بات کچھ اِدھر اُدھر کی میری زباں کی ادا ئیگی بس اتنی ہے
ہم نے اپنی قومی زبان کو ترک تو کر دیا مگر ہم کسی دوسری زبان پر بھی دسترس حاصل نہیں کر پائے
وقت کواگر پیچھے کی سمت میں دوڑا یا جائے اور اُس مقام پر پہنچا جا ئے جب دنیا کے بڑے بڑے مفکر و ادیب اپنی تما م تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنی آنے والی نسلوں کو ایک ایسی زبان دینے جا رہے تھے جو منفردیت کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کا عنصر رکھتی تھی۔ تو من وعن اس با ت کا یقین ہو جا تا ہے جس زبان کو آج یوں ارزاں سمجھا جا رہا ہے۔ وہ اس قدر بے وقعت کبھی نہ تھی۔ جس زبان کی تشکیل و ترویج کے لئے ہما رے شعراء کرام، ادبائ، مفکرحضرات، اور افسانہ نگا روں نے اپنی تما م عمر صرف کر دی اُس کے با رے میں آج کی نوجوان نسل کا رویہ فکر انگیز بھی ہے اور پریشان کن بھی۔
ہم اکثرایسے جملے سنتے ہیں کہ مجھے تو اُردو آتی ہی نہیں! ۔۔۔ میں نے اپنی تمام تعلیم انگریزی میں ہی حاصل کی ہے!۔۔۔۔ اردو بہت مشکل زبان ہے!۔۔۔۔ یہ ایک عام سوچ ہے جو ہمارے بہت سے نوجوانوں کا نظریہ ہے۔ا سی نظریہ نے نوجوان نسل کو دو گروہوں میں بانٹ دیا۔ ایک وہ جن کے لئے اپنی زبا ن کی ترویج و ترسیل اہم ہے جبکہ دوسرا گروہ اپنی زبا ن کو اپنی سب سے بڑی کمزوری گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہما را معا شرہ دو انتہاؤں کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے۔ کوئی بھی رویہ راتوں رات جنم نہیں لیتا بلکہ بہت سے ایسے عوامل کا رفرما ہوتے ہیں جو اُس رویے کی تشکیل مستقل بنیا دوں پر کرتے ہیں۔ آخر اُردو زبا ن سے دوری کی کیا وجوہا ت ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اہلِ زبا ن کے لئے با عثِ تشویش ہے۔
دراصل اُردو زبان کا خاصا یہ ہے کہ اُردو واحد زبا ن ہے جو بیک وقت کئی زبا نوں کا مرقع ہے۔ اِس میں فا رسی زبا ن کی شا ئستگی بھی ہے اور عربی زبان کی فصاحت بھی۔ اس میں ترکی کی مٹھا س بھی ہے ۔ مگر آج غور کریں تو یہ با ت عیا ں ہوجاتی ہے کہ ہم نے اپنی قومی زبان کواُس کے اصل مقام سے ہٹا دیا ہے۔ اپنی زبان سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ ہما ری نوجوان نسل میں سے بیشتر کو ٹھیک سے اردو لکھنی نہیں آتی۔ اور تقریباً نصف سے زیا دہ اُردو ادب کے نا مور شا عروں اور ادیبوں سے بھی نا آشنا ہیں۔
ایک اندا زے کے مطا بق پاکستان میں اردو مضمون کے مقابلے میں طلبہ انگریزی زبا ن میں زیا دہ محنت کرتے ہیں اور اردو میں انگریزی کے مقابلے میں کم نمبر حا صل کر پا تے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اردو زبان کی گرائمر و قواعد سے بے اعتنائی اور الفاظ کی غلط ادائیگی ہے۔ہما ری نوجوان نسل میں سے بیشتر اردو کتب کا مطا لعہ نہیں کرتے اور نہ ہی اخبارات اور رسائل کے پڑھنے میں دلچسپی کا اظہا ر کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ کتابیں، رسائل یا اخبارت کو پڑھنے سے جہا ں معلومات میں اضافہ ہوتا ہے وہیں زبان میں ہونے والی ترقی و ترویج کا بھی پتہ چلتا ہے۔لا ئبریوں میں اُردو ادب کا ایک کا رنر مختص ہوتا ہے مگر اُن سے فیض یاب ہونے والے نوجوانوں کی تعداد صرف 15 فیصد ہے۔ باقی حصہ صرف نصاب کی کتابوں کو پڑھنے کے لئے لائبریری جا تا ہے۔ ادبی سر گرمیاں کسی معا شرے میں ادب کو پنپنے کی بنیا د فراہم کرتی ہیں ۔ ان ہی سر گر میوں کی بدولت تہذیب و ثقا فت کو جدت ملتی ہے اور پرانی روایا ت بھی برقرار رہتی ہیں۔ لیکن ان گراں قدر محافل میں نوجوان نسل کی نمائندگی قدرے کم ہو تی ہے۔ جس سے اُن کی اپنی زبان سے دوری کا اندازہ بآسانی لگا یا جا سکتا ہے۔ اس کی وجوہا ت چا ہے کچھ بھی ہوں لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیا ں ہے کہ ہما ری نئی نسل کی ترجیحا ت بدلتی جا رہی ہیں۔ زبا ن سے لگاؤ رکھنے والے اردو زبان میں سہو کی ایک بڑی وجہ جدید طرزِ زندگی کو ٹھہرا تے ہیں۔
2013 میں کیے جا نے والے سروے کے مطابق ہما ری نوجوان نسل کا %75حصہ موبا ئل اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔ جہاں پرمسیجز میں اردو کی بجا ئے رومن اُردو کا استعما ل کیا جا تا ہے جس کی وجہ سے اردو کا تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی متاثر ہو رہی ہے۔ کسی زبان پر تنقید سے قطع نظر یہا ں با ت اردو زبان کے ممکنہ استعمال پر ہو رہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مجموعی تا ثر یہ ہے کہ جہاں ہمیں اپنی قومی زبان میں بات کرنی چاہیے وہا ں بھی ہم غیرملکی زبا ن میں یاعلاقائی زبان میں ہی بات کررہے ہوتے ہیں۔
ایک اور المیہ جو ہمیں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہی زبا ن کا مذاق اُڑا کر خوش ہوتے ہیں۔ اعلٰی تعلیمی اداروں میں ایسے طلبہ کی کمی نہیں جو اُردو کے استعما ل میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اُردو کو روزمرہ زبان کے لئے استعما ل تو کیا جا تا ہے مگر اُس کے تلفظ اور ادائیگی کا خیال نہیں رکھا جا تا۔ کچھ طلبہ کی شکایت ہوتی ہے کہ نصاب میں اُردو مضمون کی شمولیت ایک اضا فی بوجھ ہے جو اُن کے اصل مضامین کی تیاری میں مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ جبکہ پچھلے کچھ عرصے سے پا کستان میں اُردو زبان وادب پڑھنے والے طلبہ کی تعداد میں بھی کا فی کم ہو ئی ہے۔ اُردو ادب کا انتخاب کرنے والے طلبہ کی تعداد دیگر مضامین کے مقابلے میں انتہا ئی کم ہے۔ ہما ری نوجوان نسل میں سے اکثریت کا خیال یہ ہے کہ اُردو کی بجائے کسی اور مضمون کو کیرئیر بنانا ہی کا میابی کی علامت ہے۔اور یہ عذر پیش کیا جا تا ہے کہ اردو مضمون کو اپنی اعلیٰ تعلیم کے طور پر اختیار کرنا محض وقت کا ضیا ع ہے۔اس تنا ظر میں ہم پر یہ مثل صادر آتی ہے کہ ہم دوسروں کی چال چلتے ہوئے اپنی روش بھی بھول گئے ہیں۔
ہم نے اپنی قومی زبان کو ترک تو کر دیا مگر ہم کسی دوسری زبان پر بھی دسترس حاصل نہیں کرپا ئے۔ ہم جب اس ادھورے اور شکستہ وجود کے سا تھ معا شرے کے آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہیں تو آئینے کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی انا کی تسلی کر لیتے ہیں ۔ ہماری زبان ہما ری شنا خت، ہماری ثقافت اور ہماری تہذیب کی عکا س ہے مگر ہم نے اپنی سرد مہری کے کھردرے ہا تھوں سے اپنی پہچان کی عروسہ کا حسن نوچ ڈالا۔ اور اب اُس کی جھکتی کمر اور ڈھلتی دلکشی پر سوائے کفِ افسوس ملنے کے ہم کچھ نہیں کرتے۔ ہم اگر اپنی قومی زبان کے دامن پر لگے بے اعتنائی کے دھبے دیکھیں تو اُس میں ہما رے ہا تھوں کے نشان بھی ملتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اپنی ثقا فت اور زبان سے منہ موڑا تو اُس کا مقدر گمنا ہی کے اندھیرے ہی بنے ہیں۔ ہمیں وقت کے سا تھ چلتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کئی ہم اپنے قدموں تلے اپنی ہی تہذیب کو تو روندھ کرآگے نہیں بڑھ رہے!