔ اس میں حکومتیں ایک چالاکی یہ بھی کرتی ہیں کہ عوام کو مثلاً بیس ارب کا مفت علاج یا کوئی اور ریلیف پیکیج دیتی ہیں تو ساتھ ہی بجلی، گیس اور پٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کرکے پچیس ارب روپے کا بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہیں۔ یوں اس ریلیف پیکیج کی رقم منافع کے ساتھ دوسری طرف سے وصول کرلی جاتی ہے اور عوام کےلیے مسیحا بھی بن جاتے ہیں۔
یہ مسیحائی بھی فقط ان کے اپنے کارکنوں کےلیے ہوتی ہے کیونکہ دوسری جماعتوں کے کارکن تو کسی طرح ان کی تعریف نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کی حکومت صحت کارڈ متعارف کراتی ہے تو مسلم لیگ ن والے اس کا مذاق اڑاتے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی والے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اسے سراہتے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کی حکومت راشن تقسیم کرتی ہے تو ان کے اپنے کارکن تو اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیتے ہیں لیکن پی ٹی آئی والے اس پر تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ دونوں کا مقصد ایک، نقصان ایک، لیکن تعصب اور عدم شعور کی بنا پر ایسا کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک حکومت ایک پیکیج متعارف کراتی ہے تو دوسری آکر اسے ختم کرکے نیا پیکیج متعارف کرا دیتی ہے۔ یوں فقط اپنی تشہیر کی خاطر عوام کے پیسے سے ہی عوام کا مذاق بنایا ہوا ہے۔
اگر عوام کو راشن دینے کے بجائے یہی رقم دو طرح سے استعمال کی جائے تو اس کا زیادہ فائدہ ہوگا۔ پہلا طریقہ تو یہ ہونا چاہیے کہ عوام کو مختلف چیزوں پر سبسڈی دی جائے، جن چیزوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جارہا ہے ان کی قیمتیں کم کی جائیں۔ پٹرول، بجلی، گیس اور دیگر بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں کمی کی جائے تاکہ عوام اس قابل ہوسکیں کہ اپنی کمائی سے خود ہی اپنی ضرورت کی اشیاء خرید سکیں، تو یہ زیادہ مفید ہوگا بجائے اس کے کہ عوام کو مفت مانگنے پر لگادیا جائے۔ ایک طرف سے اشیاء مہنگی کرکے دوسری طرف سے انہیں مفت راشن وغیرہ دیا جائے۔ عوام کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور انہیں اپنی محنت سے کمانے کا عادی بنانا چاہیے لیکن محنت کا انہیں پورا صلہ بھی دیا جائے۔
دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ جو 60، 65 ارب روپے عوام کو مفت راشن دینے میں لگائے جارہے ہیں اس کے بجائے اسی رقم سے فیکٹریاں لگائی جائیں تو عوام کو مستقل روزگار ملے گا۔ کئی افراد کو وہاں ملازمت ملے گی جس سے کئی خاندانوں کے معاش کا مسئلہ حل ہوجائے گا، کیونکہ ان کا مستقل ذریعہ معاش بن جائے گا۔ آپ نے مفت کے راشن پر جو 60، 65، 70 ارب روپے لگائے، وہ راشن اگر دو تین کروڑ لوگوں تک بھی پہنچتا ہے تو زیادہ سے زیادہ دس دن ہی چل پائے گا، اس کے بعد پھر وہی غربت، وہی افلاس۔ لہٰذا اس سے زیادہ بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ عوام کےلیے فیکٹریاں لگادی جائیں تو اس سے عوام کےلیے مستقل معاش کا انتظام ہوجائے گا۔ اس سے ملک کا بھی فائدہ ہوگا اور ملک ترقی بھی کرے گا۔
آج دنیا صنعتوں سے ترقی کررہی ہے، ملک تمام مصنوعات اپنے ملک میں تیار کرکے ملکی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں اور برآمدات سے بھی کماتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو لنگر خانے اور مفت راشن نہیں دیے جاتے بلکہ انہیں صنعتیں اور فیکٹریاں لگا کر دی جاتی ہیں، جن سے برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے تو ملکی خزانہ بھرتا ہے، نتیجتاً عوام کو اچھی تنخواہیں دی جاتی ہیں، انہیں ان کی محنت کا پورا پورا صلہ ملتا ہے، ملک میں مہنگائی ختم ہوتی ہے۔ عوام اس قابل ہوجاتے ہیں کہ وہ باآسانی اپنی ضروریات پوری کرسکیں اور خوشحال زندگی گزاریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