دیتے ہیں دھوکہ… پہلا حصہ

ہمارے معاشرے میں ایک بات بہت بری ہے وہ یہ کہ ہر مرد خوب صورت بیوی چاہتا ہے جس کا رنگ گورا ہو یہ ڈیمانڈ بڑی غیرمناسب ہے

fatimaqazi7@gmail.com

میں نے گھر میں قدم رکھا تو خالد صاحب اور ان کی بیگم کو بہت سنجیدہ دیکھا انھوں نے میرے آنے کا بھی نوٹس نہ لیا۔ جب قریب جاکر میں نے آداب کیا تو وہ دونوں چونک پڑے۔ '' کیا ہوا آپ لوگ کچھ پریشان لگ رہے ہیں۔''

''کیا بتائیں؟ شادی دفتروں کا چکر لگاتے لگاتے ایک سال ہوگیا لیکن ابھی تک بیٹی کا رشتہ نہیں ملا، تین تین شادی دفتروں کا چکر لگانے کے باوجود ابھی تک کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں ملا۔ تینوں شادی دفتر مختلف مدوں میں ڈھیروں روپیہ لے چکے ہیں۔ رجسٹریشن فیس وہ پہلے ہی لے چکے ہیں لیکن نتیجہ صفر اس لیے اب اخبار میں ضرورت رشتہ کا اشتہار دینے کا سوچ رہے ہیں، دیکھو کیا ہوتا ہے؟'' خالد صاحب نے جواب دیا۔

مسز انوار بھی اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پریشان ہیں، ان کی بیٹی 30 سال سے اوپر ہوگئی ہے لیکن ابھی تک کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں ملا وہ بھی عرصہ سے شادی دفتروں کے چکر لگارہی ہیں لیکن کامیابی نہیں ہوئی، میں پہلے بھی اس مسئلے پہ لکھ چکی ہوں لیکن صورت حال اب بہت گھمبیر ہوچکی ہے ۔ ہر تیسرے گھر میں جوان لڑکیاں شادی کے انتظار میں بیٹھی ہیں، پڑھی لکھی لڑکیاں ہوں تو مسائل زیادہ نظر آتے ہیں جب کہ میٹرک اور انٹر پاس لڑکیاں جلد اپنے گھر کی ہوجاتی ہیں۔

آئیے! پہلے ان وجوہات پر روشنی ڈالیں جن کی وجہ سے کنواری لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیاں خود بھی اور ان کے والدین بھی ایک پیکر تراش لیتے ہیں جس کے مطابق لڑکا لڑکی سے زیادہ پڑھا لکھا ہو یا پھر برابر کی تعلیم ہو، اعلیٰ درجے کی ملازمت ہو، ذاتی گھر ہو، گاڑی ہو اور وہ لڑکی کو علیحدہ گھر میں رکھے یا پھر شادی کے بعد علیحدہ گھر میں رکھ سکے، اگر لڑکا ماں باپ سے الگ نہ رہنا چاہے تو لڑکی کی ماں ہر روز بیٹی کے کان بھرے اور الگ نہ ہونے کی صورت میں بیٹی کو گھر بٹھالیں۔

بصورت دیگر طلاق کا مطالبہ کردیں۔ میں نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں میں طلاق کی شرح زیادہ دیکھی ہے اب خود والدین بھی اپنی بیٹیوں کی شادی جلدی کردینا چاہتے ہیں لہٰذا جونہی اچھا رشتہ آتا ہے وہ تعلیم چھڑوا کر ان کی شادی کردیتے ہیں۔ جن لڑکیوں کو پڑھنے کا شوق ہوتا ہے وہ شادی کے بعد بھی اپنی تعلیم مکمل کرلیتی ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔

