صدر زرداری کا مفاہمتی کردار
وہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوری عمل کے تسلسل کے قائل ہیں
پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ صدر آصف علی زرداری ملک کے 14ویں صدر بن کر ایوان صدر میں تشریف فرما ہیں وہ ملکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے اپنے آئینی اختیارات ازخود پارلیمان کو منتقل کر کے تاریخ رقم کی ۔ صدر زرداری نے الیکٹرول کالج کے 411 ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے حمایت یافتہ اور بلوچستان کی پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے 181ووٹ حاصل کیے۔ صدر زرداری پہلے سویلین صدر ہیں جو دوسری مرتبہ مسند صدارت پر براجمان ہوئے ہیں۔
صدر زرداری کی کامیابی یقینی تھی کہ وہ ن لیگ، ایم کیو ایم اور پی پی پی کی مخلوط حکومت کے متفقہ امیدوار تھے جب کہ محمود اچکزئی کی شکست بھی اسی طرح یقینی تھی کہ انھیں صرف پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ جماعت سنی اتحاد کونسل کے اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل تھی۔ اس پہ مستزاد آئین کے تحت خواتین و اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی پی ٹی آئی کو نہ مل سکیں بلکہ دیگر جماعتوں میں تقسیم ہوگئیں۔
محمود اچکزئی کی سیاست کو ایک حیران کن اور شدید جھٹکا اس وقت لگا جب ان کے اپنے صوبے بلوچستان سے ایک بھی ووٹر نے انھیں صدارتی ووٹ نہیں ڈالا جس کا انھوں نے برملا گلہ بھی کیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک نے انھیں ووٹ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن بعد میں پھسل گئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا ووٹ ملنے کی بھی انھیں امید تھی وہ بھی پوری نہ ہوسکی۔ دوسری جانب صدرآصف علی زرداری کو سندھ اسمبلی سے 58، بلوچستان سے47، پنجاب سے 43 اور کے پی کے سے 7ووٹ ملے اور وہ باآسانی صدارتی انتخاب جیت کر تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔
صدر منتخب ہونے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے واضح طور پر کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے کی تھی ہم نے تو صرف تجویز دی تھی پہلے بھی جوکچھ ہوا وہ سب پارلیمنٹ نے کیا تھا اور آئندہ بھی جو ہوگا وہ پارلیمنٹ ہی کے ذریعے ہوگا جس سے ان کی جمہوری سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوری عمل کے تسلسل کے قائل ہیں۔ صدر آصف علی زرداری موجودہ مخلوط سیاسی نظام حکومت میں جمہوری تسلسل کے رواں رکھنے، سیاسی انتشارکوکم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
پی پی پی اور ن لیگ نے معاملات اور مذاکرات کے بعد مخلوط حکومت بنانے اور اہم عہدوں کی تقسیم کا فیصلہ کیا، اگرچہ پیپلزپارٹی فی الحال مخلوط حکومت کی کابینہ میں شامل ہونے سے گریزاں ہے تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کے فیصلوں ، اقدامات اور پالیسیوں کی حمایت کا عندیا دیا ہے۔ پی پی مخلوط حکومت کی کابینہ کا حصہ بن سکتی ہے تاہم اس بات کے امکانات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ وہ لوگ سیاسی جماعتوں کے منشور اور پالیسیوں میں تضادات کے باعث پیپلز پارٹی وزیراعظم شہباز شریف کے ایسے اقدامات کی حمایت کرنے سے گریز کرے گی جس سے عوام پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں تاکہ عوامی سطح پر پیپلزپارٹی کی ساکھ اور حمایت متاثر نہ ہو ۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس حوالے سے خاصے سنجیدہ ہیں انھوں نے بڑی محنت ، دل جمی اور بھرپور جوش اور جذبے کے ساتھ چاروں صوبوں میں اپنی انتخابی مہم چلائی تھی اور سندھ میں ''کلین سوئپ'' کے علاوہ پنجاب و بلوچستان میں بھی پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بلاول بھٹو پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کو دوبارہ عوامی مقبولیت بالخصوص پنجاب میں اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں انتھک محنت کر رہے ہیں ۔
صدرآصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں۔ ایوان صدر میں ان کی موجودگی بلاول بھٹو اور جیالوں اور پیپلزپارٹی کے اطمینان کا باعث ہے۔ صدر زرداری سیاسی رنجشوں باہمی اختلافات اور سیاسی تناؤ کو کم کرنے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں، اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کو معاشی اور اپوزیشن کے سیاسی دباؤ کے بڑے چیلنجزکا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کا دباؤکڑی شرائط کے تحت قرضے کا حصول اور ڈوبتی معیشت کو دوبارہ پاؤں پرکھڑا کرنا موجودہ مخدوش حالات میںجوئے شیر لانے کے برابر ہے۔
بجا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عوام کو رمضان المبارک میں ریلیف دیتے ہوئے 12 ارب کے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت آٹا، چاول، دال، گھی، چینی، شربت اور دودھ وغیرہ یوٹیلیٹی اسٹورز، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور موبائل یونٹس کے ذریعے غریب لوگوں تک پہنچائی جائیں گی۔ اول ہمارے ملک میں یوٹیلیٹی اسٹورزکی تعداد محدود ہے، قصبوں اور دیہاتوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ مناسب یہ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورزکی ملک بھر میں تعداد بڑھائی جائے اور معیاری اشیاء وافر مقدار میں فراہم کی جائیں۔