اعلٰی تعلیم حاصل کرنابرا نہیں اور نہ ہی دوسری زبانوں پر دسترس کوئی معیوب با ت ہے۔ لیکن اس کے سا تھ ساتھ اپنے اصل سے جڑا رہنا بھی ہما را فرض ہے۔ اگر درخت اپنی جڑوں سے ناطہ توڑ دے تو وہ زیادہ دیر اپنا وجود قا ئم نہیں کر سکتا۔ نشوونما بقا کی ضامن صیحح مگر مٹی سے رشتہ قائم رکھنااُس کو فنا سے بچا ئے رکھتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہم اکثرایسے جملے سنتے ہیں کہ مجھے تو اُردو آتی ہی نہیں! ۔۔۔ میں نے اپنی تمام تعلیم انگریزی میں ہی حاصل کی ہے!۔۔۔۔ اردو بہت مشکل زبان ہے!۔۔۔۔ یہ ایک عام سوچ ہے جو ہمارے بہت سے نوجوانوں کا نظریہ ہے۔ا سی نظریہ نے نوجوان نسل کو دو گروہوں میں بانٹ دیا۔ ایک وہ جن کے لئے اپنی زبا ن کی ترویج و ترسیل اہم ہے جبکہ دوسرا گروہ اپنی زبا ن کو اپنی سب سے بڑی کمزوری گردانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہما را معا شرہ دو انتہاؤں کے درمیان تقسیم ہو چکا ہے۔ کوئی بھی رویہ راتوں رات جنم نہیں لیتا بلکہ بہت سے ایسے عوامل کا رفرما ہوتے ہیں جو اُس رویے کی تشکیل مستقل بنیا دوں پر کرتے ہیں۔ آخر اُردو زبا ن سے دوری کی کیا وجوہا ت ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو اہلِ زبا ن کے لئے با عثِ تشویش ہے۔
دراصل اُردو زبان کا خاصا یہ ہے کہ اُردو واحد زبا ن ہے جو بیک وقت کئی زبا نوں کا مرقع ہے۔ اِس میں فا رسی زبا ن کی شا ئستگی بھی ہے اور عربی زبان کی فصاحت بھی۔ اس میں ترکی کی مٹھا س بھی ہے ۔ مگر آج غور کریں تو یہ با ت عیا ں ہوجاتی ہے کہ ہم نے اپنی قومی زبان کواُس کے اصل مقام سے ہٹا دیا ہے۔ اپنی زبان سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ ہما ری نوجوان نسل میں سے بیشتر کو ٹھیک سے اردو لکھنی نہیں آتی۔ اور تقریباً نصف سے زیا دہ اُردو ادب کے نا مور شا عروں اور ادیبوں سے بھی نا آشنا ہیں۔
ایک اندا زے کے مطا بق پاکستان میں اردو مضمون کے مقابلے میں طلبہ انگریزی زبا ن میں زیا دہ محنت کرتے ہیں اور اردو میں انگریزی کے مقابلے میں کم نمبر حا صل کر پا تے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اردو زبان کی گرائمر و قواعد سے بے اعتنائی اور الفاظ کی غلط ادائیگی ہے۔ہما ری نوجوان نسل میں سے بیشتر اردو کتب کا مطا لعہ نہیں کرتے اور نہ ہی اخبارات اور رسائل کے پڑھنے میں دلچسپی کا اظہا ر کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ کتابیں، رسائل یا اخبارت کو پڑھنے سے جہا ں معلومات میں اضافہ ہوتا ہے وہیں زبان میں ہونے والی ترقی و ترویج کا بھی پتہ چلتا ہے۔لا ئبریوں میں اُردو ادب کا ایک کا رنر مختص ہوتا ہے مگر اُن سے فیض یاب ہونے والے نوجوانوں کی تعداد صرف 15 فیصد ہے۔ باقی حصہ صرف نصاب کی کتابوں کو پڑھنے کے لئے لائبریری جا تا ہے۔ ادبی سر گرمیاں کسی معا شرے میں ادب کو پنپنے کی بنیا د فراہم کرتی ہیں ۔ ان ہی سر گر میوں کی بدولت تہذیب و ثقا فت کو جدت ملتی ہے اور پرانی روایا ت بھی برقرار رہتی ہیں۔ لیکن ان گراں قدر محافل میں نوجوان نسل کی نمائندگی قدرے کم ہو تی ہے۔ جس سے اُن کی اپنی زبان سے دوری کا اندازہ بآسانی لگا یا جا سکتا ہے۔ اس کی وجوہا ت چا ہے کچھ بھی ہوں لیکن یہ بات روزِ روشن کی طرح عیا ں ہے کہ ہما ری نئی نسل کی ترجیحا ت بدلتی جا رہی ہیں۔ زبا ن سے لگاؤ رکھنے والے اردو زبان میں سہو کی ایک بڑی وجہ جدید طرزِ زندگی کو ٹھہرا تے ہیں۔