مسز شوکت کی بیٹی 35 سال کی ہے اور وہ ایم بی اے ہے۔ شکل و صورت کی بالکل معمولی اور رنگ سانولا مسز شوکت تو عاجز آگئی ہیں کہ ان کی صاحبزادی کو کوئی رشتہ پسند نہیں آتا وہ چاہتی ہے کہ لڑکا وجہیہ بھی ہو، خاندان مختصر ہو، جاب اعلیٰ ہو اور ذاتی گھر بھی ہو نتیجہ یہ کہ ابھی تک گھر بیٹھی ہے اور ماں پریشان، دوسری طرف ایسی ماؤں کو بھی دیکھا ہے جن کے معیار پہ کوئی لڑکا پورا نہیں اترتا اور اس انتظار میں بیٹیوںکی کنپٹیوں پہ سفید بال آجاتے ہیں۔ لڑکیوں کی شادی نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو لڑکیاں ملازمت کررہی ہیں اور ان کے گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں وہاں والدین بھی نہیں چاہتے کہ ان کی کماؤ بیٹی کی شادی ہو۔

ایک بار میرے پاس اسلام آباد سے ایک لڑکی کا فون آیا جس میں اس نے بتایا کہ وہ شکل و صورت کی بھی اچھی ہے۔ ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہے بہت سے رشتے آئے لیکن میری ماں کے معیار پر کوئی پورا نہیں اترتا ۔ کسی کا قد چھوٹا ہے تو کسی کی تنخواہ کم ہے، کسی کی جاب اچھی نہیں کسی کا کنبہ بڑا ہے۔ میرے حلقہ احباب میں ایک صاحب تھے جن کی شادی اس لیے نہیں ہوتی تھی کہ ان کی نو بہنیں تھیں، پھر ہم نے اپنی ایک کولیگ سے ان کا رشتہ کروایا آج ماشاء اﷲ وہ ایک کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنی بیٹی کے پاس کینیڈا میں ہیں۔ آہستہ آہستہ ان کی بہنوں کی بھی شادیاں ہوگئیں۔

ہمارے معاشرے میں ایک بات بہت بری ہے وہ یہ کہ ہر مرد خوب صورت بیوی چاہتا ہے جس کا رنگ گورا ہو یہ ڈیمانڈ بڑی غیر مناسب ہے۔ اچھے لائف پارٹنر کے لیے ضروری ہے کہ وہ سمجھ دار ہو، پڑھا لکھا ہو اور خاندانی اعتبار سے قابل اعتماد ہو گورے رنگ کی ڈیمانڈ اکثر بھاری پڑجاتی ہے کہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے کہ گورے رنگ والی بیویاں بہت Demanding ہوتی ہے اور شوہر کو صرف پیسے کمانے کی مشین سمجھتی ہیں لیکن یہ صورت حال سو فیصد نہیں ہے پھر بھی میں یہ کہوں گی کہ شادی کے لیے نہ تو لڑکیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اونچے سے اونچا معیار مقررکریں اور پھر مایوس ہوکر کسی بھی رشتے کو قبول کرنا پڑے اور نہ لڑکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لائف پارٹنر کے لیے گورے رنگ کی شرط رکھیں۔


بعض مائیں اور بہنیں بھی بھائی اور بیٹے کے لیے گوری لڑکی تلاش کرتی ہیں چاہے خود کتنی بھی واجبی شکل ہو۔ میری ایک دوست ہیں خود بھی واجبی شکل و صورت کی اور ان کی دونوں بیٹیاں بھی سانولی سلونی سی ایک طرف وہ بیٹیوں کی شادی کے لیے پریشان دوسری طرف انھیں اپنے بیٹے کے لیے ''چاند سی بہو'' کی تلاش ہے۔

اب آتے ہیں شادی دفتروں کی طرف جو والدین کو مسلسل بے وقوف بناتے ہیں۔ اب تو بیوٹی پارلر والیوں نے بھی یہ کام شروع کردیا ہے۔ ان کی نظر صرف اپنی فیس اور رقم سے ہوتی ہے، کئی کئی ہزار تو صرف رجسٹریشن فیس ہوتی ہے اور پھر اگر رشتہ پکا ہوگیا تو اس کی فیس الگ، ہوسکتا ہے کوئی شادی دفتر معقول بھی ہو اور اچھے رشتے مناسب پیسوں میں کرواتا ہو لیکن ہمارے علم میں جو واقعات آئے ہیں وہ میں قارئین سے ضرور شیئر کروں گی۔ دراصل تقسیم ہند کے بعد لوگ تتر بتر ہوئے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا اور جس زمین سے برسوں سے جڑے تھے اسے یکدم چھوڑ کر آنا پڑا۔ بقول شاعر

