رمضان اہل فلسطین کے لیے امتحان

امریکی سرپرستی میں اسرائیلی بربریت اور ظالمانہ اقدامات میں تیزی آچکی ہے

ashfaqkhan@express.com.pk

ماہِ رمضان اپنی برکتوں، رحمتوں اور اَن گنت فضیلتوں کے ساتھ شروع ہوچکا ہے، جہاں بھی مسلمان آباد ہیں وہ اس ماہ ِ مقدس کی رحمتوں کو سمیٹ رہے ہیں، اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے عبادات و مناجات میں مصروف ہیں۔

ہر مسلمان خوش و شادمان ہے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جارہی ہیں۔ سب سحر و افطار میں اللہ رب العزت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہونگے مگر پتہ نہیں کہ فلسطین کے مسلمان اپنے آنسوؤں پر گزارا کریں گے یا اپنے معصوم بچوں کے بہتے خون سے اپنی پیاس بجھانے کی اذیت سے گزریں گے، انبیاء کرام کی سرزمین مظلومین فلسطینیوں پر تنگ کر دی گئی ہے اس بار ماہِ رمضان ان کے لیے ایک کڑا امتحان بن کر آیا ہے۔ چاند نظر آتے ہی بیت المقدس میں مظلوم فلسطینی مسلمان مسجد اقصیٰ کی جانب نماز کی ادائیگی کے لیے بڑھے تو اسرائیلی فوجیوں نے تشدد کرکے مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا۔ امریکی سرپرستی میں اسرائیلی بربریت اور ظالمانہ اقدامات میں تیزی آچکی ہے۔

غزہ میں ایک طرف جنگ ہے اور دوسری طرف بھوک ہے فلسطینی رمضان المبارک اس ناگفتہ بہ صورتحال میں گزارنے پر مجبور ہیں۔ یکم رمضان کی رات اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ کے علاقے رفح اور وسطی حصے میں قائم پناہ گزین کیمپ پر اس وقت حملے کیے جب فلسطینی رمضان کا پہلا روزہ رکھنے کے لیے سحری کی تیاری کر رہے تھے۔ اسرائیلی بمباری سے 10 فلسطینی شہید ہوگئے، 7 اکتوبر سے اب تک کم از کم 31 ہزار 45 فلسطینی شہید اور 72ہزار 654 زخمی ہوچکے ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں کہ مسلم امہ کے حکمرانوں کی بے حمیتی اور بے حسی نے ارض مقدس کے مظلوم باسیوں کو شدید مایوس کیا۔ فلسطینی مسلمان اپنے معصوم بچوں کی شہادت پر ان کے کانوں میں دفناتے وقت سرگوشی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اے میرے بچوں شافع محشر سے کہنا کہ امت مسلمہ نے ہمیں اسرائیلی درندوں کے سامنے بے یارو مددگار چھوڑا تھا"۔ میں حیران ہوں مسلم امہ کے حکمران بروز محشر شافع محشر کو کیا منہ دکھائیں گے؟ مسلم ممالک کے درمیان میں ایک چھوٹی سی ناجائز صیہونی ریاست آج پوری امت مسلمہ کے لیے "بھوت" بنی ہوئی ہے۔

ستاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی کمزوری نے اسرائیلی درندوں کے حوصلوں کو بڑھایا۔ غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے مجرموں اسرائیل، امریکا گٹھ جوڑ کے خلاف اب تک کسی اسلامی ملک نے کسی بین الاقوامی فورم پر مظلومین فلسطین کے لیے آواز نہیں اٹھائی، سبھی معذرت خواہانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔

فلسطینیوں کے حق میں مسلمان اور مغربی ممالک کے عوام نے بھرپور آواز اٹھائی ہے لیکن اب تک کسی ملک و ریاست نے کوئی موثر آواز بلند نہیں کی۔ غذائی قلت اور بھوک سے اموات شروع ہوگئی ہیں مگر نام نہاد انسان دوستوں کو رحم نہیں آیا۔ چند روز قبل33 بچوں کی شہادت کی اطلاع نے دل دہلا دیے۔ مسلسل بمباری اور علاج نہ ملنے کے سبب بھی شہادتیں بڑھ رہی ہیں۔ ظالم کے ظلم اور ڈھٹائی کے ساتھ مسلمان حکمرانوں کی بے حسی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ مگر بلا تفریق مذہب عوام غزہ کے مظلومین کو نہیں بھولے۔ ان کے حق میں ہر ملک میں مظاہرے، ریلیاں، احتجاج کرنے کے علاوہ متاثرین کی ہر مدد کے لیے عوام اور ادارے تیار ہیں مگر کوئی وہاں نہیں پہنچ سکتا، انصاف کا علمبردار اقوام متحدہ جو درحقیقت "اقوام مختلفہ" بن چکا ہے اگر خودکچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم وہ عالمی امدادی ایجنسیوں اور صاحب حیثیت لوگوں کو غزہ تک رسائی تو دلوا سکتا ہے۔

