تشویشناک ماحولیاتی تبدیلی نظر انداز کیوں
بڑے پیمانے پر جانی نقصان اورکھربوں روپے مالیت کے مالی نقصانات کو اہمیت نہیں دی جارہی
محکمہ موسمیات اور این ڈی ایم اے ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث مارچ میں بھی تیز ہواؤں اور آندھی کے ساتھ شدید بارشوں کی پیش گوئی کرچکا تھا، جس کے نتیجے میں مارچ کے آغاز میں بھی ملک کے اکثر علاقے شدید سرد رہے اور بارشوں کے ساتھ برف باری کا سلسلہ بھی جاری رہا جب کہ ملک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والے بڑے پیمانے پر جانی نقصان اورکھربوں روپے مالیت کے مالی نقصانات کو اہمیت نہیں دی جارہی، موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والے نقصانات کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
برسوں قبل زلزلوں، سیلابوں اور بارشوں کے سلسلے میں ملک میں ایک قومی ادارہ این ڈی ایم اے قائم کیاگیا تھا جب کہ ملک میں محکمہ موسمیات شروع سے قائم ہے اور یہ دونوں قومی ادارے متوقع معاملات کی پیشگی اطلاع دیتے رہتے ہیں مگر ان کی پیش گوئیوں پر حکومتیں وہ توجہ نہیں دیتیں جو دینی چاہیے۔
کراچی میں 1986 کے بعد مارچ 2024میں موسمیاتی تبدیلی آئی۔ شدید بارش ہوئی اور جاتی سردی لوٹ آئی جس سے کراچی والے اپنے وہ گرم کپڑے دوبارہ نکالنے پر مجبور ہوگئے جو وہ متوقع گرمی کے باعث فروری میں ہی محفوظ کر کے رکھ دیتے ہیں اور فروری ہی میں پنکھے چلنا شروع ہوگئے تھے جو فروری کے آخر اور مارچ کے شروع میں موسم تبدیل اور دوبارہ سرد ہوجانے کی وجہ سے دوبارہ زیر استعمال آگئے اور مارچ کا پہلا ہفتہ سرد رہا۔ کراچی کا موسم تو ویسے بھی ملک بھر سے مختلف ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر نہ زیادہ گرم نہ زیادہ سرد ہونے اور سال بھر معتدل رہنے کے لیے مشہور ہے۔
کراچی میں زیادہ گرمی بڑھتی ہے تو جلد سمندریں ہوائیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں دوسری جانب کوئٹہ و قلات کا سرد موسم اور ہوائیں بھی کراچی پر اثر انداز ہوتی ہیں جب کہ سمندرکے باعث کراچی گرمیوں میں بھی دبئی کی طرح زیادہ گرم نہیں ہوتا اور اگر سمندرکی ہوائیں عارضی طور بند ہوجانے سے ہی شہر میں گرمی محسوس کی جاتی ہے۔ فروری کے آخر اور مارچ کے وسط تک باقی ملک میں موسم شدید سرد ہوا برف باری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ موسم کی تبدیلی کے باعث پچاس سے زیادہ انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔
کے پی کے میں تقریباً چالیس افراد اپنی جانوں سے گئے جن میں بچے زیادہ تھے اور خواتین کا بھی بڑا جانی نقصان ہوا۔ بلوچستان کے ساحلی شہرگوادر میں طوفانی بارشوں کے باعث مالی نقصان کہیں زیادہ ہوا۔ جانی نقصان کم ہوا مگر بارشوں کے باعث گوادر و دیگر علاقوں کے لوگ مزید بارشوں سے متاثر ہوئے۔
گوادر و دیگر علاقوں میں برساتی تباہی کے باعث نو منتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف کو عہدہ سنبھالنے کے بعد گوادر کا پہلے دورہ کرنا پڑا بعد میں وہ زیادہ متاثرہ صوبے کے پی کے کے دورے پرگئے اور صورت حال دیکھ کر انھوں نے دونوں صوبوں میں بڑے پیمانے پر مالی امداد کا اعلان کیا۔ دونوں صوبوں میں بارشوں اور سیلابی صورت حال کے بعد بڑی تعداد میں گھر متاثر اور تباہ ہوئے اور وہاں رہنے والے متاثرین کو شدید سردی میں متبادل رہائشی سہولیات اور خوراک فراہم کرنا پڑی۔
بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ وزیراعظم کے دورہ گوادر میں پیش پیش رہے جب کہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ نے بڑے پیمانے پرجانی ومالی نقصانات کے باوجود اپنے صوبے کے عوام کی مشکلات پر توجہ دینے کی بجائے وزیراعظم کے اس خیر سگالی کے دورے پر بھی سیاست کی اور وزیراعظم کے دورے کا بائیکاٹ کیا جب کہ گورنر کے پی کے وزیراعظم کے دورے میں موجود رہے اور انھوں نے ہی وزیراعظم کو شدید تباہی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد اتحادی حکومت وجود میں آئی تھی جس کے دور میں کے پی کے بلوچستان اور سندھ میں بارشوں اور سیلابی صورت حال سے تینوں صوبوں کے عوام بری طرح متاثر ہوئے تھے اور بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا تھا۔
اس وقت بھی وزیراعظم شہباز شریف نے ہی تینوں صوبوں کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا اس وقت جو تباہی ہوئی تھی اس میں متاثرین اب بھی بے گھر ہیں۔ کے پی کے اور بلوچستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے مزید تباہی ہوئی ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ لے رہی ہیں نہ مین اسٹریم میڈیا اس پر کوئی خاص توجہ دیتا ہے۔
این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات الرٹ جاری کرتا ہے اور پیشگی طور پر خبردار کردیتا ہے مگر حکومتیں سوئی رہتی ہیں اور ماحولیاتی تباہی کے بعد جاگتی ہیں۔ شہروں کی انتظامیہ بھی تباہی کا انتظار کرتی رہتی ہے۔ کراچی کے نالوں کی پیشگی صفائی کے اعلانات ہوتے ہیں اور عمل نہیں ہوتا اور یہی نالے صفائی نہ ہونے کے باعث شہر کو ڈبو دیتے ہیں ۔
حکومتیں ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی کی منتظر رہتی ہیں تاکہ دنیا کو تباہی دکھاکر عطیات وصول کرسکیں۔ تباہی کے باعث ملنے والے عالمی عطیات کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی ملک میں شکایات عام ہیں۔ عطیات خرد برد ہوجاتے ہیں اور حقیقی متاثرین محروم رہ جاتے ہیں۔
دنیا سے ملنے والا امدادی سامان ضرورت مندوں کو نہ ملنے کی شکایت عالمی فورمز پر منظر عام پر آجانے سے امداد دینے والے اعلان کر کے وعدے پورے نہیں کرتے جس کا ثبوت پیرس میں ہونے والے اعلانات ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بیرونی امداد کی بجائے ماحولیاتی تبدیلیوں پر پہلے توجہ دے اور اس اہم مسئلہ کو نظر انداز نہ کرے۔
برسوں قبل زلزلوں، سیلابوں اور بارشوں کے سلسلے میں ملک میں ایک قومی ادارہ این ڈی ایم اے قائم کیاگیا تھا جب کہ ملک میں محکمہ موسمیات شروع سے قائم ہے اور یہ دونوں قومی ادارے متوقع معاملات کی پیشگی اطلاع دیتے رہتے ہیں مگر ان کی پیش گوئیوں پر حکومتیں وہ توجہ نہیں دیتیں جو دینی چاہیے۔
کراچی میں 1986 کے بعد مارچ 2024میں موسمیاتی تبدیلی آئی۔ شدید بارش ہوئی اور جاتی سردی لوٹ آئی جس سے کراچی والے اپنے وہ گرم کپڑے دوبارہ نکالنے پر مجبور ہوگئے جو وہ متوقع گرمی کے باعث فروری میں ہی محفوظ کر کے رکھ دیتے ہیں اور فروری ہی میں پنکھے چلنا شروع ہوگئے تھے جو فروری کے آخر اور مارچ کے شروع میں موسم تبدیل اور دوبارہ سرد ہوجانے کی وجہ سے دوبارہ زیر استعمال آگئے اور مارچ کا پہلا ہفتہ سرد رہا۔ کراچی کا موسم تو ویسے بھی ملک بھر سے مختلف ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر نہ زیادہ گرم نہ زیادہ سرد ہونے اور سال بھر معتدل رہنے کے لیے مشہور ہے۔
کراچی میں زیادہ گرمی بڑھتی ہے تو جلد سمندریں ہوائیں چلنا شروع ہوجاتی ہیں دوسری جانب کوئٹہ و قلات کا سرد موسم اور ہوائیں بھی کراچی پر اثر انداز ہوتی ہیں جب کہ سمندرکے باعث کراچی گرمیوں میں بھی دبئی کی طرح زیادہ گرم نہیں ہوتا اور اگر سمندرکی ہوائیں عارضی طور بند ہوجانے سے ہی شہر میں گرمی محسوس کی جاتی ہے۔ فروری کے آخر اور مارچ کے وسط تک باقی ملک میں موسم شدید سرد ہوا برف باری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ موسم کی تبدیلی کے باعث پچاس سے زیادہ انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔
کے پی کے میں تقریباً چالیس افراد اپنی جانوں سے گئے جن میں بچے زیادہ تھے اور خواتین کا بھی بڑا جانی نقصان ہوا۔ بلوچستان کے ساحلی شہرگوادر میں طوفانی بارشوں کے باعث مالی نقصان کہیں زیادہ ہوا۔ جانی نقصان کم ہوا مگر بارشوں کے باعث گوادر و دیگر علاقوں کے لوگ مزید بارشوں سے متاثر ہوئے۔
گوادر و دیگر علاقوں میں برساتی تباہی کے باعث نو منتخب وزیراعظم میاں شہباز شریف کو عہدہ سنبھالنے کے بعد گوادر کا پہلے دورہ کرنا پڑا بعد میں وہ زیادہ متاثرہ صوبے کے پی کے کے دورے پرگئے اور صورت حال دیکھ کر انھوں نے دونوں صوبوں میں بڑے پیمانے پر مالی امداد کا اعلان کیا۔ دونوں صوبوں میں بارشوں اور سیلابی صورت حال کے بعد بڑی تعداد میں گھر متاثر اور تباہ ہوئے اور وہاں رہنے والے متاثرین کو شدید سردی میں متبادل رہائشی سہولیات اور خوراک فراہم کرنا پڑی۔
بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیراعلیٰ وزیراعظم کے دورہ گوادر میں پیش پیش رہے جب کہ کے پی کے میں پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ نے بڑے پیمانے پرجانی ومالی نقصانات کے باوجود اپنے صوبے کے عوام کی مشکلات پر توجہ دینے کی بجائے وزیراعظم کے اس خیر سگالی کے دورے پر بھی سیاست کی اور وزیراعظم کے دورے کا بائیکاٹ کیا جب کہ گورنر کے پی کے وزیراعظم کے دورے میں موجود رہے اور انھوں نے ہی وزیراعظم کو شدید تباہی کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد اتحادی حکومت وجود میں آئی تھی جس کے دور میں کے پی کے بلوچستان اور سندھ میں بارشوں اور سیلابی صورت حال سے تینوں صوبوں کے عوام بری طرح متاثر ہوئے تھے اور بڑے پیمانے پر جانی ومالی نقصان ہوا تھا۔
اس وقت بھی وزیراعظم شہباز شریف نے ہی تینوں صوبوں کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا تھا اس وقت جو تباہی ہوئی تھی اس میں متاثرین اب بھی بے گھر ہیں۔ کے پی کے اور بلوچستان میں ماحولیاتی تبدیلی سے مزید تباہی ہوئی ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک میں ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ لے رہی ہیں نہ مین اسٹریم میڈیا اس پر کوئی خاص توجہ دیتا ہے۔
این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات الرٹ جاری کرتا ہے اور پیشگی طور پر خبردار کردیتا ہے مگر حکومتیں سوئی رہتی ہیں اور ماحولیاتی تباہی کے بعد جاگتی ہیں۔ شہروں کی انتظامیہ بھی تباہی کا انتظار کرتی رہتی ہے۔ کراچی کے نالوں کی پیشگی صفائی کے اعلانات ہوتے ہیں اور عمل نہیں ہوتا اور یہی نالے صفائی نہ ہونے کے باعث شہر کو ڈبو دیتے ہیں ۔
حکومتیں ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی کی منتظر رہتی ہیں تاکہ دنیا کو تباہی دکھاکر عطیات وصول کرسکیں۔ تباہی کے باعث ملنے والے عالمی عطیات کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی ملک میں شکایات عام ہیں۔ عطیات خرد برد ہوجاتے ہیں اور حقیقی متاثرین محروم رہ جاتے ہیں۔
دنیا سے ملنے والا امدادی سامان ضرورت مندوں کو نہ ملنے کی شکایت عالمی فورمز پر منظر عام پر آجانے سے امداد دینے والے اعلان کر کے وعدے پورے نہیں کرتے جس کا ثبوت پیرس میں ہونے والے اعلانات ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بیرونی امداد کی بجائے ماحولیاتی تبدیلیوں پر پہلے توجہ دے اور اس اہم مسئلہ کو نظر انداز نہ کرے۔