ایک پل میں وہاں سے ایسے اٹھے

بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اس کا سب سے زیادہ اثر ان متوسط خاندانوں پر پڑا جو شرافت کی چار دیواری میں سکون اور اطمینان سے زندگی گزار رہے تھے۔ لڑکے اور لڑکیوں کی شادی میں مشاطہ کا کردار بہت اہم تھا اب مشاطہ تو رہی نہیں یہ ذمے داری شادی دفتروں نے سنبھال لی ہے۔ لڑکی کے والدین نہایت مجبوری کے عالم میں ان شادی دفتروں کا رخ کرتے ہیں۔

گزشتہ سال ایک میرج بیورو کے تحت ایک لڑکی کا رشتہ طے ہوا۔ لڑکی والوں کی ڈیمانڈ تھی کہ رشتہ باہر کا ہو لہٰذا آسٹریلیا میں مقیم ایک لڑکے کا رشتہ آیا۔ انھوں نے جہیز کو منع کردیا اور جو کچھ بھی بیٹی کو دینا ہے وہ کیش میں دینے کی فرمائش کی۔ لڑکی والے اچھی حیثیت کے مالک تھے جب کہ لڑکی صرف قبول صورت تھی۔ لڑکی والوں نے بیٹی کو اچھا خاصا زیور اور کیش دیا، دوسرے دن جب لڑکی والے دلہن کا ناشتہ لے کر بیٹی کی سسرال پہنچے تو ساس نے کہا ان کے ہاں لڑکی ولیمہ کے بعد میکے جاتی ہے۔ دوسرے دن ولیمہ تھا جب لڑکی والے شادی ہال میں پہنچے تو پتا چلا کہ وہاں تو کسی اور کی شادی تھی۔ ان کی بیٹی موجود تھی نہ ان کے سسرال والے۔ لڑکی والوں کی چھٹی حس نے انھیں خبردار کیا۔

والدین اور بھائی گلستان جوہر پہنچے فلیٹ کی بیل بجائی تو کوئی دروازہ کھولنے نہیں آیا۔ انھوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس آئی اور دروازہ کا لاک توڑا گیا تو اندر لڑکی بے ہوش پڑی تھی اور اس کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی گئی تھی۔ ان لوگوں نے آس پاس کے لوگوں سے معلومات کرنا چاہی تو پتا چلا کہ یہ چوں کہ ایک نیا پروجیکٹ ہے ابھی سارے فلیٹ آباد بھی نہیں ہوئے ہیں اس لیے کوئی کسی کو نہیں جانتا۔ پولیس نے پروجیکٹ کے بلڈر سے مالک مکان کا پتا لے کر تلاش کیا تو پتا چلا کہ مالک مکان پنجاب کا رہائشی ہے اور اس نے یہ فلیٹ پچھلے مہینے ایک مہینے کے لیے کرایہ پر دیا تھا۔

اس نے بتایا کہ ان لوگوں نے کہا تھا کہ وہ باہر سے آئے ہیں انھیں اپنے بیٹے کی شادی کرنی ہے اس کے علاوہ اسے کچھ معلوم نہ تھا۔ میری دوست کے اسکول میں پڑھانے والی ایک ٹیچر کی شادی بھی شادی دفتر کے توسط سے ہوئی۔ شادی کے تین چار دن بعد ایک خاتون وہاں آئیں اور بتایا کہ ان موصوف نے ان کی لڑکی سے بھی نکاح کیا تھا اور تمام زیورات لے کر فرار ہوگئے تھے۔ لڑکی والوں کے تعلقات پولیس میں تھے۔

اس لیے پولیس نے شادی دفتر کی مالک خاتون سے ان صاحب کا پتا معلوم کیا اور وہاں پہنچی۔ ان لوگوں نے لڑکی کو طلاق دلوائی لیکن ان صاحب نے کوئی زیور اور کیش واپس نہ کیا بلکہ وہ مکرگیا کہ ایسا کچھ تھا، بعد میں اس ٹیچر نے انھی صاحب کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کے ماں باپ نہیں تھے اور وہ بہن کے ساتھ رہتی تھی۔ (جاری ہے)
Load Next Story