لندن، نیویارک، جرمنی وغیرہ میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ بنگلادیش، انڈونیشیا، ملائیشیا میں بھی مظاہرے ہوئے۔ ایک مظاہرہ ناروے میں منفی 28 درجے کے باوجود ہوا۔ یہ امت مسلمہ کے "غلام حکمرانوں" اور مغرب کے بے رحم حکمرانوں کے سرد رویے سے زیادہ سرد اور منجمد کرنے والا موسم تھا لیکن ناروے کے لوگ شدید ترین سردی کے باوجود اس مظاہرے کے لیے گھروں سے نکلے مگر دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی ریاست پاکستان ابھی تک انتخابی ڈرامے کے ہیرو فارم 45 اور ویلن فارم47کے درمیان دنگل میں پھنسا ہے، فلسطینیوں کی آہ و بکا اور چیخ و پکار ہمارے ارباب اقتدار و اختیار کے کانوں تک تو پہلے بھی نہیں پہنچ پا رہی تھی اب تو بہانہ بھی دستیاب ہے۔

ارض مقدس کے باسی کئی دہائیوں سے صیہونی بربریت کا شکار ہیں۔"غیر مہذب"دنیا کی نظروں میں اسرائیلی درندوں کی بمباری کے بعد اسرائیلی ٹینک پر پتھر پھینکنے والا گھر میں بچ جانے والا واحد سہما ہوا فلسطینی بچہ دہشتگرد اور بمباری کرنے والا امن کا علم بردار ہے۔ ظلم و بربریت کی جو لہر 7 اکتوبر سے شروع ہے وہ گزشتہ سات دہائیوں سے ہونے والے مظالم پر بھاری ہے۔ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے زبردستی بیدخل کیا گیا، ان کے گھروں، مساجد، اسپتالوں اور اسکولوں کو مسمار کیا گیا۔ ظلم و بربریت اور اجتماعی سزاؤں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔


اسرائیلیوں کی غیرقانونی آبادکاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے پورے کے پورے محلوں کو مسمار کردیا گیا اور بے گھر ہونے والے فلسطینی ناقابلِ بیان مصائب میں مبتلا ہیں۔ غزہ کے 20 لاکھ سے زائد رہائشی گزشتہ 16سال سے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی اور ظالمانہ پابندیوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں اور ان پابندیوں نے ان کی زندگیوں کو تباہ کردیا ہے۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی "کھلی جیل" میں رہ رہے ہیں۔ ظلم و بربریت کے نہ ختم ہونے والے سلسلے اور مسلم امہ کی مجرمانہ خاموشی کو دیکھتے ہوئے حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو بڑے پیمانے پر جنگ کا آغاز کرنا قطعی طور پر حیران کن نہیں لگتا۔

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

کسی نے تو اس صیہونی دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا تھا اس لیے وہ کھڑے ہوگئے مگر اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ جوابی کارروائی نے فلسطین کی المناک داستان میں ایک دردناک باب کا اضافہ کردیا ہے۔ اسرائیل نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ 'دردناک انتقام' لے گااور وہ اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ ایک تنگ، غریب، گنجان آباد پٹی پر کررہا ہے، رہائشی عمارتوں، پناہ گزین کیمپوں اور اسکولوں کو بمباری کا نشانہ بنا کر جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس چیف نے اسرائیل کے محاصرے کو بین الاقوامی انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوسیپ بورل نے بھی غزہ کے محاصرے کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ اب تو خود امریکی صدر اسرائیل کو غزہ سے پیچھے ہٹنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ مگر نتیجہ منفی، اسرائیل نے غزہ کے لیے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کرکے مزید خوفناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ فلسطین میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، جو ماہ رمضان میں شدید ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس المیے میں بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکا کا پورا ہاتھ ہے۔

فلسطینیوں کی حالتِ زار کو مکمل طور پر نظر اندازکرتے ہوئے مغربی میڈیا اس مؤقف کی غیرمشروط حمایت کرتا رہا کہ 'اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے'۔ امریکا جو اسرائیل کا اہم اتحادی ہے اس نے اسرائیل کے لیے مکمل فوجی تعاون کا اعلان کیا، ساتھ ہی مشرقی بحیرہ روم میں ایک طیارہ بردار بحری جہاز بھی بھیجا ہے اور اسرائیل کو 'جدید ہتھیار' بھی فراہم کیے ہیں۔

غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک جاندار رویہ اختیار کرکے اسرائیل اور انکے حمایتی ممالک کے ساتھ اس وقت تک قطع تعلق کریں جب تک اسرائیلی درندے ارض مقدس سے نکل نہ جائیں۔ امریکی سرپرستی میں اسرائیل عالمی امن کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ مسلم عوام کے دلوں میں اس وقت فلسطین کے مسئلے پر لاوا پک رہا ہے، اگر یہ آتش فشاں پھٹ گیا تو یہ سارے مسلمان حکمران اس میں بہہ جائیں گے اور اگر اس دنیا میں بچ بھی گئے تو قہار و جبار رب کے قہر اور شافع محشر کی ناراضگی سے کون بچائے گا؟

لہٰذا مسلمان حکمران ہوش کے ناخن لیں پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے مزید کی گنجائش نہیں۔ اقوام مغرب بھی سن لیں اگر وہ صیہونی دہشت گردی کو نہیں روک پائے تو عالمی امن کے تباہی کے تمام تر ذمے دار یہ سب ہوں گے۔ اللہ کریم مظلوم فلسطینیوں کی مدد فرمائے اور صیہونیت کو نیست و نابود کرے۔ آمین
Load Next Story