2013 میں کیے جا نے والے سروے کے مطابق ہما ری نوجوان نسل کا %75حصہ موبا ئل اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہے۔ جہاں پرمسیجز میں اردو کی بجا ئے رومن اُردو کا استعما ل کیا جا تا ہے جس کی وجہ سے اردو کا تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی متاثر ہو رہی ہے۔ کسی زبان پر تنقید سے قطع نظر یہا ں با ت اردو زبان کے ممکنہ استعمال پر ہو رہی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ مجموعی تا ثر یہ ہے کہ جہاں ہمیں اپنی قومی زبان میں بات کرنی چاہیے وہا ں بھی ہم غیرملکی زبا ن میں یاعلاقائی زبان میں ہی بات کررہے ہوتے ہیں۔
ایک اور المیہ جو ہمیں درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی ہی زبا ن کا مذاق اُڑا کر خوش ہوتے ہیں۔ اعلٰی تعلیمی اداروں میں ایسے طلبہ کی کمی نہیں جو اُردو کے استعما ل میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ اُردو کو روزمرہ زبان کے لئے استعما ل تو کیا جا تا ہے مگر اُس کے تلفظ اور ادائیگی کا خیال نہیں رکھا جا تا۔ کچھ طلبہ کی شکایت ہوتی ہے کہ نصاب میں اُردو مضمون کی شمولیت ایک اضا فی بوجھ ہے جو اُن کے اصل مضامین کی تیاری میں مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔ جبکہ پچھلے کچھ عرصے سے پا کستان میں اُردو زبان وادب پڑھنے والے طلبہ کی تعداد میں بھی کا فی کم ہو ئی ہے۔ اُردو ادب کا انتخاب کرنے والے طلبہ کی تعداد دیگر مضامین کے مقابلے میں انتہا ئی کم ہے۔ ہما ری نوجوان نسل میں سے اکثریت کا خیال یہ ہے کہ اُردو کی بجائے کسی اور مضمون کو کیرئیر بنانا ہی کا میابی کی علامت ہے۔اور یہ عذر پیش کیا جا تا ہے کہ اردو مضمون کو اپنی اعلیٰ تعلیم کے طور پر اختیار کرنا محض وقت کا ضیا ع ہے۔اس تنا ظر میں ہم پر یہ مثل صادر آتی ہے کہ ہم دوسروں کی چال چلتے ہوئے اپنی روش بھی بھول گئے ہیں۔
ہم نے اپنی قومی زبان کو ترک تو کر دیا مگر ہم کسی دوسری زبان پر بھی دسترس حاصل نہیں کرپا ئے۔ ہم جب اس ادھورے اور شکستہ وجود کے سا تھ معا شرے کے آئینے میں اپنا عکس دیکھتے ہیں تو آئینے کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی انا کی تسلی کر لیتے ہیں ۔ ہماری زبان ہما ری شنا خت، ہماری ثقافت اور ہماری تہذیب کی عکا س ہے مگر ہم نے اپنی سرد مہری کے کھردرے ہا تھوں سے اپنی پہچان کی عروسہ کا حسن نوچ ڈالا۔ اور اب اُس کی جھکتی کمر اور ڈھلتی دلکشی پر سوائے کفِ افسوس ملنے کے ہم کچھ نہیں کرتے۔ ہم اگر اپنی قومی زبان کے دامن پر لگے بے اعتنائی کے دھبے دیکھیں تو اُس میں ہما رے ہا تھوں کے نشان بھی ملتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے اپنی ثقا فت اور زبان سے منہ موڑا تو اُس کا مقدر گمنا ہی کے اندھیرے ہی بنے ہیں۔ ہمیں وقت کے سا تھ چلتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کئی ہم اپنے قدموں تلے اپنی ہی تہذیب کو تو روندھ کرآگے نہیں بڑھ رہے!اعلٰی تعلیم حاصل کرنابرا نہیں اور نہ ہی دوسری زبانوں پر دسترس کوئی معیوب با ت ہے۔ لیکن اس کے سا تھ ساتھ اپنے اصل سے جڑا رہنا بھی ہما را فرض ہے۔ اگر درخت اپنی جڑوں سے ناطہ توڑ دے تو وہ زیادہ دیر اپنا وجود قا ئم نہیں کر سکتا۔ نشوونما بقا کی ضامن صیحح مگر مٹی سے رشتہ قائم رکھنااُس کو فنا سے بچا ئے رکھتا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