عظمت قرآن
ہم سب بہت خوش قسمت ہیں کہ زندگی میں ایک بار پھر یہ مہینہ ملا
رمضان المبارک کا نعمتوں، رحمتوں اور برکتوں بھرا مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے۔ہم سب بہت خوش قسمت ہیں کہ زندگی میں ایک بار پھر یہ مہینہ ملا۔اس مہینے میں مومنین پر روزے بالکل اسی طرح فرض کیے گئے جس طرح پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے۔ ) البقرہ 183
( اس مہینے کا تقدس نزولِ قرآن سے جڑا ہوا ہے چونکہ اس مہینے اﷲ رب العالمین کی طرف سے ذکراللعالمین) قرآن (،رحمت اللعالمین )انبیائ107(پر بتدریج نازل ہونا شروع ہوا۔سورۃ بقرہ کی آیت 185میں اﷲ ر ب العزت نے آواز دی کہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔قرآن کے نزول کے ساتھ ہی روئے زمین پر تمام فضیلتیں سمٹ کر قرآن سے وابستہ ہو گئیں کیونکہ یہ اﷲ کا کلام ہے۔
یہ سراپا رحمت ہے۔ ایک انتہائی قدر و منزلت والی با برکت رات )دخان و القدر 3 (کو اس پاک ہستی کی طرف سے نازل ہوا جسے صرف انسانوں کے لیے نہیں،صرف زمین والوں کے لیے نہیں بلکہ تمام عالمین کے لیے رحمت قرار دیا گیا۔اس کو لے کر نازل ہونے والا عالمین میں تمام فرشتوں سے اعلیٰ، یہ جس رات نازل ہوا وہ رات قدر و منزلت اور برکت میں ہزار مہینوں سے بھی بہتر قرار دی گئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی حفاظت اﷲ نے خود اپنے ذمہ لے لی(الحجر9)۔
قرآنِ کریم ایک مقدس کتاب،تمام اہلِ علم یہ مانتے ہیں کہ قرآن ایکHighly developed n sophisticated scriptural work ہے۔قرآن سے پہلے تورات' زبور اور انجیل نازل ہو چکی تھیں۔
قرآن ایک بالکل مختلف کتاب ہے۔یہ مقدس کتاب کسی حوالے سے بھی بایوگرافیکل نہیں۔یہ کسی قوم یا گروہ کی تاریخ بھی نہیں۔ اگر اس میں بیان کردہ واقعات کو زمانی حوالے سے پرکھا جائے تو کوئی کرونولاجیکل آرڈر نہیں ملتا۔یہ کتاب انسانوں کی یاد دہانی وہدایت کے لیے پچھلی قوموں کے تذکرے کو ضرور سامنے لاتی ہے۔یہ سب کچھ عبرت دلانے،خبردار کرنے اور خوشخبری کی نوید ہے۔
قرآن کے معجزاتی اعجاز کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ذہن میں رکھا جانا ضروری ہے کہ نزولِ قرآن اور اﷲ کے آخری نبی کی بعثت سے پہلے عربوں کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔اس خطے نے کبھی کوئی حکومتی ڈھانچہOrganised government structureنہیں دیکھا تھا۔ہر قبیلہ اپنے معاملات خود دیکھتا تھا۔قبائل کے درمیان تعاون کم اور جھگڑے زیادہ ہوتے تھے۔مرکزی حکومت کی غیر موجودگی میں کوئی نظم نہیں تھا۔
عربوں کی اپنی کوئی تہذیب،کوئی کلچر نہیں تھا۔ان لوگوں نے زبانی شاعری کے علاوہ کوئی ادب نہیں چھوڑا۔حد تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس کا اپنا کوئی فنِ تعمیرArchitectureنہیں تھا۔کوئی موسیقی نہیں تھی۔ان کی تلواریں ملکِ شام سے اور کپڑے یمن سے بن کر آتے تھے۔سرزمینِ عرب کے وسیع و عریض بے آب و گیاہ ریگستان کے رہنے والے جتھے بنا کر قافلوں کو لوٹتے تھے۔بس اسی میں ان کی مہارت تھی۔بچی کی پیدائش کو انتہائی نا پسند کیا جاتا تھا،اسی لیے بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے۔The arab world was physically and culturally a barren wasteland. یہ تھا وہ پس منظر جس میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا۔ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ ہندو،یہودی اور عیسائی صحائف کس پس منظر میں مرتب کیے گئے۔
اپنے وقت کی کتنی پڑھی لکھی فضا میں پڑھے لکھے لوگوں کی محنتِ سے یہ مرتب ہوئے جب کہ قرآن ایک ایسے معاشرے میں اور ایسی فضا میں نازل ہونا شروع ہوا جہاں تہذیب و تمدن کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ یہ خالصتاً ایک بے آب و گیاہ علاقہ تھا۔جہالت کا دور دورہ تھا پھر بھی قرآن کے پیغام پر ایمان لانے والے اور نہ لانے والے سبھی یہ مانتے ہیں کہ قرآن ایک Highly developed,sophisticated scriptural workہے۔
ذرا تصور کریں کہ ایک انتہائی طاقتور،قوت والا،انتہائی جدید،سائنسی طور پر بہت ایڈوانس،ادب کا اعلیٰ ترین شاہکار، خوبصورت انداز میں پڑھنے کے حوالے سے خوبصورت Cadence کا حامل نادر نمونہ ایک ایسی جگہ نازل ہو رہا ہے جسے Cultural and Civilizational Desertکہا جاتا تھا،یہ ایک ایسی پاک ہستی پر نازل کیا جا رہا تھا جس نے کبھی کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا تھا۔جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا۔قرآن اس حوالے سے بھی اچھوتاہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کو عقل و فہم کے استعمال کی دعوت دیتا ہے۔
میں پوری ذمے داری سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی اور صحیفہ نہ تو عقل و فہم کے استعمال کی دعوت دیتا ہے اور نہ ہی ایڈوانس ترین سائنسی معلومات فراہم کرتا ہے۔کیا ایسے تہذیبی بنجرماحول میں اتنی ترقی یافتہ اور اعلیٰ و جامع ترین کتاب کا نزول ایک معجزہ نہیں۔