تنخواہوں اور پنشن سمیت سرکاری اخراجات میں کٹوتی کیلیے کمیٹی قائم
کمیٹی صرف 16فیصد اخراجات پر نظر ثانی، پنشن اور ترقی پر اخراجات کو معقول بنانے پر غور کرے گی
حکومت نے تنخواؤں اور پنشن سمیت سرکاری اخراجات میں کٹوتی کیلیے نئی کمیٹی کے قیام کا اعلان کر دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر قائم7رکنی کمیٹی میں نائب چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر جہانزیب، کیبنٹ ڈویژن،خزانہ اور صنعت کے سیکریٹریز حکومت کے نمائندے جبکہ ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم اور نوید افتخار آزاد ارکان ہوں گے۔ کمیٹی کے دائرہ اختیار میں دفاعی بجٹ اور سود کی مد میں اخراجات شامل نہیں جن کا مجموعی وفاقی بحٹ میں حصہ دو تہائی ہے۔
کمیٹی صرف 16فیصد اخراجات پر نظر ثانی، پنشن اور ترقی پر اخراجات کو معقول بنانے پر غور کرے گی، جس سے بڑی بچت کا امکان نہیں۔ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر قیصر بنگالی ایک عرصہ سے دفاعی بجٹ سے غیر فوجی اخراجات کے خاتمے اور غیر ضروری چھاؤنیاں بند کرنے کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے کمیٹی کو سرکاری اخراجات میں کٹوتی سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے، پنشن سکیم پر نظرثانی آئی ایم ایف کیساتھ 14مارچ سے شروع ہونیوالے جائزہ مذاکرات کا ایک اہم ایشو ہے۔
کمیٹی وفاقی حکومت کے سائز میں کمی کیلئے پہلی تمام کمیٹیوں کی رپورٹس کا جائزہ بھی لے گی۔نوٹیفکیشن کے مطابق صوبوں کے اختیارات کی منتقلی کے باوجود ڈیڑھ درجن کے قریب وزارتیں ابھی تک وفاقی سطح پر فعال ہیں۔قومی اسمبلی نے رواں مالی سال کیلئے 144کھرب کے بجٹ کی منظوری دی، 73کھرب سود کی ادائیگی، 18کھرب دفاعی اخراجات کیلئے مختص کئے، سول حکومت کیلئے 714ارب ، ترقیاتی منصوبوں کیلئے 900 ارب، پنشن کیلئے 801 ارب مختص کئے، جس میں فوجی پینشن کا حصہ 563 ارب یا 70 فیصد ہے۔
کمیٹی کو ترقیاتی پروگرام اور پینشن سکیموں میں معقولیت سے متعلق سفارشات کی ذمہ داری دی گئی ہے، دفاع اور سود کی ادائیگیاں کمیٹی کے دائرہ اختیار میں نہ ہونے کے باعث اسکی سفارشات کے بامعنی ہونے کی امکان نہیں۔ وزارت خزانہ نے سود کی ادائیگیوں کیلئے گزشتہ ماہ بجٹ خسارے کے ہدف پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے 85کھرب تک بڑھایا، سود کی مد میں اخراجات کا اس وقت تخمینہ 83.33کھرب کے لگ بھگ ہے، جبکہ قومی اسمبلی نے بجٹ میں73 کھرب مختص کئے تھے۔
سودی اخراجات میں قابل ذکر کمی کیلئے پاکستان کو قرضوں کی تنظیم نو اور سٹیٹ بینک کو فوری شرح سود میں کٹوتی کی ضرورت ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں حکومت نے سود کی ادائیگیوں پر 46.6 کھرب خرچ کئے، جوکہ اس عرصہ حکومت کی کل آمدنی سے زیادہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر قائم7رکنی کمیٹی میں نائب چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر جہانزیب، کیبنٹ ڈویژن،خزانہ اور صنعت کے سیکریٹریز حکومت کے نمائندے جبکہ ڈاکٹر قیصر بنگالی، ڈاکٹر فرخ سلیم اور نوید افتخار آزاد ارکان ہوں گے۔ کمیٹی کے دائرہ اختیار میں دفاعی بجٹ اور سود کی مد میں اخراجات شامل نہیں جن کا مجموعی وفاقی بحٹ میں حصہ دو تہائی ہے۔
کمیٹی صرف 16فیصد اخراجات پر نظر ثانی، پنشن اور ترقی پر اخراجات کو معقول بنانے پر غور کرے گی، جس سے بڑی بچت کا امکان نہیں۔ کمیٹی کے رکن ڈاکٹر قیصر بنگالی ایک عرصہ سے دفاعی بجٹ سے غیر فوجی اخراجات کے خاتمے اور غیر ضروری چھاؤنیاں بند کرنے کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے کمیٹی کو سرکاری اخراجات میں کٹوتی سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے، پنشن سکیم پر نظرثانی آئی ایم ایف کیساتھ 14مارچ سے شروع ہونیوالے جائزہ مذاکرات کا ایک اہم ایشو ہے۔
کمیٹی وفاقی حکومت کے سائز میں کمی کیلئے پہلی تمام کمیٹیوں کی رپورٹس کا جائزہ بھی لے گی۔نوٹیفکیشن کے مطابق صوبوں کے اختیارات کی منتقلی کے باوجود ڈیڑھ درجن کے قریب وزارتیں ابھی تک وفاقی سطح پر فعال ہیں۔قومی اسمبلی نے رواں مالی سال کیلئے 144کھرب کے بجٹ کی منظوری دی، 73کھرب سود کی ادائیگی، 18کھرب دفاعی اخراجات کیلئے مختص کئے، سول حکومت کیلئے 714ارب ، ترقیاتی منصوبوں کیلئے 900 ارب، پنشن کیلئے 801 ارب مختص کئے، جس میں فوجی پینشن کا حصہ 563 ارب یا 70 فیصد ہے۔
کمیٹی کو ترقیاتی پروگرام اور پینشن سکیموں میں معقولیت سے متعلق سفارشات کی ذمہ داری دی گئی ہے، دفاع اور سود کی ادائیگیاں کمیٹی کے دائرہ اختیار میں نہ ہونے کے باعث اسکی سفارشات کے بامعنی ہونے کی امکان نہیں۔ وزارت خزانہ نے سود کی ادائیگیوں کیلئے گزشتہ ماہ بجٹ خسارے کے ہدف پر نظرثانی کرتے ہوئے اسے 85کھرب تک بڑھایا، سود کی مد میں اخراجات کا اس وقت تخمینہ 83.33کھرب کے لگ بھگ ہے، جبکہ قومی اسمبلی نے بجٹ میں73 کھرب مختص کئے تھے۔
سودی اخراجات میں قابل ذکر کمی کیلئے پاکستان کو قرضوں کی تنظیم نو اور سٹیٹ بینک کو فوری شرح سود میں کٹوتی کی ضرورت ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں حکومت نے سود کی ادائیگیوں پر 46.6 کھرب خرچ کئے، جوکہ اس عرصہ حکومت کی کل آمدنی سے زیادہ ہے۔