تمام انتخابی شکایات کے ازالے کے لیے مشاورت کی جائے اور افہام و تفہیم سے اس کا حل تلاش کیا جائے بصورت دیگرحکومت و اپوزیشن میں مفاہمت کی بجائے مزاحمت اور ٹکراؤ پیدا ہوگا جس سے سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ حکمت ، بصیرت، دانشمندی اور افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی سوچ اہم کردار ادا کرگئی ہے۔
صدر زرداری کی کامیابی یقینی تھی کہ وہ ن لیگ، ایم کیو ایم اور پی پی پی کی مخلوط حکومت کے متفقہ امیدوار تھے جب کہ محمود اچکزئی کی شکست بھی اسی طرح یقینی تھی کہ انھیں صرف پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ جماعت سنی اتحاد کونسل کے اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل تھی۔ اس پہ مستزاد آئین کے تحت خواتین و اقلیتوں کی مخصوص نشستیں بھی پی ٹی آئی کو نہ مل سکیں بلکہ دیگر جماعتوں میں تقسیم ہوگئیں۔
محمود اچکزئی کی سیاست کو ایک حیران کن اور شدید جھٹکا اس وقت لگا جب ان کے اپنے صوبے بلوچستان سے ایک بھی ووٹر نے انھیں صدارتی ووٹ نہیں ڈالا جس کا انھوں نے برملا گلہ بھی کیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک نے انھیں ووٹ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن بعد میں پھسل گئے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا ووٹ ملنے کی بھی انھیں امید تھی وہ بھی پوری نہ ہوسکی۔ دوسری جانب صدرآصف علی زرداری کو سندھ اسمبلی سے 58، بلوچستان سے47، پنجاب سے 43 اور کے پی کے سے 7ووٹ ملے اور وہ باآسانی صدارتی انتخاب جیت کر تاریخ رقم کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔
صدر منتخب ہونے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے واضح طور پر کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے کی تھی ہم نے تو صرف تجویز دی تھی پہلے بھی جوکچھ ہوا وہ سب پارلیمنٹ نے کیا تھا اور آئندہ بھی جو ہوگا وہ پارلیمنٹ ہی کے ذریعے ہوگا جس سے ان کی جمہوری سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوری عمل کے تسلسل کے قائل ہیں۔ صدر آصف علی زرداری موجودہ مخلوط سیاسی نظام حکومت میں جمہوری تسلسل کے رواں رکھنے، سیاسی انتشارکوکم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
پی پی پی اور ن لیگ نے معاملات اور مذاکرات کے بعد مخلوط حکومت بنانے اور اہم عہدوں کی تقسیم کا فیصلہ کیا، اگرچہ پیپلزپارٹی فی الحال مخلوط حکومت کی کابینہ میں شامل ہونے سے گریزاں ہے تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کے فیصلوں ، اقدامات اور پالیسیوں کی حمایت کا عندیا دیا ہے۔ پی پی مخلوط حکومت کی کابینہ کا حصہ بن سکتی ہے تاہم اس بات کے امکانات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ وہ لوگ سیاسی جماعتوں کے منشور اور پالیسیوں میں تضادات کے باعث پیپلز پارٹی وزیراعظم شہباز شریف کے ایسے اقدامات کی حمایت کرنے سے گریز کرے گی جس سے عوام پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں تاکہ عوامی سطح پر پیپلزپارٹی کی ساکھ اور حمایت متاثر نہ ہو ۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس حوالے سے خاصے سنجیدہ ہیں انھوں نے بڑی محنت ، دل جمی اور بھرپور جوش اور جذبے کے ساتھ چاروں صوبوں میں اپنی انتخابی مہم چلائی تھی اور سندھ میں ''کلین سوئپ'' کے علاوہ پنجاب و بلوچستان میں بھی پیپلزپارٹی کی مقبولیت کا گراف بلند کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ بلاول بھٹو پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کو دوبارہ عوامی مقبولیت بالخصوص پنجاب میں اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں انتھک محنت کر رہے ہیں ۔
صدرآصف علی زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں۔ ایوان صدر میں ان کی موجودگی بلاول بھٹو اور جیالوں اور پیپلزپارٹی کے اطمینان کا باعث ہے۔ صدر زرداری سیاسی رنجشوں باہمی اختلافات اور سیاسی تناؤ کو کم کرنے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرسکتے ہیں، اس وقت وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کو معاشی اور اپوزیشن کے سیاسی دباؤ کے بڑے چیلنجزکا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کا دباؤکڑی شرائط کے تحت قرضے کا حصول اور ڈوبتی معیشت کو دوبارہ پاؤں پرکھڑا کرنا موجودہ مخدوش حالات میںجوئے شیر لانے کے برابر ہے۔
بجا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عوام کو رمضان المبارک میں ریلیف دیتے ہوئے 12 ارب کے ایک پیکیج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت آٹا، چاول، دال، گھی، چینی، شربت اور دودھ وغیرہ یوٹیلیٹی اسٹورز، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور موبائل یونٹس کے ذریعے غریب لوگوں تک پہنچائی جائیں گی۔ اول ہمارے ملک میں یوٹیلیٹی اسٹورزکی تعداد محدود ہے، قصبوں اور دیہاتوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ مناسب یہ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورزکی ملک بھر میں تعداد بڑھائی جائے اور معیاری اشیاء وافر مقدار میں فراہم کی جائیں۔
تمام انتخابی شکایات کے ازالے کے لیے مشاورت کی جائے اور افہام و تفہیم سے اس کا حل تلاش کیا جائے بصورت دیگرحکومت و اپوزیشن میں مفاہمت کی بجائے مزاحمت اور ٹکراؤ پیدا ہوگا جس سے سیاسی عدم استحکام اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ حکمت ، بصیرت، دانشمندی اور افہام و تفہیم سے معاملات طے کرنے کے لیے صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی سوچ اہم کردار ادا کرگئی ہے۔